Peer Bux

Peer Bux Love❤ humanity, HUMAN'S are the supper creation of Allah.

سڀني مسلمانن ڀائرن دوستن کي منهنجي طرفان عيدالاضحي جون مبارڪون.....
17/06/2024

سڀني مسلمانن ڀائرن دوستن
کي منهنجي طرفان عيدالاضحي
جون مبارڪون.....

10/05/2024
29/03/2024

هي فقير سائين آهي ته الائي ڪير پر واھ جو آواز اٿس.....

22/03/2024

Kalaam: Sain Rakhiyal Shah Badshah...
Awaz: Saeen Wazeer Ali Shah Sb.

پیارے بہن بھائیوں مجھے ساتھ ساتھ فولو کرو مجھے اچھے نیک لوگوں کی ضرورت ہے ۔۔دنیا میں 𝟐𝟎𝟔 ممالک اور 𝟒𝟐𝟎𝟎 مذہب ہیں لیکن ال...
16/03/2024

پیارے بہن بھائیوں مجھے ساتھ ساتھ فولو کرو مجھے اچھے نیک لوگوں کی ضرورت ہے ۔۔

دنیا میں 𝟐𝟎𝟔 ممالک اور 𝟒𝟐𝟎𝟎 مذہب ہیں لیکن اللّٰه نے ہمیں مُحَمَّدٌ (ص) کا امتی بنایا ... الحَمْدُاللہ 😷😘
یاالہی ہمیں بھی یہ منظر دیکھنا نصیب فرما ۔ آمین








جھیڑو_ضلع بہاولنگر 🍀🍂🌴🌅🍃🌾
🍀🍂🌴🌅🍃🌾
゚viral





PAKISTAN SUPER LEAGUE 2024 LIVE 🇵🇰🇵🇰🇵🇰 ha

شروع سب سے زیادہ رحم کرنے والے ، ہمیشہ مہربانی کرنے والے اللہ کے نام سے ۔ تمام تر حمد و ثنا سارے جہانوں کے پالنے والے ال...
15/03/2024

شروع سب سے زیادہ رحم کرنے والے ، ہمیشہ مہربانی کرنے والے اللہ کے نام سے ۔
تمام تر حمد و ثنا سارے جہانوں کے پالنے والے اللہ کے لیے اور بہترین جزا تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے ہے ۔ اللہ خاتم الانبیاء محمد ﷺ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور تمام نبیوں اور رسولوں پر بھی ۔
اس کے بعد :
اللہ آپ پر رحم فرمائے ! بلاشبہ آپ نے اپنے پیدا کرنے والے کی توفیق سے یہ ذکر کیا ہے کہ آپ دین کے طریقوں اور احکام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے ( امت تک ) پہنچنے والی تمام احادیث کو ان کی منقولہ اسناد سمیت جاننا چاہتے ہیں اور ان احادیث کو بھی جو ثواب اور عذاب ، رغبت دلانے اور ڈرانے اور ان جیسی دوسری چیزوں کے بارے میں ہیں اور اہل علم نے ایک دوسرے سے لیں اور پہنچائیں ۔ اللہ آپ کی رہنمائی فرمائے ! آپ چاہتے ہیں کہ یہ تمام احادیث شمار کر کے مجموعے کی شکل میں آپ کی دسترس میں لائی جائیں ۔ آپ نے مجھ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ میں ان احادیث کو زیادہ تکرار کے بغیر آپ کے لیے ایک تالیف کی شکل میں ملخص کر دوں کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ( تکرار ) ان احادیث کو اچھی طرح سمجھنے اور ان سے استنباط کرنے میں آپ کے لیے رکاوٹ کا باعث بنے گا جو کہ آپ کا ( اصل ) مقصد ہے ( اللہ آپ کو عزت دے ! ) آپ نے جس چیز کا ( مجھ سے ) مطالبہ کیا ہے ، جب میں نے اس کے اور اس سے حاصل ہونے والے ثمرات کے بارے میں غور و فکر کی طرف رجوع کیا تو ( مجھے یقین ہو گیا کہ ) ان شاء اللہ اس کے نتائج قابل تعریف ، اور فوائد یقینی ہوں گے ۔ اور جب آپ نے مجھ سے اس کام کی زحمت اٹھانے کا مطالبہ کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اگر مجھے اس کی توفیق ملی اور اللہ کی طرف سے اس کے مکمل ہونے کا فیصلہ ہوا تو پہلا شخص ، جسے دوسرے لوگوں سے قبل اس سے خاص طور پر فائدہ ہو گا ، وہ میں خود ہوں گا ۔ اس کی وجوہات اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا ذکر طوالت کا باعث ہو گا ، البتہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان خصوصیات کی حامل کم احادیث کو محفوظ رکھنا اور ان میں اچھی طرح مہارت حاصل کرنا انسان کے لیے کثیر احادیث کو سنبھالنے کی نسبت زیادہ آسان ہے ، خصوصاً عوام میں سے ایک ایسے شخص کے لیے جو اس وقت تک ان میں ( سے صحیح اور ضعیف کے بارے میں بھی ) امتیاز نہیں کر سکتا جب تک کوئی دوسرا اسے اس فرق سے آگاہ نہ کرے ۔ جب معاملہ اسی طرح ہے جیسے ہم نے بیان کیا تو کم تعداد میں صحیح ( احادیث ) چن لینا کثیر تعداد میں ضعیف احادیث کو جمع کرنے سے کہیں بہتر ہے ۔ یہ بات ( اپنی جگہ ) درست ہے کہ بہت سی احادیث کو اکٹھا کرنے اور مکرر ( احادیث ) کو جمع کرنے کے بھی کچھ فوائد ہیں ، خصوصاً ان لوگوں کے لیے جنہیں اس ( علم ) میں کسی قدر شعور اور اسباب و علل کی معرفت سے نوازا گیا ہے ۔ اللہ کی مشیت سے ایسا انسان ان خصوصیات کی وجہ سے جو اسے عطا کی گئی ہیں ، کثیر احادیث کے مجموعے سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے لیکن جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے جو شعور و معرفت رکھنے والے خواص سے مختلف ہیں ، وہ کم احادیث کی معرفت سے بھی عاجز ہیں تو ان کے لیے کثیر احادیث کے حصول میں کوئی فائدہ نہیں ۔
پھر آپ نے جس ( کتاب ) کا مطالبہ کیا ہم ان شاء اللہ اس التزام کے ساتھ اس کی تخریج ( مختلف پہلوؤں سے اس کی وضاحت ) اور تالیف کا آغاز کرتے ہیں جس کا میں آپ کے سامنے ذکر کرنے لگا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم ان تمام احادیث کو لے لیں گے جو سنداً نبی اکرم ﷺ سے بیان کی گئیں اور تکرار کے بغیر انہیں تین اقسام اور ( بیان کرنے والے ) لوگوں کے تین طبقوں کے مطابق تقسیم کریں گے ، الا یہ کہ کوئی ایسا مقام آ جائے جہاں کسی حدیث کو دوبارہ ذکر کیے بغیر چارہ نہ ہو ، ( مثلاً : ) اس میں کوئی معنیٰ زیادہ ہو یا کوئی سند ایسی ہو جو کسی علت یا سبب کی بنا پر دوسری سند کے پہلو بہ پہلو آئی ہو کیونکہ حدیث میں ایک زائد معنیٰ ، جس کی ضرورت ہو ، ایک مکمل حدیث کے قائم مقام ہوتا ہے ، اس لیے ایسی حدیث کو ، جس میں ہمارا بیان کردہ کوئی ( معنوی ) اضافہ پایا جاتا ہے ، دوبارہ لائے بغیر چارہ نہیں یا جب ممکن ہوا تو ہم اس معنیٰ کو اختصار کے ساتھ پوری حدیث سے الگ ( کر کے ) بیان کر دیں گے لیکن بسا اوقات اسے پوری حدیث سے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے اور جب اس کی گنجائش نہ ہو تو اسے اصل شکل میں دوبارہ بیان کرنا زیادہ محفوظ ہوتا ہے ، البتہ جہاں ہمارے لیے اسے مکمل طور پر دہرانے سے بچنا ممکن ہو گا اور ( کامل شکل میں ) ہمیں اس کی ضرورت نہ ہو گی تو ہم ان شاء اللہ اس سے اجتناب کریں گے ۔
جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے ( اس میں ) ہم یہ کوشش کریں گے کہ انھی احادیث کو ترجیح دیں جو دوسری احادیث کی نسبت ( فنی ) خامیوں سے زیادہ محفوظ اور زیادہ پاک ہوں ، یعنی ان کے ناقلین ( راوی ) نقل حدیث میں صحت اور ثقاہت رکھنے والے ہوں ، ان کی روایت میں شدید اختلاف پایا جائے نہ ( الفاظ و معانی کو ) بہت برے طریقے سے خلط ملط کیا گیا ہو جس طرح کہ بہت سے احادیث بیان کرنے والوں میں پایا گیا ہے اور ان کی روایت میں یہ چیز واضح ہو چکی ہے ۔
جب ہم اس قسم کے ( ثقہ ) لوگوں کی مرویات کا احاطہ کر لیں گے تو بعد ازیں ایسی روایات لائیں گے جن کی سندوں میں کوئی ایسے راوی موجود ہوں گے جو طبقہ اولیٰ جیسے ( راویوں کے ) حفظ و اتقان سے متصف نہیں لیکن وہ بھی ( انھی میں سے ہیں ) چاہے ان صفات میں ان سے ذرا کم ہیں جن کو ان سے مقدم رکھا گیا ہے لیکن عفت ، صدق اور علم سے شغف رکھنے جیسی صفات ان میں عام ہوں ، جس طرح عطاء بن سائب ، یزید بن ابی زیاد ، لیث بن ابی سلیم اور ان کی طرح کے ( دیگر ) حاملین آثار اور ناقلین اخبار ہیں ۔
یہ حضرات اگرچہ اہل علم کے ہاں علم اور عفت ( جیسی صفات ) میں معروف ہیں لیکن ان کے ہم عصر لوگوں میں سے ( بعض ) دیگر حضرات ایسے ہیں جو اتقان اور روایت کی صحت کے معاملے میں اپنے مقام اور مرتبے کے اعتبار سے ان سے افضل ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل علم کے ہاں یہ ( حفظ و اتقان ) ایک بہت اونچا مرتبہ اور ایک اعلیٰ ترین صفت ہے ۔
آپ دیکھتے نہیں کہ ان تینوں حضرات : عطاء ، یزید اور لیث ، جن کا ہم نے ابھی نام لیا ، کا موازنہ حدیث کے حفظ و اتقان میں منصور بن معتمر ، سلیمان اعمش اور اسماعیل بن ابی خالد سے کریں تو انہیں آپ ان حضرات سے خاصے فاصلے پر پائیں گے ، یہ ان کے قریب بھی نہیں آ پاتے ۔
ماہرین علم حدیث کو اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ منصور ، اعمش اور اسماعیل کے ہاں حفظ کی صحت اور حدیث بیان کرنے میں مہارت کی جو صفات فراواں اہل علم کو نظر آتی ہیں ان کے نزدیک وہ عطاء ، یزید اور لیث کے ہاں اس طرح معروف نہیں ۔
اگر آپ ( دیگر ) ہمسروں کے درمیان موازنہ کریں تو ( بھی ) یہی ماجرا ( سامنے آتا ) ہے ، مثلاً : آپ ابن عون اور ایوب سختیانی کا ( موازنہ ) عوف بن ابی جمیلہ اور اشعث حمرانی سے کریں ۔ یہ دونوں ( بھی اسی طرح ) حسن بصری اور ابن سیرین کے شاگرد ہیں جس طرح ابن عون اور ایوب ان کے شاگرد ہیں لیکن ان دونوں اور ان دونوں کے درمیان کمال فضل اور صحت نقل کے اعتبار سے بہت بڑا فاصلہ پایا جاتا ہے ۔ عوف اور اشعث بھی اگرچہ اہل علم کے ہاں صدق و امانت سے ہٹے ہوئے نہیں ( مانے جاتے ) لیکن جہاں تک مرتبے کا تعلق ہے تو اہل علم کے ہاں حقیقت وہی ہے جو ہم نے بیان کی ۔
ہم نے نام ذکر کر کے مثال اس لیے دی ہے تاکہ اس شخص کے لیے ، جو اہل علم کے ہاں حاملین حدیث کی درجہ بندی کے طریقے سے ناواقف ہے ، یہ مثال ایسا واضح نشان ثابت ہو جس کے ذریعے سے وہ مکمل واقفیت حاصل کر لے اور اونچا درجہ رکھنے والے کو اس کے مرتبے سے گھٹائے اور نہ کم درجے والے کو اس کے مرتبے سے بڑھائے ، ہر ایک کو اس کا حق دے اور اس کے مرتبے پر رکھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی گئی ، انہوں نے کہا : ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ ہم لوگوں کو ان کے مرتبوں پر رکھیں ۔ اس کے ساتھ ہی اللہ کا حکم ہے جو قرآن نے بیان فرمایا :’’ ہر علم والے سے اوپر ایک علم رکھنے والا ہے ۔‘‘
ہم احادیث رسول ﷺ کو اپنی ذکر کردہ صورتوں کے مطابق تالیف کریں گے ۔
جو احادیث ان لوگوں سے مروی ہیں جو ( تمام ) ماہرین علم حدیث یا ان میں سے اکثر کے نزدیک متہم ہیں ، ہم ان کی روایات سے کوئی سروکار نہ رکھیں گے ، جیسے : عبداللہ بن مسور ابوجعفر مدائنی ، عمرو بن خالد ، عبد القدوس شامی ، محمد بن سعید مصلوب ، غیاث بن ابراہیم ، سلیمان بن عمرو نخعی اور ان جیسے دیگر لوگوں کی مرویات سے بھی ، جن پر وضع احادیث اور روایات سازی کے الزامات ہیں ۔
اسی طرح وہ لوگ جن کی مرویات کی غالب تعداد منکر اور غلط ( احادیث ) پر مشتمل ہے ، ہم ان کی احادیث سے بھی احتراز کریں گے ۔
کسی حدیث بیان کرنے والے کی منکر روایت کی نشانی یہ ہے کہ جب اس کی روایت کردہ حدیث کا دوسرے اصحاب حفظ اور مقبول ( محدثین ) کی روایت سے موازنہ کیا جائے تو وہ ان کی روایت کے مخالف ہو یا ان کے ساتھ موافق نہ ہو پائے ۔ جب کسی کی اکثر مرویات اس طرح کی ہوں تو وہ متروک الحدیث ہوتا ہے ، اس کی روایات غیر مقبول ہوتی ہیں ، ( اجتہاد و استنباط کے لیے ) استعمال نہیں ہوتیں ۔
اس قسم کے راویان حدیث میں عبداللہ بن محرر ، یحیی بن ابی انیسہ ، جراح بن منہال ابوعطوف ، عباد بن کثیر ، حسین بن عبداللہ بن ضمیرہ ، عمر بن صہبان اور اس طرح کے دیگر منکر روایات بیان کرنے والے لوگ شامل ہیں ، ہم ان کی روایت کا رخ نہیں کرتے نہ ان روایات سے کوئی سروکار ہی رکھتے ہیں ۔
کیونکہ حدیث میں متفرد راوی کی روایت قبول کرنے کے متعلق اہل علم کا معروف مذہب اور ان کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر وہ ( راوی ) عام طور پر اہل علم و حفظ ثقات کی موافقت کرتا ہے اور اس نے گہرائی میں جا کر ان کی موافقت کی ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ ( متفرد ) کوئی ایسا اضافہ بیان کرتا ہے جو اس کے دوسرے ہم مکتبوں کے ہاں نہیں ہے تو اس کا یہ اضافہ ( محدثین کے ہاں ) قبول کیا جائے گا ۔ لیکن جس ( حدیث بیان کرنے والے ) کو آپ دیکھیں کہ وہ امام زہری جیسے جلیل القدر ( محدث ) سے روایت بیان کرتا ہے جن کے کثیر تعداد میں ایسے شاگرد ہیں جو حفاظ ( حدیث ) ہیں ، ان کی اور دوسرے ( محدثین ) کی روایت کے ماہر ہیں یا وہ ہشام بن عروہ جیسے ( امام التابعین ) سے روایت کرتا ہے ۔ ان دونوں کی احادیث تو اہل علم کے ہاں خوب پھیلی ہوئی ہیں ، وہ سب ان کی روایت میں ( ایک دوسرے کے ساتھ ) اشتراک رکھتے ہیں اور ان دونوں کی اکثر احادیث میں ان کے شاگرد ایک دوسرے سے متفق ہیں ۔ اور یہ شخص ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک سے متعدد ایسی احادیث روایت کرے جن میں ان کے شاگردوں میں سے اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں تو اس جیسے لوگوں سے اس قسم کی کوئی حدیث قبول کرنا جائز نہیں ۔ اللہ ( ہی ) زیادہ جاننے والا ہے ۔
ہم نے حدیث اور اصحاب حدیث ( محدثین ) کے طریق کار کا کچھ حصہ ہر اس شخص کی توجہ کے لیے جو ان کے راستے پر چلنا چاہتا ہے اور جسے اس کی توفیق نصیب ہوتی ہے ، تفصیل سے بیان کر دیا ہے ۔ ان شاء اللہ ہم ( اس طریق کار کی ) مزید شرح اور وضاحت کتاب کے ان مقامات پر کریں گے جہاں معلول احادیث ( جن میں کوئی خفیہ علت پائی جاتی ہے ) کا ذکر ہو گا ، ( یعنی ) جب ہم وہاں پہنچیں گے جہاں اس ( موضوع ) کی شرح اور وضاحت کا مناسب موقع ہو گا ۔ ان شاء اللہ تعالی ۔
اس ( وضاحت ) کے بعد ، اللہ آپ پر رحم فرمائے ! ( ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ) اگر ہم نے اپنے آپ کو محدث کے منصب پر فائز کرنے والے بہت سے لوگوں کی ضعیف احادیث اور منکر روایات کے بیان کو ترک کرنے جیسے معاملات میں ، جن کا التزام ان کے لیے لازم تھا ، غلط کارروائیاں نہ دیکھی ہوتیں ، اور اگر انہوں نے صحیح روایات کے بیان پر اکتفا کو ترک نہ کیا ہوتا ، جنہیں ان ثقہ راویوں نے بیان کیا جو صدق و امانت میں معروف ہیں ، وہ بھی ان کے اس اعتراف کے بعد کہ جو کچھ وہ ( سیدھے سادھے ) کم عقل لوگوں کے سامنے بے پروائی سے بیان کیے جا رہے ہیں ، اس کا اکثر حصہ غیر مقبول ہے ، ان لوگوں سے نقل کیا گیا ہے جن سے روایت لینے پر اہل علم راضی نہیں اور جن سے روایت کرنے کو ( بڑے بڑے ) ائمہ حدیث ، مثلاً مالک بن انس ، شعبہ بن حجاج ، سفیان بن عیینہ ، یحیی بن سعید قطان ، عبد الرحمن بن مہدی وغیرھم قابل مذمت سمجھتے ہیں ۔
اگر ہم نے یہ سب نہ دیکھا ہوتا تو آپ نے ( صحیح و ضعیف میں ) امتیاز اور ( صرف صحیح کے ) حصول کے حوالے سے جو مطالبہ کیا ہے اسے قبول کرنا آسان نہ ہوتا ۔
لیکن جس طرح ہم نے آپ کو قوم کی طرف سے کمزور اور مجہول سندوں سے ( بیان کی گئی ) منکر حدیثوں کو بیان کرنے اور انہیں ایسے عوام میں ، جو ان ( احادیث ) کے عیوب سے ناواقف ہیں ، پھیلانے کے بارے میں بتایا تو ( صرف ) اسی بنا پر ہمارے دل کے لیے آپ کے مطالبے کو تسلیم کرنا آسان ہوا ۔

اللہ آپ کو توفیق سے نوازے ! آپ جان لیں کہ ہر ایسے انسان پر جو صحیح و ضعیف روایت اور ثقہ اور متہم راویوں کے مابین امتیاز کر سکتا ہے ، یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان احادیث کے سوا ، جن کے صحیح طرق سے حاصل ہونے کا اور جن کے نقل کرنے والوں کے غیر متہم ہونے کا علم ہے ، کوئی اور روایت بیان نہ کرے اور ان روایات ( کے بیان ) سے بچے جو متہم لوگوں اور بدعت کا ارتکاب کرنے والے معاندین سے مروی ہوں ۔
اس بارے میں ہم نے جو کہا ، اس کے برعکس کو ترک کرتے ہوئے اسی کو اختیار کرنا لازم ہے ، اللہ تبارک و تعالی کا یہ فرمان ہے : ﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ ﴾ ’’ اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق ( گناہ گار ) تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو ( مبادا ) کہ کسی قوم پر نادانی سے جا پڑو ، پھر اپنے کیے پر پچھتانے لگو ۔‘‘ اور اللہ جل شانہ نے فرمایا : ﴿ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ ﴾ ’’ ان گواہوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں ۔‘‘ ( اسی طرح ) اللہ عزوجل نے ( یہ بھی ) فرمایا :
﴿ وَّ اَشۡہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ ﴾ ’’ اپنے میں سے دو معتبر لوگوں کو گواہ بنا لو ۔‘‘
ان تمام آیات سے ثابت ہوا کہ فاسق کی ( پہنچائی ہوئی ) خبر ساقط ( الاعتبار ) اور ناقابل قبول ہے اور جو شاہد عدل نہیں اس کی گواہی مردود ہے ۔
خبر اگرچہ بعض وجوہ سے شہادت ( گواہی ) سے مختلف معنی کی حامل ہے لیکن دونوں اپنے بڑے اور بنیادی مفہوم میں باہم شریک ہیں ۔ جہاں اہل علم کے ہاں فاسق کی خبر ناقابل قبول ہے وہاں ان تمام کے ہاں اس کی گواہی ( بھی ) مردود ہے ۔ ( رسول اللہ ﷺ کی ) سنت ناقابل قبول خبر کی روایت کی نفی کو ( بعینہ ) اسی طرح واضح کرتی ہے جس طرح قرآن فاسق کی خبر کی نفی پر دلالت کرتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے مروی مشہور حدیث ہے :’’ جس نے مجھ سے ( ایسی ) حدیث بیان کی جسے وہ جانتا ہے کہ جھوٹ ہے تو وہ ( دو ) جھوٹوں میں سے ایک ( جھوٹا ) ہے ۔‘‘

Address

Sindh Muslim Society Airport Road
Sukkur
SUKKUR

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Peer Bux posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share