Rahwali ki Awaz

Rahwali ki Awaz راہوالی اور گرد و نواح سے متعلق خبریں، معلومات، سیاسی غیر سیاسی گفتگو سے لبریز راہوالی کی آواز پیج۔

19/09/2024
30/08/2024

معزز بجلی صارفین آپکے یونٹ اگر 200 سے اوپر ہیں
تو اپکو 14روپے یونٹ کے حساب سے بل کم کر دیا گیا ہے
جو بل اپکو ملا ہے وہ ہر گز ادا نہ کریں
انٹرنیٹ سے نیا پرنٹ نکلوائیں
2800سے7000تک بل کم کر دیا گیا ہے
بل وصول کرنے والے دکاندار عوام کو لوٹ رہے ہیں عوام کو بتا نہیں رہے
احتیاط کریں
اپنا نیا انٹرنیٹ سے نیا بل نکلوا کر وہ ادا کریں

اور اس میسج کو عام کریں
عوام کو اگاہ کریں
شکریہ
منجانب: واپڈا

20/02/2024

*جسم کو توانا اور دماغ کو تیز رکھنے والی سبزی چقندر کے پانچ انمول فوائد*

آپ کی فٹنس اور صحت کی سطح کچھ بھی ہو چقندر اسے بہتر کرنے کا ایک اچھا نسخہ ہو سکتا ہے۔

یہ زیر زمین اگنے والی فصل نہ صرف آپ کی طاقت میں اضافے کا باعث ہے بلکہ آپ کو تیزی سے دوڑنے بھاگنے میں بھی مددگار ہے۔

اس کے علاوہ اس کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں، جیسے کہ یہ بڑھاپے میں بلڈ پریشر کو کنٹرول کرکے دماغ کو صحت مند رکھنے میں بھی مؤثر ہے۔

قدیم یونانی عہد سے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے جسم کے لیے اچھا ہے۔

لیکن اب نئے شواہد سامنے آنے لگے ہیں جو اس کے غیرمعمولی فوائد کو واضح کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں اسے اپنی معمول کی خوراک میں شامل کرنا چاہیے۔

1۔ بیٹالینز کی اینٹی آکسیڈینٹ طاقت
قدرتی رنگ جسے بیٹالین کہتے ہیں وہ چقندر کو گہرا اور مضبوط رنگ دیتے ہیں اور اس کی وجہ سے اس میں زبردست اینٹی آکسیڈنٹ قوت ہوتی ہے۔

چند سال قبل اٹلی میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ چقندر بڑی آنت کے کینسر کے خلیات کو تباہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن بیٹالینز اس کی واحد جادوی طاقت نہیں ہے۔

اگرچہ زیادہ مقدار میں نائٹریٹ کا استعمال اچھا نہیں لیکن جب ہم چقندر جیسی سبزیوں میں قدرتی طور پر پائے جانے والے نائٹریٹ کھاتے ہیں تو یہ صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔

چقندر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ نائٹریٹ سے بھرپور ہوتا ہے۔ جب ہم چقندر کھاتے ہیں تو ہمارے منہ میں رہنے والے بیکٹیریا نائٹریٹ کو نائٹرک آکسائیڈ میں تبدیل کرنا شروع کر دیتے ہیں، یہ ایک طاقتور عنصر ہے جو ہمارے جسم پر بہت سے مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکزیٹر میں اپلائیڈ فزیالوجی کے پروفیسر اینڈی جونز نے 10 سال تک کھلاڑیوں کی کارکردگی پر تحقیق کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’نائٹرک آکسائیڈ ایک ویسوڈیلیٹر ہے۔ یہ خون کی نالیوں کو چوڑا کرتا ہے۔ یہ خون کو آسانی سے بہنے میں مدد کرتا ہے اور یہ جسم کے خلیوں کو مناسب آکسیجن پہنچانے کا کام کرتا ہے۔‘

جنسی جوش کے لیے بھی نائٹرک آکسائیڈ کی مناسب مقدار ضروری ہے اور رومیوں کے ہاں چقندر کے رس کے اس استعمال سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ تاہم اب تک کسی تحقیق میں یہ ثابت نہیں ہوا کہ چقندر کے رس کا اثر ویاگرا سے ملتا جلتا ہے۔

2۔ دل اور بلڈ پریشر پر چقندر کے اثرات
اگر روزانہ چقندر کا جوس پیا جائے تو بلڈ پریشر پر اس کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔

ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر چند ہفتوں تک روزانہ دو چقندر کھائے جائیں تو بلڈ پریشر اوسطاً پانچ ملی میٹر تک گر سکتا ہے۔

پروفیسر اینڈی جونز کہتے ہیں کہ ’چقندر کھانے سے بلڈ پریشر یقینی طور پر کم ہو جاتا ہے۔ سسٹولک بلڈ پریشر (بلڈ پریشر کے اوپری حصے میں نظر آنے والی ریڈنگ) کی صورت میں یہ تین سے نو ملی میٹر تک نیچے جا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ کمی جاری رہی تو یہ فالج اور ہارٹ اٹیک کے خطرات کو 10 فیصد تک کم کرنے کے لیے کافی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اگر پوری آبادی میں ایسی تبدیلی آجائے تو فالج، ہارٹ اٹیک جیسے واقعات میں نمایاں کمی آئے گی۔‘

تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چقندر کھانے کے چند گھنٹے بعد ہی بلڈ پریشر پر اس کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔

3۔ دماغ کے لیے بہترین غذاؤں میں سے ایک
چقندر ہمارے دماغ میں خون کی روانی بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر ہم ورزش کے ساتھ چقندر کے جوس کا استعمال کریں تو دماغ کے اس حصے میں رابطہ بڑھ سکتا ہے جو ہمارے جسم کی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے دماغ کا وہ حصہ نوجوان بالغوں جیسا بن سکتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں چقندر کا رس آپ کے دماغ کو جوان رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

آخر ایسا کیونکر ہوتا ہے؟ شاید یہ بہتر بلڈ پریشر کی وجہ سے ہو۔

تحقیق کے مطابق چقندر کا جوس پینے سے پریفرنٹل کورٹیکس (سب سے زیادہ ترقی یافتہ دماغی خطہ) میں دوران خون بڑھتا ہے جس سے دماغی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

4۔ منہ کے اندر بیکٹیریا کا توازن بہتر ہوتا ہے
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اگر چقندر کا جوس دن میں دو بار 10 دن تک پیا جائے تو آپ کے منہ کے اندر موجود بیکٹیریا کا توازن بہتر ہو سکتا ہے۔

حیران کن طور پر تحقیق میں شامل لوگوں کو اس عمل میں بیکٹیریا کے توازن میں تبدیلی نظر آئی۔

یہ بیماریوں اور سوزش کا باعث بننے والے بیکٹیریا کی سطح کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔

5۔ جسمانی صلاحیت بھی بہتر ہوتی ہے
اینڈی جونز کا کہنا ہے کہ ’اس بات کا امکان موجود ہے کہ نائٹرک آکسائیڈ کے اثر کی وجہ سے پٹھوں کو زیادہ آکسیجن ملتی ہے اور اس سے آپ کا جسم بہتر طریقے سے کام کرنے لگتا ہے۔‘

سنہ 2009 کی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ چقندر کا جوس پینے والے کھلاڑی ورزش کے دوران اپنی جسمانی قوت برداشت کو 16 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق نائٹرک آکسائیڈ ورزش کے دوران آکسیجن کی کھپت کو کم کرنے میں بھی مدد کرتا ہے، جس سے تھکن کی شرح کم ہوتی ہے۔

ایتھلیٹکس کے نقطہ نظر سے یہ تحقیق ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ سنہ 2012 میں لندن اولمپکس اور پیرا اولمپک گیمز سے پہلے لندن میں چقندر کا جوس آسانی سے دستیاب نہیں تھا کیونکہ تقریباً تمام ایتھلیٹس اس کی تلاش میں تھے۔

اسے کس طرح کھائیں؟
سنہ 2012 میں کی گئی ایک تحقیق میں، جو لوگ چقندر کھاتے تھے وہ 5000 میٹر کی دوڑ کے آخری 1.8 کلومیٹر کے دوران چقندر نہ کھانے والوں کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ تیزی سے دوڑے تھے۔

اس لیے اگر کھیلوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا مقصود ہو تو ایسے کسی بھی گیم کے آغاز سے کتنی دیر پہلے چقندر کا استعمال کرنا چاہیے۔

اس سوال کے جواب میں اینڈی جونز کا کہنا ہے کہ ’تقریباً دو سے تین گھنٹے پہلے کیونکہ نائٹریٹ کو خون میں گھلنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔‘

چقندر کے خواص کے تباہ نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
اینڈی جونز ایک اور مشورہ دیتے ہیں کہ چقندر کو پکاتے وقت احتیاط برتیں اور جس پانی میں وہ ابالے جاتے ہیں اسے نہ پھینکیں کیونکہ نائٹریٹ پانی میں حل پذیر ہوتے ہیں۔

اس لیے اگر پانی پھینک دیا جائے تو زیادہ تر نائٹریٹ ضائع ہو جائیں گے اور اس کے فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔

لہٰذا اگر آپ چقندر کے زیادہ سے زیادہ صحت کے فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ اسے کچا یا بھون کر کھائیں یا اس کا جوس پی لیں۔

﷽ 🇵🇰   *آج کا کیلنڈر*  🌤🔖 *28 رجب 1445ھ* 💎🔖 *09 فروری 2024ء*  💎🔖 *27 ماگھ 2080ب* 💎🌄 *بروز جمعہ Friday* 🌄🌺 *جمعہ کی فضیلت...
09/02/2024

﷽ 🇵🇰 *آج کا کیلنڈر* 🌤

🔖 *28 رجب 1445ھ* 💎
🔖 *09 فروری 2024ء* 💎
🔖 *27 ماگھ 2080ب* 💎
🌄 *بروز جمعہ Friday* 🌄

🌺 *جمعہ کی فضیلت !*
نبی کریمﷺ نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں
📗 *صحیح بخاری:883*
💞🌹💞🌹💞🌹💞🌹💞🌹💞

*قیمتی اثاثہ*  ”خالہ جان...!!!“کسی کی میٹھی آواز سنائی دی۔ میرے کان کھڑے ہو گئے لیکن بولی کچھ نہیں... بدستور برتن دھونے ...
06/02/2024

*قیمتی اثاثہ*

”خالہ جان...!!!“
کسی کی میٹھی آواز سنائی دی۔ میرے کان کھڑے ہو گئے لیکن بولی کچھ نہیں... بدستور برتن دھونے میں مصروف رہی۔ اتنے میں دوبارہ وہی آواز سنائی دی۔

”خالہ جان...!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ“
خالہ جان کہتے ہوئے نہایت ادب سے سلام کیا گیا۔
اب کی بار میں رہ نہ سکی اور فوراً مڑ کے دیکھا۔
ایک سات آٹھ سال کا پیارا سا بچہ دروازے پر کھڑا تھا۔
”خالہ جان! سنیے...
کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟“

”بیٹا جی! آپ دروازے میں تو کھڑے ہی ہیں اندر بھی آ جائیں۔“
میں نے خوش دلی سے کہا۔

”جی معذرت چاہتا ہوں دراصل دروازے کا پٹ کھلا ہوا تھا تو میں اندر داخل ہو گیا۔“
ابھی تو میں اس کے ”خالہ جان“ کہنے کے سحر سے نہ نکلی تھی کہ ایسا شستہ جملہ بولا گیا... حیرت در حیرت!!
اور ابھی حیرت کے سمندر میں ہی غوطہ زن تھی کہ پھر آواز آئی...

”خالہ جان! میں آپ کے پڑوس میں رہتا ہوں۔ وہ ادھر کتھئی رنگ کے بڑے دروازے والا گھر ہمارا ہے۔ امی جان نے کہا ہے کہ آپ کسی وقت ہمارے گھر تشریف لائیے اور اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو آج شام ہی تشریف لے آئیے۔“

میں اسے جواب کیا دیتی... میں تو ابھی تک اس چھوٹے سے بچے کی سلیقہ مند گفتگو کے سحر سے ہی نہ نکل پا رہی تھی۔

وہ گھر جسے ہم سب براؤن گیٹ والا گھر کہتے تھے، اردو میں ”کتھئی رنگ کا دروازہ“ کہنا کتنا خوب صورت لگ رہا تھا.. پھر اوپر سے بچے کا انداز گفتگو ایسا دل نشین...
مجھے کہیں پڑھا ہوا وہ شعر یاد آیا

میرے کانوں میں مصری گھولتا ہے
کوئی بچہ جب اردو بولتا ہے

سنیے..
تشریف لائیے...
زحمت نہ ہو تو....
خالہ جان...
کیسا مٹھاس گھولتا لفظ ہے ”خالہ جان!!“
آج کون کسی کو خالہ جان کہتا ہے...! محلے بھر کے بچے بھی اور رشتے داروں کے بچے بھی.. سب نے ایک ہی لفظ پکڑا ہوا ہے..۔ آنٹی۔۔۔!
اففف! اچانک ہی اس لفظ آنٹی سے متلی سی ہونے لگی۔

”خالہ جان!“
اس نے پھر مجھے مخاطب کیا۔
”پھر میں امی جان سے کیا کہوں آپ کے بارے میں؟“
”جی جی بیٹا! ان سے کہنا میں شام کو ضرور آؤں گی۔“
”جی بہتر! میں اب چلتا ہوں خالہ جان!“
وہ سر جھکا کے سلام کرتا ہوا چلا گیا۔ اور میں سوچتی رہ گئی ۔۔۔ یا اللّٰہ! یہ اردو تہذیب کا گم شدہ خزانہ کہاں سے اس محلے میں آ گیا۔

کسی زمانے میں اردو میری بھی کمزوری رہی تھی۔ مگر شادی کے جھمیلوں میں پڑ کے وہ ادب وہ شاعری.... سب خواب ہو گئے جیسے=۔

شام کو میں ان کے گھر پہنچی تو دروازہ ایک بچی نے کھولا جو یقیناً اسی تمیز دار بچے کی بہن تھی۔ نہایت ادب سے سلام کیا اور دائیں ہاتھ سے گھر کے اندر کی جانب آنے کا اشارہ کرتے ہوئے اسی دلربا انداز میں مسکرا کر بولی....
”اندر تشریف لائیے خالہ جان!“
میں اس کے ساتھ ہی آگے بڑھ گئی۔

ان کی والدہ اور دادی جان نے پرتپاک خیر مقدم کیا ۔
”ارے آئیے نا! آپ کا اپنا ہی گھر ہے۔ تشریف رکھیے۔“ کم عمر خاتون نے کہا جو یقیناً ان بچوں کی والدہ ماجدہ تھی۔

”دراصل ہمیں یہاں آئے ہوئے دو ماہ ہی ہوئے ہیں۔ آپ سے ابھی تک ملاقات نہیں ہو سکی تھی تو سوچا شام کی چائے مل کر پیتے ہیں۔ آپ کو ناگوار تو نہیں گزرا؟“
”ارے نہیں نہیں بالکل نہیں۔ بلکہ مجھے تو اچھا لگا، آپ نے اتنی اپنائیت سے بلایا۔“

پھر میں کافی دیر وہاں بیٹھی رہی وہ سب لوگ بہت خوب صورت گفتگو کر رہے تھے۔ لب و لہجہ آداب سے گندھا ہوا ۔۔۔ چھوٹے بچے بھی اسی انداز میں بات کررہے تھے۔ لڑ رہے تھے تو بھی اتنی تمیز سے ۔۔۔
”آپ ہماری پینسل واپس کر دیجیے ورنہ ہم بابا جان سے آپ کی شکایت کر دیں گے۔“

مجھے بے ساختہ وہ شعر یاد آیا۔۔۔

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
واپس آنے لگی تو میں نے بڑی محبت و اپنائیت سے انھیں اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ جسے انھوں نے بڑی خوش دلی سے قبول کیا ۔۔۔ کہنے لگیں:
”چشمِ ما روشن دلِ ما شاد ۔۔۔ ضرور آئیں گے بیٹا! آپ کہیں اور ہم نہ آئیں ایسے تو حالات نہیں“۔ پھر وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آئیں۔ دعائیہ کلمات سے رخصت کیا، فی امان اللہ کہا۔

میں گھر آئی تو بہت کھوئی کھوئی سی تھی ۔۔۔ اردو کا ایسا بیش بہا خزانہ میرے گھر میں کیوں موجود نہیں تھا؟ میرے اردگرد سب لوگ ایسے کیوں ہیں جو اپنی روزمرہ گفتگو میں آدھے لفظ انگریزی کے بول کر خوش ہوتے ہیں اور اس پہ فخر کرتے ہیں۔
مجھے لگا میرا کوئی بہت بڑا نقصان ہو گیا ہے ۔
_____

رات کو میاں صاحب گھر آئے تو ان سے تذکرہ کرنے لگی۔
”احمد! وہ لوگ اتنے مہذب ہیں کہ کیا بتاؤں۔۔۔ آہستہ آواز میں اور بہت ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی ایسی تعظیم کرتے ہیں کہ دیکھنے والا حیران رہ جائے ۔۔۔ اور پتا ہے کیا۔۔۔؟ ان کے گھر کوئی آتا نہیں کوئی بیٹھتا نہیں۔۔۔ وہاں سب لوگ تشریف لاتے ہیں اور تشریف رکھتے ہیں۔ ان کے گھر میں ڈرائنگ روم، باتھ روم اور بیڈ روم نہیں ہیں، بلکہ وہاں مہمان خانہ ہے، خواب گاہ ہے، باورچی خانہ ہے، غسل خانہ ہے۔ اور بیڈ شیٹ کو کہتی ہیں پلنگ پوش! کتنا حسین لفظ ہے نا پلنگ پوش! ایک ہم ہیں۔۔ بیڈ شیٹ بیڈ شیٹ کرتے نہیں تھکتے۔ پورے پورے غلام ہی بن گئے ہیں انگریزوں کے۔ اور پتا ہے۔۔۔ وہ اپنے بچے کو کھانا کھلاتے ہوئے کہہ رہی تھیں بیٹا جی! آپ ٹھیک سے کھائیے اور یہ سارا ختم کیجیے۔
اور ہمارے یہاں مائیں اپنے بچوں کو کہہ رہی ہوتی ہیں ”جلدی جلدی فنش (finish) کرو، شاباش۔۔ گڈ بوائے۔۔۔۔“
اففففففف! احمد ! مجھے ان انگریزی کے لفظوں سے وحشت سی ہو رہی ہے جو ہم نے اپنی روزمرہ گفتگو میں زبردستی شامل کر لیے ہیں۔

سچ کہتی ہوں احمد! میں جب سے ان کے گھر سے آئی ہوں ایک عجیب سے سحر میں گرفتار ہوں۔ ان کی میٹھی زبان کا جادو میرے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔۔۔ ان کی گفتگو ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔۔۔ اور ان بچوں کی دادی جان تو ایسی گفتگو کرتی ہیں کہ دل موہ لیتی ہیں۔ بات بات پہ کوئی نہ کوئی شعر یا محاورہ گفتگو کو چار چاند لگا رہے تھے، مگر ایسے کہ ان میں کوئی تصنع یا بناوٹ محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
اپنی بہو سے کہہ رہی تھیں ۔۔
”علینہ بیٹی! یہ رکابیاں یہاں تپائی پر رکھ دیجیے اور چائے کی پیالی بہن کو پکڑائیے!
مجھے پھر اردو کی رومانویت لیے ایک شعر یاد آ گیا۔۔۔

وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے۔

”ارے بھئی بیگم! ہم بھی کوئی لکھنوی ادب کی بھاری بھرکم کتاب لے آتے ہیں، وہاں سے سیکھ سیکھ کر مہذب اردو بولا کریں گے۔ بس اب کھانا تو لے آؤ یار۔۔۔ بہت بھوک لگی ہے۔ یا آج اردو کے لیکچر سے ہی پیٹ بھرنا پڑے گا؟“

”آپ بیٹھیے۔۔۔ میں کھانا لے کر آتی ہوں۔“
انھیں کھانا دے کر میں پھر اردو کے نوحے پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔۔۔

”اردو کتنی خوب صورت کتنی مہذب زبان ہے! ہم نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟ ہم ایسے کیوں ہو گئے؟ آدھے تیتر آدھے بٹیر ۔۔ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔۔۔! ہم نہ جانے کون سی تہذیب کے پیچھے دوڑنے لگے ہیں۔ نہ جانے کون سی رنگین اردو بولنے لگے ہیں! اپنا قیمتی اثاثہ کھوئے چلے جا رہے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں! ہمارے اسکولوں میں انگریزی پڑھائی جاتی ہے۔ ہمارے بچے اردو سے نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے گھروں سے اردو زبان بوریا بستر سمیٹ رہی ہے اور ہم بےخبر ہیں۔ اردو سے اس دشمنی کی وجہ کیا ہے آخر ۔۔۔۔؟ ہم جانے انجانے میں کیوں اپنا نقصان کرتے چلے جا رہے ہیں... میں سوچتی رہی اور سوچتی چلی گئی۔۔۔۔!

زبانیں کاٹ کر رکھ دی گئیں نفرت کے خنجر سے
یہاں کانوں میں اب الفاظ کا رس کون گھولے گا؟

ہمارے عہد کے بچوں کو انگلش سے محبت ہے
ہمیں یہ ڈر ہے مستقبل میں اردو کون بولے گا؟

Address

Rahwali
Talwandi Rahwali
52280

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rahwali ki Awaz posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category