
05/08/2025
فنکار، فن اور فہم کی پکار
بلتستان کی سرزمین جہاں برفانی پہاڑ، دریا اور وادیوں کا جادو بکھرا ہوا ہے، وہیں یہاں کی ثقافت، آرٹ، اور فنون لطیفہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ مگر افسوس کہ یہاں کے فنکار، جو معاشرے کی روحانی و فکری تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، معاشی طور پر بدترین حالات سے دوچار ہیں۔
یہ فنکار جو دن رات اپنی صلاحیتوں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں شعور اور احساس جگانے کی کوشش کرتے ہیں، خود غربت اور بے قدری کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کوئی مستقل روزگار نہیں، نہ ہی حکومتی سطح پر کسی قسم کی امداد یا سہارا۔ ایک طرف مالی مسائل، دوسری طرف معاشرتی تنگ نظری ان کے راستے کی سب سے بڑی دیوار بن چکی ہے۔
افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ہمارے کچھ حلقوں میں مذہب کے نام پر فن و ثقافت کو بدعت یا گمراہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مذہب یقیناً ایک عظیم رہنما ہے، مگر جب مذہبی فکر میں شدت آ جائے اور وہ معاشرتی فنون پر پابندی لگانے لگے، تو معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ روش صرف فنکاروں کو ہی نہیں، بلکہ پورے سماج کو فکری طور پر بانجھ کر دیتی ہے۔
ایسے میں ایک بڑی ذمہ داری پڑھے لکھے طبقے پر عائد ہوتی ہے۔ وہ طبقہ جو علم و فہم رکھتا ہے، جو جانتا ہے کہ فن بھی ایک دعوت ہے، ایک اصلاح ہے، ایک معاشرتی بیانیہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم فنکاروں کے حق میں آواز بلند کریں، ان کی عزت کریں، اور ان کے کردار کو سراہیں۔
بلتستان کے معروف فنکار علی کاظم گولڈن ایسے ہی فنکاروں میں سے ہیں جنہوں نے ہمیشہ فن کو مقصد کے ساتھ جوڑا ہے۔ وہ محض تفریح نہیں، بلکہ سماجی شعور کو بیدار کرنے کے لیے فن کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ حال ہی میں 5 اگست کو پیش کیا جانے والا ڈرامہ، جس میں موصوف نے ایک ہندو کا کردار ادا کیا، بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنا۔
تنقید ہر فنکار کی زندگی کا حصہ ہوتی ہے، مگر یہ ضروری ہے کہ تنقید تعمیری ہو، اور فن کو سمجھ کر کی جائے۔ علی کاظم گولڈن کا ڈرامہ کسی مذہب کی ترویج نہیں بلکہ مظلوم کشمیری مسلمان کی حق میں جبکہ مودی سرکار کی بربریت کے خلاف ہے۔ یہ فن ہی ہے جو پردہ اٹھاتا ہے، آواز دیتا ہے اور سماج کو آئینہ دکھاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطور معاشرہ اپنے فنکاروں کو تنہا نہ چھوڑیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں، ان کے لیے مالی، ذہنی اور سماجی سہارا فراہم کریں۔ فن اور فنکار کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان ہوتے ہیں، ان کی توہین دراصل اپنی ثقافت، تاریخ اور شعور کی توہین ہے۔
چلیے! ہم بطور پڑھے لکھے شہری، بطور ذمے دار مسلمان، اور بطور بلتستانی، اپنی تہذیب اور فنکاروں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ کیونکہ فن وہ زبان ہے جو نہ صرف دکھ بانٹتی ہے بلکہ دلوں کو جوڑتی بھی ہے۔
ایڈووکیٹ رجب علی سنگے
صدر تبت بلتستان آرٹس کونسل رجسٹرڈ سکردو
Ali Kazim Golden
Rajab Ali Singay
TIBET B TV
゚