
22/07/2025
شہید کا خون رائیگاں نہیں آخر کب تک ؟
اس وطن میں امن و امان کی بات کرنا خود کو گہری نیند سلانے کے مترادف ہے۔ وہ وطن جو ہمارے اباؤ اجداد نے لازوال قربانیوں سے حاصل کیا تھا اور جس کے ہم شناخت رکھتے ہے پاسپورٹ رکھتے ہیں تو پھر اسی وطن میں اپنی حق مانگنا اور اپنی وسائل پر اختیار اور مسائل کو حل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ ابھی پورے پشتون قوم اسی انتظار میں ہے کہ اب کی باری کس کی جانے کی تیاری یعنی کس کو ٹھہرا کر مار دیا جائے یا مولانا خانزیب شہید ہمارا آخری شہید اور انکی خون رائیگاں نہیں ہوگا؟ خیر یہ سوال تو سبھی کہ ذہن میں ہوگا لیکن اتفاق اور یگانگت کا مظاہرہ کوئی نہیں کرے گا ۔ کیونکہ یہ قوم تقسیم ہوچکا ہے درجنوں سیاسی پارٹیوں ،مذہبی گروپز میں اور ہر کوئی ایک دوسرے کو قصوروار اور خود کو بے گناہ کہلائے گا۔ باچا خان سے لیکر ولی خان تک ولی خان سے لیکر مولانا خانزیب ، حتی کہ منظور پشتون نے بھی قوم کو یکجا نہیں کرسکا ان کرداروں پہ سوال اٹھانے سے پہلے اپنی گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ ہم کس طرف ہے ،ہم کس سمت جارہے ہیں یا وہی کے وہی ہے کہ ریاستی ادارے جس کو غدار اور ایجنٹ قرار دے تو ہم بجائے مخالفت کے انکے بیانیے کو مزید تقویت دیتے ہیں اور اپنے ہی قومی لیڈروں کو غدار کہلانے لگتے ہیں اور ابھی تک ہم نے صحیح اور غلط میں فرق نہیں کیا اور ہمیشہ کیطرح تم صحیح اور ہم غلط تو پھر یہ بد آمدنی ،دہشتگردی کیوں میرے زمین پہ ؟ یہ بے روزگاری اور غربت کیوں میرے گھروں پہ ؟ کیوں آپکے بے گناہ فوجی جوان اور ہمارا بے گناہ عوام ؟ یہ سوالات کو حل کرنے کے بجائے ہمیشہ نامعلوم افراد متحرک ہوتے ہیں اور پھر مولانا خانزیب ،عثمان ،کاکڑ،ریحان زیب،مفتی منیر شاکر جیسے محب وطن،امن پرست لوگوں کو مارتے ہیں۔
نامعلوم افراد کا معمہ بھی حل نہیں ہوا کہ آخر یہ کونسے ملک کے ہوتے ہیں کونسی طاقت انکے پاس ہوتی ہیں جو کبھی معلوم نہیں ہوتےاور برائے نام قانون نافذ کرنے والے اور ریاستی امور چلانے والے سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں
کہ" شہید کا خون رائیگاں نہیں جائے گا" ؟
تحریر: جسار احمد یوسفزئی