
24/07/2025
غــــــزہ کو بھلایا جارہا ہے ، ہر دن ہمارے قلم سے نکلنے والے سینکڑوں الفاظ میں کوئی محبت نامہ ، کوئی پکار غــــــزہ کے لیے نہیں ہوتی ، ہم سب بے حسی ہوچکے ہیں ، رونے والی آنکھوں میں کوئی ایک بھی ان کے لیے نہیں رو رہی ، ہماری باتوں میں کوئی بات مزاحمت کے اس مقام کی نہیں ہے ، ہم درد نہیں لکھنا چاہتے ، ہم غم محسوس نہیں کرنا چاہتے ، ہم شاید امت کے کٹے ہوئے بازو بن چکے ہیں اسی لیے ہر لگنے والا زخم ہمیں چیخنے پر مجبور نہیں کرتا ، مجھے محمود درویش کی یہ نظم رلاتی ہے ، یہ مجھے صرف غـــــزہ کے حالات کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔۔۔۔۔
تُنسى، كأنَّكَ لم تَكُنْ
تُنْسَى كمصرع طائرٍ
ككنيسةٍ مهجورةٍ تُنْسَى،
كحبّ عابرٍ
وكوردةٍ في الليل .... تُنْسَى
ترجمہ :
تم بھلائے گئے______
یوں بھلائے گئے جیسے تھے ہی نہیں
تم بھلائے گئے
جیسے(کھنڈرات میں) پنچھیوں کی قضا
یا کنیسے کی خاموش، گم سم فضا
راہ چلتی محبت (پراگندہ خواب)
رات کے (ہاتھ میں جیسے) کالے گلاب
تم بھلائے گئے!
ـــــــــــــــــــ
ایمن فاطمہ