Sahra Sona kuri shar ساھڑا سونڑاں کوری شہر

  • Home
  • Sahra Sona kuri shar ساھڑا سونڑاں کوری شہر

Sahra Sona kuri shar ساھڑا سونڑاں کوری شہر ساھڑا سوہنا کوری شہر پیچ کو لائک کریں شکریہ

12.04.2024میری پہلی محبتہاں میری پہلی محبتمری میری پہلی محبتبلکے اک میری ہی نہیں جو بھی اک بار مری آیا اس کی محبت میں گر...
02/11/2025

12.04.2024
میری پہلی محبت
ہاں میری پہلی محبت
مری میری پہلی محبت
بلکے اک میری ہی نہیں جو بھی اک بار مری آیا اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا
جب بھی مری آؤ یہاں سکون محبت خوشی ملتی ہیں ہر بار اچھا لگتا ہے یہاں ہر موڑ پر نئے نظارے نہئ بہاریں ملتی ہیں مری سدا بہار شہر ہے ہر بار نیا احساس اور خوشی ملتی ہے جس موسم میں آؤ جب بھی آؤ آنکھیں حیران دل جوان ہو جاتا ہے مری بائیکاٹ کا نعرہ لگانے والے بھی سب سے پہلے یہاں پہنچے ہوتے ہیں عید ہو یا شب برآت جشن آزادی ہو یا کوئی اور قومی ایونٹ مری میں لوگوں کی رش لگ جاتی ہے۔
پہاڑوں سے عشق اور خاص کر مری سے عشق کا یہ عالم ہے کے اک بار جو اس عشق میں گرفتار ہو گیا وہ پھر اس محبوبہ کی پکڈنڈیوں کے چکر لگانے سے باز نہ آیا اور تو اور انگریز بھی مری کے عشق میں پاگل ہوئے پائے گئے اور ایسا عشق کے پھر کہیں کے نہ رہے
اک انگریز کی مری سے محبت کی مختصر کہانی درج ہے پڑھ لیجئے

کرنل جان پاول
بابائے مری۔

1851 کے اوائل میں انگریز فوجی دستے مری میں وارد ہوئے۔اس زمانے میں مری شہر کا کوئی وجود نہیں تھا ۔مری ایک پہاڑی ٹیلا تھا جسے مقامی زبان میں مڑھی کہا جاتا تھا
یہاں قدرتی خوبصورتی اور گھنے جنگل اور دلفریب موسم کے سواہ کسی قسم کی انسانی تعمیر نہیں تھی۔

دو سال تک خیموں میں رہنے کے بعد انگریز دستے نئی بنی ہوئی بیرکس میں منتقل ہوئے۔

1860 تک 2 فرلانگ طویل مال روڈ مکمل ہوچکی تھی۔ہولی ٹرینیٹی چرچ بن چکا تھا۔مال روڈ کے اطراف اور مری شہر کے قرب میں ایک نئے شہر کی تعمیر کے خدوخال نمایاں ہوچلے تھے۔کوٹھیاں اور ہوٹل تعمیر ہونے شروع ہوگئے تھے۔
ابتداہ میں اس نوزائیدہ شہر کو مری سینی ٹوریم کا نام دیا گیا اور اسے برطانوی پنجاب کا گرمائی ہیڈکواٹر بنایا گیا

1867 میں انگریزوں نے یہاں فوجی چھاونی قائم کی اور اسی سال گورنمنٹ آف پنجاب کے گزٹ نوٹیفکیشن نمبر 596 مورخہ 11 مارچ 1867 کے مطابق مری سینی ٹوریم کا نام تبدیل کرکے مری میونسپل کمیٹی رکھا گیا۔

بہت سے انگریزوں نے یہاں ہوٹلنگ کا کاروبار شروع کیا اور چند سالوں میں لکھ پتی بن گئے۔
کچھ انگریزوں کے نام آج تک مشہور ہیں ، بلکہ ان ہوٹلوں کو جنہیں یہ لوگ چلاتے تھے ، عوام آج تک انہی کے ناموں کی نسبت سے یاد کرتے ہیں ، مثلا روبری ہوٹل ، پول ہوٹل چیمبرز ہوٹل وغیره

روبری اور پال مری کے دو مشہور ہوٹل کیپر گزرے ہیں۔ دونوں نے اس کاروبار میں بہت نام اور دولت کمائی۔ دونوں کے متعلق مشہور تھا دونوں نے نوعمری میں ادنی ملازم کی حیثیت سے ہوٹل بزنس میں کام شروع کیا اور رفتہ رفتہ کئی ہوٹلز کے مالک بن گئے۔
پول کا پورا نام جان پاول تھا۔ہوٹل بزنس میں نام اور دولت کمانے کے بعد جان پاول مری میونسپل کمیٹی کے رکن بنے اور پچاس برس تک مری میونسپل کمیٹی کے نائب صدر رہے
مری شہر کی تعمیر وترقی میں جان پاول کا بہت بڑا حصہ ہے
برطانوی حکومت نے انہیں لیفٹنٹ کرنل کا اعزازی عہدہ دیا تھا ، مری کے مقامی لوگ انہیں "پول صاب" کہا کرتے تھے۔انہیں مری کا بے تاج بادشاہ “ کہا جاتا تھا

کرنل جان پاول مقامی پہاڑی زبان اپنی مادری زبان انگریزی کی طرح صفائی اور روانی سے بولا کرتے تھے۔
1865 میں مری میونسپل کمیٹی کے رکن بننے والے جان پاول 1936 تک کمیٹی کے نائب صدر رہے۔
1929 میں تعمیر ہونے والے ٹاون ھال (جسے اب جناح ھال کہا جاتا ہے) کا نام پاول ھال رکھا گیا۔یہ کرنل جان پاول کی خدمات کا بہترین خراج تحسین تھا۔
1936 میں جان پاول اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کتھبرٹ کنگ میں اختلاف پیدا ہوا۔جان پاول مری میونسپل کمیٹی میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت کے خلاف تھے۔اختلاف بڑھا تو جان پاول نے اہنے عہدے سے استعفی دیا اور اسی سال انگلینڈ واپس چلے گئے۔جاتے جاتے اپنے ایک درجن کے قریب معیاری ہوٹل اور کوٹھیاں ممتاز ہندو تاجر کرپا رام کو دے گئے۔
جان پاول کہنے کو تو انگلینڈ واپس چلے گئے مگر اپنا ❤دل مری میں چھوڑ گئے۔ہر لمحہ انہیں مری کی یاد ستاتی۔مقامی لوگ یاد آتے۔۔صرف چند ماہ انگینڈ رہنے کے بعد وہ واپس مری کی طرف عازم سفر ہوئے۔اپنے گھر والوں کو الوادع کہنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ میں نے جس شہر میں عمر گزاری وہاں ہی دفن ہونا چاہتا ہوں۔میں مری سے جدا نہیں ہوسکتا۔
وہ 1937میں مری واپس پہنچے اور اپنے دیرینہ ملازم اکبر خان کے ہمرا پرانے وقتوں کو یاد کرتے اپنے آخری دن گزارنے لگے۔پرانے سنہری دن کبھی واپس نہیں آئے۔۔

1938 میں اس نیک انسان نے 82 سال کی عمر میں موت کو لبیک کہا اور مری کی سرزمین میں مدفون ہوئے۔انکی آخری رسومات میں بلا تفریق مذہب ملت ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور اپنے " پول صاب " کو الوداع کیا ( یہ ہے مری سے محبت مری کی اپنائیت)

وہ بلاشبہ مری کے اولین معمار تھے۔وہ ہم سب کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
آج ہم جو ملکہ کوہسار مری دیکھتے ہیں۔اس بنیادوں میں جان پاول کا خلوص اور محنت شامل ہے۔
موٹر ایجنسی مری کے قریب اور ڈائیو بس سٹینڈ سے نیچے کی طرف ایک مقفل چاردیواری کے اندر کرسچئین قبرستان میں انکی قبر موجود ہے ان کے علاوہ بھی کئی انگریز محبان مری کی قبور واقع ہیں۔

Big shout out to my newest top fans! 💎 Ali Khan, Raja Babar, Shiraz Ahmed, Faisal Kiani, Sohail Mehmood, Mushtaq Kashi, ...
30/10/2025

Big shout out to my newest top fans! 💎 Ali Khan, Raja Babar, Shiraz Ahmed, Faisal Kiani, Sohail Mehmood, Mushtaq Kashi, Muhammad Khaleeq Uz Zaman, Faisal Rasheed Mangral, Aftab Hussain, Nawazish Ali, Asim Kiyani, Amir Shahzad, Israr Hussain, Qazi Masaud

Drop a comment to welcome them to our community, fans

24/10/2025

I got over 300 reactions on one of my posts last week! Thanks everyone for your support! 🎉

22/10/2025

لوگوں کو مختلف قوموں ذاتوں سیاسی اور مذہبی فرقوں میں اس لئے تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی بھی ظلم و جبر کے خلاف متحد ہو کے آواز نہ اٹھا سکیں ۔

21/10/2025

اطلاع فوتگی کوری شہر محلہ مغلاں میں سابقہ سکول ماسٹر اللہ بخش صاحب کی زوجہ رضائے الہی سے وفات پا گئی ہیں جنکی نماز جنازہ آج مورخہ 21.10.2025
دن 3 بجے کوری شہر تکیہ والے قبرستان میں ادا کی جائیگی۔

یہ دو مختلف مشینیں ہیں اک مشین بیمار انسان کے دل کی دھڑکنوں کو کنٹرول کرتی ہے اور جینے کی امید دلاتی ہے۔جب کے دوسری مشین...
20/10/2025

یہ دو مختلف مشینیں ہیں اک مشین بیمار انسان کے دل کی دھڑکنوں کو کنٹرول کرتی ہے اور جینے کی امید دلاتی ہے۔
جب کے دوسری مشین کو دیکھ کر اچھا خاصے صحت مند انسان کے دل کی دھڑکن تیز اور دماغ شارٹ ہونے لگتا ہے۔

شکرپڑیاں اسلام آباد میں اک پرانی حویلی نما گھر۔
20/10/2025

شکرپڑیاں اسلام آباد میں اک پرانی حویلی نما گھر۔

19/10/2025

I gained 4,327 followers, created 70 posts and received 8,225 reactions in the past 90 days! Thank you all for your continued support. I could not have done it without you. 🙏🤗🎉

چک شہزاد ہوٹل سٹاپچک ہوٹل جو کہ اب ویران ہو چکا ہے یہ ہوٹل سٹاپ پورے علاقہ کا اک اہم مرکز ہوا کرتا تھا کہی آنا ہو یا جان...
17/10/2025

چک شہزاد ہوٹل سٹاپ
چک ہوٹل جو کہ اب ویران ہو چکا ہے یہ ہوٹل سٹاپ پورے علاقہ کا اک اہم مرکز ہوا کرتا تھا کہی آنا ہو یا جانا ہو ہر بندہ یہی آتا رکتا اور آگے اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتا۔
بلاغ ملوٹ موہڑہ رہاڑہ کوری موہریاں کے بہت سے لوگ صبح سائیکل پر ہوٹل سٹاپ آتے اور اپنے جاننے والے دکان داروں کے ہاں سائیکل کسی درخت کے ساتھ باندھ کر آگے اپنے دفتر کی گاڑی یا سزوکی ویگن میں بیٹھ کر آبپارہ فیض آباد یا ترامڑی چوک کی طرف چل پڑتے پارک روڈ بھی سنگل روڑ ہوتا تھا فیض آباد والی سزوکیاں بھی وہی کھڑی ہوتی ہوٹل سٹاپ پر ضروریات زندگی کی ہر چیز با آسانی مل جاتی مجھے اب بھی یاد یے کوئی مہمان آ جائے تو ہم سائیکل پر یا پیدل ہوٹلوں پر جا کر مرغی دہی برف لاتے تھے ۔(چک) بڑی پررونق جگہ ہوا کرتی علاقہ کا تقریباً ہر شخص ہی( چک) ہوٹلوں پر روز نہیں تو دوسرے روز لازمی جاتا شام کو کسی بھی گھر سے آپ پوچھیں ( پہاپا کدھر گے۔ جواب آتا
(چکے در گے)
چک ہوٹلوں پر ہی کوری شہر کا سزوکی سٹاپ ہو کرتا تھا اور گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا مرد سواریاں جب دیکھتی کہ گاڑی خالی ہے تو وہ ہوٹل پہ بیٹھ کے چائے پیتے گپیں لگاتے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد گاڑی کی طرف دیکھتے کہ کتنی سواریاں ہو گئی ہیں۔
جب دو چار عورتیں بچے آ کر سزوکی میں بیٹھ جائیں تو کچھ امید پیدا ہو جاتی تھی کہ اب سواریاں آ رہی ہیں جلدی ہی گاڑی بھر جائے گی باقی لوگ بھی گاڑی میں بیٹھ جاتے اور جیسے ہی آبپارہ والی ویگن آتی تو سوزوکی میں موجود سواریاں گردن باہر نکال کر دیکھتیں کہ کوئی کوری شہر والی سواری اتری ہے کوری شہر والی سواری کو دیکھ کر منہ سے شکر ہے کے الفاظ نکلتے اور ایسی خوشی ہوتی جیسے کوئی صدیوں پرانا بچھڑا ہوا ملا ہو فوراً آؤ جی آؤ جی کہہ کر سواری کو گاڑی میں بیٹھایا جاتا اور ساتھ ہی ڈرائیور کو کہا جاتا ( اے ٹرو جی ہن پوریاں ہوئی گئیاں) ڈرائیور صاحب آتے سب سواریوں کو غور سے دیکھتے پھر کہتے ( تو پار او۔ تو رار او ۔تو اگے ہو۔ اے ( ب ) نکے کی چہولی وچ کرو۔)
سواریوں کو ڈسپلن کے ساتھ بیٹھا کر ڈرائیور صاحب فرماتے ( اے تکو ہالے دو کھٹ یاں ۔
کئی بار ایسا بھی ہوا جب صرف ایک دو سواریاں کم ہوں تو
ڈرائیور صاحب نماز کے لئے چلے جاتے اور ماشاءاللہ مکمل خشو و خصوء کے ساتھ نماز ادا کرتے پھر بارگاہ الہی میں خوب گڑگڑا کر دعا مانگی جاتی ادھر سوزوکی میں بیٹھی سواریاں بھی دل ہی دل میں دعا کر رہی ہوتیں یا اللہ ٹورو اس کی یا اللہ کیڑے ویلے ایسی یا اللہ اے کدھر چلا گیا۔
ڈرائیور جب نماز پڑھ کر آتا تو سوزوکی فل بھری ہوتی کچھ سواریاں سیڑھی پر اور چھت پر بھی دو چار کھڑے ہوتے یہ منظر دیکھ کر ڈرائیور خوشی خوشی بسمہ اللہ پڑھ کر سلف ماراتا۔

اک بار اللہ بخشے چھپراں والے حاجی فیاض صاحب بڑے نفیس آدمی تھے ان کی سوزوکی اڈے پر لگی ہوئی تھی بارشوں کا موسم تھا دریا ( ہاڑ ) آیا ہوا تھا حاجی صاحب نے سواریوں سے کہا

(دریائے وچ پانی آیا وا تہہ علی پراے داروں پھری جلنا پیسی تے کرایہ پنج روپے ہوسی وے)
بس یہ سننا تھا کہ سواریوں کے ماتھے پر بل آ گئے او نئ جی او نئ جی کی آوازوں کے ساتھ بخث و تکرا شروع ہو گئی خیر منت سماجی کے بعد اللہ اللہ کر کے کرائے میں کچھ کمی کرائی گئی اور ہم براستہ علی پور کوری شہر آئے۔

14/10/2025

یا اللہ ہم مجبور اور بے بس ہیں
ہر ظلم اور ظالم کا حساب تو ہی لے سکتا ہے😥

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sahra Sona kuri shar ساھڑا سونڑاں کوری شہر posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Sahra Sona kuri shar ساھڑا سونڑاں کوری شہر:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share