Aftab Butt

Aftab Butt A Learner "Welcome to my page! "As a writer and online skills trainer, I'm here to help you take your creativity and digital savvy to the next level.
(1)

I'm a writer My Book Name is (Just 15 minutes) and I am also a online skills trainer passionate My Online Training Name is (Just 15 Hours) about helping others achieve their goals. Whether you're looking to improve your writing, hone your digital marketing skills, or anything in between, you've come to the right place." Join me for tips, tricks, and insights on everything from crafting compelling

content to mastering the latest social media platforms." "Looking to up your writing game and sharpen your online skills? Look no further than this page! As a writer and trainer, I've got the expertise and experience to help you reach your full potential. Let's get started!"

Choose the one that fits your style and goals best, or use them as inspiration to create your own unique description. Good luck with your page!

28/07/2025

ایک غریب آدمی 3 بندوں کا بجلی کا بل ادا کرتا ہے۔
ایک اپنا، دوسرا جن کو مفت بجلی ملتی ہے،اور تیسرا جو بجلی چوری کرتے ہیں۔

26/07/2025

مہنگائی اس لئے قابو میں نہیں ا رہی کیونکہ جنہوں نے کنٹرول کرنا ہے ان کو سب مفت مل رہا ہے ۔۔۔

دوستو۔۔۔ ایک داستان، ڈاکٹر سعد اسلام کی زبانیہم کوسٹر میں 17 افراد سوار تھے۔ جب ہم نیچے اترے تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چ...
26/07/2025

دوستو۔۔۔ ایک داستان، ڈاکٹر سعد اسلام کی زبانی

ہم کوسٹر میں 17 افراد سوار تھے۔ جب ہم نیچے اترے تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔ پھر اچانک تیز ہوائیں چلنے لگیں اور زمین ہلنے لگی۔ ہم نے دیکھا کہ ایک خوفناک سیلابی ریلا ہمارے بالکل قریب آ چکا ہے۔ اس ریلے کے ساتھ پتھر، مٹی اور لکڑیاں بہتی آ رہی تھیں۔

میں نے فوراً اپنے والد محترم کا ہاتھ تھام لیا اور پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ میری والدہ کو میرے بھائی نے سنبھالا ہوا تھا جبکہ میری اہلیہ، ڈاکٹر مشعل فاطمہ، اور پانچ سالہ بیٹے ہادی کو ہماری گھریلو ملازمہ نے پکڑا ہوا تھا۔

اچانک ہم سب ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ ذہن ماؤف ہو گیا، جیسے سب کچھ رک سا گیا ہو۔

یہ داستان، جو ہم اُس وقت چلاس کے ریجنل ہسپتال کے آپریشن تھیٹر سے متصل راہداری میں سن رہے تھے، ہمیں ڈاکٹر سعد اسلام سنا رہے تھے—لودھراں سے تعلق رکھنے والے، شاہدہ اسلام میڈیکل کالج کے مالک۔ وہ بول رہے تھے، اور وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں نم تھیں۔ جب وہ اپنی کہانی سناتے ہوئے بار بار آنکھیں پونچھتے، تو پورے ماحول پر ایک گہرا سکوت چھا جاتا۔ ہر دل پر ایک بوجھ سا محسوس ہو رہا تھا۔

ڈاکٹر سعد بتا رہے تھے:
"ہماری زندگی میں پہلی بار ایسا لمحہ آیا تھا۔ جب سب ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، میں والد صاحب کا ہاتھ تھامے پانی میں کھڑا تھا، کہ اچانک وہ ہاتھ مجھ سے چھوٹ گیا۔ میں نے انہیں آواز دی، کہا کہ نیچے مت بیٹھیں، زمین کچی ہے۔"

"پلک جھپکتے میں دیکھا کہ میرے والد محترم میرے سامنے سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ وہ دل کے مریض بھی ہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میں بےبسی کی تصویر بن کر بیٹھا رہ گیا۔"

"جب پانی کچھ کم ہوا تو میں پہاڑ سے نیچے اترا۔ میرے جوتے سیلاب میں بہہ چکے تھے۔ آگے بڑھا تو والدہ کی آواز آئی، 'بیٹا آگے مت جاؤ!' میں نے پوچھا، 'آپ سب خیریت سے ہیں ناں؟' انہوں نے کہا، 'جی، ہم سب خیریت سے ہیں۔'"

"میں نے دوڑ لگائی تاکہ والد محترم کو تلاش کر سکوں۔ ننگے پاؤں، زخمی پاؤں کے ساتھ میں تقریباً دو کلومیٹر تک پیدل گیا۔ آگے ریسکیو 1122 کی گاڑی والد صاحب کو ہسپتال منتقل کر رہی تھی۔ میں نے چیخ کر کہا، 'یہ میرے والد ہیں، گاڑی روکیں!' مگر شاید وہ میری آواز نہ سن سکے۔"

"ریسکیو اہلکار جس محنت اور جذبے سے انہیں بچانے کی کوشش کر رہے تھے، وہ ان کا کمال تھا۔ وہ کیچڑ اور پتھروں کے بیچ سے گاڑی نکالتے ہوئے برق رفتاری سے ہسپتال کی جانب رواں تھے۔"

"کافی آگے جا کر وہ رُکے، اور یوں میں ریجنل ہسپتال چلاس پہنچا۔ والد کو ابتدائی طبی امداد دی گئی، اور میری بھی مرہم پٹی کی گئی۔ پھر میں واپس تھک ویلی کی طرف روانہ ہوا تاکہ اپنی فیملی سے دوبارہ مل سکوں۔"

"وہاں پہنچا تو امی نے بھائی کی خبر دی—’فہد اسلام سیلابی ریلے میں بہہ گیا ہے‘۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلا ہی نہ تھا کہ امی بولیں، 'تمہاری مسز، ڈاکٹر مشعل فاطمہ بھی سیلاب میں بہہ گئی ہیں۔'"

"اور پھر۔۔۔ جیسے میری روح ہی جسم سے جدا ہو گئی ہو۔۔۔ انہوں نے کہا، ’ہادی بھی۔۔۔‘ میرے پانچ سالہ بیٹے ہادی کو بچانے کے لیے پہلے مشعل فاطمہ نے چھلانگ لگائی، اور پھر انہیں بچانے کے لیے فہد بھی دریا کی بے رحم موجوں میں اتر گیا۔۔۔"

"بس۔۔۔ اُس وقت میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی۔"

"پھر ضلعی انتظامیہ، پولیس، مقامی لوگ—سب نے جس انداز میں ہمیں حوصلہ دیا، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ڈپٹی کمشنر دیامر کیپٹن (ر) عطاءالرحمان کاکڑ صاحب نے ہمیں اپنے گھر لے جاکر خود ہمارے ساتھ صبح سے رات گئے تک ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا۔"

---

ہر متاثرہ فرد کی کہانی مختلف تھی، مگر دکھ، اذیت، بےبسی اور غم سب کا مشترکہ احساس تھا۔ کسی نے اپنے پیاروں کو کھو دیا، کسی کا گھر، فصلیں اور زمینیں مٹ گئیں۔

یہ دنیا فانی ہے۔ نہ خوشیاں ہمیشہ رہتی ہیں، نہ غم۔ لیکن جب تک زندگی ہے، ایک دوسرے کے لیے آسانی کا ذریعہ بنیں۔ برا نہ سوچیں، برا نہ کریں۔

ذرا سوچیے۔۔۔!

25/07/2025

کروڑوں درود آپ اور آپ کی آل پر!
صلی اللہ علیہ وسلم

‏اور جب حاسد کا حسد مجھے نقصان پہچانے آئے تو اے اللّٰہ کریم مجھے اپنی امان میں رکھنا...آمین یا رب العالمین❤
25/07/2025

‏اور جب حاسد کا حسد مجھے نقصان پہچانے آئے
تو اے اللّٰہ کریم مجھے اپنی امان میں رکھنا...

آمین یا رب العالمین❤

24/07/2025

جب بنا فلٹر آپ خود کو پسند نہیں کرتے تو صاحب پھر دنیا سے کیسی ناراضگی

ہمارے بچے ہزار میں سے ہزار نمبر بھی لے لیں جب تک ان میں تخلیقی جوہر پیدا نہیں ہو گا وہ کچھ تخلیق نہیں کر سکیں گے، نہ ہی ...
24/07/2025

ہمارے بچے ہزار میں سے ہزار نمبر بھی لے لیں جب تک ان میں تخلیقی جوہر پیدا نہیں ہو گا وہ کچھ تخلیق نہیں کر سکیں گے، نہ ہی سماج بحساب مجموعی آگے بڑھ سکے گا
تخلیق کے لئے ضروری ہے مشاہدہ، مطالعہ، تجربہ اور تنقیدی سوچ جو یہاں پروان نہیں چڑھ سکتی 🤔

23/07/2025

شدید موسمی حالات کے باعث تمام لوگ15 ستمبر تک بالائی علاقوں میں جانے سے گریز کریں ☀️❄️💨

22/07/2025

استغفار ایسا دروازہ ہے جو اس میں داخل ہو جائے باقی تمام رحمتوں کے دروازے اس کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں

جاپانی حکمت میں درج ہے کہ؛ " اپنے اور استاد کے درمیان سات قدم کا فاصلہ رکھیں تاکہ آپ کا قدم آپ کے استاد کے سائے پر بھی ن...
22/07/2025

جاپانی حکمت میں درج ہے کہ؛
" اپنے اور استاد کے درمیان سات قدم کا فاصلہ رکھیں
تاکہ آپ کا قدم آپ کے استاد کے سائے پر بھی نہ پڑے۔"

جاپان میں تعلیم کی شرح (Literacy rate) ننانوے 99% فیصد اور جرائم کی شرح عرب ممالک کی طرح تقریباً صفر کے برابر ہے - جاپانی اپنے ہر بچے کو زبردستی تعلیم دلواتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے اگر یہ پڑھیں گے نہیں تو کل کو جرائم پیشہ بنیں گے -

اشفاق احمد اٹلی کی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، وہاں کسی وجہ سے ان کی گاڑی کا چالان ہوگیا، مصروفیات کی وجہ سے یہ بروقت چالان جمع نہیں کروا سکے تو انھیں عدالت میں پیش ہونا پڑا -
جج نے پوچھا: " آپ کیا کام کرتے ہیں جس وجہ سے آپ چالان بروقت جمع نہیں کروا سکے؟ "
اشفاق احمد نے کہا : "میں پروفیسر ہوں یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں "
جج یہ کہتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا کہ : "استاد محترم کمرہ عدالت میں موجود ہیں Respected Teacher is in the court
جج کی یہ بات سن کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگ بھی استاد کے احترام میں اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے -
عدالتی کارروائی کے بعد جج سمیت یہ تمام لوگ اشفاق احمد کو باہر پارکنگ میں ان کی گاڑی تک چھوڑنے آئے اور تب تک اندر نہیں گئے جب تک کہ ان کی گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی -
اٹلی میں شرح تعلیم تقریباً سو 100% فیصد ہے-

علم اور معلم کی قدر جاننے والی قومیں اپنا ملکی پیسہ تعلیم پر دل کھول کر خرچ کرتی ہیں اور اساتذہ کو اپنے سرو‍ں کا تاج بنا کر رکھتی ہیں -
آج دنیا کی امامت اور قیادت وہی قومیں کررہی ہیں جو دوسری قوموں سے علمی میدان میں آگے ہیں -

Punjab Mobile Academy proudly organized a beautiful event showcasing the incredible success of its students. Under the e...
21/07/2025

Punjab Mobile Academy proudly organized a beautiful event showcasing the incredible success of its students. Under the expert guidance of CEO Sir Abdullah,

Who passionately teaches advanced mobile repairing skills, students are transforming into earning hands and valuable contributors to society.

This event highlighted their talent, dedication, and the Academy's mission to empower youth through practical education and self-reliance.

ایک سپاہی نے اپنے کمانڈر سے کہا: "سر، میرا دوست میدان جنگ سے واپس نہیں آیا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اسے ڈھونڈ...
19/07/2025

ایک سپاہی نے اپنے کمانڈر سے کہا: "سر، میرا دوست میدان جنگ سے واپس نہیں آیا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اسے ڈھونڈنے کی اجازت دیں!"

کمانڈر نے کہا: "اجازت نہیں دی جاتی، میں نہیں چاہتا کہ تم اپنی زندگی خطرے میں ڈالو، شاید وہ پہلے ہی مر چکا ہو۔"

سپاہی نے اپنے کمانڈر کی ممانعت کی پروا نہ کرتے ہوئے میدان جنگ کی طرف چل پڑا۔ ایک گھنٹے بعد، وہ زخمی حالت میں واپس آیا، اپنی موت کے دہانے پر، اپنے دوست کی لاش کو اٹھائے ہوئے۔

کمانڈر نے فخر سے کہا: "میں نے تم سے کہا تھا کہ وہ مر چکا ہوگا، بتاؤ کیا وہ واقعی اس قابل تھا کہ تم اپنی جان خطرے میں ڈالتے؟"
سپاہی نے جواب دیا: "بلا شبہ، جب میں نے اسے پایا، وہ ابھی زندہ تھا، اور وہ مجھ سے کہہ سکا، 'مجھے یقین تھا کہ تم ضرور آؤ گے۔'"

دوستی ایسی روحوں کا تعلق ہے جو ایک دوسرے کے لیے جان نچھاور کرتی ہیں۔

Address

Sialkot

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aftab Butt posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Aftab Butt:

Share