SMN

SMN skardu media network

24/10/2025

استور: اسسٹنٹ کمشنر ھیڈکوارٹر ڈاکٹر وجاحت سلیم رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔

24/10/2025
24/10/2025
24/10/2025

*کوفہ کا مسافر؛ ایک قاری کی نظر سے*

تحریر ؛ علی جعفر

کچھ دنوں سے "کوفہ کا مسافر" مطالعہ کر رہا تھا، یہ ناول عراق عرب کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ علی اکبر ناطق صاحب نے اس ناول میں تاریخ کربلا کو خوبصورت انداز میں لکھا ہے۔
جب میں نے ناول کا مطالعہ شروع کیا تو ایک لمحے کےلئے کربلا اور کوفہ کی طویل تاریخ میں گم ہوگیا۔ مجھے عراق عرب کی عظیم سرزمین کا احساس ہونے لگا، مجھے یہ درد ستانے لگا کہ ہمارے مولا علی ع نے عادلانہ حکومت کیسے قائم کی ہوگی۔ اس میں لکھاری نے میرے مطالعہ کے انداز کو تجسس آمیز بنایا اور میں نے اس ناول کو گہری دلچسپی کے ساتھ پڑھ ڈالا کہ ؛
سمندر سے مِلے پیاسے کو شبنم

اس ناول میں ناطق صاحب نے تاریخ کوفہ،تاریخ مدینہ، تاریخ آل ابی طالب، تاریخ خیبر اور عرب معاشرے کی رہن سہن ان کا بودوباش ان کی تہذیب اور یہودیوں کی مکہ آمد اور ان کے اسلام کے خلاف کی گئی سازشوں کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پرویا ہے ۔علی اکبر ناطق صاحب "کا کوفہ کا مسافر" کے علاوہ"نولکھی کوٹھی" اور کماری والا ان کے مشہور ناول ہے، افسانوں میں قائم دین " مشہور افسانہ ہے ۔"کوفہ کا مسافر "حال ہی میں لکھا گیا ایک تاریخی ناول ہے،یہ ناول خصوصا اکسٹھ(61ھ) کےواقعہ کربلا پر ایک خوبصورت، پرمعنی ،دلنشین اور بیش بہا دریا ہے ۔اس میں علی اکبر صاحب نے اہل بیت علیہم السلام کے مدینہ میں موجود قیام گاہوں کو بھی مفصل بیان کیا ہے، اس ناول کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ، راقم نے ناول لکھنے کے دوران ان تاریخی جگہوں کو اپنی آنکھوں سے مطالعہ بھی کیا ۔اس ناول میں ناطق صاحب نے یہ بھی بیان ہے کہ انسان دنیوی مال ودولت کے خاطر کس طرح اپنے آپ کو بھیجنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، کس طرح انسان کو حق سے دوری، ڈر،خوف اور لالچ ہوس پرست جماعتوں کے حوالے کردیتا ہے، یہ ناول جہاں اکسٹھ (61ھ) ہجری کے اس عظیم واقعہ کے علل و اسباب بیان کرتا ہے وہاں آج کے اکیسویں صدی کے منافقانہ سوچ، ظلم واستبداد، ناانصافی اور سرمایہ دارانہ نظام کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔ اس پورے ناول کا ہر پیرگراف قاری کو اپنے اندر موجود انسان کی نشاندہی کرنے میں مدد دیتا ہے ،لیکن جس واقعہ نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا، یہ صرف أس دور کے انسانوں کا منافقانہ رویہ نہیں یہ آج بھی ہمارے معاشرے کے اندر کہیں نہ کہیں نظر آتا ہے ۔مجھے سب سےزیادہ اس ناول میں اس واقعہ نے حیران کیا، سوچنے میں مجبور کیا کہ؛
جب عمر ابن سعد اور شمر کے حکم سے لشکر شام نے شہدائے کربلا کے لاشوں کی پامالی کی تو اس وقت مغرب کا وقت ہوگیا تھا تو اہل لشکر کو یہ خدشہ ہوا کہ نماز قضا نہ ہوجائے۔ امام حسین علیہ السلام کی پامال شدہ لاش کو چھوڑ کر دس افراد کا گروہ اپنے گھوڑوں سمیت ایک طرف ہوگیا، پھر اسی جگہ لشکر میں ایک شخص نے اذان کے لئے اللہ اکبر کہا اور اذان دی ۔
تھوڑی دیر میں نماز کی صفیں قائم ہوگئیں ۔ابن سعد نے پیش امامت کی اور پورے لشکر نے امام حسین علیہ السلام کی پامال شہد لاش کے قریب نماز مغرب ادا کی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے انھیں امام حسین ع پر فتح عطا کی "

اس ناول میں اس طرح اکسٹھ (61ھ) کے کئی اور واقعات کو قلم بن کیا، یہ صرف تاریخی واقعہ نہیں بلکہ الہی رہبروں سے دور رہنے والے لوگوں کا طرز فکر اور طرز حیات ہیں۔
ہمیں اس واقعہ سے سبق لینے کی ضرورت ہیں، آیا صرف مسلمان ہونا کافی ہے، یا عمل وکردار بھی مسلمانوں والا ہونا چاہیے! شمر و عمر سعد بھی اپنے آپ کو مسلمان جانتے تھے، نماز کے پابند تھے، لیکن ان کے دل انا ،خواہشات ،دنیا پرستی، نا انصافی سے پر تھے، وہ حجت خدا، نواسہ رسول ص کے مقام منزلت سے ناواقف تھے، لوگوں پر ظلم کرنا ان کے لئے بہت آسان تھا، یہ کیسے ہوسکتا ہے، نمازی بھی اور ظالم بھی؟
اگر ہم موجودہ حالات پر نظر دوڑائے تو ہمیں آج بھی شمر و یزید و عمر سعد کا کردار نظر آتے ہیں۔غزہ ہمارے لئے زندہ مثال ہیں،جہاں زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ ہوگے، شہداء کی تعداد ساٹھ(60)ہزار سے تجاوز کرگئے ہیں ،لیکن آج کے مسلم حکمران، سیاسدان، جنرلز اور وقت پر نماز ادا کرنے والا مسلمان۔۔خاموش تماشائی بنا ہوا دیکھائے دیتا ہے! پچاس اسلامی ممالک کے حکمران مثل ابن سعد، شمر ،خولی اور ابن زیاد بن کر وقت کے یزیدی لشکر کے مدد میں مصروف ہیں!
"غزہ آج بھی کوفہ کا مسافر ہے "

24/10/2025

*حقوق نسواں کے حوالے سے اسوہ کالج میں شعور انگیز سیشن کا انعقاد*
----------------------------------------------
*قراقرم امپیکٹ نیٹ ورک (KIN)* کے زیر اہتمام *اسوہ کالج سکردو* میں حقوقِ نسواں کے حوالے سے ایک بامقصد اور فکر انگیز سیشن منعقد ہوا، جس میں طلباء،اور اساتذہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس سیشن کا مقصد بلتستان کی خواتین کو درپیش چیلنجز، ان کے حقوق، اور ان کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔
سیشن کی مہمانِ خصوصی اور مقررہ معروف موٹیویشنل اسپیکر اور KIN کی کو فاؤنڈر *نفیسہ زہراء* تھیں، جنہوں نے نہایت دلنشین اور مدلل انداز میں مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ ان کا خطاب "ویمن ایمپاورمنٹ"، "صنفی مساوات"، "معاشرتی رویوں میں تبدیلی کی ضرورت"، "تعلیم اور صحت کے میدان میں خواتین کے کردار" اور "بلتستان میں خواتین کے لیے کھیلوں کے مواقع کی کمی" جیسے اہم نکات پر مبنی تھا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آج کی طالبہ صرف تعلیمی میدان میں ہی نہیں بلکہ ہر شعبۂ زندگی میں قائدانہ صلاحیتوں کی حامل ہے، لیکن معاشرتی رکاوٹیں، صنفی امتیاز اور مواقع کی کمی اس کی راہ میں حائل ہیں۔ ان کے مطابق خواتین کو ان کے جائز حقوق کی فراہمی معاشرے کے اجتماعی فلاح کے لیے ناگزیر ہےلیکچر کے بعد سوال و جواب کی نشست رکھی گئی، جس میں طلباء نے نہایت جوش و خروش سے حصہ لیا، سوالات کیے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ نفیسہ زہراء نے تمام سوالات کے تسلی بخش اور حوصلہ افزا جوابات دیے، جن سے طلباء کی رہنمائی ہوئی۔
اس سیشن نے طلباء میں نہ صرف شعور بیدار کیا بلکہ انہیں خود اعتمادی، حق شناسی اور قیادت کے جذبے سے بھی سرشار کیا۔
کالج انتظامیہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مستقبل میں بھی ا
゚ یسی مثبت اور بامقصد سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا رہے گا ۔🥺

24/10/2025

فاطمہ جناح ویمن کالج سکردو کی طالبہ ندا زہرہ کو ڈگری کالج سکردو میں منعقدہ انٹر کالج کلام فیض مقابلے میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے پر بہت بہت مبارکباد!۔ !

21/10/2025

*رونگھٹے کھڑے کر دینے والی تحریر*
میرا نام کلیم حیدر ھے۔ میں فوج میں میجر تھا۔ میرے والد صاحب نے میری ماں کو مار مار کر ان کے کندھے کی ھڈی توڑ دی تھی۔ مناسب علاج نہ کروانے کی وجہ سے ھڈی نے خون سپلائی کرنے والی نالیوں کو نقصان پہنچایا تھا اور خون کی سپلائی بند ھونے کی وجہ سے میری ماں کا بازو بےجان هو کر سوکھ گیا تھا۔ پھر جب میری ماں کو فالج اٹیک آیا تو میں نے اپنی پوسٹ سے استعفیٰ دے کر ماں کی خدمت کا فیصلہ کیا۔ بیوی کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی میرا دل مطمئن نہ ھوا اور میں نے استعفیٰ دے دیا ۔۔۔۔۔

میرا تعلق ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ھے۔ میری ماں کی عمر تیرہ برس تھی جب میری نانو کا انتقال ھوا۔ میری نانو کی وفات کے بعد میرے نانا نے میری ماں کی پرورش کا بیڑہ اٹھایا مگر انہیں جلد ھی یقین هوگیا کہ وہ یا تو میری ماں کو کما کر کھلا سکتے ھیں یا پھر ان کے محافظ بن کر گھر بیٹھ سکتے ھیں۔ لہذا جب میری ماں سولہ برس کی عمر کو پہنچی تو میری ماں کا نکاح میرے نانا نے اپنے بھتیجے (میری ماں کے چچا زاد) سے یہ سوچتے ھوئے کر دیا کہ گھر کا دیکھا بھالا لڑکا ھے، میری بیٹی کو اچھی طرح سمجھتا ھے، میرا بھتیجا بھی ھے اس لیے خوش رکھے گا۔ مگر یہ بات میرے نانا کی خام خیالی ھی ثابت ھوئی۔ میرے نانا میری ماں کی شادی کے بعد ڈیڑھ برس زندہ رھے۔ ان ڈیڑھ برسوں میں میری ماں تین بار روٹھ کر اپنے باپ کی دھلیز پر آئی، ھر بار میرے نانا نے اپنے بھائی (میرے دادا) کی منت سماجت کرکے میری ماں کو واپس بھجوا دیا ۔۔۔۔۔

ڈیڑھ برس بعد میرے نانا کا انتقال ھوا تو میری ماں بالکل لاوارث هو گئی۔ میرے ددھیال والوں کو کھلی چھٹی مل گئی۔ اب میرے والد محترم کے ساتھ ساتھ میری دادو اور دونوں پھوپھیاں بھی میری ماں کو پیٹنے کا کوئی موقع ھاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ یہاں تک کہ ایک بار میرے والد صاحب نے جمعہ کی نماز کے لیے جانا تھا اور میری ماں طبعیت خرابی کی وجہ سے ان کے کپڑے استری کر کے نہ رکھ پائی تو اس بات پر انہوں نے میری ماں کو کپڑے دھونے والے ڈنڈے سے مار مار کر ان کے کندھے کی ھڈی توڑ دی۔ کندھے کی ھڈی توڑنے کے بعد کسی ڈاکٹر تک کو دکھانے کی زحمت نہ کی گئی بلکہ الٹا میری ماں درد سے کراھتی تو اسے اور پیٹا جاتا اور بہانے خور جیسے القابات سے نوازا جاتا یہاں تک کہ مسلسل حرکت میں رھنے کی وجہ سے ٹوٹی ھوئی ھڈی نے انگلیوں اور بازو کو خون سپلائی کرنے والی نالیوں کو بھی کٹ کر دیا۔۔۔۔۔

جب خون سپلائی کرنے والی نالیاں کٹ هو گئیں تو خوں کی سپلائی آھستہ آھستہ انگلیوں تک پہنچنا بند هو گئی اور بازو بےجان هونا شروع هو گیا یہاں تک بازو بےجان هو کر سوکھ گیا اور ساتھ ھی لٹک کر رہ گیا۔ جب میرے دادھیال والوں کو یقین هو گیا کہ میری ماں بالکل مفلوج هو چکی ہئے تو انہوں نے میری ماں پر بدکردار ھونے کا الزام لگا کر اسے طلاق دلوا کر گھر سے نکلوا دیا۔ جب میری ماں کو طلاق دے کر گھر سے نکالا گیا اس وقت میں اپنی ماں کے پیٹ میں سات ماہ کا هو چکا تھا۔ دو ماہ تک میری ماں کو گاؤں کی دائی نے اپنے گھر پناہ دیے رکھی دو ماہ بعد جب میری پیدائش ھوئی تو میرے دادھیال والوں کو خطرہ پیدا هو گیا کہیں میں ان کی جائیداد نہ ہتھیا لوں اس لیے انہوں نے میری ماں کو دائی کے گھر بلکہ گاؤں سے بھی نکلوا دیا۔ گاؤں سے نکالے جانے کے بعد میری ماں کے پاس اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اس لیے میری ماں مجھے کپڑے کی ایک گانٹھ میں لپیٹ کر کبھی دانتوں کی مدد سے کبھی کندھے سے لٹکا کر ٹوبہ ٹیک سنگھ شہر پہنچی اور پہلی رات میری ماں نے مجھے لےکر ایک گوشت والے پھٹے کے نیچے گزاری اور ساری رات میری ماں مجھے گود میں رکھ کر جاگتی رھی تا کہ کوئی آوارہ کتا مجھے چبا نہ ڈالے ۔۔۔۔۔

وقت گزرتا ھے۔ پہلے پہل میری ماں فروٹ والی ریڑھیوں کے آس پاس پڑا گندا فروٹ اٹھا کر اپنا پیٹ بھرتی ھے پھر اللہ تعالیٰ کے بنائے نظام کے ذریعے اس خوراک کو دودھ میں بدل کر میرے لیے خوراک کا بندوبست کرتی ھے اور میرا پیٹ بھرتی۔ جب میری ماں کو بازار میں رھتے کچھ عرصہ گزرتا ھے تو مقامی دوکاندار میری ماں پر اعتبار کرنے لگتے ھیں یوں انہیں دکانوں میں صفائی کا کام مل جاتا ھے ۔۔۔۔۔۔

دکانوں میں مجھے اٹھا کر اپنے پیچھے جھولی نما کپڑے میں ڈال کر اپنے پیچھے لٹکانے کے بعد صرف ایک ہاتھ سے صفائی کرنا بہت مشکل هو جاتا اس لیے میری ماں کچھ پیسے جمع کر کے برش پالش اور ہتھوڑی کیل دھاگہ اور سوئے خریدنے کے بعد جوتے سلائی کرنے کا کام شروع کر دیتی ھے۔ میری ماں مجھے گود میں لٹا کر ایک ھاتھ اور منہ کی مدد سے جوتے سلائی کرتی ھے۔ کچھ خدا ترس لوگ میری ماں کو اجرت سے زیادہ پیسے دے جاتے ھیں جبکہ کچھ اوباش نوجوان جان بوجھ سیوریج کی نالی میں جوتا گندا کر کے میری ماں کو پالش کرنے کے لیے دیتے ھیں اور جب اس جوتے کو منہ اور کپڑے کی مدد سے میری ماں صاف کرتی ہے تو میری ماں کی بے بسی پر ہنستے ھیں ۔۔۔۔۔

خیر وقت گزرتا رہا۔ میں سکول جانے کی عمر کو پہنچتا هوں تو میری ماں مقامی امام مسجد اور چند معزز لوگوں کے ذریعے میرے والد صاحب سے اس وعدے پر شناختی کارڈ کی کاپی لے لیتی ھے کہ میرا بیٹا بڑے هو کر کبھی ددھیال کی جائیداد میں سے حصہ طلب نہیں کرے گا۔ شناختی کارڈ کی کاپی مل جانے پر میری ماں مجھے سکول داخل کرواتی ھے۔ میرے استاد محترم سید ظفر صاحب کو جب میرے حالات کا پتہ چلتا تو مجھے اور میری ماں کو بازار سے اٹھا کر اپنے گھر لاتے ھیں۔ ھمیں ایک الگ کمرہ دیتے ھیں اور ہمارا سارا خرچ برداشت کرتے ھیں۔ بدلے میں میری ماں سید ظفر شاہ کے انکار کے باوجود ان کے گھر کے کام کاج کا ذمہ اٹھا لیتی ھے۔ میں پڑھتا رھتا هوں یہاں تک کہ استاد محترم میرے لیے آرمی میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ اپلائی کرتے ھیں۔ میں سلیکٹ هو جاتا هوں اور میرا شمار ٹاپ ٹین کیڈٹس میں هوتا ھے۔ میں کورس مکمل کرتا هوں اور میری شادی استاد محترم کی بیٹی سے کر دی جاتی ھے ۔۔۔۔۔

جب میں بطور کیپٹن انٹیلیجنس کے ایک مشن پر هوتا هوں تو ہارٹ اٹیک سے میرے استاد محترم، سسر سید ظفر صاحب انتقال کر جاتے ھیں۔ میں ان کے جنازے میں شامل نہیں هو سکتا اور مشن مکمل کرنے کے بعد میں پورا ہفتہ روزانہ ان کی قبر پر بیٹھ کر ان کے جنازے کو کندھا نہ دے سکنے پر معذرت کرتا رھتا هوں۔ جب دل کا غم ھلکا هوا تو واپس ڈیوٹی جائن کرتا هوں۔ میں اپنے پورے بیج میں واحد اور منفرد آفیسر تھا جو پہلے خود جاسوس بن کر دشمن کا سراغ لگاتا پھر اپنی ٹیم تیار کر کے دشمن کا قلع قمع کرتا۔ میں بلوچستان میں ایک مشن پر تھا جب مجھے پتہ چلا کہ میری ماں کو فالج کا اٹیک آیا ھے۔ میں نے اپنے سینئرز، بیج میٹس یہاں تک کہ اپنی شریک حیات کے روکنے کے باوجود فوج سے استعفیٰ دیا اور اپنی ماں کی خدمت میں مصروف هو گیا۔ مجھے یاد ھے کرنل لطیف اور برگیڈئیر امتیاز نے مجھے کہا تھا اس فیصلے کے بعد تم پچھتاؤ گے۔ میری بیگم نے مجھے قسم دی تھی کہ وہ میری ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی، میں اپنے عہدے پر قائم رھوں مگر میرا دل نہیں مانا ۔۔۔۔۔

میرے دل میں کہیں نہ کہیں خلش رھتی تھی کہ میری ماں جو کچھ مجھ سے کہہ سکتی ھے وہ میری بیوی سے نہیں کہہ سکتی۔ لہذا میں نے استعفیٰ دے دیا اور خود اپنی ماں کی خدمت کرنے لگا۔ میری ماں جب تک زندہ رھی میں نے شاید ھی کوئی رات گھر سے باھر گزاری هو۔ نہیں تو میں چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے ماں کے ساتھ گزارتا تھا۔ میں نے چھوٹا سا گاڑیوں کا شو روم بنایا لیا جس پر ملازم بیٹھتا تھا۔ میں سارا دن ماں کے ساتھ گزارتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ماں کی خدمت کے صدقے میں اتنی برکت دی کہ میرے پاس آج بیرون ملک ناروے میں سات شو روم ھیں۔ آج پاکستان میں میری اپنی انڈسٹری ھے۔ میری ماں فوت هو چکی ھے۔ میرے بچے جوان هو چکے ھیں۔ میری بیٹی امریکہ میں زیر تعلیم ھے۔ دونوں بیٹوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ناروے میں بزنس سنبھال رکھا ھے۔ میری اولاد منتظر رھتی ھے کہ کب ان کے والدین کوئی حکم دیں اور وہ بجا لائیں۔ کچھ عرصہ قبل میں اپنی بیوی کے ھمراہ امریکہ میں اپنی بیٹی کو ملنے گیا تو بیٹی کے کہنے پر ھم اولڈ ہوم چلے گئے۔ وہاں پر مقیم ایک پاکستانی، جسے شکل دیکھتے ہی میں نے پہچان لیا تھا کہ وہ برگیڈئیر امتیاز ھے، کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ پاکستان میں اس کا رعب دبدبہ اس کی شان و شوکت سب کچھ امریکہ میں ختم هو چکا تھا۔ وہ بالکل ھڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔ میرے لاکھ یاد دلانے پر بھی وہ مجھے نہیں پہچان پایا۔ انتظامیہ سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس کا بیٹا اسے یہاں چھوڑ گیا تھا اور اس کی موت پر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی نصیحت کر گیا تھا۔ اولڈ ھوم سے واپسی پر میں تھک کر اپنی رھائش پر پہنچا تو میری بیٹی اور بیوی نے مجھے دبانا اور میرا مساج کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں بنا کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کیے پاؤں کی مالش کرتی بیٹی کو دیکھ کر سوچ رھا تھا کہ واقعی ھی ماں باپ سے حسن سلوک ایک ایسا عمل ھے جسے آج آپ لکھیں گے کل آپ کی اولاد آپ کو پڑھ کر سنائے گی اور برگیڈئیر امتیاز کی حالت نے میری اس سوچ پر مہر ثبت کر دی تھی ۔۔۔

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے*

21/10/2025

گلگت بلتستان کا سٹار 🌟
سیدہ قندیل زھرا امپھری گلگت نے سی ایس ایس میں کامیاب ہوکر علاقے کا نام روشن کر لیا ۔ڈی ایم جی اسسٹنٹ کمشنر سیدہ قندیل زھرا مبارک ہوں ♥️

21/10/2025

*گرلز ڈگری کالج میں مینا بازار کا انعقاد*
---------------------------------
گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج سکردو میں "ہفتہ طالبات" کے تیسرے دن خصوصی مینا بازار کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں کالج کی طالبات کے علاوہ باہر سے خواتین نے بھی ملبوسات، زیورات، علاقائی اور روایتی شالوں، دستکاری,میک اپ ، اور روایتی کھانوں کے اسٹالز لگا کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
سکردو شہر سے خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی اوت اپنی پسندیدہ اشیاء کی خریداری کی۔ کالج کی طالبات کے علاوہ دیگر کالجز کی طالبات نے بھی اس موقع پر اپنے اسٹالز سجا کر دستکاری،روایتی کھانے اور دیگر اشیاء پیش کیں۔
تقریب کی مہمان خصوصی لاہور سے تشریف لائی ہوئی مہمان محترمہ اسماء رمدے تھیں، جنہوں نے فیتہ کاٹ کر مینا بازار کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ انہوں نے مختلف اسٹالز کا دورہ کیا اور خوب خریداری بھی کی۔

*مہمانِ خصوصی اسماء رمدے* نے میڈیا ٹیم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
"گرلز ڈگری کالج سکردو میں منعقدہ مینا بازار ایک شاندار اور متاثر کن تجربہ رہا۔ یہاں کی طالبات نے جس محنت اور مہارت سے اسٹالز تیار کیے، وہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں، فن اور ذوق کا عملی مظاہرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ، "ایسے میلوں سے نہ صرف طالبات کو عملی تجربہ حاصل ہوتا ہے بلکہ انہیں خود انحصاری اور معاشی خود مختاری کا شعور بھی ملتا ہے۔ یہ بازار خواتین کے لیے ایک محفوظ، خوبصورت اور مثبت ماحول فراہم کرتا ہے، جس پر کالج انتظامیہ بالخصوص پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ سلیم اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔"
کالج کے مرکزی ہال میں لیکچرار مدیحہ رانی کی قیادت میں سکرین پر طالبات کو موٹوشنل اور کارٹون ٹیلی فلم دکھائی۔

Address

Skardu

Telephone

+923555040316

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when SMN posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to SMN:

Share