10/07/2023
Copied
شندور خدا حافظ !! بو خدا یار بوجینوت۔
وزارت اعلی کا منصب جس کوبھی ملے لیکن اس دفعہ شندور جا کر اندازہ ہو گیا کہ شندور اب کے پی کے کا حصہ ہے اور گلگت بلتستان کے بیوروکریٹس نے شندور کا سودا کیا ہے
شندور میلے کا انعقاد،گراونڈ کی سیکورٹی سمیت تمام انتظامات کے پی کے حکومت کے پاس ہے جبکہ گلگت بلتستان کے تمام محکموں کے اخراجات وہاں صرف اپنے اعلی افسران کو خوش کروانے کے لئے کئے جاتے ہیں انکے لئے پانی ،بجلی ،مچھلی ،جھومنے والا پانی ،واش روم غرض تمام تر انتظامات جو ایک فائیو سٹار ہوٹل میں میسر ہو ۔۔
اس کے علاؤہ شندور میں دو قومی نظریہ کا اصل پہلو دو دن میں ہی عیاں ہوتا ہے ۔
ایک طرف عام عوام اپنے پیسے ،وقت اور مٹی کی محبت میں لاکھوں گھنٹے کا مسافت طے کر کے شندور پہنچتے ہیں تو انکو وہاں سہولیات تو دور کی بات وہاں پولو دیکھنے کے لئے ایف سی پولیس اور چترال سکاؤٹس کی ڈانٹ ڈپٹ کھانی پڑتی ہے یہ سب کچھ برداشت کر لیں تو پھر ہیلی کاپٹرز آتی ہیں اور گراؤنڈ کے ارد گرد کی تمام دھول عوام میں کی مقدر بن جاتی ہےاور ہیلی کاپٹرز کے اعلی آفیسران سائرن بجاتی گاڑیاں آتی ہیں اور اعلی آفیسران کو فول پروف سیکورٹی میں شندور میں موجود ڈی ایچ اے یا پھر وی وی آئی پی سٹیج کی طرف لے جاتے ہیں خیر یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے عوام کے پیسوں سے جرنیل اور بیوروکریٹس ہی عیاشی کر سکتے ہیں اور عوام انکے لئے آپس میں لڑتے رہتے ہیں ۔
گلگت بلتستان انتہائی حساس خطہ ہے اور یہاں کی عوام انتہائی بے بس جن کو گندم کے دانوں کیلئے بھی ترسایا جاتا ہے ،اب ان تین دنوں کے میلے کے نام پر جو اخراجات ہوئے ،جو بیوروکریٹس کی عیاشی پر اڑائے گئے انکی تحقیقات کون کرے گا ؟
شندور تو ہمارا رہا نہیں انتظامات تمہارے سپرد تھے نہیں تو بتائیں جناب کتنے کا ٹیکہ لگایا گیا شندور فیسٹیول کے نام پر۔۔۔۔۔ Copied