23/07/2025
ہم آپکے مشکور ہیں کہ آپ نے پشتون تنولی قبیلے کی آواز بلند کی۔ اللہ پاک آپ کو خوش رکھے ۔ ہمیں آپ پر فخر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے تنولی ریاست پاکستان میں ضم ہوئی اس دن سے مسلسل تنول کے ساتھ زیادتی والا سلوک کیا جا رہا۔ حالانکہ تربیلہ ڈیم کے لئے سب سے زیادہ زمین اسی قبیلے نے دی۔
2012 میں عوامی نیشنل پارٹی سابقہ وزیر اعلیٰ حیدر خان ہوتی نے تانول کو ضلع بنانے کی باقاعدہ منظوری دی، اور نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ لیکن جلد ہی یہ عمل روک دیا گیا، اعظم سواتی نے اس اقدام کی مخالفت کی، جس کا مقصد مبینہ طور پر سیاسی اثر و رسوخ کو بچانا تھا، اگر تانول ضلع بن جاتا تو علاقے میں نئی قیادت ابھرتی، اور وہ پرانے سیاسی چہروں کو چیلنج کر سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کیپٹن (ر) صفدر اور اعظم سواتی جیسے افراد نے مبینہ طور پر نوٹیفکیشن پر عمل درآمد رکوانے میں کردار ادا کیا۔ یہ اقدام نہ صرف عوامی خواہشات کے ساتھ دھوکہ تھا بلکہ جمہوری اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہے۔ ترہیلا ڈیم کی تعمیر سے متاثر ہونے والے ہزاروں افراد تاحال زمین کے معاوضے کے منتظر ہیں۔ ایک لاکھ کنال زمین کے متاثرین کو آج تک زرِ تلافی نہیں ملا۔ یہ کیس سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، لیکن حکومت کی بےحسی اور سست عدالتی نظام نے ان لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ یہی سیاسی رہنما، جنہوں نے ضلع تانول کے قیام کو روکا، آج ان متاثرین کے حقوق کی راہ میں بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ضلع تورغر، جو تانول کے مغربی حصے پر مشتمل ہے، ضلع کا درجہ دیا جا چکا ہے۔ لیکن تانول، جو ثقافتی، تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے، آج بھی محرومیوں کا شکار ہے۔ عوامی نمائندوں نے جب بھی آواز بلند کی، انہیں نظر انداز کیا گیا، یا سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ فوری طور پر ضلع تانول کے نوٹیفکیشن پر عمل درآمد کیا جائے۔ ترہیلا ڈیم متاثرین کو فوری معاوضہ دیا جائے۔ سیاسی مداخلت بند کی جائے اور عوامی مفادات کو ترجیح دی جائے۔ اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ نوٹیفکیشن کیوں رُکا۔
ضلع تانول کا قیام صرف ایک انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی امیدوں، ترقی، اور شناخت کا مسئلہ ہے۔ جب تک حکومت سیاسی مداخلت کو روکے گی نہیں اور عوام کی آواز کو ترجیح نہیں دے گی، اس جیسے مسائل نہ صرف موجود رہیں گے بلکہ وقت کے ساتھ اور بھی پیچیدہ ہوتے جائیں گے۔ عوام کا حق ہے کہ انہیں مکمل معلومات فراہم کی جائیں اور ان کی جائز آواز سنی جائے۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب عوام خود اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر ہوں گے