25/12/2025
اچکزئی، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور فضل الرحمان کے بعد اب خواجہ سعد رفیق نے بھی بھکی بھکی باتیں کرنا شروع کر دی ہیں کہ نواز شریف کو مصالحتی کردار ادا کرنا چاہیے۔ جو بھی سیاسی لیڈر آپ کو اس قسم کی کنفیوژن کا شکار نظر آنے لگے، تو سمجھ جائیں کہ اس کی کوئی کمزوری فیضی گروپ کے ہاتھ لگ چکی ہے۔
حالانکہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کل بھی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کو دہرایا کہ:
“پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے، جس کے حوالے سے میں نے آج اخبار میں بھی پڑھا۔ میں نے اس سے پہلے بھی اور آج اسمبلی میں بھی انہیں ڈائیلاگ کی دعوت دی ہے، اور اگر وہ اس پر تیار ہوں تو حکومتِ پاکستان مکمل طور پر آمادہ ہے۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی ضروری ہے، تاہم اس کی آڑ میں غیر قانونی اقدامات یا بلیک میلنگ قابلِ قبول نہیں۔ جائز اور آئینی معاملات کے دائرے میں رہتے ہوئے مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں، جس کی دعوت میں پہلے بھی دے چکا ہوں اور اب ایک بار پھر دہرا رہا ہوں۔”
جبکہ کل ہی سلائی مشین والی علیمہ خانم فرما رہی تھیں کہ:
“حکومت سے کیا بات کرنی، فیلڈ مارشل بات کرنا چاہتے ہیں تو جیل میں جا کر عمران خان سے بات کر لیں۔”
اب اچکزئی اور سعد رفیق بتائیں، کون سا مصالحتی کردار ادا کرنا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جب عمران نیازی خود وزیراعظم تھے تو آئینی بل پاس کروانے کے لیے ایجنسیوں کے زور پر اپوزیشن جماعتوں کو بلاتے تھے ،
لیکن ان سے ملاقات یا بات کرنے کو اپنی توہین سمجھتے تھے، اور ایسے کسی اجلاس میں شرکت کرنے کی بجائے دوسرے کمرے میں بیٹھے رہتے تھے۔
اپوزیشن رہنماؤں کی آرمی چیف سے ملاقات پر خود عمران نیازی کا فرمان تھا کہ:
“اپوزیشن کا کیا کام آرمی چیف سے ملاقات کرے؟ کبھی سنا ہے کہ برطانیہ کا آرمی چیف اپوزیشن سے ملتا ہے؟ کبھی بھی نہیں!”
لیکن 2014 کے دھرنوں میں جب راحیل شریف سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے تو خوشی سے ان کی باچھیں بند ہی نہیں ہو رہی تھیں۔ آج ایک بار پھر باجی کی حسرت ہے کہ کوئی بلاوا آ جائے۔
الحمدللہ، پاکستان اس منحوس کے بغیر بہت بہتر انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان لیبیا کو چار ارب ڈالرز کے ہتھیار فروخت کرے گا، یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیفنس ڈیل ہے۔ عنقریب اسی طرز پر مزید تین ممالک سے دس ارب ڈالرز کی ڈیل ہونے والی ہے۔
کل ہی پی آئی اے نامی سفید ہاتھی کا سودا طے پا گیا۔ ایک شفاف بولی میں عارف حبیب کنسورشیم نے 135 ارب روپے کی بلند ترین بولی دے کر پی آئی اے کے 75 فیصد حصص خرید لیے ہیں۔
یہ نجکاری ایک پانچ سالہ بزنس پلان کے تحت ہوئی ہے۔ اس بزنس پلان کے مطابق آنے والے چار سالوں میں پی آئی اے کے آپریشنل جہازوں کی تعداد 18 سے بڑھا کر 38،مسافروں کی تعداد 40 لاکھ سے 70 لاکھ اور ریونیو 250 ارب سے بڑھا کر 500 ارب کیا جائے گا۔
سردست حکومت کو 7.5 فیصد کے حساب سے دس ارب ملیں گے، باقی 125 ارب پی آئی اے پر خرچ ہوں گے۔ اور 25 فیصد شیئرز کی سیل سے 45 ارب روپے حاصل ہوں گے، یوں حکومت کو کل 55 ارب ملیں گے۔
سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس اپگریڈیشن پر حکومت پاکستان کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوگا بلکہ سالانہ تیس سے چالیس ارب کا خسارہ بند ہو جائے گا۔
پی آئی اے بحال ہوگی، نئے جہاز آئیں گے۔ پاکستانیوں کے لیے دنیا بھر کا سفر آسان ہو جائے گا، بجائے ٹرانزٹ کر کے منزل پر پہنچیں۔ چالیس کے بجائے ستر لاکھ مسافر سالانہ سفر کریں گے۔
اس نجکاری کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قوم یوتھ ماتم کناں ہے۔
یاد رہے کہ عہدِ عمرانی میں پی آئی اے پر یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں پابندی لگی تھی، جو اب جا کر اس حکومت نے ختم کی۔ اس دور میں اس کے کل خسارے میں 56 فیصد اضافہ ہوا۔ پی آئی اے کے اثاثہ جات، بلڈنگ، زمین اور جہاز گروی رکھ مزید بیس ارب کا قرضہ حاصل کیا گیا اور پھر قوم کو خوشخبری سنا دی گئی کہ آپ نے گھبرانا نہیں۔
🖊️ #سواتی