Bilal Chauhdhry

Bilal Chauhdhry Hobbies⤵️
Calligraphy♥️,volleyball🏐. Yt___Bilal chaudhry vlogs. From Shakargarh Punjab Pakistan

تحریر یوسف سراج___یہی ہونا تھا، جو ہوا،سینیٹر مشتاق اور پانچ سو سے زیادہ فلوٹیلا بردار گرفتار کر لئے گئے۔ اگر سانپ کی فط...
02/10/2025

تحریر یوسف سراج___

یہی ہونا تھا، جو ہوا،سینیٹر مشتاق اور پانچ سو سے زیادہ فلوٹیلا بردار گرفتار کر لئے گئے۔ اگر سانپ کی فطرت ڈسنا ہے اور بچھو کی فطرت زہر اگلنا ہے تو اسرائیل اپنی فطرت جبر و دھونس سے کیسے باز آ سکتا تھا؟ وہ قوم جس نے انبیا سے جفا کی، جس قوم کی ایک رقاصہ نے اپنے نسوانی وجود کی قیمت یحیی نبی کا قتل بتائی،اس سے ہمیں انسانی بہبود کی کیا امید ہو سکتی تھی؟
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قوم ایسے معاملات میں کوئی بھی انسانی زبان نہیں سمجھتی ،یہ صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے، وہی جو انھیں بخت نصر نے سمجھائی اور جو حالیہ تاریخ میں جرمنی کے بدنام زمانہ ستم گر نے سمجھائی اور بدقسمتی سے طاقت کی جو زبان بولنا ایک زمانے سے یہ امت بھول چکی ہے، سو دنیا کے کان اس کی بات سنتے تو ہیں مگر سمجھ نہیں پاتے۔ یہی ہونا تھا، یہی ہوا
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینیٹر مشتاق نے ثابت کر دکھایا کہ اسلام آباد میں اس کے کیمپ اکھاڑنے اور اسے غزہ جانے کا مشورہ دینے والا اہلکار غلط تھا اور ڈھلتی عمر کا یہ جوان درست تھا۔
اس نے ثابت کیا کہ وہ ایسا فراخ حوصلہ شخص ضرور ہے، جو اپنوں کیلئے ایک رائیگاں سفر میں اتنی جان مار سکے۔
اس نے ثابت کیا کہ ایسے سیاستدان بھی ہو سکتے ہیں، جو سینٹ میں تقریر کرنے کے علاوہ عمل کے سمندر میں بھی کود سکتے ہیں۔
اس نے غزہ کے محصور انسانوں اور دینی رشتے میں جڑے مسلمانوں کو بتایا کہ کوئی دیوانہ ان کے پنجرے سے سرٹکرانے بھی آ سکتا ہے۔
اس نے ثابت کیا کہ حکمرانوں کی مجبوریاں اورمصلحتیں ہوسکتی ہیں، لیکن اس امت میں اب بھی اتنا دم ہے کہ وہ طارق بن زیاد کی طرح سمندروں میں کشتیاں ڈال کے اپنے عزم کو بادباں اور اپنی ہمت کو چپو بنا سکے۔
سینیٹر مشتاق ، پیر مظہر شاہ ،ان کے دوسرے پاکستانی ساتھی اور صمود گلوبل فلوٹیلا کے یہ سارے انسانیت کے مجاہد تاریخ میں ذکر ہوں گے۔ یہ تاریخ میں زندہ رہیں گے، بہت بعد میں جب کبھی دنیا کو انسانیت کی سمجھ آئے گی ، وہ اپنے بچوں کو پڑھایا کریں گے کہ جب دنیا نے ملکر کئی لاکھ لوگوں کو پنجرے میں قید کرنا قبول کر لیا تھا تو کچھ لوگ تب بھی تھے، جو سمندر کے سینوں پر تیر کر اس پنجرے تک چند نوالے پہنچانے آیا کرتے تھے اور ان سرفروشوں سے لاکھوں دل امید لگایا کرتے تھے، ان کیلئے دست دعا اٹھایا کرتے تھے۔
یہ لوگ زندہ رہیں گے۔
یہ کردار زندہ رہیں گے۔
یہ روشنی کی راہ ہیں
یہ اس عہد میں وفا ہیں۔
یہ جبر کے خلاف وغا ہیں۔
یہ ضمیر زندہ کی دعا ہیں۔
یہ انسانیت کی صدا ہیں۔
یہ حریت کی ادا ہیں۔

😢 افسوس ناک خبر 💔فلسطین کے لیے راشن لے جانے والے اور حق میں نکلنے والے مرد مجاہد سینیٹر مشتاق احمد کو اسرائیلی فوج نے گر...
02/10/2025

😢 افسوس ناک خبر 💔
فلسطین کے لیے راشن لے جانے والے اور حق میں نکلنے والے مرد مجاہد سینیٹر مشتاق احمد کو اسرائیلی فوج نے گرفتار کر لیا ہم پاکستانی حکومت اور ارمی چیف سے اپیل کرتے ہیں کہ اسرائیل حکومت سے بات چیت کرے اور 24 گھنٹوں کے اندر اندر سینیٹر مشتاق احمد خان کو اور ان کے قافلے صحیح سلامت رہا کیا جائے ... اللہ تعالی کی رضا کے لیے اس پوسٹ کو شیئر کریں تاکہ پاکستانی حکومت اور ارمی چیف کو یہ پہنچ جائے اور جلد اس بات پر ایکشن لیا جائے تاکہ سینیٹر مشتاق احمد خان اور ان کے قافلے کو کوئی نقصان نہ پہنچے 😔💔

゚viralシalシ

21/09/2025

I love Mohammad❤️

صلى الله عليه وآله وسلم

19/09/2025

عربوں کو پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان کو اربوں کی ضرورت ہے😅.

🌙 عید میلاد النبی ﷺ مبارک 🌙آج کا دن وہ بابرکت دن ہے جب ہمارے آقا ﷺ دنیا میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ کی آمد سے ظلمتیں مٹ گئیں، ع...
06/09/2025

🌙 عید میلاد النبی ﷺ مبارک 🌙

آج کا دن وہ بابرکت دن ہے جب ہمارے آقا ﷺ دنیا میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ کی آمد سے ظلمتیں مٹ گئیں، عدل و انصاف قائم ہوا اور نفرت کے دور میں محبت اور رحمت کا پیغام آیا۔

آؤ! اس دن کو صرف جشن تک محدود نہ کریں بلکہ اپنے اعمال اور اخلاق سے سنتِ نبوی ﷺ کو زندہ کریں۔

🤲 خصوصی دعا:
یا اللہ! فلسطین کے معصوم بچوں، بہنوں اور بھائیوں کی حفاظت فرما۔ ان کے گھروں کو امن عطا فرما، ان کے زخموں کو شفا دے اور ان کی قربانیوں کو قبول فرما۔

یا اللہ! ان کی مدد فرما اور ان کے دلوں کو صبر و حوصلہ عطا فرما۔

آمین۔

#عیدمیلادنبیﷺ
#رحمتالللعالمین







#نعت








#عیدمیلادنبیﷺ
#رحمتالللعالمین







#نعت








01/09/2025

Celebrating my 4th year on Facebook. Thank you for your continuing support. I could never have made it without you. 🙏🤗🎉

“یہ جنگ گاڑیوں کی نہیں… یہ جنگ اسٹیٹس کی ہے۔”میرے شہر شکرگڑھ میں کچھ دن پہلے ایک واقعہ پیش آیا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا...
01/09/2025

“یہ جنگ گاڑیوں کی نہیں… یہ جنگ اسٹیٹس کی ہے۔”

میرے شہر شکرگڑھ میں کچھ دن پہلے ایک واقعہ پیش آیا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ ایک غریب رکشہ ڈرائیور، جو صبح سے شام تک روزی کے لیے محنت کر رہا تھا، ایک بھاری 4×4 رِوو گاڑی کے ساتھ ہلکا سا ٹچ کر گیا۔ حادثہ نہایت معمولی تھا۔ گاڑی پر بمشکل کوئی خراش آئی۔ لیکن جو کچھ اس کے بعد ہوا، وہ ہمارے پورے معاشرے کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔

گاڑی کا مالک گاڑی سے نکلا۔ اُس کے چہرے پر غصہ تھا، اور وہ رکشہ والے پر ٹوٹ پڑا۔ ہاتھوں اور لاتوں کی بارش شروع ہو گئی۔ آس پاس کے لوگ رُک گئے، ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ کسی نے آگے بڑھ کر رکاوٹ ڈالنے کی ہمت نہ کی۔ سب تماشائی بنے کھڑے رہے۔ کسی کے چہرے پر تجسس تھا، کسی پر خوف، اور کسی پر بے حسی۔

سوچنے کی بات یہ ہے: کیا واقعی گاڑی پر لگی خراش اتنی بڑی تھی کہ ایک انسان کی عزتِ نفس کو سرِعام روند دیا جائے؟ نہیں۔ اصل معاملہ کچھ اور تھا۔ اصل میں مارا نہیں گیا رکشہ والا—مارا گیا اُس کا اسٹیٹس۔ پیٹا نہیں گیا اُس کا جسم—پیٹا گیا اُس کا “غریبی”۔



کراچی کا واقعہ: ایک اور ثبوت

یہ کہانی صرف شکرگڑھ تک محدود نہیں۔ کراچی کے ڈیفنس میں بھی ایک ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا۔ ایک موٹر سائیکل نے غلطی سے مرسڈیز کو چھوا۔ نقصان برائے نام تھا، مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہنگامہ برپا ہو گیا۔ لوگ جمع ہو گئے، شور مچ گیا، اور پورا منظر ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی بڑی جنگ کا آغاز ہو گیا ہو۔

دونوں واقعات میں ایک ہی نکتہ سامنے آتا ہے: گاڑی پر چوٹ نہیں لگی تھی، بلکہ اسٹیٹس پر چوٹ لگی تھی۔ اور جب اسٹیٹس پر چوٹ لگتی ہے تو انسان کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ سامنے کھڑا شخص بھی انسان ہے، اُس کی بھی ایک عزت ہے۔



تاریخ کا پہلا قتل: ہابیل اور قابیل

یہ جنگ نئی نہیں ہے۔ انسان کی تاریخ کا پہلا قتل بھی اسی “اسٹیٹس کی جنگ” کا نتیجہ تھا۔ ہابیل اور قابیل کی کہانی یاد ہے؟ قابیل کے دل میں حسد اور برتری کی خواہش نے آگ بھڑکائی۔ اُس کی قربانی قبول نہ ہوئی تو اُس نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ یہ انسانیت کی تاریخ کا پہلا قتل تھا، اور اس کی جڑ بھی وہی تھی جسے آج ہم اسٹیٹس کہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب میں شکرگڑھ اور کراچی جیسے واقعات دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ انسان نے صدیوں میں ٹیکنالوجی میں ترقی تو کر لی ہے، لیکن ذہن اور روح اب بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں قابیل کھڑا تھا۔



آج کی دنیا میں اسٹیٹس کی جنگ

ہماری روزمرہ زندگی کا تقریباً ہر پہلو اس جنگ کا حصہ بن چکا ہے۔
• شادی بیاہ پر لاکھوں روپے اُڑانے کی روایت صرف اس لیے ہے کہ لوگ کہیں نہ کہیں متاثر ہوں اور کہیں “واہ واہ” ہو۔
• بقر عید پر سب سے بڑا اور مہنگا جانور باندھنے کی دوڑ دراصل قربانی سے زیادہ نمائش کا مقابلہ ہے۔
• دفاتر میں باس کے آگے جھکنے، چاپلوسی کرنے اور دوسروں کو نیچا دکھانے کی روش بھی اسی جنگ کا ایک رنگ ہے۔
• یوٹیوب ولاگرز اور انسٹاگرام انفلوئنسرز نے نوجوان نسل کو یہ سکھا دیا ہے کہ کامیابی کی تعریف مہنگی گاڑی، برانڈڈ کپڑے اور پرتعیش سفر ہے۔

یہ سب چیزیں مل کر ایک ایسا ماحول بنا رہی ہیں جہاں وفاداری، سچائی اور دیانت کی کوئی قیمت نہیں رہی۔



نفسیات: اسٹیٹس کی بھوک کیوں؟

سوال یہ ہے کہ انسان اس جنگ میں بار بار کیوں گرتا ہے؟ جواب آسان ہے: احساسِ کمتری اور فومو (FOMO: Fear of Missing Out)۔

جب ایک شخص دیکھتا ہے کہ دوسرا نئی گاڑی چلا رہا ہے، نیا فون خرید رہا ہے یا نئی شادی کی نمائش کر رہا ہے، تو اُس کے دل میں یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں میں پیچھے نہ رہ جاؤں۔ یہ خوف انسان کو اس دوڑ میں دھکیل دیتا ہے جس کا کوئی اختتام نہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ دوڑ جیتنے والا بھی ہار جاتا ہے۔ کیونکہ یہ جنگ انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے تالیاں مل جاتی ہیں، واہ واہ ہو جاتی ہے، مگر اندر خالی پن بڑھتا چلا جاتا ہے۔



تاریخ سے سبق: فرانس سے ایران تک

یہ جنگ صرف فرد یا خاندان تک محدود نہیں رہی۔ پوری تاریخ میں اس نے سلطنتیں گرا دی ہیں۔
• فرانس کا انقلاب اسی جنگ کا نتیجہ تھا۔ اشرافیہ عیش و عشرت میں ڈوبی ہوئی تھی اور عوام روٹی کو ترس رہے تھے۔ جب عوام نے روٹی مانگی تو ملکہ نے کہا: “اگر روٹی نہیں تو کیک کھالو!” اور یہی جملہ ایک آگ بن کر اُبھرا جس نے صدیوں پرانی بادشاہت کو بہا دیا۔
• ایران میں 1971 میں شاہ نے ایک ایسی پارٹی منعقد کی جس پر 90 ملین ڈالر خرچ ہوئے۔ سونے کی پلیٹوں میں کھانے پیش کیے گئے جبکہ عوام بھوک سے مر رہی تھی۔ چند سال بعد یہی اسٹیٹس کی نمائش ایک انقلاب کی صورت میں اُس کے تخت کو بہا لے گئی۔
• برصغیر میں جاگیردارانہ نظام بھی اسی جنگ کا ایک روپ تھا۔ کسان زمین پر خون پسینہ بہاتے تھے، مگر عزت اور طاقت جاگیردار کے حصے میں آتی تھی۔

یہ تمام مثالیں بتاتی ہیں کہ اسٹیٹس کی جنگ نہ صرف افراد کو تباہ کرتی ہے بلکہ پوری قوموں کو کھا جاتی ہے۔



آج کی نسل کا مستقبل؟

میرا دل سب سے زیادہ اُس وقت ڈوب جاتا ہے جب میں سوچتا ہوں کہ ہماری نئی نسل کس ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے۔ بچے پڑھائی کے بجائے آسان پیسہ کمانے اور دکھاوے کی دوڑ میں شامل ہو رہے ہیں۔ یوٹیوب کے “فیک ولاگرز” اور جوا کھیلنے والی ایپس نے ان کے خوابوں کو مسخ کر دیا ہے۔

اگر ہم نے انہیں نہ روکا تو یہ نسل بھی اسی انجام کا شکار ہو گی جو قابیل کا تھا: حسد، نفرت اور تباہی۔



اصل کامیابی کیا ہے؟

یاد رکھنا ہوگا کہ گھڑی، گاڑی اور گھر ہمیں لمحاتی طور پر بڑا دکھا سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب صرف دکھاوا ہے۔ حقیقی کامیابی وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ دے۔ وہ کامیابی جو سچائی، دیانت، وفاداری اور انسانیت کے ذریعے حاصل ہو۔

جب انسان کی خوبی اُس کے اندر سے جھلکے تو اُسے دنیا کو دکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جیسے دیا جلتا ہے تو روشنی خود ظاہر ہوتی ہے، اور جیسے چاند نکلتا ہے تو سب اُس کی چمک دیکھ لیتے ہیں۔



“ نتیجہ”

شکرگڑھ کے رکشہ ڈرائیور پر ہونے والا ظلم ہو یا کراچی کی سڑک پر مرسڈیز والا ہنگامہ—یہ سب ایک ہی کہانی سناتے ہیں: اسٹیٹس کی جنگ انسان کو انسانیت سے محروم کر دیتی ہے۔

اصل سوال یہ ہے: ہم کب یہ سمجھیں گے کہ عزت نمائش میں نہیں بلکہ کردار میں ہے؟ اگر ہم نے یہ نہ سمجھا تو یہ جنگ ہمیں اندر سے کھا جائے گی۔

ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب نہ کوئی اوپر ہوگا، نہ کوئی نیچے۔ صرف ایک ہی شناخت باقی رہے گی—انسان، اور انسانیت۔

طالبِ دُعا۔
مُحمد بلالٓ۔




30/08/2025

یہ سیلاب بھی یہودی ایجنٹ لگتا ہے انگریز کے بنائے 200 سال پرانے پُل نہیں توڑتا اور ہمارے مُحبِ وطن ٹھیکیداروں کے پُل بہا لے جاتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف!
😂😂۔

پاکستان ‎میں تاریخ کا ایک اور بڑا سیلابی المیہ! یہ بالکل ہنسی مذاق نہیں ہے۔ اگر اسی طرح سے سیلابی ریلے یا زیادہ بارشیں ہ...
29/08/2025

پاکستان ‎میں تاریخ کا ایک اور بڑا سیلابی المیہ!

یہ بالکل ہنسی مذاق نہیں ہے۔ اگر اسی طرح سے سیلابی ریلے یا زیادہ بارشیں ہوتی رہیں اور انکا مستقبل میں اچھا بندوبست نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں نہ سیاست بچے گی، نہ معیشت بچے گی اور نہ ملک۔”

دوستو، یہ صرف ایک جملہ نہیں — یہ حقیقت ہے۔



📖 ماضی کی کہانیاں، حال کی تصویر

یاد ہے 2022 کا سیلاب؟ جب سندھ اور بلوچستان کے دیہات پانی میں ڈوب گئے تھے، جب لاکھوں لوگ چھتوں پر پناہ لینے پر مجبور تھے، اور جب کھیتوں کی سونے جیسی فصلیں مٹی میں مل گئیں تھیں۔

یاد ہے سوات کا وہ منظر؟ ایک فیملی دریا کے بیچ کھڑی تھی۔ پانی کا ریلہ اتنا تیز تھا کہ کوئی وہاں پہنچ نہ سکا۔ باپ اپنی بیٹی کو بانہوں میں تھامے کھڑا رہا۔ ہر لہر ان کے قریب آتی، ان کو موت کی طرف دھکیلتی۔ انہوں نے اپنی موت کا کاؤنٹ ڈاؤن خود گنا — اور آخرکار وہ سب پانی کے رحم و کرم پر بہہ گئے۔

یہ صرف کہانیاں نہیں، یہ حقیقتیں ہیں جو ہمارے اردگرد دہرائی جا رہی ہیں۔



📊 موجودہ صورتحال – اعداد و شمار چیخ رہے ہیں
• سیالکوٹ میں صرف ایک دن میں 400 ملی میٹر بارش — کئی سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
• دریائے چناب (ہیڈ مرالہ): گنجائش 1.1 ملین کیوسک تھی، پانی اس سے تجاوز کر گیا۔
• دریائے راوی (شادرا): 75,880 کیوسک پانی بہہ رہا ہے۔
• ستلج (گنڈا سنگھ والا): 2.5 لاکھ کیوسک پر پہنچ چکا۔
• تربیلا اور منگلا ڈیم بھر گئے ہیں، اسپل ویز کھل چکے ہیں۔

اور ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اس بار کا نقصان 2022 کے 30 بلین ڈالر والے سیلاب سے کئی گنا زیادہ ہو گا۔



⚠️ اس تباہی کی اصل وجوہات
• ڈیمز نہ بنائے گئے۔
• دریاؤں کے فطری راستے (Flood Plains) پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کھڑی کر دیں۔
• کنکریٹ جنگل (Concrete Jungles) نے زمین کو مردہ بنا دیا، جہاں پانی جذب ہی نہیں ہوتا۔
• سیاست دانوں نے ہمیشہ پوائنٹ اسکورنگ کی، عوام اور ماحولیاتی مسائل پر کبھی توجہ نہ دی۔



✅ ہماری ذمہ داریاں اور تجاویز

یہ وقت صرف رونے کا نہیں بلکہ کچھ کرنے کا ہے:
1. گھروں میں رہیں، دریا اور نہروں کے کنارے جانے سے اجتناب کریں۔
2. ریسکیو 1122، فوج اور مقامی اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔
3. ریلیف فنڈز براہِ راست متاثرین تک پہنچائیں، حکومت یا این جی اوز پر نہ چھوڑیں۔
4. حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ نئے ڈیمز بنائے، پرانے ڈیمز کی سلٹنگ ختم کرے اور فلوڈ پلینز کو محفوظ کرے۔
5. عوامی سطح پر شجرکاری اور ماحول کی بحالی کے لیے عملی قدم اٹھائیں۔



🤲 آخر میں…

دوستو، یہ وقت سیاست کا نہیں، انسانیت کا ہے۔
آئیں مل کر دعا کریں:

یا اللہ! ہمارے ملک پر رحم فرما، ہمارے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت فرما۔

اپنا خیال رکھیں۔
اللہ حافظ

السلام ؛ مُحمد بلال۔

تعلیم کا غروب ہوتا سورج یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ایڈمشن ڈیسک سنسان ہو رہے ہیں، جیسے کسی پرانی لائبریری کے ٹوٹے شیلفوں پ...
13/08/2025

تعلیم کا غروب ہوتا سورج

یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ایڈمشن ڈیسک سنسان ہو رہے ہیں، جیسے کسی پرانی لائبریری کے ٹوٹے شیلفوں پر برسوں سے کوئی کتاب ہاتھ نہ لگی ہو۔ نہ نوجوان آ رہے ہیں، نہ خواب۔ وہ مضامین جن کی کبھی معاشرتی توقیر تھی، اب ان کے نام بھی زنگ آلود بورڈز پر اداس لٹک رہے ہیں - اردو، فارسی، ریاضی، اسلامیات، فزکس، فلسفہ، تاریخ، سوشیالوجی۔ شماریات، معاشیات، نفسیات، کیمسٹری، باٹنی زوالوجی، لینگویجز، یہ سب گویا خاموشی سے اپنے جنازے کے منتظر ہیں۔

کیا قصور نوجوان کا ہے؟ شاید نہیں۔ جب ایک ٹک ٹاک ویڈیو کے ہونٹوں اور ہلکی سی ادا پر کمائی، ایک ایم فل یا پی ایچ ڈی کی برسوں کی محنت سے زیادہ ہو جائے، تو پھر کون بے وقوف ہے جو اپنا جوانی کا سرمایہ کسی کلاس روم کی چاک دھول میں جھونکے؟

ایچ ای سی کی حالت اس بوڑھے بزرگ جیسی ہے جو گھر کے کونے میں کھانسی کے دورے لیتا ہے، مگر پرانے خوابوں اور یادوں کے سہارے زندہ ہے۔ کیو ای سی اور اکیڈمک آڈٹ اور رینکنگ کی دوڑ کی "ڈاکومینٹیشنز"، اور جھوٹے سچے پراجیکٹس نے تعلیمی عمارت کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ جیسے صرف رپورٹیں اور چیک لسٹس ہی تعلیم ہوں، اور استاد کا پڑھانا اور ریسرچ کروانا ایک بے وقعت سا رسمی کام گنا جا رہا ہو
والدین کے پاس فیس نہیں، جامعات کے پاس فنڈ نہیں۔ کئی اداروں کو شاید اپنی زمین یا درخت بیچ کر بھی کلاسیں چلانی پڑیں۔

یہ بحران آ چکا ہے — اور یہ محض تعلیم کا بحران نہیں، یہ معاشرے کی سانس رکنے کا لمحہ ہے۔
سوال یہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا…؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سوال یہ ہے کہ ہم نے اس شام میں، اس ڈوبتے سورج کی آخری کرن میں، کچھ بچانے کا فیصلہ کب کرنا ہے؟
تحریر: سجاد اکبر
منقول۔




















11/08/2025

اسلام آباد میں شہید کی جانے والی مسجد غیر قانونی تھی۔ جبکہ حکومت قانون وآئین کے مُطابق بنی ہے😥۔

Address

Shakargarr
51800

Telephone

+923086568711

Website

https://www.tiktok.com/@bilalch7111?_t=8hMFbhlpWJl&_r=1

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Bilal Chauhdhry posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share