16/10/2025
اے آئی سے 99 فیصد لوگوں کا واسطہ صرف اتنا ہے کہ کوئی سوال پوچھ لیا، اپنی تحریر درست کروالی یا کچھ لکھوالیا۔ اس میں حقائق کی غلطی نکل آئی تو اے آئی کو مسترد کردیا۔
ایسے لوگوں کے سامنے جب اے آئی کے خطرات کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ اسے مذاق سمجھتے ہیں یا مبالغہ قرار دے دیتے ہیں۔ گویا انھیں بل گیٹس اور سام آلٹمین یا امریکا اور چین میں سیکڑہا ارب ڈالر اے آئی پر صرف کرنے والوں سے زیادہ علم ہے۔
اس بارے میں آگے بڑھنے سے پہلے سادہ الفاظ میں ذرا میزائل ٹیکنالوجی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
شب برات پر بعض شرلیاں ملتی ہیں جن کے فیتے میں آگ لگائیں تو وہ اولا اوپر کی جانب اڑتی ہیں لیکن پھر رخ بدل جائے تو کہیں بھی گھس جاتی ہیں۔ ابتدائی میزائل بھی ایسے ہی تھے۔ آپ نے لانچ پیڈ سے دشمن کی طرف رخ کرکے اسے چلادیا اور وہ کہیں بھی جاکر پھٹ گیا۔
ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور گائیڈڈ میزائل بنائے جانے لگے۔ اب میزائل کمپیوٹر کی مدد سے بنتے ہیں اور سیٹلائٹ کی مدد سے نشانے پر پہنچتے ہیں۔
اب سوچیں کہ نیا میزائل اے آئی کی مدد سے بنایا جائے اور اسے دشمن کا فوجی ہدف دیا جائے۔ لیکن اے آئی ازخود یہ فیصلہ کرلے کہ فوجی ہدف کے بجائے گنجان آباد شہر پر گرنا ہے تو کیا ہوگا؟
یہ خیال درست نہیں کہ اے آئی صرف ہدایات پر عمل کرتی ہے۔ فوجی بھی ہدایات پر عمل کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی انھیں اپنا دماغ بھی استعمال کرنا پڑجاتا ہے۔ بعض اوقات جان بوجھ کر حکم عدولی بھی کرتے ہیں۔
اے آئی سے بایو لیب میں بھی کام لیا جارہا ہے۔ میں نے دو روز پہلے نیویارک ٹائمز کی خبر بتائی تھی کہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی نے اے آئی کی مدد سے ایسا وائرس بنایا ہے جو زرعی انفیکشن کو روک سکتا ہے۔ اے آئی کا متھا گھوم جائے اور وہ مثبت وائرس کے بجائے عالمی وبا کا سبب بننے والا وائرس بنادے تو کیا ہوگا۔ یہ خدشہ بے بنیاد نہیں ہے۔
میں کچھ عرصے سے اے آئی کے بارے میں چھپنے والا مواد پڑھ رہا ہوں۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، گارڈین، نیویارکر، اٹلانٹک، ٹائم، کوئی اہم اخبار اور جریدہ ایسا نہیں جو ہر دوسری اشاعت میں اے آئی پر مضامین نہ چھاپ رہا ہو۔ فنانشل ٹائمز، ہارورڈ بزنس ریویو اور بلوم برگ جیسے میڈیا کا یہ خاص موضوع ہے۔ کتابیں بھی مسلسل چھپ رہی ہیں۔ صرف اے آئی پر ماہانہ میگزین شائع ہونے لگے ہیں۔ ان سب میں اے آئی کے خطرات کا ذکر ہوتا ہے۔
اے آئی کے خطرات کم کرنے کا طریقہ وہی تھا جو جوہری ہتھیاروں سے بچنے کا ہے۔ یعنی اس سے کھیلنے کی اجازت کم سے کم لوگوں کو ہونی چاہیے تھی۔ لیکن معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اب اس جن کو بوتل میں بند نہیں کیا جاسکتا۔