Rana Writes

Rana Writes Positive Creator positive message with beautiful effect �

*ابوالکلام کہتے ہیں*ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی۔۔۔۔۔۔۔ میں والد کے...
02/10/2025

*ابوالکلام کہتے ہیں*
ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی۔۔۔۔۔۔۔ میں والد کے ردِعمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ غصّے کا اظہار کرینگے لیکن انہوں نے اِنتہائی سکون سے کھانا کھایا اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ آج سکول میں میرا دن کیسا گزرا مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا.
لیکن۔۔۔۔۔۔۔اُسی دوران میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی.
میرے والد نے کہا کوئی بات نہیں بلکہ مجھے تو یہ روٹی کھا کر مزا آیا.
اُس رات جب میں اپنے والد کو شب بخیر کہنے اُن کے کمرے میں گیا تو اُن سے اِس بارے میں پوچھ ہی لیا کہ۔۔۔۔۔۔۔ کیا واقعی آپ کو جلی ہوئی روٹی کھا کر مزا آیا؟
انہوں نے پیار سے مجھے جواب دیا بیٹا ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی انسان کے جذبات کو مجروح کر دیتے ہے۔۔۔۔۔۔۔
میرے بچے یہ دُنیا بے شمار ناپسندیدہ چیزوں اور لوگوں سے بھری پڑی ہے، میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔ہمارے ارد گرد کے لوگوں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا، رشتوں کو بخوبی نبھانا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہی تعلقات میں بہتری کا سبب بنتا ہے ہماری زندگی اتنی مختصر ہے کہ اِس میں معذرت اور پچھتاووں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئیے

مرثیہ بر روحِ عاجز: سید رحمن شاپوریہ کہانی نہیں، یہ نوحہ ہے۔یہ المیہ کسی اور کا نہیں، ہمارے ہی زمانے کا ہے۔ ایک ایسا زما...
17/09/2025

مرثیہ بر روحِ عاجز: سید رحمن شاپور

یہ کہانی نہیں، یہ نوحہ ہے۔
یہ المیہ کسی اور کا نہیں، ہمارے ہی زمانے کا ہے۔ ایک ایسا زمانہ جہاں انسان اپنے ہی لہو سے بوجھ ڈھو رہا ہے، اور رزق کی تھالی گالیوں اور لاتوں کے چھینٹوں سے لبریز ہے۔

شاپور کا سید رحمن ۔۔۔
ایک ملنگ سا بندہ، لاغر سا جسم، نیم مردہ دماغ، مگر آنکھوں میں صدیوں کی تھکن اور صدیوں کی خاموشی۔ ہسپتال کی راہداریوں میں وہ زمین پر گر کر سوتا ہے جیسے فرش اور آسمان کے بیچ کوئی جگہ باقی نہ بچی ہو۔ دو راتوں تک آنکھوں ہی آنکھوں میں پہرہ دیتا رہا، کبھی بچے کے سرہانے، کبھی پاؤں کی جانب اور جب ہمت ٹوٹتی تو گرد آلود فرش ہی اس کا بستر بن جاتا ۔۔۔

میں نے ناشتے کی دعوت دی تو وہ یوں میرے ساتھ چل پڑا جیسے بچہ کسی بڑے کے اشارے پر اٹھتا ہے۔ پراٹھے کا ذکر آیا تو اس کی آنکھیں کسی پرانی حسرت سے بھیگ گئیں۔ بولا: پراٹھا بہت پسند ہے، گھر میں پراٹھا کہاں بنتا ہے، کبھی کسی کے ہاں مل جائے تو ایک بیوی کے لئے بھی ساتھ اٹھا لاتا ہوں ۔۔۔
اس جملے میں کیا غضب کا افلاس تھا ۔۔۔

اس کی بیوی بھی نیم دماغی معذور ہے۔ ان کے دو بچے جیسے وقت کے قیدی ہیں۔ سید رحمن خود دن کے چھ سو یا سات سو کے لئے پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر جان کھپاتا مزدور، وزن اٹھاتا ہے، جسم ٹوٹتا ہے، گالیاں سہتا ہے، مار کھاتا ہے۔ پھر بھی شکوہ نہیں کرتا، بس کہتا ہے:
"مجھے کوئی ایسا کام دلوا دو جس میں محنت زیادہ ہو مگر گالی اور مار نہ ہو۔"
آدمی اب کیا کہے ؟

اور پھر یہ معصوم آدمی حیرت سے مجھ سے پوچھ بیٹھا:
"تم سفید کپڑے پہنتے ہو اور کالا چشمہ لگاتے ہو، کیا مزدوری نہیں کرتے؟"
یہ سوال نہیں ہے، یہ آئینہ ہے جس میں میری پوری زندگی ننگی کھڑی ہے ۔۔۔

میں حیرت سے دیکھتا رہا۔
وہ اپنی پرانی چادر میں لپیٹے اشیائے ضروریہ کھولتا ہے، اندر بچے کے خستہ کپڑے، پلاسٹک کے جوتے اور چند گڑ کی ڈلیاں رکھی تھیں۔ جب میں نے بچے کو جوس اور فروٹ دیا تو اس کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں، جیسے پہلی بار دنیا کی رنگینی دیکھی ہو ۔۔۔
کیا یہ بھی جینا ہے ۔۔۔؟

یہ کون سا عہد ہے جہاں مزدور اپنی عزت کی قیمت مانگنے سے ڈرتا ہے ۔۔۔؟
جہاں زندگی کی پوری کمائی گالی سے بچنے کی التجا میں سمٹ جاتی ہے ۔۔۔؟

ڈاکٹر نے آج بچے کو ہسپتال سے ڈسچارج کیا ہے۔ کہا ہے کہ دو ہفتے بعد دوبارہ معائنے کے لئے لانا ہوگا۔
رحمن یہ خبر بھی یوں سنتا ہے جیسے کسی اور آزمائش کی تاریخ اس کے مقدر میں لکھ دی گئی ہو۔ وہ مطمئن نہیں، مگر سر جھکائے قبول کر لیتا ہے ۔۔۔

وہ بتاتا ہے کہ حادثے کے بعد بچے کو گود میں اٹھائے سیدھا ہسپتال کی راہ لی۔ سڑک پر پہنچا تو رشتے دار نے جیب میں کچھ روپے ڈال دیے، مگر ساتھ شرط رکھی: "اس کے عوض میرا فلاں کام کرنا ہوگا۔"
رزق بھی قرض کی صورت آتا ہے اور مزدوری بھی قید کی طرح جکڑ لیتی ہے ۔۔۔

میں نے زندگی میں جبر دیکھے ہیں، مصیبتیں سہی ہیں۔ مگر خدا کی قسم، سید رحمن کے وجود نے مجھے اندر سے توڑ دیا۔ اس کی خاموشی ایک چیخ ہے، اس کی عاجزی ایک مرثیہ ہے۔ دل چاہتا ہے کہ شاپور جاؤں، اس کے پہلو میں بیٹھوں، اس کے ساتھ زمین پر دھڑام سے لیٹ جاؤں، اس کے ساتھ وہی پراٹھا اور چائے کھاؤں ۔۔۔

یہ پہاڑوں کے مزدور لوگ کیسے جیتے ہیں ۔۔۔ ؟
یہ کیسی زندگی ہے جس میں خوشی کا ایک لقمہ بھی نصیب نہیں ہوتا ۔۔۔؟
یہ کائنات اتنی بے رحم کیوں ہے؟ زمین سخت اور آسماں اتنا دور کیوں ہے ۔۔۔؟

سید رحمن کی آنکھوں میں جھانکیں تو یوں لگتا ہے جیسے وقت خود اس پر نوحہ پڑھ رہا ہو۔
اور ہم سب سامع ہیں، مگر گونگے سامع، جو سن کر بھی کچھ نہیں کرتے ۔۔۔ !

Copied: Muhammad Gul

‏ایک انتھراپالوجسٹ  نے ایک افریقی قبیلے کے بچوں کے لیے ایک کھیل پیش کیا۔اس نے ایک درخت کے قریب  میوے کی ٹوکری رکھی اور ب...
29/08/2025

‏ایک انتھراپالوجسٹ نے ایک افریقی قبیلے کے بچوں کے لیے ایک کھیل پیش کیا۔
اس نے ایک درخت کے قریب میوے کی ٹوکری رکھی اور بچوں کوکہا جو پہلے وہاں پہنچے وہ یہ انعام جیتے گا۔
دوڑ کا آغاز ہوا تو سب نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے اور اکٹھے دوڑے، پھر سب مل کر انعام میں ملے پھلوں کا لطف اٹھایا۔
بچوں سےپوچھا گیا کہ وہ کیوں اکٹھے دوڑے؟ اگر وہ الگ الگ دوڑتے تو کسی ایک کو سارے پھل کھانے کا موقع ملتا، بچوں نے جواب میں ایک لفظ کہا: 'اوبونٹو، اگر ہم سب غمگین ہیں تو ایک شخص کیسے خوش ہو سکتا ہے؟'
ان کے معاشرتی نظام میں اوبونٹو کا مطلب ہے: (میں ہوں کیونکہ ہم ہیں).
یہ قبیلہ خوشی کا راز جانتا ہے جو ہم سب کھو چکے ہیں۔🍁

"ہم آج کا کام کل پر کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ ٹال مٹول کی اصل وجہ اور اس کا حلٹال مٹول: ایک چھپا ہوا خوف یا خود تباہی کا آلہ؟م...
26/08/2025

"ہم آج کا کام کل پر کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ ٹال مٹول کی اصل وجہ اور اس کا حل

ٹال مٹول: ایک چھپا ہوا خوف یا خود تباہی کا آلہ؟

میں ایک عرصے سے اپنی ایک عادت کی وجہ سے کافی پریشان تھا اور وہ عادت ہے ٹال مٹول کی عادت جسے انگریزی میں اسے Procrastination کہا جاتا ہے۔ بظاہر یہ ایک عام سی بات لگتی ہے جس میں ہم ضروری کام کو "کل پر چھوڑ دینے" کو ترجیح دیتے ہیں مگر دراصل یہ اتنی سادہ نہیں۔ یہ ایک ایسی نفسیاتی گرہ ہے جو وقت، توانائی اور مواقع سب کچھ نگل جاتی ہے۔

میں بھی اسی کیفیت میں گرفتار تھا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے، مگر پھر بھی اپنے اہم ترین کاموں کو ملتوی کرتا رہا۔ ہر بار سوچتا "کل کر لوں گا" مگر وہ کل کبھی نہیں آتا۔ سوال یہ تھا کہ آخر میں ایسا کیوں کرتا ہوں؟
اب اس مسئلے کو حل کرنے کی ٹھانی اور ہمیشہ کی طرح اپنے سب سے بڑے سپورٹ سسٹم اور مینٹور کا رخ کیا جو میری لائبریری ہے.
اپنی لائبریری میں سے پروڈکٹیویٹی اور پرفارمنس سائیکالوجی کی کئی کتابوں میں سے سب سے بہترین کتاب مجھے The Now Habit لگی اور اسے پڑھنا شروع کردیا.

اس کتاب کے پہلے ہی دو چیپٹرز نے مجھے چونکا دیا۔ اس کتاب نے مجھے نے بتایا کہ ٹال مٹول دراصل ایک نفسیاتی دفاعی نظام Psychological Defense Mechanism ہے اور یہ ایک ایسی ڈھال جس کے پیچھے ہم اپنے خوف، اپنی کمزوری اور اپنی غیر یقینی کیفیت کو چھپاتے ہیں۔
مجھے اس دوران یہ بھی اندازہ ہوا کہ مجھ سمیت کئی اعر لوگ بھی اس مسئلے کا شکار ہیں تو کیوں نہ ان کے لیے بھی کچھ لکھا جائے تو یہی مقصد اس تحریر کا ہے.

👈ٹال مٹول کی جڑ: کمال پسندی اور ناکامی کا خوف
Perfectionism And Fear of Failure

گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد میں نے سمجھا کہ میری ٹال مٹول کی اصل جڑ کمال پسندی (Perfectionism) اور ناکامی کا خوف (Fear of Failure) ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ کام اس لیے نہیں ٹالتے کہ ہم کاہل ہیں۔ بلکہ اس لیے ٹالتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے کام شروع کیا اور وہ ناکام ہوا یا لوگوں کو پسند نہ آیا تو کیا ہوگا؟ یہی سوچ ہمیں کام شروع کرنے سے بھی روکتی ہے۔
کمال پسند انسان کے لیے ناکامی صرف ایک نتیجہ نہیں بلکہ اس کی پوری شخصیت پر سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ وہ اپنے کام اور اپنی ذات میں فرق نہیں کر پاتا۔ اس کے نزدیک یہ کہنا کہ "تمہارا کام اوسط درجے کا ہے" دراصل یہ کہنا ہوتا ہے کہ "تم خود ناکام ہو۔"
یہی وجہ ہے کہ وہ لاشعوری طور پر کام کو مؤخر کرتا ہے تاکہ خود کو اس کرب سے بچا سکے۔ مگر یہ بچاؤ وقتی ہوتا ہے، اور اس کی قیمت وقت اور زندگی کے ضیاع کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔

یہ سب کیسے ممکن ہوتا ہے تو اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں.
سوچیے ایک ٹینس کھلاڑی میچ ہارتا ہے۔ ایک عام کھلاڑی ہار کو محنت کا حصہ سمجھ کر آگے بڑھ جائے گا۔ مگر ایک کمال پسند پروفیشنل کھلاڑی کے لیے یہ ہار اس کی پوری پہچان پر ضرب ہے۔ اس کے نزدیک یہ صرف کھیل میں شکست نہیں بلکہ "میں ناکام انسان ہوں" کا اعلان ہے۔
یہی کیفیت دفتر کے پروجیکٹ، امتحان یا کاروبار میں بھی پیش آتی ہے۔ ہم ایک کام کو اپنی پوری ذات سے باندھ لیتے ہیں۔ پھر اگر وہ کام توقع کے مطابق نہ ہوا تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم بطور انسان ناکام ہوگئے۔

ہمارے اسی رویے کے بارے میں ییل یونیورسٹی کی ماہرِ نفسیات پیٹریسیا لنول کہتی ہیں کہ اگر انسان کی شخصیت متنوع اور کئی جہتوں پر مشتمل ہو تو وہ ناکامی سے کم خوفزدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے پاس دوسرے سہارا دینے والے شعبے ہوتے ہیں۔
مگر اگر انسان نے اپنی پوری عزتِ نفس کو ایک ہی کام یا ایک ہی ہنر پر ٹکا دیا ہو، تو پھر ناکامی کا دباؤ اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے۔
اسی لیے ٹال مٹول اکثر لاشعوری چیخ ہے جو کہتی ہے:
"یہ کام صرف میرا کام نہیں، یہ میں ہوں۔ اگر یہ ناکام ہوا تو میری پوری ذات ناکام ہے۔"

اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

میں نے کتاب کے شروع کے چیپٹرز سو جو سیکھا ہے اس کی بنیاد پر چند طریقے بھی شیئر کردیتا ہوں جو آپ کو بہت مدد کریں گے.

1. کام کو ٹکڑوں میں بانٹیں (Break Down Tasks):
بڑا پروجیکٹ خوفناک لگتا ہے۔ اسے چھوٹے اور قابلِ عمل حصوں میں تقسیم کریں۔ پہلا قدم صرف آؤٹ لائن بنانا، دوسرا پہلا پیراگراف لکھنا۔

2. خود پر نرمی برتیں (Practice Self-Compassion):
غلطیوں کو اپنی انسانیت کا حصہ سمجھیں۔ جو لوگ خود کو معاف کرتے ہیں وہ زیادہ آگے بڑھتے ہیں، جبکہ خود پر تنقید کرنے والے خوف کے جال میں پھنسے رہ جاتے ہیں۔

3. کمال پسندی کے بجائے 80% اصول اپنائیں:
ہر کام کو کامل بنانے کے بجائے "کافی اچھا" بنانے کی کوشش کریں۔ 80% پر بھی اکثر بہترین نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں: ایک ادھورا مگر شروع کیا ہوا کام، اس کام سے بہتر ہے جو کبھی شروع ہی نہ ہو۔

4. اپنی پہچان کو متنوع بنائیں (Diversify Your Identity):
خود کو صرف ایک کامیابی یا ایک کردار تک محدود نہ کریں۔ نئی مہارتیں سیکھیں، مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ جب آپ کی شناخت کئی پہلوؤں پر مشتمل ہوگی تو ایک شعبے میں ناکامی آپ کی ذات کو نہیں ہلا پائے گی۔

5. عمل پر توجہ دیں، نتائج پر نہیں (Focus on Process):
اپنے کنٹرول میں موجود چیزوں پر فوکس کریں۔ "مجھے ٹاپ کرنا ہے" کے بجائے "مجھے روزانہ دو گھنٹے پڑھنا ہے" پر توجہ دیں۔

یاد رکھیں:
ٹال مٹول دراصل ایک ماسک ہے. ایک نقاب جو ہم اپنی نفسیاتی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے پہنتے ہیں۔ مگر یہ نقاب ہمیں وقتی سکون دیتا ہے اور طویل مدتی نقصان پہنچاتا ہے۔ ہم وقت کھو دیتے ہیں، مواقع گنوا دیتے ہیں اور اپنی صلاحیت کو زنگ لگا دیتے ہیں۔
اصل آزادی تب ملتی ہے جب ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا کام ہماری پہچان نہیں۔ ہم اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ ہماری ذات کئی جہتوں، کئی کرداروں اور کئی امکانات کا مجموعہ ہے۔

توصیف اکرم نیازی

Address

Swat

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rana Writes posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Rana Writes:

Share

Category