11/08/2025
یہ وہ عام آدمی ہے، ہماری طرح
جو اپنی پوری زندگی میں آلو پیاز سے لے کر دودھ، بسکٹ اور پیٹرول، بجلی ہر چیز پر وہ جبری ٹیکس دیتا رہا جو اس سے مانگا جاتا تھا۔
خاموشی سے، صبر سے، برداشت سے۔۔۔
آج، مگر، بس ہو گیا۔
آج اس کے کچے، سادہ سے چھوٹے سے کمرے میں چیزیں ختم ہو چکی تھیں۔
پندرہ سالہ بیٹی بیمار تھی، ننھا بچہ بھوک سے روتا تھا اور وہ خود تین راتوں سے کھانا کھانے سے محروم تھا کیونکہ مزدوری نہیں ملی تھی۔
اتنی دیر میں لکڑی کے دروازے کی کنڈی بجی۔
وہ تھکا ہارا اٹھا، ہاتھ میں کاغذ کا رنگین ٹکڑا تھاما—
اس کا ماہانہ بل، جس میں تھا صرف ایک پنکھا، تین بلب، ایک موٹر اور واشنگ مشین کا استعمال۔
کل رقم: 24 ہزار 400 روپے۔
جس میں سے 21 ہزار روپے وہی لوگوں کے عیاشیوں کی مد میں ادا کرنا تھا—حکمرانوں، جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹس کے لئے۔
صبر کا پیمانہ بھر چکا تھا۔
اس نے بچوں کو آنکھوں میں نمی لے کر گلے لگایا، بیوی کو دیکھا، اور وہ بل اٹھا کر گھر سے نکل پڑا۔
راستے میں ہر اجنبی کی نظر میں مدد کی امید ڈھونڈتا رہا،
مگر لوگ اپنی اپنی دنیا میں مصروف تھے۔ کوئی سننے والا نہ تھا۔
وہ شہر اقتدار کی ایکسپریس وے پر واقع کھنہ پل پر چڑھا،
کاروں کے شور کے بیچ ایک انسان زمین پر گرا۔
لوگ جمع ہوئے، لیکن وہ بل ابھی ہاتھ میں تھا، اور وہ دل سے آزاد۔
بل پر بھاری حروف میں لکھا تھا:
"مقررہ تاریخ تک واجب الادا بل لازمی ادا کریں، ورنہ میٹر کاٹ دیا جائے گا"۔
آج وہ شخص صرف ایک بیلنس نہیں کھو رہا تھا،
وہ ایک پورے نظام کی ناانصافی سے لڑتے لڑتے اپنی آخری امید بھی کھو رہا تھا۔
یہ داستان ہے اُس عوام کی، جو بس اب چپ نہیں رہے گی۔
آج ہم سب کو یہ سوچنا ہے کہ ظلم کے خلاف بولنا کب شروع کریں گے؟ ت