
03/03/2025
یہ دریائے کابل ہے اور میچنئ کا علاقہ انگور کور ہے۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ یہ پانی ہمارے لوگ پینے کیلۓ استعمال کرتے تھے لیکن چند اداروں کی غفلت بلکہ غفلت نہیں یہ لفظ اب بہت عام ہوگیا، چند اداروں کی نا لائقی اور نان پروفیشنلز م کی وجہ سے اس دریا کے پانی کا یہ حال ہوگیا اور ماربل فیکٹریوں کے گندے پانی سے بھر گیا اور اب یہ جانوروں کے بھی پینے کے لائق نہیں ہے۔ دوسری طرف المیہ یہ بھی ہے کہ ان ماربل فیکٹریوں میں زیادہ تر یہاں کے مقامی لوگوں کی ہے لیکن جب ادارے سو جاتے تو پھر اسی طرح اندھیر نگری بن جاتی ہے۔
اس کام کے ذمے دار ادارے اتنے ہیں کہ لگتا ہے کہ پوری دنیا کے اس قسم کے مسائل کو دیکھ رہے ہیں لیکن ان سب کی نا لائقی کا یہ حال ہے کہ ان کے ناک کے نیچے دریا کابل کا یہ حال ہے یہ پشاور سے تیس منٹ کے فاصلے پر ہے۔ یہ ان سب اداروں کے ذمہ داران کیلۓ انتہائی شرم کا مقام ہے اور ان سب اداروں کے ذمہ داران کو اسی دریا کے گندے پانی میں ڈوب مرنا چاہیے کہ ورسک ڈیم اور میچنئ پُل سے اگے افغانستان جو کہ ایک تباہ حال اور جنگ ذدہ ملک ہے لیکن وہاں سے ہماری طرف پانی صاف وشفاف ارہا ہے اور ہمارے صوبے پر اسے لوگوں کی گیارہ سال سے حکومت ہے جنہوں نے اس ملک کو سوئٹزرلینڈ بنانا تھا۔ ایک طرف یہ لوگوں کو صحت کارڈز دے رہے ہیں اور دوسری طرف خود ہی لوگوں کو بیماریوں میں دھکیل بھی رہے ہیں۔
یہاں پر یہ بات بھی ضروری ہے کہ مہمند ماربل سٹی بن تو گئی وہاں پر ماربل فیکٹریوں کو منتقل کرنا تا حال مشکل ہے اور اسکی وجہ شائد ماربل سٹی کی لوکیشن ہے جہاں پر خالی گاڑی مشکل سے جاتی ہے تو لوڈ گاڑی کیسے جائیگی؟
یہ ہے وہ ادارے، جو اگر چاہیے تو ایک دن میں یہ سارا مسلہ حل کر دیں۔ کاش ان میں ایک ادارہ بھی اپنی ڈیوٹی صحیح طریقے سے انجام دیتا تو اج ہمارے دریا کا یہ حال نہ ہوتا۔
1. Pakistan Environmental Protection Agency (EPA)
2. Ministry of Climate Change
3. Ministry of Water Resources
4. Provincial Environmental Protection Agencies (EPA)
5. Ministry of Fisheries and Agriculture
اج ان سارے ڈیپارٹمنٹ کے لوگ ہمارے علاقے میچنئ کا وزٹ کریں اور تب تک نہ جاۓ جب تک یہ پانی صاف نہیں ہوجاتا ، ان کے لیے سحری اور افطاری کا انتظام بھی میں کرونگا اسی دریا کے کنارے تاکہ وہ ہمارا یہ مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر دیکھیں اور حل کریں۔ نوٹ۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے افطاری میں اس دریا کا پانی اپکو نہیں پلائینگے۔
رپورٹ۔ عزیز خان