03/05/2025
ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے
یہ انکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے
بس اپنے واسطے ہی فکرمند ہیں سب لوگ
یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے
پروں کو کاٹ دیا ہے اڑان سے پہلے
یہ خوف ہجر ہے شوقِ وصال تھوڑی ہے
مزہ تو تب ہے کہ ہار کر بھی ہنستے رہو
ہمیشہ جیت ہی جانا کمال تھوڑی ہے
لگانی پڑتی ہے ڈبکی ابھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے