Alshafi Online Quran Academy

Alshafi Online Quran Academy If you want to teach your children the best of Quran, then contact us. Thank you

03/01/2023

09/12/2022

حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: " اللہ تعالیٰ (حدیث قدسی ) میں ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ (یعنی میرے قبضہ قدرت ) میں ہیں؛ لہٰذا جب میرے (اکثر ) بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (ظالم ) بادشاہوں کے دلوں کو رحمت وشفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (عادل ونرم خو) بادشاہوں کے دلوں کو غضب ناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ (بادشاہ ) ان کو سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں، اس لیے (ایسی صورت میں ) تم اپنے آپ کو ان بادشاہوں کے لیے بدعا کرنے میں مشغول نہ کرو، بلکہ (میری بارگاہ میں تضرع وزاری کر کے اپنے آپ کو (میرے ) ذکر میں مشغول کرو، تاکہ میں تمہارے ان بادشاہوں کے شر سے تمہیں بچاؤں ۔" اس روایت کو ابونعیم نے اپنی کتاب حلیۃ الاولیاء میں نقل کیا ہے ۔"

نوٹ۔۔۔
اس حدیث سے معلوم ہوا ہماری نا فرمانیوں ہی کی وجہ سے ہم مشکلات میں آتے ہیں اور ہمارے اوپر سخت حکمران مسلط ہوتے ہیں اس لیے ایک دوسرے کو گالی طعنہ زنی سے دور ہو کر اللہ کی فرمانبرداری میں ہم سب لگ جاٸیں تا کہ اللہ ہم پر کرم فرماٸے جیسا کہ حدیث میں موجود ہے

09/12/2022

لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 1

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿۱﴾

ترجمہ کنز الایمان :

اے لوگو ! (ف ٢) اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا (ف ٣) اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو (ف ٤) بیشک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے ،

تفسیر صراط الجنان :

یٰاَیُّہَا النَّاسُ : اے لوگو۔} اس آیت مبارکہ میں تمام بنی آدم کو خطاب کیا گیا ہے اور سب کو تقویٰ کا حکم دیا ہے۔ کافروں کیلئے تقویٰ یہ ہے کہ وہ ایمان لائیں اور اعمال صالحہ کریں اور مسلمانوں کیلئے تقویٰ یہ ہے کہ ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اعمال صالحہ بجالائیں۔ ہر ایک کو اس کے مطابق تقویٰ کا حکم ہوگا۔ اس کے بعدیہاں چند چیزیں بیان فرمائیں : (1)۔۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جان یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا۔
(2)۔۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود سے ان کا جوڑا یعنی حضرت حوا (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔
(3)۔۔ انہی دونوں حضرات سے زمین میں نسل درنسل کثرت سے مرد و عورت کا سلسلہ جاری ہوا۔
(4)۔۔ چونکہ نسل انسانی کے پھیلنے سے باہم ظلم اور حق تلفی کا سلسلہ بھی شروع ہوا لہٰذا خوف خدا کا حکم دیا گیا تاکہ ظلم سے بچیں اور چونکہ ظلم کی ایک صورت اور بدتر صورت رشتے داروں سے قطع تَعَلُّقی ہے لہٰذا اس سے بچنے کا حکم دیا۔
انسانوں کی ابتداء کس سے ہوئی ؟:
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسانوں کی ابتداء حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی اور اسی لیے آپ (علیہ السلام) کو ابوالبشر یعنی انسانوں کا باپ کہا جاتا ہے۔ اور حضرت آدم (علیہ السلام) سے انسانیت کی ابتداء ہونا بڑی قوی دلیل سے ثابت ہے مثلاً دنیا کی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ آج سے سو سال پہلے دنیا میں انسانوں کی تعداد آج سے بہت کم تھی اور اس سے سو برس پہلے اور بھی کم تو اس طرح ماضی کی طرف چلتے چلتے اس کمی کی انتہاء ایک ذات قرار پائے گی اور وہ ذات حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں یا یوں کہئے کہ قبیلوں کی کثیر تعداد ایک شخص پر جاکر ختم ہوجاتی ہیں مثلاً سیّد دنیا میں کروڑوں پائے جائیں گے مگر ان کی انتہا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک ذات پر ہوگی، یونہی بنی اسرائیل کتنے بھی کثیر ہوں مگر اس تمام کثرت کا اختتام حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی ایک ذات پر ہوگا۔ اب اسی طرح اور اوپر کو چلنا شروع کریں تو انسان کے تمام کنبوں ، قبیلوں کی انتہا ایک ذات پر ہوگی جس کا نام تمام آسمانی کتابوں میں آدم (علیہ السلام) ہے اور یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک شخص پیدائش کے موجود طریقے سے پیدا ہوا ہو یعنی ماں باپ سے پیدا ہوا ہو کیونکہ اگر اس کے لیے باپ فرض بھی کیا جائے تو ماں کہاں سے آئے اور پھر جسے باپ مانا وہ خود کہاں سے آیا ؟ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی پیدائش بغیر ماں باپ کے ہو اور جب بغیر ماں باپ کے پیدا ہوا تو بالیقین وہ اس طریقے سے ہٹ کر پیدا ہوا اور وہ طریقہ قرآن نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مٹی سے پیدا کیا جو انسان کی رہائش یعنی دنیا کا بنیادی جز ہے۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب ایک انسان یوں وجود میں آگیا تو دوسرا ایسا وجود چاہیے جس سے نسل انسانی چل سکے تو دوسرے کو بھی پیدا کیا گیا لیکن دوسرے کو پہلے کی طرح مٹی سے بغیر ماں باپ کے پیدا کرنے کی بجائے جو ایک شخص انسانی موجود تھا اسی کے وجود سے پیدا فرما دیا کیونکہ ایک شخص کے پیدا ہونے سے نوع موجود ہوچکی تھی چنانچہ دوسرا وجود پہلے وجود سے کچھ کم تر اور عام انسانی وجود سے بلند تر طریقے سے پیدا کیا گیا یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کی ایک بائیں پسلی ان کے آرام کے دوران نکالی اور ان سے ان کی بیوی حضرت حوا (رض) کو پیدا کیا گیا۔ چونکہ حضرت حوا (علیہ السلام) مرد وعورت والے باہمی ملاپ سے پیدا نہیں ہوئیں اس لیے وہ اولاد نہیں ہوسکتیں۔ خواب سے بیدار ہو کر حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے پاس حضرت حوا (علیہ السلام) کو دیکھا تو ہم جنس کی محبت دل میں پیدا ہوئی ۔ مخاطب کرکے حضرت حوا (علیہ السلام) سے فرمایا تم کون ہو ؟ انہوں نے عرض کیا : عورت۔ فرمایا : کس لیے پیدا کی گئی ہو ؟ عرض کیا : آپ (علیہ السلام) کی تسکین کی خاطر، چنانچہ حضرت آدم (علیہ السلام) ان سے مانوس ہوگئے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ : ١، ١/٣٤٠)
یہ وہ معقول اور سمجھ میں آنے والا طریقہ ہے جس سے نسل انسانی کی ابتداء کا پتہ چلتا ہے۔ بقیہ وہ جو کچھ لوگوں نے بندروں والا طریقہ نکالا ہے کہ انسان بندر سے بنا ہے تو یہ پرلے درجے کی نامعقول بات ہے۔ یہاں ہم سنجیدگی کے ساتھ چند سوالات سامنے رکھتے ہیں۔ آپ پر ان پر غور کرلیں ، حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر انسان بندر ہی سے بنا ہے تو کئی ہزار سالوں سے کوئی جدید بندر انسان کیوں نہ بن سکا اور آج ساری دنیا پوری کوشش کرکے کسی بندر کو انسان کیوں نہ بنا سکی ؟ نیز بندروں سے انسان بننے کا سلسلہ کب شروع ہوا تھا ؟ کس نے یہ بنتے دیکھا تھا ؟ کون اس کا راوی ہے ؟ کس پرانی کتاب سے یہ بات مطالعہ میں آئی ہے ؟ نیز یہ سلسلہ شروع کب ہوا اور کب سے بندروں پر پابندی لگ گئی کہ جناب ! آئندہ آپ میں کوئی انسان بننے کی جرأت نہ کرے۔ نیز بندر سے انسان بنا تو دُم کا کیا بنا تھا ؟ کیا انسان بنتے ہی دُم جھڑ گئی تھی یا کچھ عرصے بعد کاٹی گئی یا گھسٹ گھسٹ کر ختم ہوگئی اور بہرحال جو کچھ بھی ہوا ، کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ دُم والے انسان پائے جاتے تھے۔ الغرض بندروں والی بات بندر ہی کرسکتا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر میں جس بات کا شور مچایا ہوا ہے اس کی کوئی کَل سیدھی نہیں ، اس کی کوئی کَڑی سلامت نہیں ، اس کی کوئی تاریخ نہیں۔ بس خیالی مفروضے قائم کرکے اچھے بھلے انسان کو بندر سے جاملایا۔
{ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِی تَسَآءَلُونَ بِہٖ وَالاَرْحَامَ : اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو۔} ارشاد فرمایا کہ اس اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے مانگتے ہو یعنی کہتے ہو کہ اللہ کے واسطے مجھے یہ دو، وہ دو۔ نیز رشتے داری توڑنے کے معاملے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔
رشتے داری توڑنے کی مذمت :
قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ میں رشتہ داری توڑنے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَالَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہدَ اللہِ مِن وَسَلَّمَ کے بَعْدِ مِیثٰقِہٖ وَیَقْطَعُونَ مَا اَمَرَ اللہُ بِہٖ اَن یُّوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الاَرْضِ ۙ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ ﴿٢٥﴾ (رعد : ٢٥)
اور وہ جو اللہ کا عہد اسے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جسے جوڑنے کا اللہ نے حکم فرمایا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کیلئے لعنت ہی ہے اور ان کیلئے برا گھر ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والاہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔
(شعب الایمان، السادس والخمسون من شعب الایمان، ٦/٢٢٣، الحدیث : ٧٩٦٢)
اور حضرت ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے، حضورِ اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی جائے اور اس کے لیے آخرت میں بھی عذاب رہے وہ بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر نہیں۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ٥٧۔ باب، ٤/٢٢٩، الحدیث : ٢٥١٩)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ رشتے داری توڑنے سے بچے اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات جوڑ کر رکھنے کی بھرپور کوشش کرے۔

06/12/2022

Address

Chawinda
Sialkot
50420

Telephone

+923066180835

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Alshafi Online Quran Academy posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Alshafi Online Quran Academy:

Share