JOGI VOICE

JOGI VOICE Welcome to My page
''Jogi Voice'' is The platform where you will find islamic , History

میاں محمد شہباز شریف کاغذات نامزدگی
23/12/2023

میاں محمد شہباز شریف کاغذات نامزدگی

یہ بات ہے سال 1940 کی جب ایک 8 سال کا بچہ جاپان کے ایک گاؤں میں کھیل رہا تھا تبھی اس نے چارپائیوں پر چلتی ایک مشین دیکھی...
09/08/2023

یہ بات ہے سال 1940 کی جب ایک 8 سال کا بچہ جاپان کے ایک گاؤں میں کھیل رہا تھا تبھی اس نے چارپائیوں پر چلتی ایک مشین دیکھی۔ یہ فورڈ کا ماڈل ٹی تھا۔ جس کو یہ بچہ دیکھ کر بہت زیادہ حیران ہوا۔ یہی وہ دن تھا۔ جب اس آٹھ سال کے بچے کو گاڑیوں اور مکینکل پارٹس سے پہلی بار لگاؤ ہوا تھا اس کا نام تھا۔ سوچیرو ہونڈا اور کس کو معلوم تھا کہ آنے والے وقت میں اس کا نام ہمیں ہر چھوٹی بڑی گاڑی پے دیکھنے کو ملے گا۔

ناظرین 1906 میں جاپان کے ماؤنٹ فوجی کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں سوچیرو ہونڈا کی پیدائش ہوئی تھی اور ان کے والد لوہار ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم میں سائیکل رپیر کا کام بھی کرتے تھے ہونڈا کے پانچ بہن بھائی پہلے ہی مختلف بیماریوں کی وجہ سے مر چکے تھے لہذا اس کے ماں باپ کو اپنے اس بچے سے کافی امیدیں تھیں۔ لیکن اس کو پڑھائی سے تو کوئی لگاؤ نہیں تھا البتہ اپنے باپ کے ساتھ سائیکل ریپر کرنے میں ہونڈا کو زیادہ دلچسپی تھی

جب وہ 16 سال کا ہوا تو اس نے نیوز پیپر میں جوب کا ایک ایڈ دیکھا۔ آرٹ شوگائی نامی ٹوکیو کے اس آٹو موبائل سروس اسٹیشن پر ٹیکنیشنز چاہیے تھے ہونڈا نے کمپنی کو جاب کے لیے لیٹر لکھا اور خوش قسمتی تھی کہ وہاں سے پازیٹیو رپلاے بھی آ گیا۔ یہی ٹائم تھا جب ہونڈا اپنا گھر اور اسکول چھوڑ کر پیسے کمانے کی آس لگائے ٹوکیو روانہ ہو گیا۔ ہونڈا کا خواب تو تب ٹوٹا جب وہ ٹوکیو میں آرٹ شوگائی پہنچ گیا تھا۔ کمپنی کے مالک نے ہونڈا سے صفائی ستھرائی کے کام کروانا شروع کر دیے اور یہاں تک کہ اس کو بےبی سیٹنگ پر لگا دیا۔ ہونڈا بیچارہ کرتا تو کیا کرتا۔ ایک طرف وہ اپنا گھر اور ماں باپ کو چھوڑ کر نکلا تھا تو دوسری طرف اس سے فالتو کام لیے جا رہے تھے اس کو واپس اپنے گاؤں جانے میں شرم آ رہی تھی کیونکہ وہ اپنے پیرنٹس کو فیس کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اگلے کئی مہینوں تک آرٹ جاب کرنے پر مجبور رہا۔ کچھ ہی مہینوں کے بعد آرٹ شوگائی کے مالک نے ہونڈا سے ورکشاپ کے کام بھی لینا شروع کر دیئے۔

ہونڈا کو اس کام میں شروع سے بہت interest تھا اسی لیے وہ چیزوں کو آسانی سے سمجھ جاتا تھا۔ چند مہینوں میں وہ ہر طرح کی گاڑی اور ان کے پارٹس کے بارے میں کافی کچھ جان چکا تھا۔ اسی دوران آرٹ شوگائی نے دو سپورٹس کار بھی بنائیں۔ جس میں پہلی گاڑی اٹھ ڈیملر تھی اور دوسری کلٹس یہ دونوں گاڑیاں used engine کو استعمال کرکے بنائیں گئیں تھیں جنہوں نے جیپنیز موٹر کار چیمپئن شپ 1924 میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کی۔

ہونڈا ابھی تک ایک اچھا مکینک تھا لیکن اس ریس میں وہ ڈرائیور کے ساتھ انجینئر کے طور پے بیٹھا تھا یہی event تھا جس کے بعد سوچیرو ہونڈا نے موٹر سپورٹس کو اپنا ریجن بنا لیا۔ اگلے کئی سالوں تک وہ آرٹ شوگائی میں ہی جوب کرتا رہا اور اپنے experience کو پڑھتا بھی رہا۔ 1928 میں 22 سال کی age میں اس کے مالک نے اپنی ایک اور branch کھولنے کا فیصلہ کیا یہ برانچ Hamamatsu شہر میں ہونا تھی۔

جس کو چلانے کے لیے مالک نے ہونڈا کو ذمہ داری دے کر وہاں بھیج دیا۔ ہونڈا نے اس نئی آرٹ شوگائی کی برانچ کو ایک ورکر سے شروع کیا تھا اور صرف دو ہی سالوں میں 30 ورکرز تک پہنچا دیا۔ وہ اب ایک brilliant مکینک اور ریسنگ ڈرائیور بھی بن چکا تھا۔ اس نے اپنی مہارت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مالک کے لئے ایک اسپورٹس کار ڈیزائن کی۔ یہ گاڑی 120 کلومیٹر per hour کی سپیڈ سے چل سکتی تھی جس نے پرانے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے

یہ ریکارڈ اگلے 20 سالوں تک جاپان کا ہائیسٹ ریکارڈ بنا رہا۔ آرٹ شوگائی کے مالک کے دل میں ہونڈا کی اہمیت مزید بڑھ چکی تھی وہ اپنا خود کا ورکشاپ کھولناچاہتا تھا۔ لیکن شاید قسمت کو یہ منظور نہیں تھا۔ 1936 میں ریسنگ کے دوران ہونڈا کا ایک ہولناک حادثہ ہو گیا۔ اس ایکسیڈنٹ میں اس کی جان تو بچ گئی لیکن اس کا left بازو فریکچر ہو گیا۔ شولڈر dislocate ہو گیا۔ اور چہرے پر کئی زخم آ چکے تھے اس کو اپنی زندگی یہیں ختم ہوتے دکھائی دے رہی تھی۔

نہ وہ میکینک کا کام کر سکتا تھا اور نہ ہی ریسنگ میں حصہ لے سکتا تھا۔ کئی مہینوں کے بعد وہ جب دوبارہ ٹھیک ہوا تو اس نے آرٹ شوگائی کے مالک سے ریکویسٹ کی کہ وہ اب یہ ریپئرنگ کا کام نہیں کر سکتا۔ بلکہ اس نے آئیڈیا پیش کیا کہ کیوں نہ وہ اب اسپئر پارٹس بنانے کے لیے ایک الگ کمپنی شروع کرے۔ آرٹ شوگائی کے اسٹیک ہولڈرز نے ہونڈا کا یہ آئیڈیا فوراً reject کر دیا۔

ان کو already profits مل رہے تھے اور کوئی بھی نہیں چاہ رہا تھا کہ کوئی نیا ریسک لیا جائے۔

اسی پر ہونڈا نے ڈیسائیڈ کیا کہ پارٹس مینوفیکچرنگ کی کمپنی وہ اکیلے ہی کھلے گا۔ 1936 میں تیس سال کی عمر میں اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ٹوکائی سیکی ہیوی انڈسٹری کھولی۔ اپنے دوست sochairo katto کو اس کا پریذیڈنٹ بنا دیا۔ کمپنی تو وہ کھول چکے تھے پر ہونڈا کے پاس اس کو چلانے کے لیے کوئی انویسٹمنٹ نہیں تھی۔ وہ دن بھر آرٹ شوگائی کے لئے کام کرتا تھا جبکہ رات میں وہ اپنی نئی کمپنی کے لیے خود انجن پسٹن بنانے کی کوشش کرتا تھا۔

اگلے کئی مہینوں تک وہ روٹین سے چلتا رہا۔ لیکن اس کو کوئی کامیابی نہ مل سکی الٹا وہ لگاتار شفٹیں لگا لگا کر کمزور ہوچکا تھا ایک کے بعد ایک ناکامی اس کا راستہ روکے بیٹھی تھی تبھی اس نے مٹلر جی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ایک یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا۔ 1939 میں تین سال کی لگاتار محنت کرنے کے بعد آخر کار ایک پسٹن بنانے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ اب اس نے آرٹ شوگائی سے جاب چھوڑ دی اور فل ٹائم پسٹن بنانے میں لگ گیا۔ اور اس کو یہ معلوم ہی نہیں تھا

کہ اس کے بنائے ہوئے پسٹن میں ابھی بھی کئی faults موجود ہیں اس نے ٹیوٹا کمپنی کو اپنے پسٹن offer کیے۔ تو ٹیوٹا نے پچاس میں سے 47 ریجکٹ کر دیئے۔ یہ خبر ہونڈا پر بجلی بن کر گری۔ کیونکہ اس کے پاس اب واپسی کا بھی کوئی راستہ نہیں تھا اس نے مختلف کمپنیز کی requirements کو سمجھنے کے لئے پورے جاپان کے دورے لگانا شروع کر دئیے۔ الگ الگ فیکٹریز میں گیا کار مینوفیکچررز سے ملا اگلے کئی سال اس نے مارکیٹ کو سمجھنے میں لگا دیئے۔

اور اس کے بعد ہونڈا نے ایک بار پھر سے پسٹن بنائے۔ اس بار یہ پسٹن ساری کمپنیز کے کوالٹی کنٹرول پاس کر چکے تھے۔ اس کو دھڑا دھڑ آرڈرز ملنا شروع ہوگئے اور ایک بار پھر سے ہونڈا کو اپنے خواب پورے ہوتے دیکھائی دیئے۔ آرڈرز کو پورا کرنے کے لئے اس کی کمپنی نے دو ہزار ورکرز کو بھی حائر کر لیا۔ اور ہونڈا کی یہ خوشی صرف چند مہینوں کی مہمان تھی۔ یہ کس کو معلوم تھا۔ 1941 میں جاپان ورلڈ وار 2 میں کود گیا۔ منسٹری نے کئی جیپنز کمپنیز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔

جس میں ایک کمپنی سوچیرو ہونڈا کی بھی تھی۔ ہونڈا کو ڈاؤن گریڈ کر کے اسی کمپنی کا سینئر مینیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ اور چیزیں تب مزید خراب ہوگئیں۔ جب کمپنی کے ورکرز کو ملٹری سروس میں لگا دیا گیا۔ اگلے تین سال انتہائی مشکل حالت میں گزارے لیکن 1944 میں ایک واقعہ ہوا۔ جس نے ہونڈا کی امیدوں پر پوری طرح سے پانی پھیر دیا۔ ایئر ریڈ کے دوران ایک میزائل سیدھا ہونڈا کی فیکٹری پے آ لگا۔ پورے ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔

جاپان جنگ ہارتا ہوا دکھائی دے رہا تھا پھر 1945 میں دو نیوکلیئر اٹیکس ہوئے۔ جس نے جاپان کی سرے سے کمر ہی توڑ ڈالی۔ اس واقعے کے بعد جاپان نے امریکہ کے سامنے سرنڈر کر لیا۔ جنگ تو اب ختم ہو چکی تھی لیکن ہونڈا اپنا سب کچھ کھو چکا تھا۔ اس نے اپنے بچے کچھے assets ٹیوٹا کو چار لاکھ پچاس ہزار ین میں بیچے۔ اور ایک بار پھر سے جاب لس ہو کر بیٹھ گیا۔ یہ حالت صرف ہونڈا کے ساتھ ہی نہیں تھی بلکہ پورا جاپان بہت برے crisis سے گزر رہا تھا۔ اکانومی milled ہو رہی تھی۔

کھانا پانی کی شدید قلّت مہنگائی نے سب کی کمر توڑ رکھی تھی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا ملنا انتہائی مشکل تھا کیونکہ جاپان میں پیٹرول بھی نایاب ہو چکا تھا اسی دوران ہونڈا کو جیپنیز امپیریل آرمی کا ایک چھوٹا انجن ملا جس سے وہ وئرلس ریڈیو چلایا کرتے تھے۔ اپنی عادت سے مجبور اسے ایک آئیڈیا آیا۔ اور اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس انجن کو اپنی سائیکل میں لگا کر اپنی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کیا جائے۔ اس سے ٹرانسپورٹ آسان بھی ہو جائے گی۔ اور سستی بھی پڑے گی۔

کیونکہ اس دور میں لوگ پہلے ہی مہنگائی سے بہت پریشان تھے تو جب انہوں نے یہی انجن ایک سائیکل پے لگا دیکھا تو سب کو یہ آئیڈیا بہت اچھا لگا۔ چند یوزڈ انجن تو ہونڈا کو مل گئے لیکن لوگوں کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ تھی کہ اب ہونڈا نے خود کا نیا انجن ڈیزائن کر لیا۔ یہ ہسٹری میں پہلی بار تھا کہ کسی مشین پر ہونڈا کا لوگو دیکھا گیا۔ ہونڈا کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ بڑے لیول پے یہ سائیکل بنا سکے۔ لہذا اس نے اٹھارہ ہزار دکانداروں کے نام ایک اوپن لیٹر لکھا۔

لوگوں کو ہونڈا پے اتنا بھروسہ تھا کہ تین ہزار دکانداروں نے اس کو پازیٹیو رپلائی دیا اور پیسے بھی ایڈوانس میں دے دئیے۔ اگلے تین سالوں میں ہونڈا نے ایک ایسی موٹر سائیکل بنائی جو مارکیٹ کی ریکوائرمنٹ کے عین مطابق تھی۔ یہ سوپر کپ کے نام سے لانچ کی گئی۔ اس نے آتے ہی مارکیٹ میں دھوم مچا دی۔ یہ ماڈل اتنا کامیاب ہوا کہ 1958 میں اس نے امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں اور ہارلے ڈیوڈسن کی سیل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ کیونکہ ہونڈا کو ریسنگ کا بہت شوق تو تھا ہی۔

اسی لیے اس نے اپنی اسپورٹس بائیک بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ مختلف بائیک ریسز میں جاتا اور جیتنے والی بائیک کے خاص فیچرز نوٹ کرتا جارہا تھا۔ اس دور میں ایسے اسپورٹس competition ریس سے بڑ کر مینوفیکچرنگ کمپنیز کے لیے مارکیٹنگ کا ٹور ہوا کرتے تھے۔ چند سالوں میں ہونڈا کی پہلی اسپورٹس بائیک لانچ کی گئی۔ جس نے 1962 انٹرنیشنل ریسنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس ریس نے ہونڈا کا نام پوری دنیا میں فیمس کر دیا۔

ے1960 میں ہونڈا دنیا کی سب سے بڑی موٹر سائیکل مینوفیکچرنگ کمپنی بن چکی تھی اور 1968 تک یہ ایک کروڑ یونٹس سیل کر چکے تھے۔ اپنی زندگی کے 62 سال گزارنے کے بعد آخرکار سوچیرو ہونڈا کو کامیابی تو مل چکی تھی لیکن جو خواب وہ بچپن سے ہی لیے بیٹھا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہو پایا تھا۔ ہونڈا اب کار مینوفیکچرنگ کی طرف بھی جانا چاہتا تھا کئی لوگوں نے ان کو ایسا کرنے سے منع بھی کیا۔ لیکن انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔

اس وقت جاپان میں already ٹیوٹا اور نیسان جیسی کمپنیز اپنا بزنس جمائے بیٹھیں تھیں۔ وہاں مارکیٹ میں اپنی نئی جگہ بنانا کافی مشکل تھا۔ ہونڈا نے اپنی پہلی پک اپ.. پی تھری سیکسٹی لانچ کی جو کہ فیل ہوگئی۔ اس کے بعد اسپورٹس کار S500 لانچ کی۔ جس کے صرف 1300 یونٹس ہی بک پائے۔ کئی سالوں کی محنت اور کئی درجن ڈیزائن ریجکٹ ہونے کے بعد finally 1972 میں Hounda Civic لانچ کی گئی۔ یہ وہ گاڑی ہے جس کے نئے ماڈلز آج تک پوری دنیا میں مشہور ہیں۔

گ1980 میں ہونڈا موٹرز جاپان کی تیسری بڑی مینوفیکچر کمپنی تھی اور صرف 10 سالوں میں ہی یہ دنیا کی تیسری بڑی کمپنی ہو گئی آج ہونڈا کا نام ہمیں کار، موٹر سائیکلز بورڈ انجنز اور plain engines درجنوں پاور ٹولز میں دیکھنے کو ملتا ہے سوچیرو ہونڈا نے ہونڈا سوک لانچ ہونے کے اگلے ہی سال 1973 میں کمپنی ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ اور fifth اگست 1991 کو ان کی زندگی کا یہ سفر ہمشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

25/07/2023
24/07/2023

دوران آپریشن (Operation) ہسپتال میں جنریٹر کا پیٹرول ختم۔ آدھے گھنٹے گھنٹے سے ڈاکٹرز دہائیاں دے رہے ۔۔۔

24/07/2023

30 سال ٹیچر سروس دینے کے بعد ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو 22 لاکھ روپے بینک سے نکلوا کر گھر لے جا رہا تھا کہ راستے میں اسلحے کے زور پر سارے پیسے لوٹ لیے روئے نہ تو کیا کرے بچوں کا مستقبل سب کچھ لوٹ کے لے گئے۔۔! ہائے ریاست تحریکوں سی کل سیدھی۔نہ امن نہ تحفظ۔نہ ترقی۔

بھاپ کی طاقت کو کام میں لانے کا تصور انسان کے لئے نیا نہیں بلکہ سکندریہ کے عروج کے زمانے سے ایک یونانی سائنسدان ہیرو نے ...
16/07/2023

بھاپ کی طاقت کو کام میں لانے کا تصور انسان کے لئے نیا نہیں بلکہ سکندریہ کے عروج کے زمانے سے ایک یونانی سائنسدان ہیرو نے بھاپ سے کام لے کر معبدوں کے دروازے کھولنے کیلئے یہ طاقت استعمال کی تھی۔ پھر جیسے جیسے انسان نے سائنسی علوم میں ترقی کی ۔ بھاپ سے کام لیا جاتا رہا۔ اٹھارہویں صدی تک ایسی مشینیں بن چکی تھیں جو

کوئلے کی کانوں سے پانی باہر نکالنے کے کام آتی تھیں اور بھاپ کی طاقت سے چلتی تھیں ۔ ایک مرتبہ ایک ایسی ہی پمپنگ مشین میں کچھ خرابی پیدا ہوئی تو اس وقت کے سائنسدان جیمز واٹ سے کہا گیا کہ وہ اسے ٹھیک کرے۔ اس وقت جیمز واٹ کی عمر 28 سال تھی اور وہ لندن میں اوزار بنانے کا کام سیکھ چکا تھا۔ واٹ کو یہ مشین ٹھیک کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہوئی بلکہ اس کے ذہن میں بھاپ کی طاقت سے چلنے والے ایک ایسے انجن کا خیال آیا جو کئی مفید کام کر سکے۔ مشین کے معائنے کے بعد سے واٹ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ایسے انجن میں بھاپ بڑی مقدار میں خرچ ہوگی ۔ وہ اب ایسی تراکیب پر غور کر رہا تھا جس سے بھاپ کے خرچ میں کمی کی جاسکے۔ غور و فکر کرنے کے نتیجے میں اسے معلوم ہوا کہ اب تک ایسے انجن بنائے گئے ہیں ان میں سلنڈر کے ذریعے ایک غیر ممکن کام کو انجام دیا گیا تھا۔ اس پر منکشف ہوا کہ جمع شدہ بھاپ کا درجہ حرارت به حالت عمل کم ہونا چاہئے۔ البتہ سلنڈر کا درجہ حرارت اتنا ہی ہو جتنا اس میں داخل ہو نیوالی بھاپ کا ہوتا ہے۔ غرض اس نے اس مقصد کی تکمیل کیلئے ایک نئی چیز ایجاد کی جسے آلہ تکلیف یا کنڈنسر کا نام دیا گیا۔ اس کے لئے پانی سے ٹھنڈا ہوتے رہنے کا انتظام بھی کر دیا گیا جبکہ سلنڈر کو بدستور گرم رہنے دیا گیا۔ اس اصول کے مطابق واٹ نے جب ایک نیا بھاپ کا انجن تیار کیا تو وہ اس کی منشا کے مطابق کام کرنے لگا۔ اس انجن میں پہلے انجنوں کی نسبت صرف چوتھائی یا اس سے بھی کم بھاپ استعمال ہوتی تھی ۔ بعد ازاں واٹ نے اپنے اس انجن میں مزید اصلاحات کیں جس سے اس کا انجن جدید دور میں بجلی پیدا کرنے اور ذرائع نقل وحمل میں استعمال ہوا۔ واٹ نے اپنے انجن کا ایک ماڈل تیار کر کے 1769ء میں سرکاری طور پر اسے پیٹینٹ کرایا اور اس کی نقاب کشائی کرائی۔ اس کی یہ ایجاد جدید دور کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی ۔

16 دسمبر 1773ء کو بوسٹن کی بندرگاہ میں بہت سے جہاز چائے کے صندوقوں سے بھرے ہوئے کھڑے تھے۔ یہ چائے مشرقی ایشیا سے برآمد ک...
16/07/2023

16 دسمبر 1773ء کو بوسٹن کی بندرگاہ میں بہت سے جہاز چائے کے صندوقوں سے بھرے ہوئے کھڑے تھے۔ یہ چائے مشرقی ایشیا سے برآمد کی جاتی تھی ۔ عموماً بوسٹن کی بندرگاہ پر جہازوں پر سے سامان ریڈ انڈین مزدور اتارتے تھے۔ اس دن صبح بوسٹن شہر کے انقلابیوں نے جو چائے پر لگائے جانے والے ناقابل برداشت محصول وہ اس کے خلاف تھے۔ ریڈ انڈین مزدوروں کا بھیس بدلا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے تین جہازوں پر چائے کے صندوق اتارنے کے بہانے چڑھ گئے۔ پھر احتجاجاً چائے سے بھرے ہوئے صندوق جن کی مالیت ہزاروں پونڈ تھی جہاز سے نیچے سمندر میں پھینکنے لگے اور بہت جلد لاکھوں پونڈ مالیت کی چائے سمندر برد کر دی گئی۔ امریکہ کی تاریخ میں چائے کے صندوقوں کو جہازوں سے سمندر میں گرائے جانے کا یہ واقعہ بوسٹن ٹی پارٹی“ کہلاتا ہے۔ اس میں عوام نے بھی احتجاجیوں کا ساتھ دیا۔ برطانیہ کی امریکی نو آبادیوں کی تجارت پر برطانیہ ہی کی اجارہ داری تھی ۔ 765 میں برطانیہ نے شمالی امریکہ لائی جانے والی اشیا تجارت پر شدید ترین محصول نافذ کر دیا جس کے خلاف شدید رد عمل ہوا۔ اور امریکی ریاستوں میں اس کے خلاف احتجاج ہوا۔ جس کے نتیجے میں بہت سی اشیائے تجارت سے یہ محصول اٹھا لیا گیا مگر چائے پر یہ ٹیکس برقرار رکھا گیا۔ 1773ء میں چائے پر عائد کردہ اس ٹیکس کے خلاف بھی شدید مظاہرے ہوئے پھر بوسٹن کی بندرگا و پر احتجاج کرنے والے شہریوں نے ریڈ انڈین مزدوروں کے لباس میں چائے کے جہازوں پر دھاوا بول دیا۔ ادھر حکومت برطانیہ نے احتجاج کرنے والوں کی مزاحمت کے خلاف جبر و طاقت کا استعمال کیا اور بوسٹن میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ امریکی آباد کاروں نے اس حکومتی جبر کے خلاف جدو جہد تیز کر دی اسی وجہ سے بوسٹن ٹی پارٹی کے واقعہ کو ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ برطانیہ نے 1774ء میں ایک قانون منظور کرایا جو کوئیک ایکٹ کہلاتا ہے۔ اس کے مطابق شمالی امریکہ میں کوہستان ایلجنی کے آگے کی تمام زمینیں کینیڈا میں شامل کر دی گئیں۔ گویا امریکی آبادیوں کے لیے مغرب کی طرف توسیع کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ ان نا قابل برداشت قوانین کا نتیجہ یہ نکلا کہ بوسٹن کی بندرگاہ پر تجارت روک دی گئی۔ اس طرح میسا چوسٹس کے انتخابات معطل کر دیے گئے۔ 1775ء میں احتجاجی کسانوں پر گولیاں چلائی گئیں۔ یہ امریکی انقلاب آزادی کی ابتدا تھی۔ بوسٹن چائے پارٹی کو انقلاب آزادی امریکہ کا پیش خیمہ قرار دیا جاتا ہے۔

وہابیہ یا الموحدون ایک اسلامی جماعت ہے، جس کی بنیاد شیخ محمد بن عبد الوہاب نے 1750ء میں رکھی تھی۔ یہ نام اس جماعت ( فرقے...
15/07/2023

وہابیہ یا الموحدون ایک اسلامی جماعت ہے، جس کی بنیاد شیخ محمد بن عبد الوہاب نے 1750ء میں رکھی تھی۔ یہ نام اس جماعت ( فرقے) کو اس کے مخالفوں نے دیا ہے۔ اور اکثر یورپی مصنفین نے اسے استعمال کیا ہے۔ خود عرب میں اس جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد اس نام کو نہیں اپناتے ، بلکہ وہ اپنے لئے "الموحدون" کا لقب پسند کرتے ہیں اور خود کو سنی سمجھتے ہیں۔ وہ امام احمد بن حنبل کے مسلک کا حسب تشریح امام ابن تیمیہ کی اتباع کرتے ہیں۔ آج بھی سعودی عرب کا سرکاری مسلک حنبلی ہی ہے۔ شیخ محمد بن الوہاب عینیہ، نجد میں 1703ء میں پیدا ہوئے ۔ بچپن میں اپنے والد بزرگوار سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ کم سنی ہی میں آپ نے قرآن پاک کے ساتھ ساتھ حدیث کی بھی کئی کتابیں حفظ کرلی تھیں۔ کم سنی میں آپ کی شادی ہو گئی۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو سنان سے تھا، جو بنی تمیم کی ایک شاخ ہے۔ موسٹس کے اصول و عقائد: شیخ ابن عبد الوہاب کا اس تحریک کی موسیس کے اصول عقائد شیخ عبد لوہاب کا اس تحریک کی تاسیس سے ان تمام بدعات کو مسلمانوں سے دور کرنا تھا جو تیسری صدی ہجری کے بعد عالم اسلام میں پھیلی تھیں ۔ اس لئے وہابیہ صحاح ستہ کو مسلم الثبوت سمجھتی اور چاروں مذاہب سنت و الجماعت کو اصولاً درست تسلیم کرتی ہے۔ شیخ صاحب اور ان کے متبعین کی تصنیفات میں تقریبا سارا جھگڑا مبتدعین کے ساتھ ہے جن کی ظاہری رسوم سے انہیں اختلاف ہے۔ شاندار پختہ مقابر کی تعمیر اور ان کے بطور مساجد استعمال اور ان کی زیارت برائے استعانت ان کے نزدیک نا پسندیدہ ہے۔

روضتہ الافکار میں ان رسوم و رواج کی فہرست دی گئی ہے جو شیخ صاحب کے زمانے میں عرب میں عام پائے جاتے تھے اور جن میں بت پرستی کا شائبہ پایا جاتا تھا۔ زیارت قبول کے علاوہ بعض درختوں کو مقدس سمجھ کر ان کا احترام کیا جاتا تھا اور قبروں پر کھانوں کی نیاز چڑھائی جاتی تھی ۔

مورخین نے ان بدعات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ دینی کتابوں کو بہت بڑے پیمانے پر جلانے کا الزام بھی اس جماعت پر عائد کیا ہے۔ مگر خود شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ان کے مقتدین نے اس الزام کو محض بہتان قرار دیا ہے مگر ان کے بعض پیرو کتاب روضہ الریاحین کے جلائے جانے کا اعتراف کرتے ہیں مگر کتاب دلائل الخیرات کے جلائے جانے کو نہیں مانتے۔

جون 1756ء میں نواب بنگال ، سراج الدولہ نے جو فرانسیسیوں کا حلیف تھا، ایک سو چھیالیس، 146 انگر یز قیدیوں کو ایک چھوٹے سے ...
15/07/2023

جون 1756ء میں نواب بنگال ، سراج الدولہ نے جو فرانسیسیوں کا حلیف تھا، ایک سو چھیالیس، 146 انگر یز قیدیوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کر وا دیا۔ جس کی صرف چھوٹی چھوٹی دو کھڑکیاں تھیں۔ اس کے نتیجے میں کلکتہ میں حادثہ بلیک ہوا یا کال کوٹھڑی رونما ہوا۔ یورپی مورخین نے نواب صاحب کو ظالم اور بے رحم ثابت کرنے کیلئے اس واقعہ کو بہت اچھالا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک انگریز افسر نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے۔ انتہائی گرمی کا موسم تھا اور رات کو بھی غیر معمولی جس تھا۔ قیدیوں کے

جسم ایک دوسرے سے بری طرح رگڑ کھا رہے تھے ۔ جو نہی دروازہ بند ہوا، گرمی ناقابل برداشت ہو گئی۔ قیدیوں کو یقین ہو گیا کہ خوفناک قید خانے میں رات گزارنا اور زندہ رہنا ناممکن ہے۔ دروازہ توڑنے کی کوششیں کی گئیں مگر نہ ٹوٹ سکا ، کیونکہ اندر کی طرف کھلتا تھا۔ دروازہ بند ہونے اور اس اسیری کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ مسلسل اور بے اندازہ پسینہ نکلنا شروع ہو گیا۔ جس سے نا قابل برداشت تشنگی شروع ہوگئی ۔ پھر سینے میں نہایت اذیت ناک درد اٹھنے لگا۔ دم گھٹنے کے باعث سانس لینے میں دقت محسوس ہونے لگی. دو بجے رات تک پچاس سے زیادہ آدمی زندہ نہ بچے، لیکن یہ تعداد بھی اتنی زیادہ تھی کہ اس تنگ و تاریک کوٹھڑی میں ٹھیک سے سانس نہیں لے سکتی۔ تازہ ہوا اور زندگی کیلئے کشمکش صبح تک

جاری رہی۔ صبح جب نواب کا بھیجا ہوا ایک افسر آیا اس کے پاس قید خانہ کھول دینے کا حکم تھا۔ دروازہ کھولا گیا تو مردے کو ٹھری میں بری طرح بھرے ہوئے تھے اور زندوں میں بھی بہت کم قوت باقی رہ گئی تھی ۔ تقریبا نصف گھنٹے تک مردوں کو باہر نکالا جاتا رہا کیونکہ مردے دروازے کے ساتھ لگے ہوئے تھے جب تک انہیں ہٹایا نہ جاتا کسی کیلئے باہر آنے کا راستہ نہیں تھا۔ ایک سو چھیالیس آدمی بند کئے گئے تھے۔ لیکن صرف 23 آدمی زندہ بچے اور ان شکلیں بھی حد درجہ بھیانک ہو گئیں تھیں ۔

Address

Lahore Sheikhupura Pakistan

39350

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when JOGI VOICE posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to JOGI VOICE:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share