
31/07/2025
"بلاسفیمی پروٹیکشن گینگ" اور بی بی سی کا جھوٹ۔۔ فیکٹ چیک۔
برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے BBC کے تحت چلنے والی BBC URDU ویب سائٹ پر......
"خواتین سے دوستی، واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا: توہینِ مذہب کے مقدمات میں گرفتار پاکستانی نوجوانوں کی کہانیاں اور الزامات"
کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی گئی۔ جس کو BBC کے فلیگ شپ پروگرام "سیربین" کا بھی حصہ بنایا گیا۔
حیرت انگیز طور پر، بظاہر معتبر سمجھا جانے والے BBC کی یہ رپورٹ سراسر غلط بیانی پر مشتمل ہے۔
رپورٹ کا آغاز "عمران" نامی شخص کی انتہائی پُر اثر انداز میں بیان کردہ کہانی سے ہوتا ہے، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ دبئی میں ملازمت کرتا تھا، پاکستان آنے پر اُسے توہینِ رسالت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اُس کی والدہ کے حوالے سے بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر اُس کی ایک خاتون سے گپ شپ ہو گئی تھی۔ اُس خاتون نے اُسے ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا، جس میں توہین آمیز مواد آیا۔ اِس "معصوم" نے خاتون کے کہنے پر وہ مواد اُس کو فارورڈ کر دیا۔
پھر FIA نے اُسے گرفتار کر لیا۔ وغیرہ والی روایتی کہانی۔۔۔۔۔۔
اب آئیے!
جس اڈیالہ جیل میں قید فرضی نام "عمران" کی کہانی BBC نے مؤثر انداز میں بیان کر کے عوام کے دلوں میں اُس کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے—اُس کی تھوڑی سی حقیقت جان لیتے ہیں۔
ریکارڈ کے مطابق دبئی سے چھٹی آنے کے بعد گرفتار ہو کر اڈیالہ جیل میں موجود واحد شخص "جہانزیب" ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے FIA کی مصدقہ رپورٹ کے مطابق اس کا پورا نام "جہانزیب ولد عابد حسین" ہے۔ اس کے خلاف 17-04-2024 کو ایف آئی آر درج کی گئی، جبکہ اُسے 17-04-2024 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے Samsung Galaxy A21s ماڈل کا موبائل فون برآمد کر کے اس کی 34 صفحات کی ٹیکنیکل اور 101 صفحات کی فرانزک رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔
فرانزک شواہد کے مطابق یہ شخص Syed Faizan Shah, Faizi Shah, Parvati Devi, Meher Begum, Zakira Shagufta, Dolfin Doll کے ناموں سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلاتا تھا۔
توہین آمیز مواد کو پھیلانے کے لیے یہ Facebook کا پلیٹ فارم استعمال کرتا تھا۔
یہ بلاسفیمی مواد والے گروپس کا ایڈمن بھی تھا اور توہین آمیز مواد خود تخلیق بھی کرتا تھا (Content Creator, Group Admin)۔
یہ جن فیس بک گروپس کا ایڈمن تھا، اُن کے نام "DHARMICK MAZHBI BEHNEIN", "Mazhabi Randiya" & "Darasga" ہیں۔
اس کے پھیلائے گئے توہین آمیز مواد میں گروپ پوسٹ، پرسنل میسجز، پبلک ویڈیوز، اور تصاویر شامل ہیں۔
اس کے خلاف درخواست دینے والے کا نام "محمد عثمان صدیقی" ہے، اور اُس نے اپنے فیس بک آئی ڈی سے ہی مسلسل اس کی جانب سے توہین آمیز مواد نظر آنے پر FIA سے رجوع کیا۔ اپنی آئی ڈی اور پاسورڈ ایف آئی اے کے حوالے کیا، جس سے ایف آئی اے نے مواد حاصل کیا۔ پھر ملزم کی گرفتاری کے بعد اُس کے موبائل فون سے فیس پر شیئر ہونے والے تمام مواد کی فرانزک ٹیسٹ میں تصدیق بھی ہوگئی۔
اس فرضی نام "عمران" اور اصل نام "جہانزیب والد عابد حسین" کے خلاف FIR, گرفتاری، ریکوری، فرانزک شواہد کے پورے عمل میں کہیں بھی "واٹس ایپ" کا ذکر ہی موجود نہیں ہے۔ (ایف آئی اے کی دستاویز پوسٹ کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔
لیکن BBC نے کیس کی حقیقت اور اس کے شواہد جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔۔ یا پھر صرف ایک مخصوص بیانیے کو تقویت دینے کے لیے حقائق کے منافی، یکطرفہ کہانی کو ایجنڈے کے تحت پھیلایا ہے۔
دونوں صورتوں میں، یہ صحافتی بددیانتی کی انتہائی گھناؤنی مثال ہے۔
سوشل میڈیا پر تو درجنوں کہانی کار روزانہ کی بنیاد پر ایسی جھوٹی کہانیاں پھیلا کر عام لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے۔ اب اُن کا دروغ گوئی پر مبنی "بیانیہ" غیر مقبول ہونا شروع ہو گیا تو پھر BBC کو خود میدان میں آنا پڑا۔
ان شا اللہ ہم ان کے جھوٹ اور بے بنیاد کہانیوں کو دلیل اور حقائق کی بنیاد پر بے نقاب کرتے رہیں گے۔