22/01/2024
جب روح نکلتی ہے تو انسان کا منہ کھل جاتا ہے اور ہونٹ کسی بھی قیمت پر آپس میں چپکے ہوئے نہیں رہ سکتے۔
روح پیر کو کھینچتی ہوئ اوپر کی طرف آتی ہے۔ جب پھپڑوں اور دل تک روح کھینچ لی جاتی ہے اور انسان کی سانس ایک ہی طرف یعنی باہر ہی چلنے لگتی ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب چند لمحوں میں انسان شیطان اور فرشتوں کو دنیا میں اپنے سامنے دیکھتا ہے۔ ایک طرف ابلیس اس کے کان میں کچھ مشورے دیتا ہے تودوسری طرف اسکی زبان اسکے عمل کےمطابق کچھ الفاظ ادا کرنا چاہتی ہے۔ اگر انسان نیک ہو تو اسکا دماغ اسکی زبان کو کلمہ شہادت کی ہدایت دیتا ہے۔۔ اگر انسان کافر اور بددین مشرک یا دنیا پرست ہوتا ہے تو اس کا دماغ کنفیوژن اور ایک عجیب ھیبت کا شکار ہو کر شیطان کے مشورے کی پیروی کرتا ہے اور بہت ہی مشکل سے کچھ الفاظ زبان سے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔۔ یہ سب اتنی تیزی سے ہوتاہے کہ دماغ کو دنیا کی فضول باتوں کو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ انسان کی روح نکلتے ہوئے اپنے ذہن میں ایک زبردست تکلیف محسوس کرتا ہے, لیکن تڑپ نہیں پاتا کیونکہ دماغ کو چھوڑ کر باقی جسم کی روح اسکے حلق میں اکٹھی ہو جاتی ہے اورجسم ایک گوشت کے بےجان لوتھڑے کی طرح پڑا ہوا ہوتا ہے کہ جس میں کِسی بھی حرکت کی گنجائش نہیں رہتی۔ آخر میں دماغ سے بھی روح کھینچ لی جاتی ہے، آنکھیں روح کو لے جاتے ہوئے دیکھتی ہیں اسلیئے کہ آنکھوں کی پتلیاں اوپر چڑھ جاتی ہیں یا جس سمت فرشتہ روح قبض کر کے جاتا ہے اس سمت کی طرف ہوتی ہیں۔ اس کے بعد انسان کی زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے جس میں روح تکلیفوں کے تہہ خانوں سے لے کر آرام کے محلات کی آہٹ محسوس کرنے لگتی ہے, جیسا کہ اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ جو دنیا سے گیا واپس کبھی لوٹا نہیں صرف اس لیے کیونکہ اسکی روح عالم برزخ کا انتظار کر رھی ہوتی ہے جس میں اسکا ٹھکانا دے دیا جائے گا۔ اس دنیا میں محسوس ہونے والی طویل مدت، ان روحوں کے لیے چند سیکنڈز سے زیادہ نہیں ہو گی۔ موت کے وقت مومن کی روح اس طرح کھینچ لی جاتی ہے جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے , جبکہ گناہ گار کی روح خاردار درخت پر پڑے سوتی کپڑے کی طرف کھینچی جاتی ہے۔ اللہ سبحانه وتعالی ھم سب کے لئے موت جیسی آزمائش میں آسانی پیدا فرمائے۔
""بھلا جب روح گلے میں آ پہنچتی ہے , اور تم اس وقت کی (حالت کو) دیکھا کرتے ہو , اور ہم اس (مرنے والے) سے تم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں لیکن تم کو نظر نہیں آتے"""" !!!