
26/06/2025
السلام علیکم اہلیان گلگت بلتستان!
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کے ایک فورم پر میرے اور محترم حاجی فدا محمد ناشاد صاحب کے بارے میں ایک پوسٹ شائع ہوئی۔ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس پوسٹ میں جو باتیں کی گئی تھیں، وہ حقیقت پر مبنی تھیں اور جس فورم نے یہ خبر بریک کی، اس نے درست معلومات فراہم کیں۔
میں اس موقع پر چند وضاحتیں ضروری سمجھتا ہوں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو سوشل میڈیا سے وابستہ ہیں، اور گلگت بلتستان بالخصوص گلتری کے وہ عوام، جو مجھے یا حاجی فدا محمد ناشاد صاحب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔
میری اور حاجی صاحب کی آپس میں کسی ذاتی مفاد یا ذاتی اختلاف پر کوئی تلخی نہیں ہوئی۔ نہ ہی میں نے ان کی ذات کے بارے میں کوئی نازیبا یا غیر اخلاقی الفاظ استعمال کیے ہیں۔ جو باتیں ہوئیں، وہ میرے علاقے گلتری کے زمینی مسائل کے تناظر میں ہوئیں، خاص طور پر “چھوٹا دیوسائی” سے متعلق۔
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، گلگت بلتستان میں اگر کوئی علاقے سب سے زیادہ پسماندہ ہیں اور جن کی نمائندگی اسمبلی یا دیگر اداروں میں کمزور ہے، تو وہ گلتری جیسے علاقے ہیں۔ “چھوٹا دیوسائی” سے متعلق جب بکروال حضرات کی شکایات سامنے آئیں اور وہ کمشنر آفس تک پہنچے، تو وہاں میری حاجی صاحب سے ملاقات ہوئی، اور میں نے ان سے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اس موقع پر آپ کو گلتری کے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، نہ کہ بکروال برادری کے ساتھ۔ اسی سلسلے میں کچھ سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، جس پر میں اب بھی اپنے مؤقف پر قائم ہوں۔
میرا آج یہ پیغام دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر فعال حضرات سے گزارش کروں کہ اختلافِ رائے ضرور رکھیں، آواز ضرور بلند کریں، لیکن ایک دوسرے کی عزت و حرمت کا خاص خیال رکھیں۔
میں گلتری کے عوام، چاہے وہ چھوٹا دیوسائی کے باشندے ہوں یا کسی اور علاقے سے ہوں، ان کے حقوق، زمین، وسائل، اور عزت کے تحفظ کے لیے ہمیشہ کھڑا رہا ہوں اور انشاءاللہ کھڑا رہوں گا۔ میری قوم جب بھی آواز دے گی، میں ان کے شانہ بشانہ رہوں گا۔ ہم کسی بھی صورت میں اپنی زمین کسی اور کو دینے پر آمادہ نہیں — نہ پہلے تھے، نہ اب ہیں۔
ہم مہمان نواز لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں جو بھی مہمان آتا ہے، ہم اسے عزت دیتے ہیں، کھانا کھلاتے ہیں، قدرتی مقامات کی سیر کراتے ہیں۔ لیکن اس مہمان نوازی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی جائیدادیں تحفے میں بانٹ دیں۔
حاجی فدا محمد ناشاد صاحب کا مقام اپنی جگہ، اور میرے علاقے کے لوگوں نے ہمیشہ ان کا احترام کیا ہے، ان کے لیے چالیس سالہ سیاسی سفر میں حمایت دی ہے، انہیں ووٹ دیے ہیں، اور ان کی کامیابی میں کردار ادا کیا ہے۔ لیکن نمائندہ اور عوام کے درمیان کبھی کبھی تلخی بھی ہو جاتی ہے، اور یہ جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ اس پر ناراضگی یا بدکلامی کی ضرورت نہیں۔
آخر میں، ایک بار پھر سوشل میڈیا کے تمام صارفین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے الفاظ میں نرمی، شائستگی اور احترام پیدا کریں، چاہے وہ حاجی فدا محمد ناشاد صاحب کے بارے میں بات کر رہے ہوں یا میرے بارے میں۔
اللہ ہمیں اپنے علاقے کے لیے اخلاص اور قربانی کی توفیق عطا فرمائے۔
اقبال علی اقبال