23/07/2025
*جمعیت اساتذہ پاکستان کے سالانہ کنونشن کی مکمل روداد*
*تحریر: جناب محمد اقبال شاہد صاحب, نائب صدر جمعیت اساتذہ پاکستان پنجاب*
حسب روایت اس سال بھی جمعیت اساتذہ
پاکستان نے پاکستان بھر کے اساتذہ کی نظریاتی تربیت اورسیاحت کا پروگرام بھوربن مری کے پر فضا مقام پر ترتیب دیا. اس بار پروگرام زیادہ وسیع، موثر اور مربوط تھا. انتظامیہ نےاپنی بھر پور کوشش سے اساتذہ کے لیے فائدہ مند بنانے کی کوشش کی.پہلی بار ملکی سطح پر ہونے کی وجہ سے شرکاء کی تعداد بھی زیادہ تھی.
موضوعات گفتگو اور مقررین کا انتخاب انتہائی شاندار تھا. خصوصاً جناب قاری محمد رفیق صاحب کا ختم نبوت کے حوالے سے ایمان افروز بیان تھا. جناب پروفیسر ڈاکٹر حافظ بدرصاحب بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی نے اپنے موضوع"ہمارا نظام تعلیم اور نئی نسل کی ترجیحات" سے پورا پورا انصاف کیا اور شرکاء کو بے حد متاثر کیا. موجودہ نظام تعلیم کا تاریخی پس منظر، ملا اور مسٹر میں تفریق سے ہندوستانی سماج میں تقسیم اور دور جدید میں عصری اداروں کے طلباء میں تشکیک اور بے مقصدیت پر سیر حاصل گفتگو فرمائی.
سابق مشیر وزیر اعلیٰ کے پی کے اور سابق سیکرٹری تعلیمی کمیشن کے پی کے محترم جناب محمد رحیم حقانی صاحب کی گفتگو کا موضوع "ففتھ جنریشن وار، چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں" انتہائی حساس موضوع تھا اور اس موضوع کے انتخاب پر انتظامیہ کو داد نہ دینا زیادتی ہو گی. پھر گفتگو کے لیے شخصیت کا انتخاب بھی لاجواب تھا. جنھوں نے بھرپور تیاری کے ساتھ اپنے موضوع کا حق ادا کر دیا Facts and figures کے ساتھ ایسے حقائق منکشف کیے کہ جن سے نہ صرف ریاست پاکستان کے حالات سمجھنے میں آسانی پیدا ہوئی بلکہ عالمی قوتوں کے ارادوں کا بھی ہوش رباانکشاف ہوتا چلا گیا. انداز گفتگو بڑا پروقار تھا. گفتگو کے بعد حاضرین کے ساتھ بے تکلفانہ انداز متاثر کن تھا.
حسب سابق سٹڈی سرکلز کا اہتمام کیا گیا. چار ڈیسک بنائے گئے اور مندرجہ ذیل موضوعات دئیے گئے
1-ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کے تدریسی عمل پر اثرات.
2-عصری اداروں میں اسلامی اقدار کے احیاء کی ممکنہ تجاویز.
3-عصری اداروں میں طلباء کو درپیش فکری چیلنجز کا احاطہ اور ان کے حل کے لیے تجاویز.
4- AIٹولز کے طلباء کی تعلیمی صلاحیت پر مثبت/منفی اثرات.
سب سے پہلے تو چاروں موضوعات کا انتخاب کسی حاضر دماغ اور دور جدید سے آگاہ شخص کی محنت کا ثمر ہے. اور شرکاء کی دلچسپی فطری تھی. سب شرکاء نے بھرپور حصہ لیا اور اپنا اپنا ان پٹ دیا.
محفل مشاعرہ پروگرام کا منفرد حصہ تھا جس میں پختہ کار شعراء کرام جناب وحیدالرحمان ناوک صاحب اور جناب عابد ظہور صاحب کا کلام براہ راست سننے اور سر دھننے کا موقع ملا.
قیام و طعام کا نظم بہت اچھا تھا خصوصاً اس عمل میں باہمی معاونت، ایک دوسرے کا احترام، ہر ایک کا خدمت میں آگے آگے ہونا مضبوط نظریاتی تعلق کا آئینہ دار تھا.
اس بار پروگرام کو ملکی سطح تک وسعت دینے کی کوشش کی گئی. چنانچہ کے پی کے کے ضلع سوات اور پشاور سے احباب تشریف لائے ہر ایونٹ میں حصہ لیا اور اسی نہج پر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا. صوبائی کنوینیئر کے پی کے جناب احمد علی درویش صاحب نے پروگرام کو سراہا اور اپنے صوبے میں جماعت کو منظم کرنے کے عزم کا اظہار کیا.
صوبہ بلوچستان کے کنوینیئر جناب آغا عتیق الرحمن صاحب قلات سے تشریف لائے. انتہائی ملنسار اور سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک ایک مضبوط نظریاتی دوست نے بھی صوبہ بلوچستان میں تنظیم کو منظم کرنے کا ارادہ کیا.
جمعیت علمائے اسلام کی صوبائی قیادت نے بھی سرپرستی فرمائی اور خصوصی طور پر جناب حافظ غضنفر عزیز صاحب سیکرٹری اطلاعات اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود تشریف لائے اور احباب سے گھل مل گئے. ان کے ساتھ جناب عامر حفیظ صاحب ناظم بہاولپور سے بھی شرف ملاقات ہوا.
اسلام آباد سے پروفیسر صاحبان نے کی شرکت جہاں ان کی نظریاتی وابستگی کا مظہر تھی وہیں دور دراز سے آئے مہمانوں کے لیے بھی باعث تسکین تھی.
امیر پنجاب جناب مفتی حفظ الرحمن صاحب نے دوستوں کی خدمت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی. اپنے صاحب زادگان سمیت دور دراز سے آئے مہمانوں کے قیام، طعام، آرام اور تربیت پر ہر آن مستعد نظر آئے. ایک قائد کی تمام قائدانہ صلاحیتوں سے مزین، منکسر المزاج شخصیت کے مالک جن کے ہر ہر قول و عمل سے ساتھیوں کے لیے پیار جھلکتا تھا.
صوبائی سیکرٹری اطلاعات جناب مولانا ابوبکر شاکر صاحب حسب سابق انتظامی امور میں پیش پیش رہے.
صوبائی جنرل سیکرٹری جناب حافظ مولانا محمد احمد صاحب بھی مسلسل مصروف کار رہے.
قائد مرکزیہ کے ہمدم دیرینہ، جمعیت اساتذہ پاکستان کی فکری اساس، خوش گلو و خوش لباس اس سارے پروگرام میں اپنی پوری آب و تاب سے چمکنے اور چہکنے والے جناب کلیم احمد لدھیانوی صاحب مرکز نگاہ خاص و عام رہے. یقیناً ان کے بغیر امیر محترم اپنے آپ کو ادھورا محسوس کرتے.
جمعیت اساتذہ پاکستان کے مرکزی صدر جناب ڈاکٹر عبدالخالق وٹو صاحب کی ذہنی و عملی کاوشوں کا نتیجہ، جنھوں نے آزاد کشمیر سمیت پورے پاکستان سے رابطہ رکھا، پروگرام ترتیب دیا اور عملی شکل عطا کی. مقررین و مہمانان گرامی سے رابطے کئے، ان سے مشاورت رکھی، موضوعات کا انتخاب کیا اور انتہائی منظم ترتیب سے اللہ تعالیٰ کی نصرت کے طفیل پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا.
دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے دعا گو ہیں کہ مادہ پرستی کے اس دور میں اپنے محدود وسائل کے ساتھ نظرئیے سے اس قدر وابستگی چنیدہ افراد کے حصے میں آتا ہے.