18/08/2025
دستِ شب پر دِکھائی کیا دیں گی
سلوٹیں روشنی میں اُبھریں گی
گھر کی دِیواریں میرے جانے پر
اپنی تنہائیوں کو سوچیں گی
اُنگلیوں کو تراش دوں ، پھر بھی
عادتاً اُس کا نام لکّھیں گی
رنگ و بُو سے کہیں پناہ نہیں
خُواہشیں بھی کہاں اماں دیں گی
ایک خوشبو سے بچ بھی جاؤں اگر
دُوسری نکہتیں جکڑ لیں گی
خُواب میں تِتلیاں پکڑنے کو
نیندیں بچّوں کی طرح دوڑیں گی
کھڑکیوں پر دبیز پردے ہوں
بارشیں پھر بھی دستکیں دیں گی !