02/11/2025
12.04.2024
میری پہلی محبت
ہاں میری پہلی محبت
مری میری پہلی محبت
بلکے اک میری ہی نہیں جو بھی اک بار مری آیا اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا
جب بھی مری آؤ یہاں سکون محبت خوشی ملتی ہیں ہر بار اچھا لگتا ہے یہاں ہر موڑ پر نئے نظارے نہئ بہاریں ملتی ہیں مری سدا بہار شہر ہے ہر بار نیا احساس اور خوشی ملتی ہے جس موسم میں آؤ جب بھی آؤ آنکھیں حیران دل جوان ہو جاتا ہے مری بائیکاٹ کا نعرہ لگانے والے بھی سب سے پہلے یہاں پہنچے ہوتے ہیں عید ہو یا شب برآت جشن آزادی ہو یا کوئی اور قومی ایونٹ مری میں لوگوں کی رش لگ جاتی ہے۔
پہاڑوں سے عشق اور خاص کر مری سے عشق کا یہ عالم ہے کے اک بار جو اس عشق میں گرفتار ہو گیا وہ پھر اس محبوبہ کی پکڈنڈیوں کے چکر لگانے سے باز نہ آیا اور تو اور انگریز بھی مری کے عشق میں پاگل ہوئے پائے گئے اور ایسا عشق کے پھر کہیں کے نہ رہے
اک انگریز کی مری سے محبت کی مختصر کہانی درج ہے پڑھ لیجئے
کرنل جان پاول
بابائے مری۔
1851 کے اوائل میں انگریز فوجی دستے مری میں وارد ہوئے۔اس زمانے میں مری شہر کا کوئی وجود نہیں تھا ۔مری ایک پہاڑی ٹیلا تھا جسے مقامی زبان میں مڑھی کہا جاتا تھا
یہاں قدرتی خوبصورتی اور گھنے جنگل اور دلفریب موسم کے سواہ کسی قسم کی انسانی تعمیر نہیں تھی۔
دو سال تک خیموں میں رہنے کے بعد انگریز دستے نئی بنی ہوئی بیرکس میں منتقل ہوئے۔
1860 تک 2 فرلانگ طویل مال روڈ مکمل ہوچکی تھی۔ہولی ٹرینیٹی چرچ بن چکا تھا۔مال روڈ کے اطراف اور مری شہر کے قرب میں ایک نئے شہر کی تعمیر کے خدوخال نمایاں ہوچلے تھے۔کوٹھیاں اور ہوٹل تعمیر ہونے شروع ہوگئے تھے۔
ابتداہ میں اس نوزائیدہ شہر کو مری سینی ٹوریم کا نام دیا گیا اور اسے برطانوی پنجاب کا گرمائی ہیڈکواٹر بنایا گیا
1867 میں انگریزوں نے یہاں فوجی چھاونی قائم کی اور اسی سال گورنمنٹ آف پنجاب کے گزٹ نوٹیفکیشن نمبر 596 مورخہ 11 مارچ 1867 کے مطابق مری سینی ٹوریم کا نام تبدیل کرکے مری میونسپل کمیٹی رکھا گیا۔
بہت سے انگریزوں نے یہاں ہوٹلنگ کا کاروبار شروع کیا اور چند سالوں میں لکھ پتی بن گئے۔
کچھ انگریزوں کے نام آج تک مشہور ہیں ، بلکہ ان ہوٹلوں کو جنہیں یہ لوگ چلاتے تھے ، عوام آج تک انہی کے ناموں کی نسبت سے یاد کرتے ہیں ، مثلا روبری ہوٹل ، پول ہوٹل چیمبرز ہوٹل وغیره
روبری اور پال مری کے دو مشہور ہوٹل کیپر گزرے ہیں۔ دونوں نے اس کاروبار میں بہت نام اور دولت کمائی۔ دونوں کے متعلق مشہور تھا دونوں نے نوعمری میں ادنی ملازم کی حیثیت سے ہوٹل بزنس میں کام شروع کیا اور رفتہ رفتہ کئی ہوٹلز کے مالک بن گئے۔
پول کا پورا نام جان پاول تھا۔ہوٹل بزنس میں نام اور دولت کمانے کے بعد جان پاول مری میونسپل کمیٹی کے رکن بنے اور پچاس برس تک مری میونسپل کمیٹی کے نائب صدر رہے
مری شہر کی تعمیر وترقی میں جان پاول کا بہت بڑا حصہ ہے
برطانوی حکومت نے انہیں لیفٹنٹ کرنل کا اعزازی عہدہ دیا تھا ، مری کے مقامی لوگ انہیں "پول صاب" کہا کرتے تھے۔انہیں مری کا بے تاج بادشاہ “ کہا جاتا تھا
کرنل جان پاول مقامی پہاڑی زبان اپنی مادری زبان انگریزی کی طرح صفائی اور روانی سے بولا کرتے تھے۔
1865 میں مری میونسپل کمیٹی کے رکن بننے والے جان پاول 1936 تک کمیٹی کے نائب صدر رہے۔
1929 میں تعمیر ہونے والے ٹاون ھال (جسے اب جناح ھال کہا جاتا ہے) کا نام پاول ھال رکھا گیا۔یہ کرنل جان پاول کی خدمات کا بہترین خراج تحسین تھا۔
1936 میں جان پاول اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کتھبرٹ کنگ میں اختلاف پیدا ہوا۔جان پاول مری میونسپل کمیٹی میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت کے خلاف تھے۔اختلاف بڑھا تو جان پاول نے اہنے عہدے سے استعفی دیا اور اسی سال انگلینڈ واپس چلے گئے۔جاتے جاتے اپنے ایک درجن کے قریب معیاری ہوٹل اور کوٹھیاں ممتاز ہندو تاجر کرپا رام کو دے گئے۔
جان پاول کہنے کو تو انگلینڈ واپس چلے گئے مگر اپنا ❤دل مری میں چھوڑ گئے۔ہر لمحہ انہیں مری کی یاد ستاتی۔مقامی لوگ یاد آتے۔۔صرف چند ماہ انگینڈ رہنے کے بعد وہ واپس مری کی طرف عازم سفر ہوئے۔اپنے گھر والوں کو الوادع کہنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ میں نے جس شہر میں عمر گزاری وہاں ہی دفن ہونا چاہتا ہوں۔میں مری سے جدا نہیں ہوسکتا۔
وہ 1937میں مری واپس پہنچے اور اپنے دیرینہ ملازم اکبر خان کے ہمرا پرانے وقتوں کو یاد کرتے اپنے آخری دن گزارنے لگے۔پرانے سنہری دن کبھی واپس نہیں آئے۔۔
1938 میں اس نیک انسان نے 82 سال کی عمر میں موت کو لبیک کہا اور مری کی سرزمین میں مدفون ہوئے۔انکی آخری رسومات میں بلا تفریق مذہب ملت ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور اپنے " پول صاب " کو الوداع کیا ( یہ ہے مری سے محبت مری کی اپنائیت)
وہ بلاشبہ مری کے اولین معمار تھے۔وہ ہم سب کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
آج ہم جو ملکہ کوہسار مری دیکھتے ہیں۔اس بنیادوں میں جان پاول کا خلوص اور محنت شامل ہے۔
موٹر ایجنسی مری کے قریب اور ڈائیو بس سٹینڈ سے نیچے کی طرف ایک مقفل چاردیواری کے اندر کرسچئین قبرستان میں انکی قبر موجود ہے ان کے علاوہ بھی کئی انگریز محبان مری کی قبور واقع ہیں۔