Surab Times News

Surab Times News سوراب ٹائمز پر خوش آمدید

فرزند گدر ضلع سوراب ثقلین احمد ہارونی ولد میر عبدالنبی ہارونی نے مسلسل محنت اور جدوجہد کے بعد MBBS کا سیٹ اپنے نام کرلیا...
13/04/2025

فرزند گدر ضلع سوراب ثقلین احمد ہارونی ولد میر عبدالنبی ہارونی نے مسلسل محنت اور جدوجہد کے بعد MBBS کا سیٹ اپنے نام کرلیا
واضع رہیکہ ثقلین احمد پورے ضلع میں دوسرا پوزیشن حاصل کی ہے۔

04/08/2024

Admissions are open in new classes

گدرگدر گریڈ اسٹیشن کے سامنے واپڈا کے خلاف  عوام نے سی پیک روٹ  مکمل طور پر بند کردیا ہے....
14/04/2024

گدر
گدر گریڈ اسٹیشن کے سامنے واپڈا کے خلاف عوام نے سی پیک روٹ مکمل طور پر بند کردیا ہے....

احتیاط کریں اور محفوظ رہیں
14/04/2024

احتیاط کریں اور محفوظ رہیں

یہ جو نٹ قابلے آپ دیکھ رہے ہیں یہ چھت کے پنکھوں کے ہیں لہذا کچھ عرصہ بعد اپنے چھت کے پنکھوں کے قابلے چیک کیا کریں افسوس ...
14/04/2024

یہ جو نٹ قابلے آپ دیکھ رہے ہیں یہ چھت کے پنکھوں کے ہیں لہذا کچھ عرصہ بعد اپنے چھت کے پنکھوں کے قابلے چیک کیا کریں افسوس سے احتیاط بہتر ہے اب گرمی شروع ہوگئی ہے پنکھے ذیادہ چلنے سے قابلے کے ساتھ جو ربڑ ہوتا ہے وہ گھس جاتا ہے اور گر جاتا ہے پھر قابلہ لوہے کے کنڈے کے ساتھ رگڑ کر ختم ہونے لگتا ہے جو کہ خطرناک ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ سب کو سلامت رکھے آمین ثم آمین 👍🏻

14/04/2024

ڈھاڈر
ڈھاڈر میں رات گۓ سے موسلا دھار بارش جاری

ڈھاڈر
شدید بارشوں کے باعث گرمی کا زور ٹوٹ گیا

ڈھاڈر
گہرے بادلوں کا مختلف علاقوں میں راج ,اور موسم خوشگوار ہوا

14/04/2024


کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں تیسرے روز بھی مطلع ابرآلود


کوئٹہ، آج تیسرے روز بھی 25 سے زائد اضلاع میں وقفے وقفے سے بارشوں کی پیش گوئی

کوئٹہ، صوبے میں اب تک آسمانی بجلی، چھت گرنے کے واقعات میں 7 افراد جاں بحق ہوئے ہیں،


کوئٹہ، پشین میں 15 کے قریب گھروں کو نقصان پہنچا ہے، پی ڈی ایم اے

کوئٹہ، سیلابی ریلے کے کے باعث بند ہونے والے ہنہ اوڑک اور چشمہ اچوزئی کے راستے دوبارہ بحال ہوگئے، پی ڈی اپم اے

کوئٹہ، کیچ کے علاقے تمپ میں سیلابی ریلے میں پھنسے 7 افراد کو ریسکیو کرلیا گیا۔ہے، پی ڈی ایم اے

کوئٹہ، درہ بولان میں پنجرہ پل کے مقام پر وقفے وقفے سے پانی کا بہاو ہے، پی ڈی ایم ا ے

کوئٹہ، پی ڈی ایم اے کی شہری اور سیاحوں کو غیر ضروری سفر نہ کرنے کی ہدایت

کوئٹہ، چشمہ اچوزئی سیلابی ریلے میں پھنسی رات گاڑیوں کو نکال دیا گیا، پی ڈی ایم اے

کوئٹہ، پشین میں بھی درجنوں لوگوں کو ریسکیو کرلیا گیا.

14/04/2024

آسمانی بجلی گرنے سے بچاؤ کے طریقے.


جب طوفان باد و باراں گرج چمک کے ساتھ ہو تو آسمانی بجلی گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ایسی صورت میں مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بہتر ہوتا ہے۔
اونچی جگہوں پہ جانے یا ٹھہرنے سے گریز کریں۔
بہتر ہے کہ مکان، گھر، عمارت کے اندر چلے جائیں یا اگر باہر ہیں تو اپنی گاڑی کے اندر بیٹھ جائیں۔
کھلے میدان میں ہیں تو نسبتاً کسی نچلی جگہ والی پناہ گاہ کو اختیار کریں کیونکہ آسمانی بجلی کے عموماً اونچی جگہوں پہ گرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
درختوں کے نیچے پناہ لینے سے گریز کریں۔
اُوپر سے گزرنے والی برقی تاروں کے نیچے کھڑے رہ کر بھی بجلی گرنے سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ تاریں آسمانی بجلی کے موصل کے طور پر کام کرتی ہیں۔
اپنے موبائل، ٹی وی، کمپیوٹر وغیرہ آلات کو استعمال کرنے سے گریز کریں۔

شعوری تبدیلی کیسے آئے گی؟ تحریر؛ ابوبکر دانش میروانی بلوچ  شعوری تبدیلی کیسے آتی ہے؟ سیاسی جدوجہد سے؟ فکری تربیت سے؟ سما...
14/04/2024

شعوری تبدیلی کیسے آئے گی؟
تحریر؛ ابوبکر دانش میروانی بلوچ
شعوری تبدیلی کیسے آتی ہے؟ سیاسی جدوجہد سے؟ فکری تربیت سے؟ سماجی تحریک سے؟
پہلی بات: سماج مسلسل حرکت میں رہتا ہے۔یہ حرکت ہمہ جہتی ہے۔سیاست،معیشت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کو منظم کر نے کے لیے اچھے برے ادارے موجود ہوتے ہیں جو متحرک رہتے ہیں۔ہم اس عمل کو روک سکتے ہیں نہ ان کے حرکت سے غیر متعلق رہ سکتے ہیں۔لہذا اس عمومی سرگرمی میں ہمیں شریک ہونا ہے۔اسے وقت کا جبر کہنا چاہیے۔تاہم یہ بات واضح رہے کہ ان عمومی سرگرمیوں میں شرکت،وہ کتنی اچھی نیت اور سوچ کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو،کسی بڑی اور ہمہ گیر تبدیلی کاسبب نہیں بن سکتی۔
ہم ایک محلے میں رہتے ہیں جہاں ایک مسجد قائم ہے۔اس مسجد کی ایک عمارت ہے۔یہاں امام مسجد کے خطیب کاتقرر ہونا ہے۔ہم اس سرگرمی میں شریک ہوتے ہیں کیونکہ مسجد مسلم معاشرت کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔یہ ممکن ہے کہ ہمارے ذھن میں ایک مثالی مسجد کا تصور ہو جسے تعمیر کرنے کے لیے سماجی و مالی وسائل میسر نہ ہوں۔ اب اگر کوئی مسجد موجودہے اور ہمیں معلوم ہے کہ یہ مسجد اس خاکے کے تحت نہیں بنی جو ہمارے ذھن میں ہے تو ہم اس کی موجودگی کا انکارنہیں کر سکتے اور نہ اس وقت کا انتظار کر سکتے ہیں جب ہمارے حسبِ منشا مسجد تعمیر ہوگی۔ہم اس مسجد کے نظام میں بہتری کے لیے انتظام میں شریک ہوجائیں گے،یہ جانتے ہوئے کہ یہ مسجد وہ نہیں ہے جو ہمارے ذھن میں ہے۔
میں اسی مثال کو آگے بڑھاتا ہوں۔ہم غیر مسلکی بنیاد پر مسجد کی تعمیر چاہتے اور اِسے دین اور مسلمانوں کے لیے مضر سمجھتے ہیں کہ مساجد مسلک کی بنیاد پر تعمیر ہوں۔اس سے سماج میں مسلکی تقسیم گہری ہوتی ہے۔اب اگر ایسی مسجد کی تعمیر کاامکان نہیں ہے جو ہمارا خواب ہے اور محلے میں کسی خاص مسلک کی مسجد موجودہے تو ہم اس کو سب مسلمان مسالک کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے، جو ممکن کوشش ہے وہ کریں گے اور اس عمل سے لاتعلق نہیں رہیں گے۔

دوسری بات: ہم جس شعوری تبدیلی کے خواہاں ہیں،اس کو امرِ واقعہ بنانے کے لیے ہمیں ان عمومی سرگرمیوں میں شرکت کے ساتھ،ا ن سے مارواسوچنا ہوگا۔سب سے پہلے یہ واضح ہوناچاہیے کہ ہم کیا تبدیلی چاہتے ہیں۔پھر اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ یہ تبدیلی کیسے آئے گی؟اس کے لیے ہمیں تاریخ کا،سماجی علوم کا اور انسانی معاشروں کا مطالعہ کرناہو گا۔ہمیں کچھ بنیادی سوالات کے جواب ڈھونڈنا ہوں گے۔ مثال کے طورپر ہم جو تبدیلی چاہتے ہیں،مذہب اس کے لیے معاون یا نہیں؟سماجی تنظیموں اور اداروں کا اس کے لیے کیا کردار ہوگا؟سب سے ہم سوال یہ ہے کہ اس عمل کا آغاز کہاں سے ہوگا؟کسی ایک شعبے سے یا بیک وقت سب شعبہ ہائے حیات میں کوئی حرکت پیدا کرنا ہوگی؟

تیسری بات: تبدیلی کا خواب عام طور پر مفکر دیکھتے ہیں۔وہی اس کی حکمتِ عملی بھی بناتے ہیں۔تبدیلی کی خواہش کہیں بھی پائی جا سکتی ہے مگر اس کے خد وخال کا تعین ایک ایسا ذھن ہی کر سکتا ہے جو انسان اور سماج کو سمجھتا ہو۔جو ان سوالات کے جواب تلاش کر سکتا ہوجن کو ابھی ذکر ہوا۔یہی نہیں جو ان رجال کی بھی نشان دہی کر سکتا ہوں جو تبدیلی کے اس عمل میں شریک ہو سکتے ہیں۔ایک مفکر ہی بتا سکتاہے کہ شعوری تبدیلی سیاسی جدوجہد سے آتی ہے یا فکری تحریک اٹھانے سے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں جو میں لکھ رہا ہوں۔ دنیا میں جو شعوری تبدیلیاں آئیں ان کی بنیاد کسی مفکر ہی نے رکھی۔سماج کے کچھ رجالِ کار نے مفکر کی بات کو سمجھا اور اس کی بصیرت کی روشنی میں وہ تبدیلی برپا کرنے کے لیے عملی قدم اٹھایا جو مفکر نے تجویز کی۔تار یخ میں یہ کام دو طرح سے ہوا ہے۔ایک یہ کہ ایک مفکر کی سوچ سے سماج میں تبدیلی کی ایک منظم کوشش شروع ہوئی یامفکرین کے ایک ہم خیال گروہ نے مشترکہ کاوشوں سے اس کا آغاز کیا۔مذہبی تاریخ کے پہلے دور میں جسے انبیا کا دور کہنا چاہیے اور جو سیدنا محمد ﷺ پر تمام ہوا،ایک فردِ واحد ایک شعوری تبدیلی کی بنیاد بنا۔دوسرے دور میں مفکرین کے ایک گروہ نے پیغمبر کی تعلیمات کی روشنی میں مختلف شعبہ ہائے حیات میں بہتری کی شعوری کوششیں کیں۔
یورپ میں مختلف مفکرین نے شعوری تبدیلی کی ایک تحریک برپا کی جن میں ایک فکری ہم آہنگی تھی۔بظاہر یہ کئی تحریکیں تھیں لیکن تصورِ حیات کے حوالے سے یہ ایک ہی تحریک تھی جو نشاۃ الثانیہ،تحریکِ تنویر،تحریکِ اصلاح ِ مذہب اور کئی دوسرے عنوانات کے تحت تاریخ میں محفوظ ہے۔ مسلم تاریخ میں دیکھیں تو جمال الدین افغانی، علامہ محمد اقبال، ابوالکلام آزاد،علامہ شبلی نعمانی اور مولانا مودودی بنیادی فکری ہم آہنگی کے ساتھ،مختلف شعبوں میں متحرک،مگر ایک ہی تصورِ حیات کے تحت سماجی شعور بیدار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سر سید احمد خان کو بھی شعوری تبدیلی کے لیے سرگرم اسی گروہ میں شمار کرنا چاہیے بلکہ وہ اس کے سرخیل ہیں۔علامہ اقبال نے سر سید کی اس حیثیت کا اعتراف بھی کیا ہے۔
یہ لوگ مختلف شعبوں میں بروئے کارآتے ہیں۔کوئی علومِ اسلامی کو نئی جہت دیتا ہے۔کوئی سماجی علوم میں اجتہاد کرتا ہے۔کوئی ابلاغیات کی سطح پر شعوری بیداری کا ذمہ اٹھاتاہے۔اس سب کی مشترکہ کاوشوں کا حاصل شعوری بیداری ہوتا ہے۔میں یہاں شعوری بیداری کو مطلق مفہوم میں لے رہا ہوں۔شعوری تبدیلی کسی کی نظر میں اچھی ہو سکتی ہے اوربری بھی۔دونوں صورتوں میں تبدیلی کی حکمتِ عملی یہی ہوگی۔

چوتھی بات: شعوری تبدیلی،فکری سطح سے شروع ہو تی ہے۔اسی لیے اسے شعوری کہتے ہیں۔زندگی کے بارے میں ایک تصور(Worldview) اس کی بنیاد بنتا ہے اور ا س کے بعدوہ اصلاحات تجویز کی جاتی ہیں جو اس تصورِ حیات کے تحت مختلف شعبہ ہائے حیات میں لائی جانی چاہییں۔گویا سب سے پہلے ایک فکری تحریک اٹھتی ہے جو سوچ کے ڈھانچے کو تبدیل کر دیتی ہے۔یہ تصور حیات ہمہ گیر ہوتا اورزندگی کو ایک وحدت کے طور پر دیکھتا ہے۔

پانچویں بات: جب کسی مربوط فکر یا تصورِ حیات کے بغیر،کسی ایک شعبے میں اصلاح کی کوئی تحریک اٹھتی ہے تواس کے نتائج بھی نکلتے ہیں مگر یہ محدود ہوتے ہیں اور سماج میں بحیثیت مجموعی کوئی تبدیلی نہیں لاتے۔تبلیغی جماعت اور اصلاحِ رسوم جیسی بے شمار قابلِ قدر کاوشوں کو اس ضمن میں پیش کیا جا سکتا ہے جو اخلاص اور تسلسل کے باجود سماجی سطح پر شعوری تبدیلی لانے میں ناکام رہیں۔
پاکستان میں فکری بحران گھمبیر ہوتاجا رہا ہے۔پراگندگی فکر ہے اور اخلاقی بحران اس کا ایک نتیجہ ہے۔سماج کے اندر اس حوالے سے کوئی منظم کوشش نہیں ہو رہی اگرچہ غیر منظم تحریکیں (Non Movements) موجود ہیں۔یہ ممکن ہے کہ کسی وقت وہ کسی منظم فکری تحریک میں ڈھل جائیں لیکن سرِ دست مجھے اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔جو لوگ سیاست کو تبدیلی کا آلہ سمجھتے ہیں،ان کا انجام ناکامی ہے۔وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہیجان شعوری تبدیلی کااظہار ہے۔2024 ء کے انتخابی نتائج نے فکری بحران میں اضافہ کیا ہے۔اگر ہم فی الواقع کوئی شعوری تبدیلی چاہتے ہیں تو معمول کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں سے ماورا،ہمیں شعوری تبدیلی کے بارے میں سوچناچاہیے۔واقعہ یہ ہے کہ رفو کا کام بہت ہے اور المیہ یہ ہے کہ ہم اضطراب کو شعوری تبدیلی سمجھ رہے ہیں۔

Address

Surab

Telephone

+923333811751

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Surab Times News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share