
27/03/2025
منزل کی راہ میں بھونکنے والے
کاپی پیسٹ
سقراط نے کہا تھا:
"اگر کوئی گدھا مجھے لات مارے تو کیا میں اس پر مقدمہ کروں گا؟ شکایت کروں گا یا اسے واپس لات ماروں گا؟"
یہ محض ایک سوال نہیں، بلکہ حکمت و دانائی کی وہ روشنی ہے جو وقت کے ہر نادان، ہر طالع آزما، اور ہر جھوٹ کے پجاری کو بے نقاب کرتی ہے۔ آج ہمیں بھی یہی سوال درپیش ہے کہ کیا ہم ہر چیختی، جھوٹ بولتی، اور افتراء پردازی میں مصروف آواز کے پیچھے دوڑیں، یا اپنی منزل پر نظر رکھیں اور اپنی توانائی کسی بہتر مقصد کے لیے صرف کریں؟
یہ دنیا ازل سے تماش بینوں کا ہجوم رہی ہے، جہاں فریب کو حقیقت کا لبادہ پہنانے والے ہمیشہ سرگرم رہے ہیں۔ یہ وہی دنیا ہے جہاں سقراط کو زہر کا پیالہ دیا گیا، منصور کو سولی پر چڑھایا گیا، اور ہر حق گو کو سنگ زنی کی اذیتوں سے گزارا گیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ حق کبھی مٹا؟ نہیں!
میاں محمد بخش نے کیا خوب فرمایا تھا:
جو کمزوراں نال پیا ر ہوندا، رب نال اوہدی یاری
جیہڑا کمزوراں نوں ستاوے، اوہدے وس ناہیں کاری
جہالت چیختی ہے، عقل خاموش رہتی ہے
تاریخ گواہ ہے کہ جھوٹ ہمیشہ شور مچاتا ہے، جبکہ سچ خاموشی سے اپنا راستہ بناتا ہے۔ دلیل سے محروم لوگ ہمیشہ چیخ و پکار اور پروپیگنڈے کا سہارا لیتے ہیں۔ آج معاشرے میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے، جہاں سچ کہنے والے کو باغی، غدار اور فسادی قرار دیا جاتا ہے، جبکہ جھوٹ کے سوداگر، درباری اور طفیلیے اعزازات سے نوازے جاتے ہیں۔
مگر تاریخ یہی کہتی روشنی خود کو ثابت نہیں کرتی، وہ بس چمکتی ہے
سقراط نے کہا تھا:
"ایک دانا آدمی کبھی کسی احمق سے الجھتا نہیں، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وقت سب سے بڑا منصف ہے۔"
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی توانائی ان فضول چیخنے چلانے والوں پر ضائع نہ کریں۔ ہم اپنی منزل کی طرف بڑھیں، کیونکہ اگر ہم ہر بھونکنے والے کتے پر پتھر پھینکیں گے، تو ہم اپنی راہ سے بھٹک جائیں گے۔