09/08/2023
یہ بات ہے سال 1940 کی جب ایک 8 سال کا بچہ جاپان کے ایک گاؤں میں کھیل رہا تھا تبھی اس نے چارپائیوں پر چلتی ایک مشین دیکھی۔ یہ فورڈ کا ماڈل ٹی تھا۔ جس کو یہ بچہ دیکھ کر بہت زیادہ حیران ہوا۔ یہی وہ دن تھا۔ جب اس آٹھ سال کے بچے کو گاڑیوں اور مکینکل پارٹس سے پہلی بار لگاؤ ہوا تھا اس کا نام تھا۔ سوچیرو ہونڈا اور کس کو معلوم تھا کہ آنے والے وقت میں اس کا نام ہمیں ہر چھوٹی بڑی گاڑی پے دیکھنے کو ملے گا۔
ناظرین 1906 میں جاپان کے ماؤنٹ فوجی کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں سوچیرو ہونڈا کی پیدائش ہوئی تھی اور ان کے والد لوہار ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم میں سائیکل رپیر کا کام بھی کرتے تھے ہونڈا کے پانچ بہن بھائی پہلے ہی مختلف بیماریوں کی وجہ سے مر چکے تھے لہذا اس کے ماں باپ کو اپنے اس بچے سے کافی امیدیں تھیں۔ لیکن اس کو پڑھائی سے تو کوئی لگاؤ نہیں تھا البتہ اپنے باپ کے ساتھ سائیکل ریپر کرنے میں ہونڈا کو زیادہ دلچسپی تھی
جب وہ 16 سال کا ہوا تو اس نے نیوز پیپر میں جوب کا ایک ایڈ دیکھا۔ آرٹ شوگائی نامی ٹوکیو کے اس آٹو موبائل سروس اسٹیشن پر ٹیکنیشنز چاہیے تھے ہونڈا نے کمپنی کو جاب کے لیے لیٹر لکھا اور خوش قسمتی تھی کہ وہاں سے پازیٹیو رپلاے بھی آ گیا۔ یہی ٹائم تھا جب ہونڈا اپنا گھر اور اسکول چھوڑ کر پیسے کمانے کی آس لگائے ٹوکیو روانہ ہو گیا۔ ہونڈا کا خواب تو تب ٹوٹا جب وہ ٹوکیو میں آرٹ شوگائی پہنچ گیا تھا۔ کمپنی کے مالک نے ہونڈا سے صفائی ستھرائی کے کام کروانا شروع کر دیے اور یہاں تک کہ اس کو بےبی سیٹنگ پر لگا دیا۔ ہونڈا بیچارہ کرتا تو کیا کرتا۔ ایک طرف وہ اپنا گھر اور ماں باپ کو چھوڑ کر نکلا تھا تو دوسری طرف اس سے فالتو کام لیے جا رہے تھے اس کو واپس اپنے گاؤں جانے میں شرم آ رہی تھی کیونکہ وہ اپنے پیرنٹس کو فیس کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اگلے کئی مہینوں تک آرٹ جاب کرنے پر مجبور رہا۔ کچھ ہی مہینوں کے بعد آرٹ شوگائی کے مالک نے ہونڈا سے ورکشاپ کے کام بھی لینا شروع کر دیئے۔
ہونڈا کو اس کام میں شروع سے بہت interest تھا اسی لیے وہ چیزوں کو آسانی سے سمجھ جاتا تھا۔ چند مہینوں میں وہ ہر طرح کی گاڑی اور ان کے پارٹس کے بارے میں کافی کچھ جان چکا تھا۔ اسی دوران آرٹ شوگائی نے دو سپورٹس کار بھی بنائیں۔ جس میں پہلی گاڑی اٹھ ڈیملر تھی اور دوسری کلٹس یہ دونوں گاڑیاں used engine کو استعمال کرکے بنائیں گئیں تھیں جنہوں نے جیپنیز موٹر کار چیمپئن شپ 1924 میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کی۔
ہونڈا ابھی تک ایک اچھا مکینک تھا لیکن اس ریس میں وہ ڈرائیور کے ساتھ انجینئر کے طور پے بیٹھا تھا یہی event تھا جس کے بعد سوچیرو ہونڈا نے موٹر سپورٹس کو اپنا ریجن بنا لیا۔ اگلے کئی سالوں تک وہ آرٹ شوگائی میں ہی جوب کرتا رہا اور اپنے experience کو پڑھتا بھی رہا۔ 1928 میں 22 سال کی age میں اس کے مالک نے اپنی ایک اور branch کھولنے کا فیصلہ کیا یہ برانچ Hamamatsu شہر میں ہونا تھی۔
جس کو چلانے کے لیے مالک نے ہونڈا کو ذمہ داری دے کر وہاں بھیج دیا۔ ہونڈا نے اس نئی آرٹ شوگائی کی برانچ کو ایک ورکر سے شروع کیا تھا اور صرف دو ہی سالوں میں 30 ورکرز تک پہنچا دیا۔ وہ اب ایک brilliant مکینک اور ریسنگ ڈرائیور بھی بن چکا تھا۔ اس نے اپنی مہارت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مالک کے لئے ایک اسپورٹس کار ڈیزائن کی۔ یہ گاڑی 120 کلومیٹر per hour کی سپیڈ سے چل سکتی تھی جس نے پرانے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے
یہ ریکارڈ اگلے 20 سالوں تک جاپان کا ہائیسٹ ریکارڈ بنا رہا۔ آرٹ شوگائی کے مالک کے دل میں ہونڈا کی اہمیت مزید بڑھ چکی تھی وہ اپنا خود کا ورکشاپ کھولناچاہتا تھا۔ لیکن شاید قسمت کو یہ منظور نہیں تھا۔ 1936 میں ریسنگ کے دوران ہونڈا کا ایک ہولناک حادثہ ہو گیا۔ اس ایکسیڈنٹ میں اس کی جان تو بچ گئی لیکن اس کا left بازو فریکچر ہو گیا۔ شولڈر dislocate ہو گیا۔ اور چہرے پر کئی زخم آ چکے تھے اس کو اپنی زندگی یہیں ختم ہوتے دکھائی دے رہی تھی۔
نہ وہ میکینک کا کام کر سکتا تھا اور نہ ہی ریسنگ میں حصہ لے سکتا تھا۔ کئی مہینوں کے بعد وہ جب دوبارہ ٹھیک ہوا تو اس نے آرٹ شوگائی کے مالک سے ریکویسٹ کی کہ وہ اب یہ ریپئرنگ کا کام نہیں کر سکتا۔ بلکہ اس نے آئیڈیا پیش کیا کہ کیوں نہ وہ اب اسپئر پارٹس بنانے کے لیے ایک الگ کمپنی شروع کرے۔ آرٹ شوگائی کے اسٹیک ہولڈرز نے ہونڈا کا یہ آئیڈیا فوراً reject کر دیا۔
ان کو already profits مل رہے تھے اور کوئی بھی نہیں چاہ رہا تھا کہ کوئی نیا ریسک لیا جائے۔
اسی پر ہونڈا نے ڈیسائیڈ کیا کہ پارٹس مینوفیکچرنگ کی کمپنی وہ اکیلے ہی کھلے گا۔ 1936 میں تیس سال کی عمر میں اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ٹوکائی سیکی ہیوی انڈسٹری کھولی۔ اپنے دوست sochairo katto کو اس کا پریذیڈنٹ بنا دیا۔ کمپنی تو وہ کھول چکے تھے پر ہونڈا کے پاس اس کو چلانے کے لیے کوئی انویسٹمنٹ نہیں تھی۔ وہ دن بھر آرٹ شوگائی کے لئے کام کرتا تھا جبکہ رات میں وہ اپنی نئی کمپنی کے لیے خود انجن پسٹن بنانے کی کوشش کرتا تھا۔
اگلے کئی مہینوں تک وہ روٹین سے چلتا رہا۔ لیکن اس کو کوئی کامیابی نہ مل سکی الٹا وہ لگاتار شفٹیں لگا لگا کر کمزور ہوچکا تھا ایک کے بعد ایک ناکامی اس کا راستہ روکے بیٹھی تھی تبھی اس نے مٹلر جی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ایک یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا۔ 1939 میں تین سال کی لگاتار محنت کرنے کے بعد آخر کار ایک پسٹن بنانے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ اب اس نے آرٹ شوگائی سے جاب چھوڑ دی اور فل ٹائم پسٹن بنانے میں لگ گیا۔ اور اس کو یہ معلوم ہی نہیں تھا
کہ اس کے بنائے ہوئے پسٹن میں ابھی بھی کئی faults موجود ہیں اس نے ٹیوٹا کمپنی کو اپنے پسٹن offer کیے۔ تو ٹیوٹا نے پچاس میں سے 47 ریجکٹ کر دیئے۔ یہ خبر ہونڈا پر بجلی بن کر گری۔ کیونکہ اس کے پاس اب واپسی کا بھی کوئی راستہ نہیں تھا اس نے مختلف کمپنیز کی requirements کو سمجھنے کے لئے پورے جاپان کے دورے لگانا شروع کر دئیے۔ الگ الگ فیکٹریز میں گیا کار مینوفیکچررز سے ملا اگلے کئی سال اس نے مارکیٹ کو سمجھنے میں لگا دیئے۔
اور اس کے بعد ہونڈا نے ایک بار پھر سے پسٹن بنائے۔ اس بار یہ پسٹن ساری کمپنیز کے کوالٹی کنٹرول پاس کر چکے تھے۔ اس کو دھڑا دھڑ آرڈرز ملنا شروع ہوگئے اور ایک بار پھر سے ہونڈا کو اپنے خواب پورے ہوتے دیکھائی دیئے۔ آرڈرز کو پورا کرنے کے لئے اس کی کمپنی نے دو ہزار ورکرز کو بھی حائر کر لیا۔ اور ہونڈا کی یہ خوشی صرف چند مہینوں کی مہمان تھی۔ یہ کس کو معلوم تھا۔ 1941 میں جاپان ورلڈ وار 2 میں کود گیا۔ منسٹری نے کئی جیپنز کمپنیز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
جس میں ایک کمپنی سوچیرو ہونڈا کی بھی تھی۔ ہونڈا کو ڈاؤن گریڈ کر کے اسی کمپنی کا سینئر مینیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ اور چیزیں تب مزید خراب ہوگئیں۔ جب کمپنی کے ورکرز کو ملٹری سروس میں لگا دیا گیا۔ اگلے تین سال انتہائی مشکل حالت میں گزارے لیکن 1944 میں ایک واقعہ ہوا۔ جس نے ہونڈا کی امیدوں پر پوری طرح سے پانی پھیر دیا۔ ایئر ریڈ کے دوران ایک میزائل سیدھا ہونڈا کی فیکٹری پے آ لگا۔ پورے ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔
جاپان جنگ ہارتا ہوا دکھائی دے رہا تھا پھر 1945 میں دو نیوکلیئر اٹیکس ہوئے۔ جس نے جاپان کی سرے سے کمر ہی توڑ ڈالی۔ اس واقعے کے بعد جاپان نے امریکہ کے سامنے سرنڈر کر لیا۔ جنگ تو اب ختم ہو چکی تھی لیکن ہونڈا اپنا سب کچھ کھو چکا تھا۔ اس نے اپنے بچے کچھے assets ٹیوٹا کو چار لاکھ پچاس ہزار ین میں بیچے۔ اور ایک بار پھر سے جاب لس ہو کر بیٹھ گیا۔ یہ حالت صرف ہونڈا کے ساتھ ہی نہیں تھی بلکہ پورا جاپان بہت برے crisis سے گزر رہا تھا۔ اکانومی milled ہو رہی تھی۔
کھانا پانی کی شدید قلّت مہنگائی نے سب کی کمر توڑ رکھی تھی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا ملنا انتہائی مشکل تھا کیونکہ جاپان میں پیٹرول بھی نایاب ہو چکا تھا اسی دوران ہونڈا کو جیپنیز امپیریل آرمی کا ایک چھوٹا انجن ملا جس سے وہ وئرلس ریڈیو چلایا کرتے تھے۔ اپنی عادت سے مجبور اسے ایک آئیڈیا آیا۔ اور اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس انجن کو اپنی سائیکل میں لگا کر اپنی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کیا جائے۔ اس سے ٹرانسپورٹ آسان بھی ہو جائے گی۔ اور سستی بھی پڑے گی۔
کیونکہ اس دور میں لوگ پہلے ہی مہنگائی سے بہت پریشان تھے تو جب انہوں نے یہی انجن ایک سائیکل پے لگا دیکھا تو سب کو یہ آئیڈیا بہت اچھا لگا۔ چند یوزڈ انجن تو ہونڈا کو مل گئے لیکن لوگوں کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ تھی کہ اب ہونڈا نے خود کا نیا انجن ڈیزائن کر لیا۔ یہ ہسٹری میں پہلی بار تھا کہ کسی مشین پر ہونڈا کا لوگو دیکھا گیا۔ ہونڈا کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ بڑے لیول پے یہ سائیکل بنا سکے۔ لہذا اس نے اٹھارہ ہزار دکانداروں کے نام ایک اوپن لیٹر لکھا۔
لوگوں کو ہونڈا پے اتنا بھروسہ تھا کہ تین ہزار دکانداروں نے اس کو پازیٹیو رپلائی دیا اور پیسے بھی ایڈوانس میں دے دئیے۔ اگلے تین سالوں میں ہونڈا نے ایک ایسی موٹر سائیکل بنائی جو مارکیٹ کی ریکوائرمنٹ کے عین مطابق تھی۔ یہ سوپر کپ کے نام سے لانچ کی گئی۔ اس نے آتے ہی مارکیٹ میں دھوم مچا دی۔ یہ ماڈل اتنا کامیاب ہوا کہ 1958 میں اس نے امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں اور ہارلے ڈیوڈسن کی سیل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ کیونکہ ہونڈا کو ریسنگ کا بہت شوق تو تھا ہی۔
اسی لیے اس نے اپنی اسپورٹس بائیک بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ مختلف بائیک ریسز میں جاتا اور جیتنے والی بائیک کے خاص فیچرز نوٹ کرتا جارہا تھا۔ اس دور میں ایسے اسپورٹس competition ریس سے بڑ کر مینوفیکچرنگ کمپنیز کے لیے مارکیٹنگ کا ٹور ہوا کرتے تھے۔ چند سالوں میں ہونڈا کی پہلی اسپورٹس بائیک لانچ کی گئی۔ جس نے 1962 انٹرنیشنل ریسنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس ریس نے ہونڈا کا نام پوری دنیا میں فیمس کر دیا۔
ے1960 میں ہونڈا دنیا کی سب سے بڑی موٹر سائیکل مینوفیکچرنگ کمپنی بن چکی تھی اور 1968 تک یہ ایک کروڑ یونٹس سیل کر چکے تھے۔ اپنی زندگی کے 62 سال گزارنے کے بعد آخرکار سوچیرو ہونڈا کو کامیابی تو مل چکی تھی لیکن جو خواب وہ بچپن سے ہی لیے بیٹھا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہو پایا تھا۔ ہونڈا اب کار مینوفیکچرنگ کی طرف بھی جانا چاہتا تھا کئی لوگوں نے ان کو ایسا کرنے سے منع بھی کیا۔ لیکن انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔
اس وقت جاپان میں already ٹیوٹا اور نیسان جیسی کمپنیز اپنا بزنس جمائے بیٹھیں تھیں۔ وہاں مارکیٹ میں اپنی نئی جگہ بنانا کافی مشکل تھا۔ ہونڈا نے اپنی پہلی پک اپ.. پی تھری سیکسٹی لانچ کی جو کہ فیل ہوگئی۔ اس کے بعد اسپورٹس کار S500 لانچ کی۔ جس کے صرف 1300 یونٹس ہی بک پائے۔ کئی سالوں کی محنت اور کئی درجن ڈیزائن ریجکٹ ہونے کے بعد finally 1972 میں Hounda Civic لانچ کی گئی۔ یہ وہ گاڑی ہے جس کے نئے ماڈلز آج تک پوری دنیا میں مشہور ہیں۔
گ1980 میں ہونڈا موٹرز جاپان کی تیسری بڑی مینوفیکچر کمپنی تھی اور صرف 10 سالوں میں ہی یہ دنیا کی تیسری بڑی کمپنی ہو گئی آج ہونڈا کا نام ہمیں کار، موٹر سائیکلز بورڈ انجنز اور plain engines درجنوں پاور ٹولز میں دیکھنے کو ملتا ہے سوچیرو ہونڈا نے ہونڈا سوک لانچ ہونے کے اگلے ہی سال 1973 میں کمپنی ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ اور fifth اگست 1991 کو ان کی زندگی کا یہ سفر ہمشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔