
07/11/2024
سولہویں صدی میں،
زیادہ تر لوگ انگلینڈ میں جون کے مہینے میں شادی کرتے تھے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ عام طور پر اپنا سالانہ غسل مئی کے مہینے میں لیتے تھے،
جس کا مطلب یہ تھا کہ جون میں وہ نسبتا صاف ستھرے ہوتے تھے۔
تاہم، جیسے جیسے وقت گزرتا، بدن کی بدبو واپس آنے لگتی۔
اسی لیے دلہنیں اپنے ساتھ پھولوں کے گلدستے لے کر چلتی تھیں
تاکہ جسم سے آنے والی کسی بھی بدبو کو چھپایا جا سکے۔
غسل کرنے کے لیے بڑی بڑی لکڑی کی بالٹیاں استعمال کی جاتی تھیں
جنہیں گرم پانی سے بھرا جاتا تھا۔
گھر کے سربراہ، یعنی والد کو سب سے پہلے صاف پانی میں نہانے کا حق حاصل ہوتا تھا۔
اس کے بعد گھر کے مرد، پھر خواتین،
پھر بچے، اور آخر میں نوزائیدہ بچوں کو اسی پانی میں نہلایا جاتا تھا۔
اس ترتیب کی وجہ سے پانی اتنا گندا ہو جاتا تھا
کہ اس میں کوئی چیز گم ہو جائے تو ڈھونڈنا ناممکن ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ ایک انگریزی محاورہ
"Don’t throw the baby out with the bathwater"
وجود میں آیا، جس کا مطلب ہے کہ ناپسندیدہ چیزوں کو نکالتے ہوئے کسی قیمتی چیز کو ضائع نہ کریں۔
یہ رسم و رواج اُس دور کی صفائی ستھرائی اور صحت کے معیار کی عکاسی کرتے ہیں۔
یورپی لوگ جو چند صدیوں پہلے زندہ تھے، یہ مانتے تھے
کہ نہانے سے جسمانی اور صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
یہاں تک کہ ان کا ماننا تھا کہ وہ بچے جو زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں،
ان کے جسم کمزور ہو جاتے ہیں۔
اُس دور میں زیادہ تر یورپی صرف دو مواقع پر غسل کرتے تھے:
شادی کی تیاری کے لیے یا بیماری کی حالت میں۔
👑 الحمدللہ اسلام کی نعمت پر