Qamar bhai official

Qamar bhai official Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Qamar bhai official, Video Creator, Talagang.

25/12/2025

اچکزئی، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور فضل الرحمان کے بعد اب خواجہ سعد رفیق نے بھی بھکی بھکی باتیں کرنا شروع کر دی ہیں کہ نواز شریف کو مصالحتی کردار ادا کرنا چاہیے۔ جو بھی سیاسی لیڈر آپ کو اس قسم کی کنفیوژن کا شکار نظر آنے لگے، تو سمجھ جائیں کہ اس کی کوئی کمزوری فیضی گروپ کے ہاتھ لگ چکی ہے۔

حالانکہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کل بھی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کو دہرایا کہ:
“پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے، جس کے حوالے سے میں نے آج اخبار میں بھی پڑھا۔ میں نے اس سے پہلے بھی اور آج اسمبلی میں بھی انہیں ڈائیلاگ کی دعوت دی ہے، اور اگر وہ اس پر تیار ہوں تو حکومتِ پاکستان مکمل طور پر آمادہ ہے۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی ضروری ہے، تاہم اس کی آڑ میں غیر قانونی اقدامات یا بلیک میلنگ قابلِ قبول نہیں۔ جائز اور آئینی معاملات کے دائرے میں رہتے ہوئے مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں، جس کی دعوت میں پہلے بھی دے چکا ہوں اور اب ایک بار پھر دہرا رہا ہوں۔”

جبکہ کل ہی سلائی مشین والی علیمہ خانم فرما رہی تھیں کہ:
“حکومت سے کیا بات کرنی، فیلڈ مارشل بات کرنا چاہتے ہیں تو جیل میں جا کر عمران خان سے بات کر لیں۔”

اب اچکزئی اور سعد رفیق بتائیں، کون سا مصالحتی کردار ادا کرنا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ جب عمران نیازی خود وزیراعظم تھے تو آئینی بل پاس کروانے کے لیے ایجنسیوں کے زور پر اپوزیشن جماعتوں کو بلاتے تھے ،
لیکن ان سے ملاقات یا بات کرنے کو اپنی توہین سمجھتے تھے، اور ایسے کسی اجلاس میں شرکت کرنے کی بجائے دوسرے کمرے میں بیٹھے رہتے تھے۔
اپوزیشن رہنماؤں کی آرمی چیف سے ملاقات پر خود عمران نیازی کا فرمان تھا کہ:
“اپوزیشن کا کیا کام آرمی چیف سے ملاقات کرے؟ کبھی سنا ہے کہ برطانیہ کا آرمی چیف اپوزیشن سے ملتا ہے؟ کبھی بھی نہیں!”

لیکن 2014 کے دھرنوں میں جب راحیل شریف سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے تو خوشی سے ان کی باچھیں بند ہی نہیں ہو رہی تھیں۔ آج ایک بار پھر باجی کی حسرت ہے کہ کوئی بلاوا آ جائے۔

الحمدللہ، پاکستان اس منحوس کے بغیر بہت بہتر انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان لیبیا کو چار ارب ڈالرز کے ہتھیار فروخت کرے گا، یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیفنس ڈیل ہے۔ عنقریب اسی طرز پر مزید تین ممالک سے دس ارب ڈالرز کی ڈیل ہونے والی ہے۔

کل ہی پی آئی اے نامی سفید ہاتھی کا سودا طے پا گیا۔ ایک شفاف بولی میں عارف حبیب کنسورشیم نے 135 ارب روپے کی بلند ترین بولی دے کر پی آئی اے کے 75 فیصد حصص خرید لیے ہیں۔
یہ نجکاری ایک پانچ سالہ بزنس پلان کے تحت ہوئی ہے۔ اس بزنس پلان کے مطابق آنے والے چار سالوں میں پی آئی اے کے آپریشنل جہازوں کی تعداد 18 سے بڑھا کر 38،مسافروں کی تعداد 40 لاکھ سے 70 لاکھ اور ریونیو 250 ارب سے بڑھا کر 500 ارب کیا جائے گا۔
سردست حکومت کو 7.5 فیصد کے حساب سے دس ارب ملیں گے، باقی 125 ارب پی آئی اے پر خرچ ہوں گے۔ اور 25 فیصد شیئرز کی سیل سے 45 ارب روپے حاصل ہوں گے، یوں حکومت کو کل 55 ارب ملیں گے۔
سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس اپگریڈیشن پر حکومت پاکستان کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوگا بلکہ سالانہ تیس سے چالیس ارب کا خسارہ بند ہو جائے گا۔
پی آئی اے بحال ہوگی، نئے جہاز آئیں گے۔ پاکستانیوں کے لیے دنیا بھر کا سفر آسان ہو جائے گا، بجائے ٹرانزٹ کر کے منزل پر پہنچیں۔ چالیس کے بجائے ستر لاکھ مسافر سالانہ سفر کریں گے۔

اس نجکاری کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قوم یوتھ ماتم کناں ہے۔
یاد رہے کہ عہدِ عمرانی میں پی آئی اے پر یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں پابندی لگی تھی، جو اب جا کر اس حکومت نے ختم کی۔ اس دور میں اس کے کل خسارے میں 56 فیصد اضافہ ہوا۔ پی آئی اے کے اثاثہ جات، بلڈنگ، زمین اور جہاز گروی رکھ مزید بیس ارب کا قرضہ حاصل کیا گیا اور پھر قوم کو خوشخبری سنا دی گئی کہ آپ نے گھبرانا نہیں۔

🖊️ #سواتی

تو صاحب یہ رہے چٹے بالوں والے دو ایماندار صحافی جو خود کو سچائی کا سمبل سمجھتے ہیں۔ایسا نہیں کہ انہیں درست معلومات حاصل ...
25/12/2025

تو صاحب یہ رہے چٹے بالوں والے دو ایماندار صحافی جو خود کو سچائی کا سمبل سمجھتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ انہیں درست معلومات حاصل کرنے میں کوئی پرابلم پیش آتی ہو گی یہ جہاز کی قیمت معلوم کرنا چاہتے تو یہ ایک کلک کی مار ہے کوئی بچہ بھی یہ معلوم کر سکتا ہے مگر یہ انکا مقصد ہی نہیں انہیں تو عوام کو بھڑکانا ہے اور اپنے ڈالروں کی راہ ہموار کرنا ہے
پی آئی اے فلیٹ میں اس وقت کل 18 جہاز آپریٹنگ ہیں جن میں سے چھ جہاز پی آئی اے کی اپنی ملکیت ہے اور باقی لیز پر حاصل کیے گئے ہیں۔
جو جہاز اپنے ہیں ان میں زیادہ تر بوئنگ 777 ہیں جو پی آئی اے نے 2003 میں حاصل کیے تھے اور اب اپنی عمر لگ بھگ گزار چکے ہیں
جس وقت یہ جہاز خریدے گئے تھے تو انہیں اوسطاً 127 ملین ڈالر فی جہاز خریدا گیا تھا احمد سعید اس وقت پی آئی اے چیئرمین تھے
یہ جہاز امارات ائیرلائن کے لیے ایک ڈیل کے تحت بنائے گئے تھے مگر امارات نے وہ ڈیل کینسل کر دی تو امریکہ نے یہ جہاز پاکستان کو لینے پر زوردیا
امارات نے ایک جہاز 100 ملین ڈالر کی ڈیل کی تھی چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان اس میں سے بھی کچھ رعایت کرواتا مگر مشرف حکومت نے بخوشی یہ جہاز 127 ملین ڈالر فی جہاز خرید لیے۔
مبشبٹ لقمان کے ساتھ بعد میں ایک انٹرویو کے دوران جب مبشر لقمان نے سوال کیا کہ پی آئی اے کو سنگا پور ائیرلائن اس سے ساٹھ فیصد کم میں یہی جہاز آفر کر رہا تھا تو یہ اتنے مہنگے جہاز کیوں لیے گئے
احمد سعید کا جواب تھا کہ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ نئے جہاز خریدنا ہیں
مبشر نے سوال کیا کہ کیا ایک سال چلے جہاز پرانے ہوتے ہیں؟

احمد سعید کا جواب تھا کہ ایک دن چلے بھی پرانے ہوتے ہیں۔
تو جناب آج یہ چٹے سر والے دو منافق ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر بائیس سال پرانے جہازوں کو جو اپنی عمر پوری کر چکے ہیں اور اس وقت 127 ملین ڈالر فی جہاز آیا تھا آج فی جہاز 400 ملین ڈالر کا قرار دے رہے ہیں
مقصد صرف یہ کہ عوام میں اشتعال پیدا کیا جا سکے ۔۔
کیوں فیر مزہ نہیں آیا؟
🖊️ ناصر بٹ

نوٹ ۔۔

یہاں پہ 480 ملین جو یہ لوگ جان بوجھ کر 48 ملین بتا رھے تاکہ عام لوگوں کو گمراہ کیا جا سکے

کوئی گنتی کر کے ان کی اصل تعداد بتا دے۔
19/11/2025

کوئی گنتی کر کے ان کی اصل تعداد بتا دے۔

19/11/2025

‏جب ہم 60 برس کی عمر کو پہنچتے ہیں، تو ہم زندگی کے آخری مرحلے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مکمل اندھیرا چھانے سے پہلے، کچھ "مناظر" ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔ اگر ہم انہیں یاد رکھیں، تو ذہنی طور پر تیار ہوں گے اور گھبرائیں گے نہیں۔
پہلا منظر: آپ کے ساتھ کم لوگ ہوں گے۔
آپ کے بزرگ—والدین، دادا دادی—اکثر اس دنیا سے جا چکے ہوں گے۔
آپ کے ہم عمر اپنی ہی پریشانیوں میں الجھے ہوں گے۔
نئی نسل اپنی زندگی میں مصروف ہوگی۔
حتیٰ کہ آپ کا شریکِ حیات بھی آپ سے پہلے جا سکتا ہے۔
آپ کے دن لمبے اور تنہا ہو سکتے ہیں۔
آپ کو اکیلے جینا اور تنہائی کا سامنا کرنا سیکھنا ہوگا۔
دوسرا منظر: معاشرے کی توجہ ختم ہو جائے گی۔
چاہے آپ کا ماضی کتنا ہی شاندار ہو، کتنے ہی معروف رہے ہوں—
بڑھاپے میں ہر کوئی عام بوڑھا مرد یا عورت بن جاتا ہے۔
روشنی کا ہالہ اب آپ پر نہیں ہوگا۔
آپ کو چپ چاپ ایک طرف کھڑے ہو کر نئی نسل کی کامیابی اور جوش کو سراہنا سیکھنا ہوگا—بغیر حسد یا شکایت کے۔
تیسرا منظر: راستے میں خطرات بڑھ جائیں گے۔
ہڈیوں کا ٹوٹنا، دل کی بیماریاں، دماغ کی کمزوری، کینسر—یہ سب آپ کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں، چاہے آپ چاہیں یا نہ چاہیں۔
آپ کو بیماری کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا، صحت کو کامل ہونے کا خواب چھوڑ دینا ہوگا۔
اچھا رویہ رکھنا اور مناسب ورزش کرنا آپ کا مشن بن جائے گا۔خود کو حوصلہ دینا سیکھیں۔
چوتھا منظر: آپ واپس بستر تک محدود ہو سکتے ہیں، جیسے بچپن میں تھے۔
جیسے ہم پیدا ہوئے تو ماں نے بستر پر ہمارا خیال رکھا۔
زندگی بھر کی جدوجہد کے بعد، ہم وہیں واپس آ جاتے ہیں: بستر پر۔
اب دوسروں کی دیکھ بھال کے محتاج ہوتے ہیں۔
لیکن اس بار شاید ماں جیسا پیار کرنے والا کوئی نہ ہو۔
اگر کوئی ہے بھی، تو ممکن ہے وہ اتنی محبت سے نہ کرے—
اکثر یہ خدمتگار ہوتے ہیں، جو باہر سے مسکراتے ہیں مگر اندر سے بے صبرے ہوتے ہیں۔
آپ کو عاجزی اور شکرگزاری کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔
پانچواں منظر: راستے میں بہت سے لوگ دھوکہ دیں گے۔*
ٹھگ جانتے ہیں کہ بزرگوں کے پاس کچھ جمع پونجی ہوتی ہے—
وہ ہر طریقہ آزمائیں گے: فون، پیغامات، ای میل، مفت چیزیں، کرشماتی علاج، “بابا جی کی برکت”، لمبی عمر کی گولیاں—سب کچھ، صرف آپ کی جیب خالی کرنے کے لیے۔
ہوشیار رہیں۔ اپنا پیسہ بچائیں۔ عقلمندی سے خرچ کریں۔
چھٹا منظر: اپنے شریکِ حیات (یا قریبی ساتھی) کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔*
نرمی سے بات کریں، محبت سے، خیال رکھیں—خاص طور پر اپنے شریکِ حیات کا۔
وہ آپ کی آخری “زندگی کی بچت” ہیں۔
60 کے بعد بچوں پر انحصار غیر یقینی ہے
ان کی اپنی زندگی، اپنا خاندان ہوتا ہے۔
آخر میں صرف آپ دونوں ایک دوسرے کے سہارے رہ جاتے ہیں۔
اس عمر میں بھٹکنے کا نہیں۔ بس ایک دوسرے کو کھونے کا خوف ہوتا ہے۔
رات پوری طرح چھانے سے پہلے، زندگی کا یہ آخری حصہ آہستہ آہستہ مدھم ہوتا ہے، اور سفر مشکل ہو جاتا ہے۔
لہٰذا 60 کے بعد،
زندگی کو حقیقت کے ساتھ دیکھنا سیکھیں۔
اسے پیار کریں، اس سے لطف اٹھائیں۔
نہ معاشرے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں، نہ بچوں کی زندگی میں دخل دیں۔
نہ دوسروں پر رعب ڈالیں، نہ انہیں کمتر سمجھیں—
ایسا رویہ صرف خود کو اور دوسروں کو تکلیف دیتا ہے۔
بڑھاپے میں ہمیں عزت دینا سیکھنا ہے۔
زندگی کے آخری مرحلے کو سمجھداری، سکون، اور روحانی تیاری کے ساتھ قبول کرنا ہے۔
قدرت کے راستے پر خاموشی سے چلتے جائیں۔
“رات بہت آہستہ آہستہ اترتی ہے”—آئیے زندگی کے آخری پڑاؤ کے لیے نرمی اور دانائی سے تیاری کریں

یہ ہے Bitcoin Queen کے نام سے مشہور ہونے والی چینی خاتون جس کو پچھلے ہفتے 11 سال کی سزا ہوئی ہے۔ یہ خاتون چینیوں کا 5 ار...
19/11/2025

یہ ہے Bitcoin Queen کے نام سے مشہور ہونے والی چینی خاتون جس کو پچھلے ہفتے 11 سال کی سزا ہوئی ہے۔
یہ خاتون چینیوں کا 5 ارب ڈالر لے کر 2017 سے چین سے مفرور تھی۔
پچھلے سال لندن کے ایک گھر سے اس کو گرفتار کیا گیا جہاں وہ پچھلے 6 سال سے مقیم تھی اور اس گھر کا 22000 ڈالر ایک ماہ کا کرایہ ادا کررہی تھی۔
تقریباً 1 لاکھ 28 ہزار چینی باشندوں کی محنت کی کمائی کو ایک پونزی سکیم میں لگوا کر اور 300 فیصد تک منافع کا لالچ دے کر سارا پیسہ بٹ کوائن میں تبدیل کیا اور لندن بھاگ گئی۔ اس وقت بٹ کوائن کی قیمت کافی کم تھی (3 سے 4 ہزار ڈالر کے درمیان)، اور اس کے پاس سے اب 61000 بٹ کوئن ریکور ہوئے ہیں۔
اس وقت ان کوائنز کی ویلیو 5.7 ارب ڈالر یا 40 ارب یوآن کے برابر ہے۔
چین میں اس عورت کی کمپنی ایک بہت بڑا نیٹورک چلا رہی تھی جس کا نام Lantian Gerui تھا جس کی ایڈورٹائزمنٹ بہت مشہور شخصیات نے بھی کی تھی۔
اس کمپنی نے اپنا کاروبار کرپٹوکرنسی مائننگ اور Health Tech Industry میں سرمایہ کاری بتایا ہوا تھا۔
کمپنی لوگوں کو ماہانہ منافع تقسیم کرتی اور ایک بھروسہ بنا کر رکھتی۔
عموماً نیٹورکنگ یا پیرامڈ سکیموں میں ایسا ہی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔
سب سے مزے کی بات کہ یہ عورت واقعی ڈنیوب دریا کے کنارے ایک جزیرے (Liberland) کو خرید کر اس کی ملکہ بننے کا ارادہ رکھتی تھی۔
اب چینی لوگوں کو یہ پیسے واپس ملیں گے یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس کے لیے چینی حکام کو ٹھوس ثبوت دینے ہوں گے۔

16/11/2025

آئینی ترمیم اور ضمیر کی آواز

مورخہ 14 مئی 2006ء کو پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی، کے درمیان لندن میں "میثاق جمہوریت" طے پایا۔ بعد میں مزید 15 جماعتیں اس میں شامل ہوئیں۔

آٹھ صفحات پر مشتمل میثاقِ جمہوریت پر صرف میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے ہی دستخط نہیں تھے، بلکہ اسفندیار ولی اور حاصل بزنجو (مرحوم) کے علاوہ، آج اس کے خلاف سب سے زیادہ شور مچانے والے عمران خان، مولانا فضل الرحمٰن بھی اس میں شامل تھے۔

اسی دستاویز میں آئینی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ ابھی تک میثاقِ جمہوریت پر تقریباً 70 فیصد عمل درآمد ہو چکا ہے، جس میں آرٹیکل 58(2b) کے تحت صدر کے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے اختیارات کا خاتمہ، وزیرِ اعظم کا فوج کے سربراہ کو تعینات کرنے کے اختیار کی واپسی، اٹھارہویں آئینی ترمیم، نگران حکومت اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سرِ فہرست ہیں۔

جو لوگ آج نئی آئینی ترمیم میں صدر کے استثنیٰ پر شور مچا رہے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ یہی آصف علی زرداری تھے، جنہوں نے میثاقِ جمہوریت کے تحت اپنے صدارتی اختیارات سے دستبرداری اختیار کی تھی۔

کوئی دو عشروں کے بعد جا کر میثاقِ جمہوریت کے تحت آئینی عدالت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ اس کی منظوری کے ساتھ ہی من اللہ اور منصور کے ضمیر جاگے اور وہ مستعفی ہو گئے۔ کچھ مزید ہم خیال بھی پر تول رہے ہیں، کیونکہ آئینی ترمیم کے بعد وہ تحریکِ انصاف کی بجائے صرف انصاف کے قاضی رہ گئے۔

سپریم کورٹ آئین کی پیداوار ہے، اور آئین پارلیمان کی۔ پارلیمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو اپنی مرضی کے کپڑے پہنائے، اس کی نوک پلک سنوارے، ججوں کی مدتِ ملازمت گھٹائے یا بڑھائے۔ آئین کا کوئی مخصوص بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے جس میں ترمیم ممنوع ہو، اور کسی آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کو سپریم کورٹ کے ججوں سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ سارے مفروضے ان ضمیر فروشوں نے خود گھڑ رکھے ہیں۔

لیکن جو آج پارلیمان کے اختیارات پر سیخ پا ہیں، اُن کا ضمیر اُس وقت کیوں نہیں جاگا جب یہ ایک منتخب وزیرِ اعظم کا عدالتی قتل کر رہے تھے؟ جب ایک منتخب وزیرِ اعظم کو غیر آئینی حکم نامے سے برطرف اور تاحیات نااہل کر رہے تھے؟

گزشتہ 77 سالوں میں آئین کے یہ محافظ ہمیشہ آئین شکن ڈکٹیٹروں کے ساتھ ہی کھڑے نظر آئے ہیں۔ آمروں کو آئین میں ہر قسم کی ترمیم کا اختیار دینے والے آج پارلیمانی ترمیم پر شور مچا رہے ہیں۔ آج کے انقلابی من اللہ ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے۔

جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جنرل فیض کو عدالتی معاملات میں مبینہ مداخلت پر تنقید کی، تو ثاقب نثار نے بحیثیت چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل اس کا فوری نوٹس لیا اور ججوں کے خلاف پاکستان کی عدالتی تاریخ کی مختصر ترین کارروائی کے بعد جسٹس شوکت صدیقی کو ان کے عہدے سے برخاست کرنے کی سفارش کر دی۔ اس وقت یہی من اللہ آئین، قانون اور اپنے ساتھی جج کے بجائے جنرل فیض کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا، اور صلے کے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا۔ یہ ہر فیصلہ فیض حمید کے مشورے سے کرتا تھا۔ فیض حمید کے کہنے پر ہی فواد حسن فواد کے ضمانت کے کیس کو 10 ماہ تک لٹکائے رکھا۔ اُتنا ہی آئین اور قانون کا پاس ہے تو شوکت صدیقی کی برطرفی کے وقت استعفیٰ دیتے، نہ اسلام آباد کے چیف جسٹس بنتے نہ سپریم کورٹ کے جج۔ اخلاقیات ہمیں اس وقت یاد آتی ہیں جب آگے عہدہ نظر نہ آ رہا ہو۔

اُن کا کام آئین کی تشریح کرنا تھا، لیکن انہوں نے خود سے آئین لکھنا شروع کر دیا۔ جو اپنے کہے کو آئین کہتے تھے، آج پارلیمان کے بنائے ہوئے ترمیم کو غیر آئینی کہہ رہے ہیں۔

جسٹس بندیال، منیب اختر اور اعجاز احسن کا یہ اعجاز بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے، جب انہوں نے منحرف ارکان کے بارے میں فیصلہ دیا کہ ان کا ووٹ شمار نہیں ہو گا اور وہ ڈی سیٹ بھی ہوں گے، کیونکہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔ لیکن جب حمزہ شہباز کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی، تو پارٹی سربراہ چودھری شجاعت کے حکم کے خلاف ورزی کرنے والے مسلم لیگ (ق) کے ارکان کے بارے میں پھر اُس کے الٹ فیصلہ آیا کہ ان منحرفین کا ووٹ بھی شمار ہو گا اور ان کی رکنیت بھی ختم نہیں ہو گی۔ اور اس طرح ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم کر کے، حمزہ شہباز حکومت ختم اور پرویز الہی کی فوری حلف برداری کا حکم دیا گیا۔

انصاف کی فراہمی کی بجائے ان کو سیاست کا زیادہ شوق رہا۔ بلکہ ثاقب نثار نے تو صاف پانی، ہسپتالوں کی صفائی، بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈز کی اپیل، ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائی، اہم سیاسی اور دیگر شخصیات سے سکیورٹی واپس لینے کے احکامات اور آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کانفرنس کا انعقاد جیسے حکومتی کاموں کا بوجھ بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھایا ہوا تھا۔

یہ وہ سیاست زدہ جج تھا جس نے ایک ڈسپنسری کا افتتاح کر کے شیخ رشید کی انتخابی مہم چلائی۔ آج جنہیں آئینی ترمیم غیر آئینی نظر آتی ہے، یہ وہی ہیں جن کے دور میں پارلیمان کو ایک کرنل چلاتا رہا۔ جو آدھی رات کو ایک گھنٹے میں 52 قانون پاس کرواتے رہے۔ جن کا انقلابی لیڈر عمران خان خود تسلیم کر چکا ہے کہ ہمیں بل پاس کروانے کے لیے ایجنسیوں کی مدد لینی پڑتی تھی۔ جنہوں نے اقتدار کے دوام کے لیے ولدیت کے خانے میں جنرل باجوہ کا نام لکھوایا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ نئی آئینی ترمیم سے عدلیہ کے دانت نکال دیے گئے۔ اگرچہ یہ دانت انہیں اٹھارویں ترمیم کے تحت اسی پارلیمان نے دیے تھے، لیکن انہوں نے صرف سیاست دانوں کو ہی کاٹا۔ یہ وہ خصی خچر تھا جسے سدھانے کے لیے ایک کرنل ہی کافی تھا۔ جو ناگن سپیرے کو ہی کاٹنے لگے، اُس کے زہریلے دانت نکالنا ضروری ہوتا ہے۔

#سواتی

10/11/2025

🖊️ طاھر سواتی

"جمہوریت اور ہم"

ستائیسویں آئینی ترمیم پر تو ابھی بحث جاری ہے، اس پر بعد میں بات ہوگی۔ آج بات ہو جائے جمہوریت کی اور ہمارے اجتماعی رویے کی، کیونکہ جب سے یہ ترمیم پیش ہوئی ہے، عمران خان اور دیگر "انقلابی" رہنماؤں کے حامیوں کو جمہوریت کا درد اٹھنے لگا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی "ایمپائر" کی انگلی سے دن کا آغاز کرتے تھے اور رات کو وہی انگلی چوستے ہوئے سو جاتے تھے۔

سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت کبھی آئی ہی نہیں۔ یہاں تک کہ اس وقت بھی نہیں جب بابائے قوم گورنر جنرل اور قائد ملت وزیر اعظم تھے۔ آزادی کے چوبیس سال بعد پہلے جمہوری اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ٹھہرے۔ اگر بنگلہ دیش نہ بنتا تو یہ اعزاز شیخ مجیب الرحمان کے نام ہوتا۔

یہاں کی بڑی سیاسی جماعتوں کی جنم بھومی کوئی نہ کوئی چھاؤنی ہی رہی ہے۔ لیکن اگر اس ملک کی لولی لنگڑی جمہوریت کی داستان لکھی جائے تو وہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے بغیر ادھوری ہے۔

آج عمران نیازی اور ان کے "چیلے" خود کو انقلابی ظاہر کر کے ہمیں جمہوریت کا طعنہ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کی جدوجہد واقعی جمہوریت کے لیے ہے؟ نہیں، ان کا مقصد صرف ایک ہے: فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان تصادم کرواؤ، تاکہ جرنیل ایک بار پھر انہیں کندھوں پر بٹھا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیں۔ ورنہ دو سال تک ان کی پارٹی نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے پارلیمنٹ میں کیا کردار ادا کیا؟ عمران نیازی کا ہر دن اسی راگ سے شروع ہوتا ہے: "میں صرف آرمی چیف سے بات کروں گا"۔ آخر کن آئینی دفعات کی رو سے ایک سیاسی لیڈر براہ راست آرمی چیف سے مذاکرات کا مطالبہ کر رہا ہے؟

نواز شریف نے اس ملک میں سول بالادستی کے لیے جو کچھ کیا، عمران خان اور ان کے حامی اگلے دس جنموں میں بھی نہیں کر سکیں گے۔
1993 میں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے صدر غلام اسحاق خان سے ٹکرا کر گھر چلے گئے، لیکن ڈکٹیشن نہیں لی۔
پھر جب اقتدار میں آئے تو نیول چیف منصور الحق کو کرپشن کے کیس میں گھر بھیج دیا۔
سابق آرمی چیف جہانگیر کرامت نے جب قومی سلامتی کونسل کی تجویز پیش کی تو نواز شریف نے ان سے استعفیٰ لے لیا۔
اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے صدر فاروق لغاری کی چھٹی کروا دی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے جب اپنی بادشاہت قائم کرنے کی کوشش کی تو ان کی حقیقت بھی دنیا کے سامنے لائی اور انہیں بھی گھر بھیج دیا۔

لیکن ان تمام سورماؤں سے ٹکرانے پر اسفندیار ولی خان کے سوا کسی نے نواز شریف کا ساتھ نہیں دیا۔
سب اسی کو طعنے دیتے رہے کہ یہ اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کر کے "امیر المومنین" بننا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ 12 اکتوبر 1999 کو جب مشرف نے آئین پامال کرتے ہوئے منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کیا، تو اگلے ہی دن سوائے اے این پی کے تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے "انقلابی" رہنما بوٹ پالش کرتے نظر آئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس دوڑ میں سب سے آگے تھیں۔

چودہ سالہ طویل جلاوطنی کے بعد نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بنے تو پہلے ہی سال جرنیلوں نے اپنے پیادے میدان میں اتار دیے۔ لیکن یہ نواز شریف ہی تھے جنہوں نے اتنے گھمبیر حالات میں مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا۔ جب دھرنے عروج پر تھے، تو مشرف کے وکیل قصوری نے حامد میر کے پروگرام میں برملا کہا کہ اگر نواز شریف آج ہی مشرف کے خلاف مقدمہ واپس لے لیں تو سارے دھرنے ختم ہو جائیں گے۔ آج وہی نیازی اور ان کے حامی ہمیں جمہوریت کا درس دے رہے ہیں۔ جب "ایمپائر" کی انگلی کے سہارے دھرنے ناکام ہوئے تو پانامہ کا ڈرامہ رچایا گیا۔

پانامہ پیپرز میں 440 لوگوں کے نام تھے، مگر کسی ایک پر بھی نہ مقدمہ چلا نہ سزا ہوئی۔ نواز شریف کا نام اس میں شامل نہیں تھا، لیکن انہیں سزا ہو گئی۔ آج عدلیہ کی آزادی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ یہ وہی عدلیہ ہے جسے جب آئین اور قانون میں کچھ نہیں ملا تو اس نے "بلیک لا ڈکشنری" کھول کر نواز شریف کو سزا سنا دی۔ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے جہاں سپریم کورٹ نے پہلے سزا سنائی اور پھر مقدمہ ٹرائل کورٹ میں بھیجا۔

اعزاز سید کے مطابق اس وقت نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی نے ججوں کو رقم دے کر مقدمہ ختم کروانے کی پیشکش کی، جس پر کچھ جج راضی بھی ہو گئے۔ لیکن جب نواز شریف کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے انکار کر دیا، کہا کہ "میں اپنے ضمیر کو کیا جواب دوں گا"۔ نواز شریف کو غیر آئینی طریقے سے گھر بھیجنے پر کسی "انقلابی" کو شرمندگی نہیں ہوئی۔ بلکہ آج سب سے زیادہ "بااصول" بننے والی جماعت اسلامی اور اس کے امیر سراج الحق کا تو نیازی کے ساتھ کریڈٹ لینے کا مقابلہ چل رہا تھا۔

پھر کس طرح "آر ٹی ایس" بٹھا کر عمران نیازی کو جتوایا گیا۔ نواز شریف نے بیمار بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جس طرح خود اپنی بیٹی کے ساتھ گرفتاری دی، اور پھر کیسے عمران اور فیض کے حکم پر کلثوم نواز سے آخری بار بات نہیں کرنے دی گئی، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔

نیازی دور کے وزیر داخلہ، بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے خود اقرار کیا کہ اگر نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار نہ کرتے تو آج بھی اقتدار میں ہوتے۔

ان سب کے باوجود ان انقالبیوں کا خیال ہے کہ نواز شریف ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ لیکر ان کے لئے خوشیوں کا سامان پیدا کرے ،یہ نہیں ہو سکتا،

حقیقی جمہوریت تو یہاں کبھی تھی ہی نہیں۔ جو لنگڑی-لڑکھڑاتی جمہوریت تھی، اس کا جنازہ اس روز نکل گیا جب سپریم کورٹ نے "اقامہ" کی بنیاد پر منتخب وزیر اعظم کو تاحیات نااہل کر دیا۔ اور انصاف کی موت اس وقت ہو گئی جب عدلیہ نے فیض حمید کے حکم پر جسٹس قاضی فیض عیسیٰ کے خلاف کارروائی کی اور جسٹس صدیقی کو برطرف کر دیا۔

یہ ہائبرڈ نظام جسے فیض، عمران اور باجوہ نے مسلط کیا ہے، کم از کم ہماری زندگی میں تو اس کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

اب اس کیچڑ میں مقابلہ صرف کارکردگی کا ہے، اور اس میں ن لیگ کا کوئی مقابلہ نہیں۔

آج نواز شریف بڑی خاموشی سے اسی نظام سے انتقام لے رہے ہیں۔ انہوں نے گند کے اِس میدان میں اپنا وہ "شہباز" اتارا ہے جو انہی کے ہتھیار ان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اس سے دلوں میں جو ٹھنڈک پڑ رہی ہے، اس کا سواد ہی کچھ اور ہے۔

لیکن!
جو آرمی چیف کو قوم کا باپ بتاتے رہے،
جو جرنیلوں کی انگلی پر ناچتے رہے،
جو باجوہ کو تاحیات چیف بنانے کی پیشکش کرتے رہے،
جو اس ہائبرڈ نظام کے اصل معمار ہیں،
وہی آج ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھا رہے ہیں۔

دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

#سواتی

31/10/2025

افغانستان کا قبرستان

ط الب ان ایک کے بعد ایک علاقہ روندتے ہوئے جب کابل پہنچ رہے تھے تو حامد کرزئی ایوان صدر سے چند کلو میٹر دور اپنے گھر میں پاور نیپ لے رہے تھے۔وہ صدر اشرف غنی کو یہ کہہ کر سوئے تھے کہ مزاحمت کی ضرورت نہیں ہے۔ قطر کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں مشورے اور معاہدے ہوچکے ہیں۔جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔

انہوں نے باقی سیاسی قوتوں کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھو عورتوں کی تعلیم، جمہوریت اور کسی بھی طرح کی اصولی سیاست ہمارا بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔بنیادی مسئلہ استحکام ہے اور استحکام تب ہی آئے گا جب مقامی لوگوں کی کوئی حکومت دیر تک اور دور تک چلے گی۔ ط ال بان بہرحال مقامی لوگ ہی ہیں۔ہم سب کو مل کر انکے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔

یعنی ہمیں ایسے ماحول کی طرف بڑھنا چاہیے جہاں ہم قومی سرگرمیوں میں باقی طبقوں، برادریوں اور جماعتوں کو شامل کرسکیں۔اگر یہ ہدف حاصل کرنے میں ہم کامیاب ہوجاتے ہیں تو باقی بیڑے خود ہی پار لگ جائیں گے۔

ط ال بان آئے تو یہی محسوس ہوا کہ کرزئی فارمولے پر سفر کا آغاز ہوگیا ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ انہوں نے بات چیت کا سلسلہ شروع کردیا۔ بین االاقوامی این جی اوز کے بند دفاتر دوبارہ کھول دیے۔ آغا خان فائونڈیشن کے دفاتر بھی پہلے سے زیادہ نفری کے ساتھ کھلوا لیے۔ قومی کرکٹ ٹیم کو بحال کردیا۔ گورنروں کو عاشورہ کے جلوسوں میں بھیج کر شیعہ برادری کو رواداری کا پیغام دیا۔ چین، ترکی، انڈیا اور جاپان کے ساتھ معاشی اور اقتصادی معاہدوں پر دستخط کیے۔ سیاحوں کو اپنی طرف راغب کیا اور آئندہ مزید سہولیات فراہم کرنے کا یقین بھی دلایا۔ روس سے بات چیت کرکے نہ صرف یہ کہ اپنا نام بلیک لسٹ سے نکلوایا بلکہ افغانستان میں کھلی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی لیا۔ اس سفر سے بھلا کس کو کیا مسئلہ ہوسکتا تھا؟ آس پڑوس میں سب خوش تھے۔اس لیے بھی خوش تھے کہ افغانستان کا استحکام پورے خطے کا استحکام ہے۔ اقبال کا احساس بھی یہی تھا

آسیا یک پیکر آب و گل است
ملت افغاں در آں پیکر دل است
از فساد او فساد آسیا
از کشاد او کشاد آسیا

کہتے ہیں، ایشیا پانی اور مٹی کا ایک پیکر ہے۔افغانستان اس کا دل ہے۔ دل میں سلامتی ہے تو سمجھو ایشیا میں سلامتی ہے۔ یہاں بگاڑ ہے توسمجھو پورے ایشیا میں بگاڑ ہے۔

مرجھائے ہوئے اس دل کے چاروں وال بحال کرنے کیلئے ٹوٹکوں اور نسخوں کا اچھا استعمال ہو رہا تھا، مگر ایک کم بختی ہوگئی۔ابھی ایک بھی وال بحال نہیں ہوا تھا کہ دل نے کھیلن کو چاند مانگ لیا۔کہتا ہے، اٹک تک کے سارے علاقے میرے ہیں۔ کرلو بات۔ منہ میں دانت نہیں پیٹ میں آنت نہیں اور شنواری کڑاہی ڈھونڈنے نکل گئے۔

ط ال بان اپنی سرزمین سے محبت کا بیانیہ بھی تشکیل دے سکتے تھے، مگر انہوں نے دوسرے کی سرزمین سے نفرت کا بیانیہ تخلیق کردیا۔ سرحد کی دوسری طرف ٹی ٹی پی، پی ٹی ایم اور پی ٹی آئی کے قبائلی کارکنوں کو ایک ہی ہلے میں شکار کرنے کیلئے اسلامائزڈ پشتون نیشنل ازم کا جال بھی پھینک دیا۔ واخان سے چمن تک ہر طرح کی گرمی پیدا کردی۔ کیا حالات ایسی کسی بھی گرمی اور سرگرمی دکھانے کا تقاضا کر رہے تھے؟

شاید بابا کرزئی یہ بتانا بھول گئے تھے کہ دوسرے مسائل کی طرح ڈیورنڈ لائن بھی ہمارا بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔

عقل مندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ط ال بان ملک سے باہر بیٹھے افغان رہنماوں سے رابطے بڑھاتے۔ انہیں کاروبار مملکت میں کسی طور شامل کرکے قومی ہم آہنگی کا ماحول بناتے۔ انہوں نے مگر چٹل کارتوس چلاکر حالات کو اپنی مخالف افغان قوتوں کے حق میں موڑ دیا۔ بیرونی مداخلت اور داخلی انتشار کے امکان کو بڑھا دیا۔ ایسے کون کرتا ہے بھلا؟ دکھ یہ نہیں ہے کہ اس سب کے نتیجے میں طالبان حکومت خطرے میں پڑ جائے گی۔ غم یہ ہے کہ داخلی استحکام والے غنچے بن کھلے مرجھا جائیں گے۔

استحکام کا خواب اس لئے بھی خطرے میں ہے کہ طالبان کی اپنی صفوں میں موجود تقسیم کی لکیر ڈیورنڈ کی لکیر سے زیادہ خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایک طرف وزیرداخلہ سراج حقانی ہیں۔ وہ عقل کی بات کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے گریجویٹس کی ذہانت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ بااثر افغان شخصیات کو کاروبار مملکت میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ دینی امور کو قانون کے زور پر نافذ کرنے کی بجائے ابلاغ کے راستے پر زور دیتے ہیں۔سفارتی ادب آداب پر زور دیتے ہیں۔نئے قومی پرچم کی بجائے پرانے پرچم کو کافی سمجھتے ہیں۔ یہ عقل کی باتیں ہیں اور پہاڑ سے اترے ہوئے لڑاکے عقل کی بات پر شک کرتے ہیں۔

لڑاکے ملا ہیبت اللہ جیسے خشک میووں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہیبت اللہ سمجھتے ہیں ہمیں نصرت مولا نے دی ہے، اب مملکت کا نظام بھی وہی چلائے گا۔ ہم تو بس میلس (مجلس) کریں گے، شنی چائے پئیں گے اور جب دل کرے گا انٹرنیٹ بند کریں گے۔

ملا ع مر کے بیٹے ملا یعقوب بھی حقانی کی طرح کشادہ دماغ رکھتے ہیں، مگر وہ اس زعم میں رہنا پسند کرتے ہیں کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے۔ جتنے وہ سمجھدار ہیں انہیں اس حقیقت پر فکرمند ہونا چاہیے تھا کہ افغانستان ایک قبرستان ہے۔

برطانیہ نے افغانستان کو ریت کی حفاظتی بوری کی طرح روس کے سامنے رکھا۔ روس اور امریکا موجود رہے، افغانستان قبرستان بن گیا۔ سرمایہ داروں اور اشتراکیوں نے اپنی فیصلہ کن جنگ لڑنے کیلئے افغانستان کومیدان بنایا۔ سب موجود رہے، افغانستان قبرستان بن گیا۔ خطے میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے امریکا نے افغانستان کو مورچہ بنایا۔ امریکا اسی طرح موجود ہے، افغانستان قبرستان بن گیا۔

اب طالبان براہ راست جنگ میں ہزیمت اٹھانے والے بھارت کو افغان سرزمین فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ بہت بہتر۔ لیکن یہ جنگ اگر شروع ہو جاتی ہے تو انجام کیا نکلے گا؟ یہ غلطی چونکہ پرانی ہے تو انجام بھی ظاہر ہے پرانا ہی نکلے گا۔ یعنی انڈیا پاکستان اپنی جگہ موجود رہیں گے اور افغانستان قبرستان بن جائے گا۔

افغانستان کو قبرستان بناکر تو بہت دیکھ لیا، کیا حرج ہے اگر ایک بار قبرستان کو افغانستان بناکر بھی دیکھ لیا جائے؟ کیا حرج ہے۔

فرنود عالم / روزنامہ جنگ

17/09/2025

سیف علی خان تماشہ سیزن 4 میں اب تک کامیاب ترین جا رھا ھے۔۔

ڈیڑھ سال قبل پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو  قبیلے والوں نے دعوت پر بلایا مگر وہ کھانے کی نہیں  غیرت دکھانے کی دعوت تھی ...
20/07/2025

ڈیڑھ سال قبل پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو قبیلے والوں نے دعوت پر بلایا مگر وہ کھانے کی نہیں غیرت دکھانے کی دعوت تھی دونوں کو لے جا کر ایک چٹیل میدان میں کھڑا کردیا جاتا ہے وہاں 19غیرت مند بلوچ مرد کھڑے ہیں جن میں سے پانچ کے پاس لوڈڈ اسلحہ ہے ، بڑی سی چادر میں لپٹی 24 سالہ شیتل اور 32 سالہ زرک کو گاڑیوں کے قافلے میں قتل گاہ پر لاکر اتارا جاتا ہے

شیتل جس کے ہاتھ میں قرآن تھا قبیلے کے مردوں کے سامنے یہ کہتے ہوئے سکون سے آگے بڑھتی ہے صرف گولی مارنے کی اجازت ہے جبکہ اس کی اجازت کسی نے طلب ہی کب کی تھی وہ قتل گاہ کی جانب خود بڑھی ، اسے معلوم تھا اپنا انجام اس لیے نہ اس کے پاؤں کانپے، نہ آنکھوں میں التجا تھی، نہ لبوں پر چیخ، نہ دامن میں رحم کی بھیک, اس کی خاموشی میں وہ شور تھا جو ان سب چیخوں پر بھاری تھا جو ظلم کے خلاف کبھی نہ نکل سکیں

پھر گولی نہیں ، 9 گولیاں ماری گئیں۔۔۔

پھر اس کے بعد زرک کی باری آئی ، اسے دو گنا ماری گئیں

صرف اس ایک جرم پر کہ اس نے من پسند انسان سے نکاح کیا ۔۔۔۔

اور موت سے کم سزا پر تو غیرت کو چین نہیں آتا
اس بلوچ قبیلے کی غیرت کو بھی سلام ، جو غیرت کے نام پر اپنی ہی بیٹی کو بے غیرت مردوں کے مجمعے کے سامنے لائے اور میدان میں کھڑا کرکے غیرت کی پگ پر ایک اور کلغی سجا لی

ایک اور بیٹی ہار گئی ، پگڑیاں جیت گئیں

💔💔

زمانے کے چلن سے برسرِ پیکار عورت ہوں
سو ہر اک مرحلے پر جبر سے دوچار عورت ہوں

مرے اندر نمو پاتی ہیں آنے والی نسلیں بھی
خدا کے بعد میں تخلیق کا کردار عورت ہوں

20/07/2025

سبھی کو اپنی مرضی سے شادی کا حق ھے بلوچستان کے علاقے میں پسند کی شادی کرنے والی پریمیکا کو پکڑ کر برادری کے معززین سامنے گولیوں سے چھلنی کرنے پر بھت افسوس ھوا۔
اللہ ھم سب کو سمجھ اور ھدایت دے۔

کرینہ اپنی اگلی فلم میں بھوتنی کا کردار نبھاتے ہوئے 20 سال چھوٹے اداکار کے ساتھ رومانس کرتے دکھائی دیں گی
19/07/2025

کرینہ اپنی اگلی فلم میں بھوتنی کا کردار نبھاتے ہوئے 20 سال چھوٹے اداکار کے ساتھ رومانس کرتے دکھائی دیں گی

Address

Talagang

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Qamar bhai official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category