Live Pakistan

  • Home
  • Live Pakistan

Live Pakistan You are free you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan.

You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State
Jinnah's

شاہِ  #ایران اور دنیا کی سب سے مہنگی پارٹی۔۔۔۔پرسیپلس، 1971۔ ( ستونت کور )آج کی تحریر پڑھ کے شاید آپ کو حیرت کا ایسا ہی ...
19/06/2025

شاہِ #ایران اور دنیا کی سب سے مہنگی پارٹی۔۔۔۔پرسیپلس، 1971۔ ( ستونت کور )
آج کی تحریر پڑھ کے شاید آپ کو حیرت کا ایسا ہی سکتہ طاری ہوجائے کہ جیسے مجھے یہ سب پہلی مرتبہ جان کے ہوا تھا۔۔۔!!
۔۔۔
1960 ۔ ایران ایک غریب اور ترقی پذیر ملک ملک ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام اور انارکی کا بھی شکار تھا جہاں پانی ، تعلیم اور طبی سہولیات کا سخت فقدان تھا۔
ان دنوں سربراہِ مملکت مشہور آمر "رضا شاہ #پہلوی" تھا جوکہ پہلوی سلطنت کا آخری بادشاہ تھا۔
رضا شاہ ایک لبرل ، ترقی پسند اور مغربی کلچر کا دلدادہ شخص تھا جو کہ ایران کو دنیا کے ترقی یافتہ اور خوشحال مغربی ممالک کی صف میں دیکھنا چاہتا تھا۔
اپنے اس ویژن اور کاوش کے سلسلے میں شاہ پوری دنیا کی حکومتوں کی توجہ اور سپورٹ کا خواہاں تھا۔۔۔۔۔لیکن سوال یہ تھا کہ وہ اپنے اس "انقلابی ویژن" کو آخر پوری کی حکومتوں کی نظروں میں کیسے لاتا کہ دنیا نہ صرف اس منصوبہ سے من و عن آگاہ ہوجاتی بلکہ خوشی خوشی شاہ کی سپورٹ کرنے پر بھی راضی ہوجاتی ۔
اس سلسلے میں شاہ کے پاس ایک پلان تھا۔۔۔۔جس کے مطابق وہ "سلطنتِ فارس" کے قیام کی 2500 ویں سالگرہ پر ایک ایسی شاندار بین الاقوامی پارٹی کا انتظام کرکے پوری دنیا کے صدور، وزرا اعظم اور دیگر سربراہان مملکت کو مدعو کرنا چاہتا تھا کہ جیسی پارٹی آج تک نہ کسی نے دیکھی ہو اور نہ سنی ہو۔
۔
سائرسِ اعظم کے ہاتھوں سلطنت #فارس کے قیام کو 1971 میں پورے 2500 سال مکمل ہورہے تھے ۔ اور شاہ نے یہ پارٹی اسی موقعہ پر منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن۔۔۔سوال یہ تھا کہ اس قدر بڑے پیمانے کی اور اتنی شاندار تقریب کہاں پر منعقد کی جائے ؟
اس وقت میں ایران میں کوئی ایسا بڑا اور شاندار ہوٹل یا کوئی ایونٹ ہال نہ تھا کہ جو اس لیول کی تقریب کے شایان شان ہوتا۔
۔
چنانچہ۔۔۔کئی آپشنز پر غور کرنے کے بعد شاہ نے یہ فیصلہ کیا کہ "یہ پارٹی صحرائے شیراز کے بیچوں بیچ واقع قدیم سلطنت فارس کے شہر "پرسیپلس" کے متروک شدہ کھنڈرات کے قریب ایک مصنوعی شہر قائم کرکے وہاں پر منعقد کی جائے گی".
سیریسلی۔۔۔۔ایک انتہائی دوردراز کا بےآب و گیاہ ریگستان کہ جہاں موسم دن کو شدید گرم یعنی 40 ڈگری تک ، رات کو شدید سرد 0 ڈگری سے بھی نیچے، نہ وہاں تک آنے جانے کا کوئی راستہ ، نہ وہاں بجلی، نہ پانی اور یہ علاقہ سانپوں ، بچھوؤں اور زہریلے ریگستانی جانوروں سے اٹا پڑا تھا۔۔۔۔اور شاہ اس مقام پر ایک تین روزہ بین الاقوامی تقریب منعقد کرنا چاہتا تھا۔
پر شاہ کا حکم تو بادشاہ کا حکم تھا۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ اس صحرا کے بیچوں بیچ ایک مصنوعی شہر کی تعمیر کے ناقابل یقین حد تک حیران کن منصوبے پر کام 1969 میں ہی شروع ہوگیا۔
۔۔۔۔
جنگل میں منگل :
سب سے پہلے پرسیپلس کے کھنڈرات کے 30 مربع پر جہازوں کے زریعے زہریلا سپرے کیا گیا۔
جس کے بعد اس سارے علاقے سے ایک ٹرک کے برابر سانپوں ، بچھوؤں اور دیگر جانوروں کی لاشیں اٹھا کر وہاں سے ہٹائی گئیں۔
اس کے بعد قریب ترین شہر شیراز سے پرسیپلس تک ایک ہائی وے کی تعمیر پر کام شروع کردیا گیا جس کے زریعے سبھی مہمانوں کو تقریب کے مقام تک پہنچایا جانا تھا۔
ساتھ ہی شیراز میں ایک نئے ہوائی اڈے کی تعمیر پر بھی کام شروع کردیا گیا ۔ جہاں ناصرف مہمانوں کے طیاروں نے اترنا تھا بلکہ مصنوعی شہر کی تعمیر و تزئین کے لیے سارا ساز وسامان بھی اسی ائیر فیلڈ کے زریعے پہنچا کر یہاں سے گاڑیوں کے زریعے پرسیپلس تک پہنایا جانا تھا۔
شیراز تا پرسیپلس ہائی وے پر دونوں اطراف درخت لگائے گئے اور بڑی تعداد میں لائٹنگ کی گئی۔
اتنا ہی نہیں۔۔۔شاہ حکومت نے شیراز میں 2 نئے فائیو سٹار ہوٹلز بنام "کروش" اور "دیریوش" تعمیر کروائے . 300 کمروں پر مشتمل ان ہوٹلز میں اصل مہمانوں کے ساتھ آئے کم اہم افراد کو ٹھہرایا جانا تھا۔
۔۔۔۔
باغات اور پرندے :
پرسیپلس کی بنجر اور بےآب و گیاہ زمین کو ایک خوبصورت و سرسبز قطعہ زمین میں بدل دینے کے لیے شاہ نے بھاری مقدار میں گھاس کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک سے 15000 خوبصورت درخت اور تقریباً 20 ہزار پھولدار پودے (بالخصوص گلاب) منگوائے تاکہ ان کی مدد سے پرسیپلس کو ایک جنتِ ارضی میں بدلا جاسکے۔۔۔ اور اس کام کی ذمہ داری شاہ نے ورسلز(فرانس) کے ایک مشہور فلورسٹ 'جارج ٹرو فو" کو دی۔
۔
اس مصنوعی سبزہ زار کو سجانے کے لیے شاہ نے یورپ سے 50 ہزار سریلے پرندے جیسے کنیری اور 20 ہزار چڑیاں منگوائیں اور انہیں اس مقام پر چھوڑ دیا گی۔ (سب پرندے پارٹی کے بعد چند دن میں ہی پانی کی کمی اور گرمی کے باعث مر گئے).
تو اس سبزہ زار کے لیے بھاری مقدار میں پانی کی بھی ضرورت تھی جسے روزانہ شیراز سے سینکڑوں واٹر ٹینکرز کی مدد سے پرسیپلس پہنچایا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
خیموں کا شہر :
مہمانوں کی رہائش کے لیے پرسیپلس میں باغات کے بیچوں بیچ 50 عدد لگژری اور بےمثال حد تک پر آسائش خیمے نصب کیے گئے جنہیں ایک ستارے کی شکل میں 5 لڑیوں میں نصب کیا گیا۔۔۔۔ان کے بیچوں بیچ کئی فواروں سے لیس ایک شاندار ، بڑا تالاب تعمیر کیا گیا۔
اس کے علاؤہ خیمہ بستی کے آغاز پر دو انتہائی بڑے اور شاندار ایونٹ ہال تعمیر کیے گئے۔
بات کریں خیموں کی تو ہر خیمہ اپنے آپ میں ایک شاہکار تھا۔
ان خیموں کو فرانس کی "میسن جانسین" کمپنی نے پیرس کے قریب ایک ائیر فیلڈ میں تیار کیا گیا جس کے بعد انہیں سینکڑوں پروازوں کے زریعے ایران منتقل کیا گیا۔
ہر خیمے کا سائز ایک 5 مرلے کے مکان جتنا تھا۔
دنیا کے مہنگے ترین رنگارنگ ، دلکش فرنیچر ، پردوں، پینٹنگز ، ڈیکوریشن اور قالینوں سے مزین ہر ائیر کنڈیشنڈ خیمے میں 2 بیڈروم ، 2 باتھ روم ، 1 سٹنگ روم اور 1 کچن بمع 24 گھنٹے کُک اور ملازمین کے، موجود تھا۔
ہر خیمہ ایک ایک ملک کے مہمانوں کے لیے تھا۔
۔۔۔۔
خور و نوش :
مہمانوں کی تواضع کے لیے شاہ نے دنیا میں دستیاب سب سے عمدہ اور لذیذ کھانوں اور سب سے مہنگے مشروبات کا انتظام کیا۔اور اس سب کا انتظام شاہ نے اس دور میں دنیا کے سب سے بہترین ریسٹورینٹ "میکسیم" کے ذمہ کیا جس کا تعلق فرانس سے ہے۔
میکسیم نے جو سامان کئی پروازوں کے زریعے پرسیپلس منتقل کیا اس میں :
18 ٹَن پھل، سبزیاں اور دیگر سامان
3 لاکھ 80 ہزار انڈے
2700 کلوگرام بیف، پورک اور دنبے کا گوشت
1280 کلوگرام چکن اور مچھلی
30 کلو کاویار (مچھلی کے انڈے-دنیا کی سب سے مہنگی غذا)
سالم ہرن ، مور اور دیگر جانور
30 ٹن برتن اور کچن کا سامان
2500 بوتل شیمپئن
1000 بوتل برگنڈی۔
1000 بوتل بورڈو۔
اور درجنوں دیگر اقسام کی مہنگی شراب۔
۔۔۔۔۔
سکیورٹی :
کیونکہ اس دعوت پر پوری دنیا کے سربراہان مملکت نے شرکت کرنی تھی تو ظاہر ہے اس کی سکیورٹی اپنے آپ میں ایک بہت اہم ایشو تھی۔
اس مقصد کے لیا شاہ نے 65000 فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو پرسیپلس اور اس تک پہنچنے کے سبھی راستوں پر تعینات کیا۔
پارٹی سے کئی ماہ پہلے ہی ایک ملک گیر کریک ڈاؤن میں شاہ نے ہر اس ممکنہ شخص کو گرفتار کروا کے قید کردیا کہ جو شاہ کا مخالف تھا یا شاہ کی حکومت سے معمولی سا بھی اختلاف رکھتا تھا۔
پارٹی کے ایام میں تو شاہ نے ایران کی سبھی سرحدی گزر گاہوں تک کو بند کروا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
تشہیر :
اس عالیشان ایونٹ کے لیے شاہ کی حکومت نے ایک سال قبل ہی دنیا کی مشہور میڈیا کمپنیز ، ٹی-وی چینلز ، اخبارات و جرائد اور دیگر زرائع ابلاغ سے رابطہ کر کے اس ایونٹ کی کوریج کے سلسلے میں کام شروع کردیا۔
ایرانی فلم بورڈ نے اس ایونٹ پر ایک باقاعدہ فلم بھی بنانے کا قصد کیا جسے Flames of Persia کا نام دیا گیا۔
ایک سال تک یہ اپ کمنگ پارٹی پوری دنیا کے میڈیا پر چھائی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمان :
اب بات کرتے ہیں اس پارٹی کے مہمانوں کی۔
ہیڈز آف سٹیٹ = آسٹریا ، فن لینڈ اور سوئٹزرلینڈ۔
وزراء اعظم = فرانس، اٹلی، جنوبی کوریا اور سوازی لینڈ۔
صدور مملکت = بلغاریہ ، برازیل ، ترکی ،ہنگری ، چیکو سلواکیہ، انڈونیشیا، پاکستان , لبنان ، انڈیا، جنوبی افریقہ، سینیگال ، زائرے، موریطانیہ، یوگوسلاویہ، رومانیہ۔
گورنر جنرل = کینیڈا ، آسٹریلیا۔
نائب صدر = امریکہ
سفیر = چین
ڈپٹی چیئرمین = پولینڈ
شہنشاہ = ایتھوپیا
شاہی جوڑے = ڈنمارک ، بیلجئم ، نیپال ،یونان
بادشاہ = اردن ، ناروے ، لیسوتھو۔
امیر = بحرین، قطر، کویت ، ابو ظہبی۔
سلطان = عمان
شہزادی = افغانستان
شہزادے و شہزادیاں بطور کپل = لگزمبرگ، لیچنسائن، مناکو، فرانس، سویڈن، سپین ، اٹلی ، جاپان ، مراکش۔
شہزادہ = تھائی لینڈ
شاہی رکن = ملائشیا
نمائندہ = ویٹیکن سٹی
چیئرمین = روس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پارٹی آن پہنچی :
14 اکتوبر 1971 کو رضا شاہ پہلوی مہمانوں کے استقبال کے لیے بذات خود شیراز پہنچا ۔
مہمانوں کو 200 بلٹ پروف لیموزین گاڑیوں کے زریعے پرسیپلس پہنچایا گیا۔
اس سہ پہر تقریبات کا آغاز ہوا اور شاہ نے سب مہمانوں سے ایک مختصر خطاب کیا جس میں اس نے اپنے ملک کے عظیم ماضی اور پر امید مستقبل کا ذکر کیا۔
جس کے بعد سبھی مہمانوں کو ان کے خیموں تک پہنچا دیا گیا۔۔۔۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پورے کرہ ارض سے اتنی بڑی تعداد میں بااثر شخصیات ایک مقام پر اکھٹی ہوئی تھیں۔
شام کے وقت مہمانوں کو ایک بڑے ہال میں قائم سوشل کلب سے مستفید ہونے کا موقعہ دیا گیا۔
اس کلب میں ایک استقبالیہ، ایک شراب خانہ ، ایک ریسٹورنٹ اور ایک جوا خانہ شامل تھا۔
ساتھ ہی یہاں 20 میک اپ سیلون اور ہیئر ڈریسنگ ، 4 سیلون برائے مرد حضرات بھی قائم کیے گئے تھے۔۔۔جن کے لیے پوری دنیا کے ٹاپ میک اپ آرٹسٹوں اور ہیئرڈریسرز کو بلوایا گیا تھا۔
ساتھ ہی ایک بنکر بھی تعمیر کیا گیا جس کا مقصد خواتین کے زیورات و دیگر قیمتی چیزوں کو حفاظت سے رکھنا تھا۔
اس شب رضا شاہ پہلوی نے دوسرے بڑے ہال یعنی بینکوئٹ میں سبھی مہمانوں کو ایک شاندار ڈنر پر جوائن کیا۔۔۔۔اس بینکوئٹ کا ایک ایک انچ دنیا کے سب سے ماہر اور مہنگے پروفیشنل ڈیزائنرز نے تیار کیا تھا۔
قیمتی فرنیچر، خوبصورت فانوسوں، اور سونے چاندی کے برتنوں کا تذکرہ نہ کرنا بھی ناانصافی ہوگی۔
ڈائننگ ٹیبل کی لمبائی 70 میٹر تھی۔۔۔۔جس پر بچنے قیمتی کپڑے کو تیار کرنے میں 125 خواتین نے 6 ماہ کام کیا تھا۔
پوری دنیا کی تاریخ میں پہلا اور اب تک کا واحد موقعہ تھا کہ 6 براعظموں اور بیسیوں ممالک کے سربراہان مملکت ایک جگانے کے میز پر اکھٹے ہوئے تھے۔
ان 600 مہمانوں کو دنیا کے سب سے قیمتی اور مزید کھانوں اور دنیا کے سب سے مہنگے مشروبات سے محظوظ کیا گیا۔
15 اکتوبر۔۔۔۔ پارٹی کے دوسری دن صبح کے وقت پرسیپلس کے قدیم کھنڈرات پر ایک شاندار شو منعقد کیا گیا جہاں سب مہمانوں کو ایران کی 2500 سالہ تاریخ کے مختلف ادوار کی افواج، لیڈرز ، ہتھیاروں اور کلچر پر مبنی ایک شاندار پریڈ دکھانے کا انتظام کیا گیا۔
اس پریڈ کے لیے 12000 ایرانی فوجیوں کو مختلف ادوار کی ایرانی افواج کی وردیوں ، زرہ بکتر، ہتھیاروں ، عمدہ گھوڑوں اور دیگر چیزوں سے مزین کیا گیا۔
باقی دن مہمان اپنے خیموں میں رہے یا ہالز میں مختلف سرگرمیوں اور سہولیات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
اس رات پرسیپلس کے کھنڈرات پر مہمانوں کے لیے روشنیوں اور آتش بازی کے ایک بےمثال مظاہرے کا انتظام کیا گیا جسے دیکھ کر اتنے بلند مرتبہ مہمان بھی مبہوت ہوکے رہ گئے ۔
16 اکتوبر۔۔۔۔ پارٹی کے آخری روز نصف دن تک مہمانوں کو ان کے خیموں یا پھر ہالز میں ایک سے بڑھ کے ایک پرلطف سرگرمیوں، کھیلوں اور کھانوں سے محظوظ ہونے کا موقعہ دیا گیا ۔
اس موقعہ پر کئی مہمان ایک دوسرے کے خیموں میں بطور مہمان آتے جاتے رہے جوکہ اپنے آپ میں ایک کمال کا ماحول تھا کہ جہاں دنیا بھر سے اہم ترین شخصیات ایک دوسرے کے پڑوس میں بطور ہمسایہ رہائش پذیر تھیں۔
دوپہر کو سبھی مہمانوں کو دارالحکومت تہران میں کچھ اہم تقریبات پر مدعو کیا گیا۔
اور آخری رات شیرات ٹاور پر آتش بازی کے ایک اور شاندار مظاہرے کے ساتھ پارٹی کا اختتام ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اثرات :
ٹائم میگزین کے مطابق اس پارٹی پر 100 ملین ڈالرز کا خرچہ ہوا ۔ جوکہ آج کے دور کے حساب سے کہاں کا کہاں پہنچ جاتا ہے۔
بلاشبہ یہ پارٹی ایک کامیاب ترین ایونٹ تھا جس نے کچھ ماہ کے لیے ایران اور شاہ کو پوری دنیا کے میڈیا کی زینت بنائے رکھا ۔
لیکن پارٹی کے اختتام کے کچھ عرصے بعد ایران سمیت پوری دنیا سے یہ سوال اٹھنے لگے کہ ایک غریب ملک جہاں کی 50٪ سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے جینے پر مجبور ہے اسے 100 ملین ڈالرز ایک ایونٹ پر لگانا کیا زیب دیتا ہے ؟

اس پارٹی کے منفی اثرات نے شاہ کی مقبولیت میں خطرناک حد تک کمی کردی اور اس کی سیاسی ساکھ بہت بری طرح سے مجروح ہوئی۔
ساتھ ہی ایران میں شاہ کے خلاف تحریک ہر گزرتے دن کے ساتھ روز پکڑتی چلی گئی اور 1979 میں انقلابِ ایران کے چلتے ، شاہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔
شاہ ایران سے فرار ہوکر مصر پہنچ گیا۔
27 جولائی 1980 کو جلا وطنی کے دوران ہی مصر میں ہی شاہ کا انتقال ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ان تین دنوں کے بعد پرسیپلس کا مقام پھر سے متروک اور ویران ہوگیا ۔۔۔ آج وہاں ان خیموں کے محض کچھ زنگ آلود سانچے ہی باقی پڑے رہ گئے ہیں۔

فل    #انورٹر اے سی کا قصہ!فل ڈی سی انورٹر نام سے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ائیر کنڈیشنر ڈی سی سپلائی وولٹیج پر کام کرے...
17/06/2025

فل #انورٹر اے سی کا قصہ!
فل ڈی سی انورٹر نام سے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ائیر کنڈیشنر ڈی سی سپلائی وولٹیج پر کام کرے گا تو آپکا خیال غلط ھے۔
فل ڈی سی انورٹر ائیر کنڈیشنر ۔۔۔ ایک مارکیٹ ٹرم ھے۔
کچھ تفصیلات بیان کر دیتا ھوں تاکہ مدعا واضح ھو سکے۔
کسی دور میں ۔۔۔ ونڈو ائیر کنڈیشنر ہوتے تھے ۔
پھر سپلٹ ائیر کنڈیشنر آئے۔
جو آج بھی کئ جگہ مستعمل ہیں۔
یہ سپلٹ ائیر کنڈیشنر ھوں یا ونڈو ائیر کنڈیشنر یہ نان انورٹر ھوتے یا عام ائیر کنڈیشنر سمجھیں۔
ان عام ائیر کنڈیشنر میں کمپریسر صرف دو حالتوں میں چلتا ھے یا تو وہ مکمل رفتار سے آن ہوتا ہے یا مکمل طور پر بند ہوتا ہے۔ جب کمرے کا درجہ حرارت مقررہ سطح پر پہنچ جاتا ہے تو کمپریسر بند ہو جاتا ہے اور جب درجہ حرارت دوبارہ بڑھتا ہے تو وہ دوبارہ پوری رفتار سے آن ہو جاتا ہے۔ اس بار بار آن اور آف ہونے سے بجلی زیادہ استعمال ہوتی ہے اور درجہ حرارت میں بھی اتار چڑھاؤ آتا ہے۔

اس کے برعکس انورٹر اے سی میں کمپریسر کی رفتار کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک "انورٹر" ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ انورٹر AC (الٹرنیٹنگ کرنٹ) کو DC (ڈائریکٹ کرنٹ) میں تبدیل کرتا ہے اور پھر اسے دوبارہ مطلوبہ فریکوئنسی کے AC میں بدلتا ہے تاکہ کمپریسر کی رفتار کو حسب ضرورت ایڈجسٹ کیا جا سکے۔
سادہ الفاظ میں جب کمرے کا درجہ حرارت مقررہ سطح / سیٹ پوائنٹ پر پہنچ جاتا ہے تو ڈی سی انورٹر اے سی کا کمپریسر مکمل طور پر بند ہونے کے بجائے، آہستہ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ کم رفتار سے مسلسل کام کرتا رہتا ہے تاکہ کمرے کا درجہ حرارت مستقل رہے اور بجلی کا استعمال بھی کم ہو۔ جب زیادہ ٹھنڈک کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ اپنی رفتار بڑھا دیتا ہے اور کم ضرورت پر رفتار کم کر دیتا ھے۔

جیسے اوپر بیان کیا فل ڈی سی انورٹر ائیر کنڈیشنر ایک دکانداری ٹرم ھے۔

انورٹر ائیر کنڈیشنر ۔۔۔ جنھیں ڈی سی انورٹر ائیر کنڈیشنر بھی کہتے ہیں انکی 3 ٹائپس ہیں۔
1. سنگل ڈی سی انورٹر ائیر کنڈیشنر:
اس میں صرف کمپریسر کی موٹر کو انورٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے چلایا جاتا ھے۔
اسے عام یا سنگل انورٹر ڈی سی ائیر کنڈیشنر بھی کہتے ہیں۔

2۔ تھری ڈی سی (DC Air conditioner 3)
اس انورٹر ائیر کنڈیشنر میں ایک سے زیادہ (عموماً تین) ایسے اجزاء یا موٹرز ہیں جو انورٹر ٹیکنالوجی پر کام کرتے ہیں، جس سے مجموعی کارکردگی اور توانائی کی بچت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ان اجزاء میں یہ شامل ہیں۔
۔ کمپریسر مین موٹر
۔ انڈور یونٹ بلور یا فین موٹر
اور۔۔ آؤٹ ڈور یونٹ فین موٹر۔

ائیر کنڈیشنر کے ان تینوں اجزاء کا انورٹر ٹیکنالوجی پر چلنا سسٹم کی مجموعی کارکردگی کو بڑھاتا ہے، بجلی کی بچت میں مزید اضافہ کرتا ہے، اور اے سی کے شور کو کم کرتا ہے۔

3. "فائیو ڈی سی" (5 DC Inverter):
"فائیو ڈی سی" اس ٹیکنالوجی کی مزید جدید شکل ہے۔ اس میں تھری ڈی سی انورٹر والے تین اجزاء کے علاوہ کچھ اور اجزاء بھی DC ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہوتے ہیں، جو کارکردگی کو اور بھی بہتر بناتے ہیں۔ یہ اضافی اجزاء برانڈ سے برانڈ مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن عام طور پر ان میں شامل ہو سکتے ہیں
۔ کمپریسر مین موٹر
۔ انڈور فین موٹر
۔ آؤٹ ڈور فین موٹر
۔ الیکٹرانک ایکسپینشن والو
EEV (Electronic Expansion Valve)
۔ پی سی بی PCB (Printed Circuit Board) یا کنٹرول یونٹ کے کچھ حصے

فائیو ڈی سی انورٹر ٹیکنالوجی والے ائیر کنڈیشنر عام طور پر سب سے زیادہ توانائی کی بچت کرنے والے، سب سے زیادہ پرسکون اور درجہ حرارت کا سب سے بہترین کنٹرول فراہم کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ شدید موسمی حالات میں بھی بہترین کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔

امید ھے کہ یہ معلومات آپکے علم میں اضافہ کا موجب ہوں گی۔

کہوٹہ پر اسرائیلی-بھارتی حملے کی ناکام سازشسن 1980 کی دہائی کا آغاز تھا جب پاکستان اپنے جوہری پروگرام کے ابتدائی مراحل س...
17/06/2025

کہوٹہ پر اسرائیلی-بھارتی حملے کی ناکام سازش

سن 1980 کی دہائی کا آغاز تھا جب پاکستان اپنے جوہری پروگرام کے ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کی جوہری تنصیبات، خاص طور پر کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز، عالمی طاقتوں کے لیے ایک کانٹے کی طرح چبھ رہی تھیں۔ پاکستان کا جوہری پروگرام نہ صرف خطے کی طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا بلکہ یہ مسلم دنیا کے لیے ایک عظیم الشان کامیابی کی علامت بھی تھا۔ اسی دوران، اسرائیل اور بھارت نے ایک خفیہ منصوبے کے تحت کہوٹہ کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی سازش رچی، جو نہ صرف پاکستان کے لیے خطرناک تھی بلکہ اس خطے کی جغرافیائی سیاست کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر سکتی تھی۔ لیکن پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی چوکسی، جنرل ضیاء الحق کی جرات مندانہ قیادت، اور پاک فضائیہ کی بے مثال بہادری نے اس حملے کو ناکام بنا کر دشمنوں کو شرمندگی کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا۔

1980 کی دہائی میں اسرائیل نے عراق کی اوسیرک جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا تھا، جس نے عالمی سطح پر اس کی جارحانہ عسکری صلاحیت کو نمایاں کیا۔ اس کامیابی سے حوصلہ پاکر اسرائیل نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو بھی نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اسرائیل کے لیے پاکستان کا جوہری پروگرام ایک بڑا خطرہ تھا، کیونکہ یہ پہلا مسلم ملک تھا جو جوہری طاقت بننے کی راہ پر گامزن تھا۔ دوسری طرف، بھارت، جو خود جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل تھا، پاکستان کے پروگرام کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ اس مشترکہ مفاد نے بھارت اور اسرائیل کو ایک دوسرے کے قریب لایا، اور دونوں نے مل کر کہوٹہ پر حملے کا منصوبہ بنایا۔

اس منصوبے کے تحت اسرائیلی فضائیہ کے ایف-16 طیاروں کا ایک اسکواڈرن بھارتی ریاست گجرات کے جہاں گڑھ ایئر بیس پر تعینات کیا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ یہ طیارے جنگی ترتیب میں پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوں گے، لیکن ان کی پرواز کو اس طرح ترتیب دیا جائے گا کہ پاکستانی ریڈار آپریٹرز انہیں ایک بڑا مسافر طیارہ سمجھیں۔ اس دھوکے کی آڑ میں وہ کہوٹہ کی جوہری تنصیبات پر بمباری کریں گے اور حملے کے بعد جموں و کشمیر کے راستے واپس فرار ہو جائیں گے۔ یہ منصوبہ نہایت خفیہ تھا اور اس کی کامیابی کے لیے دونوں ممالک نے بھرپور تیاری کی تھی۔

بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی، جن کی سخت گیر پالیسیوں اور علاقائی بالادستی کی خواہش کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی، اس منصوبے کی مکمل حمایت کر رہی تھیں۔ بھارتی جنرلوں نے انہیں یقین دلایا کہ اسرائیل کی عسکری مہارت اور بھارت کی لاجسٹک سپورٹ سے یہ حملہ کامیاب ہو جائے گا۔ اسرائیل کی عراق پر کامیاب کارروائی اس یقین کی سب سے بڑی دلیل تھی۔

لیکن دشمن نے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی صلاحیت کو کم سمجھا۔ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس منصوبے کی بھنک اس وقت پڑی جب حملے میں صرف چند گھنٹے باقی تھے۔ یہ اطلاع ملنے کے بعد صدر جنرل ضیاء الحق نے فوری طور پر ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ ان کی سخت گیر شخصیت اور فیصلہ کن قیادت نے اس موقع پر پاکستان کو ایک مضبوط حکمت عملی بنانے میں مدد دی۔ جنرل ضیاء نے فیصلہ کیا کہ دشمن کے حملے کو روکا نہیں جائے گا بلکہ اسے ناکام بنایا جائے گا، تاکہ پاکستان کو جوابی کارروائی کا جواز مل سکے اور دنیا کے سامنے دشمن کی نیت بے نقاب ہو۔

پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) نے فوری طور پر ایک جامع اور جرات مندانہ حکمت عملی تیار کی۔ اس وقت پاکستان کے پاس ایف-16 طیارے تو موجود نہیں تھے، لیکن پاک فضائیہ کے پائلٹس کی مہارت اور جذبہ کسی سے کم نہ تھا۔ تین گروپس تشکیل دیے گئے، ہر ایک کو الگ الگ ذمہ داری سونپی گئی:

1. پہلا گروپ: اس گروپ کو پاکستانی فضائی حدود کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی۔ ان کا مشن تھا کہ اسرائیلی طیاروں کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے دیا جائے اور پھر انہیں مار گرایا جائے۔ یہ ایک خطرناک حکمت عملی تھی، کیونکہ اس میں دشمن کو ابتدا میں پیش قدمی کی اجازت دینا شامل تھا، لیکن یہ پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن فتح کا باعث بن سکتا تھا۔

2. دوسرا گروپ: اس گروپ کو بھارت کے بھابھا ایٹمی ریسرچ سینٹر، جو بمبئی (اب ممبئی) کے قریب واقع تھا، پر جوابی حملے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ ایک واضح پیغام تھا کہ اگر بھارت نے پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا تو اسے بھی اسی طرح کے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

3. تیسرا گروپ: سب سے زیادہ جرات مندانہ مشن تیسرے گروپ کو دیا گیا، جسے اسرائیل کے صحرائے نقب (Negev) میں واقع ڈیمونا جوہری پلانٹ کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ ایک انتہائی مشکل مشن تھا، کیونکہ اسرائیل تک رسائی کے لیے پاکستانی طیاروں کو ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا تھا، جہاں ایندھن کی کمی اور دشمن کے جدید دفاعی نظامات بڑی رکاوٹیں تھیں۔

اس مشن کی کامیابی کے لیے لاجسٹک مسائل ایک بڑا چیلنج تھے۔ پاکستانی طیاروں کو اتنی دور تک پرواز کے لیے ایندھن کی دوبارہ فراہمی درکار تھی، جبکہ واپسی کا راستہ بھی محفوظ نہیں تھا۔ اس کے باوجود، پاک فضائیہ کے پائلٹس نے اس مشن کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔ ان کا جذبہ اور وطن سے محبت اس مشکل وقت میں پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہوئی۔

پاکستان کی تیاریوں اور عسکری نقل و حرکت کو امریکی سیٹلائٹس نے نوٹ کر لیا۔ امریکہ، جو اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر وقت چوکنا رہتا تھا، نے فوری طور پر اسرائیل اور بھارت کو اس بارے میں خبردار کیا۔ پاکستانی فضائیہ کی تیاریوں اور جوابی حملے کے منصوبے کی خبر سن کر اسرائیل اور بھارت خوفزدہ ہو گئے۔ انہوں نے اپنے منصوبے کو فوری طور پر منسوخ کر دیا اور دم دبا کر بھاگ گئے۔ اس ناکامی نے نہ صرف ان کی سازش کو بے نقاب کیا بلکہ عالمی سطح پر ان کی شرمندگی کا باعث بھی بنا۔

اس واقعے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اسرائیل کو کھلے عام خبردار کیا۔ انہوں نے کہا:
*"نہ تو پاکستان عراق ہے، اور نہ ہی پاکستانی فوج عراقی فوج۔ اگر آئندہ ایسی کوئی مہم جوئی کی گئی تو پاکستان اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دے گا۔"*
یہ دھمکی نہ صرف اسرائیل اور بھارت کے لیے ایک واضح پیغام تھی بلکہ اس نے پوری دنیا کو یہ باور کرایا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور جوہری پروگرام کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے، جو پاکستانی قوم کی جرات، چوکسی، اور عسکری صلاحیت کی عکاسی کرتا ہے۔ پاک فضائیہ کے پائلٹس، خفیہ ایجنسیوں، اور جنرل ضیاء الحق کی قیادت نے مل کر ایک ایسی سازش کو ناکام بنایا جو پاکستان کے جوہری پروگرام کو ختم کر سکتی تھی۔ یہ واقعہ نہ صرف پاکستان کی دفاعی طاقت کا مظہر ہے بلکہ اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ جب بات وطن کی عزت اور خودمختاری کی ہو تو پاکستانی قوم متحد ہو کر ہر چیلنج کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

حوالہ جات:
1. “Deception: Pakistan, the United States, and the Secret Trade in Nuclear Weapons” by Adrian Levy
2. “Compulsions of Power” by Ashfaq Hussain

کیا ایران سوچے گا ۔۔۔اس مشکل گھڑی میں کون اس کے کام آیا؟وہی سعودیہ۔۔۔ ؟ جس کیلئے ایران نے اسرائیل جتنی ہی تیاری کر رکھی ...
15/06/2025

کیا ایران سوچے گا ۔۔۔
اس مشکل گھڑی میں کون اس کے کام آیا؟
وہی سعودیہ۔۔۔ ؟
جس کیلئے ایران نے اسرائیل جتنی ہی تیاری کر رکھی ہے؟
وہی پاکستان ۔۔۔؟
جس پر اس نے میزائل تک فائر کیے، کلبھوشن بھیجے اور پراکیسز چلائیں۔۔؟
وہی احمد الشرع۔۔۔۔؟
جس نے دکھ سے لکھا۔۔ایران شامی عوام کو تم نے تکلیفیں تو بہت دیں ۔۔ بھلا کون سی تکلیفیں؟ وہ جیلیں یاد ہیں نا؟ جن سے وہ لوگ نکلے ، جو جیلوں میں گئے تو بچے تھے مگر جب سورج میں آئے تو لوگوں نے دیکھا ان کے بال سفید ہو چکے تھے۔۔
احمد الشرع نے کہا ۔۔
ان تکلیفوں کے باوجود ہم تمھارے ساتھ ہیں؟
وہ ترکی۔۔۔؟
جس کے خلاف تمھاری پراکسیز کے زخم ان کے وجود پر رات کی تاریکی میں بھی لو دیتے ہیں؟
وہ اہل سنت۔۔۔؟
مشرق وسطی میں اور ہر جگہ جن کی چمڑی ادھیڑنے کیلئے تم اپنی پراکسیز کے صرف ایک نمائندے کو دو ارب ڈالر سالانہ دیتے تھے۔۔؟
انڈیا نے کیا کیا؟
وہ انڈیا جس کے ساتھ تمھارے دفاعی معاہدے تھے، وہ جس کے جاسوس اور دہشت گرد تمھارے ہاں سے پاکستان کاٹنے آتے تھے، ہمارے گوشت کے لوتھڑے سڑکوں پر بکھیرنے آتے تھے ۔۔۔
اس انڈیا نے تمھارا ساتھ دیا یا اسرائیل کا ساتھ دیا؟
اقوام متحدہ میں بھی اور ۔۔۔
اور ایران میں رہ کر اسرائیل کے لیے جاسوسی کر کے بھی دیا۔۔۔
ایران دیکھ رہے ہو نا اب کون کیا کہہ رہا ہے؟
شاہ سلمان کی طرف سے ایرانی حجاج کو شاہی مہمان قرار دیا جانا،سب بھلا کے سعودیہ کا تمھارے لئے اسرائیل کی مذمت کرنا،محمد بن سلمان کا دو دفعہ تمھیں فون کرنا۔۔ کیا یہ تمھارے رویے کا جواب ہے؟ یا کچھ اور۔۔؟
خواجہ آصف نے پاکستان کی اسمبلی میں کھل کے جو کہا،پاکستان کے ہر طرح سے ساتھ دینے کی ہی بات نہ کی، بلکہ سارے عرب ممالک تک کے اسرائیل سے تعلق توڑ لینے کی بات بھی کر ڈالی۔۔
یہ تمھارے رویے کا بدلہ تھا یا کچھ اور۔۔؟
پھر اہل سنت ۔۔۔
جن کے سینے تمھارے دئیے زخم گننے سے قاصر ہیں۔۔ یہ اہل سنت کیا کہہ رہے ہیں؟ پاکستانی صحافت کیا کہہ رہی ہے؟ یہاں کے دیوبندی اور اہل حدیث کیا کہہ رہے ہیں؟ اہل سنت تو چلئے رہے ایک طرف آذر بائیجان کے شعیوں تک سے تمھارے تعلقات زخم زخم ۔۔ تمھی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے؟

جنگ تمام ہو جائے گی، ان شاءاللہ امن کا سورج طلوع ہوگا۔۔۔ لیکن کیا ایران سوچے گا؟
پراکسیز والی پالیسی بدلے گا؟ انڈیا کیساتھ ملکر پاکستان مخالف پالیسیوں سے اجتناب کریگا؟
امت کے جسد کو متحد ہونے کی راہ دے گا؟
اللہ کرے ایسا ہو۔۔ کوئی باہمی معاہدہ ۔۔ کوئی ضمانت ۔۔ جس سے سب آگے بڑھ سکیں، اصل ہدف پر فوکس کر سکیں۔۔

آم درخت سے کچا توڑا جاتا ہے۔ پھر اسے کریٹ پیٹی وغیرہ میں بند کرکے اندر مسالہ رکھ دیا جاتا ہے کہ دو سے تین دن میں آم کا گ...
07/06/2025

آم درخت سے کچا توڑا جاتا ہے۔ پھر اسے کریٹ پیٹی وغیرہ میں بند کرکے اندر مسالہ رکھ دیا جاتا ہے کہ دو سے تین دن میں آم کا گودا اندر سے نرم ہو جائے اور رنگ بھی پیلا ہوجائے۔ آم کھانے کے لیے تیار ہے۔
مسالہ ہے کیلشیم کاربائیڈ CaC2 جسے بازار میں موجود اکثریت آموں کو لگا کر آموں کا رنگ بدلا گیا ہوتا ہے۔ یہ ایک زہر ہے جو پوری دنیا میں پھلوں کو لگا کر پکانا ممنوع ہے۔ اسکا ایک استعمال آپکو بتاتا ہوں۔ گیس ویلڈنگ دیکھی ہے؟ جو لوہے کی بڑی سی ٹینکی ہوتی اس میں ایک مسالہ ڈال کر آگ پیدا کی جاتی جس سے ویلڈنگ کی جاتی ہے۔ وہ مسالہ یہی کیلشیم کاربائیڈ ہوتا ہے۔ یہ آتش گیر مادہ ہے جسے فیکٹریوں میں استعمال کیا جاتا۔ آموں کی پیٹی میں اسکی تھوڑی سی مقدار اتنی حرارت پیدا کر دیتی کہ آموں کا رنگ بدل جاتا اندر تک گل سڑ جاتے آم۔ اور یہ زہر آموں میں بھی سرائیت کر جاتا ہے۔
اسکا استعمال پاکستان میں بھی ممنوع ہے مگر یہاں کونسا قانون ہے۔ اسکے ساتھ ایک تو آم کی قدرتی خوشبو بدل جاتی۔ دوسرا کیلشیم کاربائیڈ سے پکے آم فوری تو منہ میں تیزابیت پیدا کرتے۔ گلا پکڑا جاتا جلے میں جلن سی ہوتی ہے، خوراک کی نالی میں زخم ہوجاتے اور لانگ ٹرم نقصانات میں معدے کے السر انتڑیوں کے زہر، اسکن پرابلمز اور کینسر، گردے فیل ہونا جیسی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔
دوسرا طریقہ ہے ایک گیس کا استعمال۔ جس کا نام ہے ethylene ایتھائلین C2H2 ہے۔ یہ گیس آموں کے اپنے اندر بھی ہوتی ہے۔ جس سے خود ہی آم پک جاتے ہیں۔ اسے پنجاب فوڈ اتھارٹی سمیت پوری دنیا پھل پکانے کے استعمال میں ریکمنڈ کرتی ہے۔ ایک بند چیمبر میں آم پھیلا کر ایتھائلین گیس چھوڑ دی جاتی ہے۔ اس سے پکے آم رنگ تو بہت زیادہ پیلا نہیں کرتے۔ مگر ان کا ذائقہ بلکل قدرتی اور کمال ہوتا ہے۔ دوسرا صحت کے لیے اسکا کوئی بھی نقصان نہیں۔
ان ایتھائلین سے پکے یا اپنی ہی حرارت سے پکے آموں کا ذائقہ کیا بتاؤں آپ کو ایک نشہ سا ہے۔
اکثریت دوکانداروں کو اس بات کا پتا ہی نہیں ہے۔ کہ ایتھائلین اور کیلشیم کاربائیڈ کیا بلا ہیں۔ اور گاہک کو بھی بس گہرے پیلے رنگ کے آم چاہیں۔ تو جو ڈیمانڈ ہے اسی کے پیش نظر کیلشیم کاربائیڈ لگا کر آم فوراً پکا دیے جاتے جو ہم آج تک آم کے نام پر زہر کھا رہے ہیں۔
میرا آپکو مشورہ ہے۔ کہ ایتھا ئلین سے پکے یا قدرتی طور پر بھی کسی بلکل بند کمرے میں جہاں ہوا نہ گزر سکے آم پڑے رہنے سے بھی پک جاتے ہیں وہ کھائیں۔ جہاں سے مرضی منگوائیں انہیں کہیں کہ کیلشیم کاربائیڈ نہیں لگانا۔
ریڑھیوں یا دوکانوں پر پڑے آم نوے فیصد کیلشیم کاربائیڈ سے پکے ہوتے۔ منڈی سے لائی پیٹی میں بھی نوے فیصد کیلشیم کاربائیڈ ہی ہوگا تجربہ کرلیں ایک بار۔

آپ نے آم کو پکانے کے لیے کیلشیم کاربائیڈ کے استعمال کے خطرناک حقائق بہت عمدہ انداز میں بیان کیے ہیں، جو کہ واقعی عوامی آگاہی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اب آئیے بات کرتے ہیں کہ اس کا محفوظ، قدرتی اور صحت مند متبادل کیا ہو سکتا ہے۔

✅ کیلشیم کاربائیڈ کا محفوظ متبادل: ایتھائلین گیس (Ethylene Gas)

1. ایتھائلین (C₂H₄)

فطری ہارمون ہے جو پھل خود بھی پیدا کرتے ہیں۔

پھلوں کے پکنے کے عمل کو قدرتی انداز میں تیز کرتا ہے۔

صحت کے لیے محفوظ ہے اور دنیا بھر کے فوڈ سیفٹی ادارے جیسے FAO، WHO اور پنجاب فوڈ اتھارٹی اسے تجویز کرتے ہیں۔

طریقہ استعمال:

آموں کو ایک بند چیمبر یا کمرے میں رکھیں۔

100 کلو آم کے لیے 1 گرام ایتھائلین ریلیز کریں۔

24–48 گھنٹے میں آم قدرتی خوشبو اور ذائقے کے ساتھ پک جائیں گے۔

---

✅ قدرتی گھریلو متبادل طریقے:

2. بند کمرے یا بوری میں پکانا:

آموں کو اخبار میں لپیٹ کر کسی بند بوری یا ٹوکرے میں رکھ دیں۔

ان کے ساتھ ایک پکا ہوا کیلا یا سیب رکھیں۔ یہ پھل بھی ایتھائلین گیس خارج کرتے ہیں۔

کمرے کا درجہ حرارت 25-30°C ہو تو آم 3-5 دن میں قدرتی طور پر پک جاتے ہیں۔

3. مٹی یا راکھ کا استعمال (دیسی طریقہ):

آموں کو خشک راکھ یا مٹی میں دبا کر رکھیں۔

راکھ نمی جذب کرتی ہے اور اندر کی حرارت آموں کو دھیرے دھیرے پکاتی ہے۔

---

❌ کیلشیم کاربائیڈ کیوں نہیں؟

زہریلا کیمیکل، انسانی صحت کے لیے خطرناک۔

جلن، السر، کینسر تک کے خطرات۔

آم کا ذائقہ، خوشبو اور غذائیت بھی خراب ہو جاتی ہے۔

✅ صارفین کے لیے مشورہ:

آم خریدتے وقت پوچھیں: "یہ کاربائیڈ سے پکے ہیں یا نہیں؟"

سخت آم خریدیں اور خود گھر پر پکائیں۔

ایتھائلین سے پکے آم کسی اچھی سپلائی چین یا فارمر سے منگوائیں۔
📌 آخر میں:

قدرتی طریقے سے پکا ہوا آم صرف ایک پھل نہیں، بلکہ خوشبو، ذائقے اور صحت کی مکمل ضمانت ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ایسے زہریلے طریقوں کی حوصلہ شکنی کریں اور قدرت کو اپنے طریقے سے کام کرنے دیں۔

تحریر ڈاکٹر ساجد سندھو

07/05/2025

اللہ اکبر
جہاں چار میزائل گرے ہیں وہاں نماز فجر ادا کی جارہی ہے۔

07/05/2025

بھارتی میڈیا

07/05/2025

ہندوستان کی عارضی خوشی اللہ کریم کی مدد سے بہت جلد غم میں بدل دینگے۔انشاء اللہ

پارسی زرتشت کے پیروکار ہیں جن کاعہد آٹھویں صدی قبل مسیح کا ہے۔ ساسانی سلطنت ( 226 تا 651) کو جب عروج حاصل ہوا اور یہ اکی...
15/04/2025

پارسی زرتشت کے پیروکار ہیں جن کاعہد آٹھویں صدی قبل مسیح کا ہے۔ ساسانی سلطنت ( 226 تا 651) کو جب عروج حاصل ہوا اور یہ اکیلے دنیا کی سپر پاور کے منصب پر فائز ہوئی تب اس کا با ضابطہ مذہب پارسی ہی تھا۔

ایرانی سماج میں جب بین المذاہب ہم آہنگی متاثر ہوئی تو پارسیوں نے ایران کو خیرباد کہنا شروع کیا۔

ہندوستان میں پارسیوں کی آمد آٹھویں سے دسویں صدی کے درمیان ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ مہاجر بن کر گجرات کے ساحلوں پر آئے ۔
راولپنڈی میں پارسیوں کی آمد اس وقت شروع ہوئی جب انگریزوں نے1849 میں یہاں ہندوستان کی سب سے بڑی چھاؤنی کی بنیاد رکھی۔

پارسیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لاہور اور بمبئی سے تجارت کی غرض سے راولپنڈی آئے تھے۔ 1855 کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی 15913 افراد پر مشتمل تھی جو اگلے 36 سالوں یعنی1891 میں بڑھ کر 73795 ہو گئی تھی (بحوالہ راولپنڈی گزیٹیئر 1910)۔

تقسیم کے وقت راولپنڈی شہر کی 56 فیصد آبادی غیر مسلم تھی، پر اس میں پارسیوں کی تعدا د بہت کم تھی۔ یہ خالصتاً تجارت پیشہ کمیونٹی تھی۔ جو صدر میں مختلف کاروباروں سے وابستہ تھی اور صدر بازار میں قابل ذکر دکانوں کے مالک پارسی ہی تھے۔

کسی گزیٹیئر میں شہر میں پارسیوں کی تعداد تو نہیں لکھی گئی لیکن 1891 کی مردم شماری کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ شہر میں سب سے پڑھی لکھی کمیونٹی عیسائی ہیں جن کے 87 مرد اور 52 عورتیں پڑھی لکھی ہیں جبکہ پارسیوں میں یہ شرح بالترتیب 84 اور 60 فیصد ہے۔ اس طرح یقیناً پارسی ہی شہر کی سب سے پڑھی لکھی برادری تھی۔

ضلع  #اٹک جہاں  #برصغیر میں سب سے پہلے تیل دریافت ہوابرصغیر میں سب سے پہلے تیل اٹک میں 1866 میں دریافت ہوا جو صرف 15 فٹ ...
05/04/2025

ضلع #اٹک جہاں #برصغیر میں سب سے پہلے تیل دریافت ہوا
برصغیر میں سب سے پہلے تیل اٹک میں 1866 میں دریافت ہوا جو صرف 15 فٹ کھدائی کے بعد نکل آیا تھا۔
1922 میں مورگاہ راولپنڈی میں لگنے والی آئل ریفائنری جس کی صلاحیت 2500 بیرل یومیہ تھی، یہ پورے خطے بشمول مشرق وسطیٰ میں بننے والی واحد ریفائنری تھی اسے اب اٹک ریفائنری کے ورثہ میوزیم میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔

دنیا میں ٹیکنالوجی کی چکا چوند جس توانائی کے بل بوتے پر ہے آج بھی اس کا 80 فیصد تیل و گیس کا مرہونِ منت ہے۔

انسان تقریباً 5000 سال سے مٹی کا تیل استعمال کرتا آ رہا ہے۔ بابل کی تہذیب کے لوگ اپنی کشتیوں کو پانی سے محفوظ بنانے کے لیے مٹی کے تیل کا استعمال کرتے تھے۔ قدیم مصری ممیوں کی تیاری میں جو مواد استعمال کرتے تھے ان میں مٹی کا تیل بھی شامل تھا۔
چینی چھٹی صدی قبل مسیح میں بانس کے بنے پائپوں میں مٹی کا تیل فلپائن برآمد کرتے تھے۔ مارکو پولو نے 13ویں صدی عیسوی میں باکو آذربائیجان میں مٹی کے تیل کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔
تاہم یہ 19ویں صدی کے وسط کی بات ہے جب تیل کا پہلا تجارتی کنواں پنسلوینیا امریکہ میں کھودا گیا تھا۔
1885 میں ایک جرمن انجینیئر کارل بینز نے دنیا کی پہلی موٹر کار بنائی تو اس کو چلانے کے لیے بھی مٹی کا تیل استعمال کیا گیا۔ آج دنیا کا 60 فیصد تیل خلیجی ممالک سے نکلتا ہے جس کی اوّلین دریافت 1908 میں ایران میں ہوئی تھی۔
تاہم یہ بات حیران کن ہے کہ خلیجی ممالک سے بہت پہلے 1866 میں ضلع اٹک میں کھوڑ کے مقام پر تیل کی دریافت ہو چکی تھی اور پھر برطانوی عہد میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب کھوڑ اور اس کے نواحی علاقوں میں تیل کے 400 سے زائد کنویں کام کر رہے تھے جن سے تیل کی سالانہ پیداوار چار لاکھ 80 ہزار بیرل تک پہنچ گئی تھی۔
ہندوستان میں تیل کی اوّلین دریافت اٹک میں ہوئی
قدیم دور میں زمین کے نیچے معدنیات تلاش کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں تھی۔
عموماً تیل کے ابتدائی کنویں اس وقت دریافت ہوتے تھے جب مقامی لوگ پانی کے لیے کنویں کھودتے تھے تو ان میں پانی کی جگہ تیل نکل آتا تھا یا پھر بعض جگہوں پر تیل چشموں کی صورت بہتا تھا۔
کھوڑ میں تیل کی دریافت بھی پانی کا کنواں کھودتے ہوئے ہوئی تھی۔ مقامی لوگ اس کو کالا پانی کہتے تھے جسے وہ آگ جلانے یا پھر لالٹینوں میں استعمال کرتے تھے۔

ضلع اٹک کی عوامی تاریخ کے ماہر ہادی صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تکنیکی اعتبار سے برطانوی ہند میں تیل کا پہلا کنواں 1887 میں آسام میں کھودا گیا تھا لیکن اس سے بہت پہلے کی بات ہے جب پبلک ورکس کے ایک برطانوی انجینیئر مسٹر فینر نے ضلع اٹک کی تحصیل پنڈی گھیب میں تیل کی تلا ش کے لیے 1866 میں سات آزمائشی کنویں کھودے تھے جن میں سے تین میں صرف 15 فٹ کی گہرائی میں تیل نکل آیا تھا۔
1869 میں ان کی گہرائی میں 35 فٹ تک اضافہ کیا گیا تو تیل کی یومیہ پیداوار 25 اور پھر 50 گیلن تک چلی گئی۔
مسٹر فینر کی دیکھا دیکھی ایک اور انگریز مسٹر لے مین نے بھی راولپنڈی اور اٹک کے علاقوں میں تیل کی تلا ش کا کام شروع کر دیا تھا۔

ٹراؤٹ مچھلی کا تاجر جو اٹک آئل کمپنی کے بانی بنے۔
سکاٹش تاجر فرینک مچل جنوبی افریقہ میں سونے کی کانوں میں سرمایہ کاری کرتے تھے کہ ایک روز ان کی تمام دولت ڈوب گئی اور وہ پائی پائی کے محتاج ہو گئے۔ ان کے بھائی کشمیر میں قالینوں کی تجارت کرتے تھے فرینک مچل نے سوچا کہ کیوں نہ ہندوستان جا کر قسمت آزمائی کی جائے۔
ہادی صاحب بتاتے ہیں کہ فرینک مچل کشمیر آیا تو اسے خیال آیا کہ کشمیر کے پانی ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کے لیے بہت موزوں ہیں کیوں ناں یہاں ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ کی جائے۔
وہ واپس برطانیہ گیا اور ٹراؤٹ مچھلی کا بیضہ لے کر کشمیر آ گیا۔ جلد ہی مچل کی کوششوں سے کشمیر کے پانیوں میں ٹراؤٹ کی فراوانی ہو گئی۔ کشمیر کا مہاراجہ مچل کے کام سے اتنا خوش ہوا کہ اسے کشمیر میں فشنگ کا اعزازی ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔
کشمیر کے ساتھ ساتھ اس نے پوٹھوہار میں زیتون کی کاشت کا بھی تجربہ کیا۔ اس مقصد کے لیے جب وہ پنڈی گھیب آیا تو مقامی افراد نے اسے تیل کی کنوؤں کے بارے میں بتایا۔
فرینک مچل نے تیل کی تصدیق کے لیے ایک ماہر جیالوجسٹ کی خدمات حاصل کیں جس کی جانب سے یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد وہ واپس برطانیہ گیا اور اپنے دوستوں سے درخواست کی کہ اسے تیل کی کمپنی بنانے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
25 ہزار پاؤنڈ کی ابتدائی رقم سے اس نے یکم دسمبر 1913 میں مانچسٹر میں اٹک آئل کمپنی کی بنیاد رکھی۔
1904 میں اٹک ضلع بنایا گیا تھا جس کا نام 1908 میں اٹک سے کیمبل پور کر دیا گیا مگر فرینک مچل نے اپنی کمپنی کا نام اٹک ہی رکھا۔
ابتدائی طور پر اس کمپنی نے پنڈی گھیب میں سات مربع میل کے علاقے کا لائسنس حاصل کیا تو کھوڑ کے مقام پر اسے کامیابی مل گئی۔
صرف دو سالوں کے اندر1915 تک اٹک آئل کمپنی کھوڑ میں تیل کے وسیع ذخائر دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
1918 میں کھوڑ کے قریب ڈھلیاں میں بھی تیل نکل آیا۔ یہ وہی فرینک مچلز ہیں جنہوں نے 1920 میں پنجاب میں مچلز فروٹ فارمز کمپنی کی بنیاد رکھی جس کے لیے پنجاب حکومت نے انہیں رینالہ خورد میں 720 ایکڑ زمین الاٹ کی تھی۔
فرینک مچل 1933 میں80 سال کی عمر میں بارہمولا میں انتقال کر گئے جن کی تدفین وہیں کی گئی۔

کھوڑ تیل کی تلاش کا مرکز کیسے بنا؟
اٹک آئل کمپنی کا نیوز لیٹر جو 1963 میں کمپنی کی گولڈن جوبلی کے موقع پر نکالا گیا تھا اس میں کمپنی کی مفصل تاریخ بیان کی گئی ہے۔
1887 سے 1890 کے درمیان ٹاونسینڈ نامی بھائیوں نے بولان کی سب تحصیل ختن، میانوالی کے علاقوں کنڈل اور جبہ اور ضلع اٹک کے علاقے چراٹ میں تیل کی کنویں کھودے تھے جن میں سے ایک کی گہرائی 750 فٹ تک تھی۔
ختن کے کنویں سے نکلنے والا تیل کوئٹہ ریلوے سٹیشن میں کام آتا رہا جبہ اور چراٹ سے راولپنڈی گیس کمپنی کا تیل بھی 25 سال تک استعمال میں رہا لیکن پھر ٹاؤنسینڈ نامی بھائی اور ان کی کمپنی منظر سے غائب ہو گئے لیکن انہوں نے خطے میں تیل کی موجودگی ثابت کر دی تھی۔
ان ہی ایام میں جب آسام میں تیل نکلا تو پنجاب کے گورنر سر لوئس ڈبلیو ڈینی نے پنجاب میں بھی تیل کی تلاش پر توجہ مرکوز کی تو ان کی نظر برما میں تیل کھوجنے والی کمپنی سٹیل برادرز اینڈ کمپنی پر پڑی مگر بات آگے نہ بڑھ سکی جس کے بعد یہ کام مسٹر فرینک مچل کو سونپا گیا جنہوں نے کرنل میسی کے ساتھ مل کر اٹک آئل کمپنی کی بنیاد رکھی جس کو سٹیلز برادرز نے معاونت کی یقین دہانی کرائی۔
ایک جیالوجسٹ مسٹر ای ایس پنفولڈ جو کمپنی کے ابتدائی بورڈ کے رکن تھے اور پھر 1930 سے 1943 تک کمپنی کے چیئرمین بھی رہے انہوں نے اٹک میں تیل کی تلاش کا کام کیا۔
اس دور میں یہاں کوئی سڑک نہیں تھی گھوڑوں اور اونٹوں پر ہی کمپنی کے اہلکار سفر کرتے تھے۔ کمپنی نے تیل کی تلاش کی تمام تر توجہ کھوڑ میں مرکوز کر دی۔ انڈو برما پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ کے پاس کنویں کھودنے کے صرف دو ڈرلزر تھے جو امریکہ میں مصروف تھے مگر کمپنی نے ان دونوں کو منگوا کر انہیں کھوڑ منتقل کر دیا کیونکہ یہاں کامیابی کے زیادہ امکانات تھے۔

22 جنوری 1915 کو کھدائی شروع کی گئی اور 223 فٹ کی گہرائی میں تیل نکل آیا جس میں سے یومیہ 5000 بیرل تیل کی پیداوار شروع ہو گئی۔
کھوڑ میں تیل کا یہ کنواں کامیابی اور ناکامی کی ایک ملی جلی داستان تھی۔ گو کہ یہ تھوڑے عرصے ہی چل کر بند ہو گیا مگر اس سے مزید کنویں کھودنے کی راہ ہموار ہو گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہاں پر کنووں کی تعداد 400 سے تجاوز کر گئی اور بڑی بڑی کمپنیوں نے کھوڑ کا رخ کر لیا۔
برما آئل کمپنی اور وائٹ ہال پیٹرولیم کارپوریشن نے بھی کھوڑ سے 30 میل دور تیل کی تلاش اور کھدائی کا کام شروع کر دیا۔

اٹک آئل کمپنی نے ڈھلیاں کے مقام پر تیل کا ایک اور کنواں کھودنا شروع کیا۔ 1929 میں کھوڑ میں موجود کنووں کی سالانہ پیداوار چار لاکھ 80 ہزار بیرل تک پہنچ گئی جو 1934 میں کم ہو کر 85 ہزار بیرل رہ گئی کمپنی نے مزید علاقوں میں تیل کی تلا ش کا کام کیا مگر خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔
کمپنی کو ڈھلیاں میں آئل کے کنویں میں 1937 میں عین اس روز کامیابی ملی جب بادشاہ جارج ششم کی تاج پوشی کی گئی تھی اس لیے اسے خوش قسمت تصور کیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد پنجاب حکومت نے کمپنی کو تیل کی تلاش و کھدائی کے کام میں مالی مد دکی جس کی وجہ سے اٹک میں میال اور اچھڑی میں تیل کی کنویں کھودے گئے جو ناکام رہے حالانکہ میال میں کنویں نمبر دو میں قومی سطح پر گہرائی کے ریکارڈ کو توڑتے ہوئے 10ساڑھے ہزار فٹ تک کھدائی کی گئی۔

1944 میں بلکسر کے نزدیک جویا میر میں چھ ہزار 900 فٹ کی گہرائی پر تیل دریافت ہوا، جو معیار کے لحاظ سے پوٹھوہار میں پہلے دریافت شدہ تیل سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ یہ سیاہ اور انتہائی گاڑھا تھا جس میں آگ پکڑنے کا مادہ زیادہ تھا۔
زیادہ سردی میں یہ تیل جم جاتا تھاجس کی وجہ سے پمپنگ، نقل و حمل اور ریفائننگ کے نئے مسائل پیدا ہوگئے۔
اس کنویں سے تیل کی ابتدائی پیداواری شرح 10 ہزار بیرل یومیہ تھی اور یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ جب اس کی دریافت کی اطلاع برطانوی ڈرلر نے فیلڈ ایجنٹ کو دی جو برمی زبان جانتا تھا تو اس نے یہ کہہ کر رد کر دی کہ کہیں اس کی بھنک دشمن ملکوں کو نہ ہو جائے اور کہا کہ ڈرلر گنتی کرنا بھول گیا ہے!
اسی کنویں کےگاڑھے تیل کی وجہ سے وہ تار کول بنائی گئی سے جس سے قیام پاکستان کے بعد ہزاروں میل سڑکیں تعمیر ہوئیں۔
1960 میں بلکسر سے ڈھلیاں اور پھر راولپنڈی ریفائنری تک ایک دوسری پائپ لائن بچھائی گئی جو بھاری تیل کی ترسیل کر سکتی تھی۔

اٹک آئل ریفائنری ریجن میں قائم ہونے والی پہلی ریفائنری
اٹک آئل ریفائنری کے چیف ایگزیکٹو عادل خٹک، جو اٹک گروپ کے ساتھ گذشتہ 47 سال سے وابستہ ہیں انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ 1922 میں جب یہ ریفائنری قائم ہوئی تو اس وقت یہ اس پورے ریجن میں واحد ریفائنری تھی تب خلیجی ممالک میں کوئی ریفائنری قائم نہیں ہوئی تھی۔
پہلی جنگ عظیم جنگ کے خاتمے کے بعد اٹک آئل کمپنی نے راولپنڈی میں مورگاہ کے مقام پر 25 ہزار پاؤنڈ کے ابتدائی سرمائے سے ریفائنری لگانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی جلد ہی ا س نے 15 لاکھ پاؤنڈ کی مزید رقم اکٹھی کی اور مارچ 1922 میں یہ ریفائنری قائم ہو گئی۔
اٹک آئل ریفائنری کو اس مقام تک پہنچانے میں میک کریتھ کا نام بھی نمایاں ہے جنہوں نے انڈو برما پیٹرولیم کے جانے کے بعد 1926 میں بطور جنرل منیجر اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔
وہ 1961 میں اپنی وفات تک کمپنی کے ڈائریکٹر اور پھر چیئرمین بھی رہے۔ سول لائنز میں جہاں آج انکم ٹیکس کے دفاتر ہیں وہاں میک کریتھ کا بنگلہ تھا اوروہ روزانہ اپنے گھوڑے پر مورگاہ آتے تھے۔
میک کریتھ ہی راولپنڈی کلب کے پہلے غیر فوجی صدر تھے۔ مورگاہ ریفائنری جب بنی تھی تو ا س کی تیل صاف کرنے کی صلاحیت 2500 بیرل یومیہ تھی ۔ جب تیل یہاں دریافت ہوا تو ا س وقت اس علاقے میں ڈیزل پیٹرول کی کوئی کھپت نہیں تھی صرف کیروسین آئل کی ڈیمانڈ تھی۔
اس زمانے میں جو اکا دکا ٹرک یا بس تھی وہ بھی کیرو سین پر چلتے تھے یہاں تک کہ پنکھے بھی کیرو سین پر چلتے تھے۔ جب کھوڑ سے تیل نکلا تو اس کو کیرو سین میں بدلنے کا طریقہ کار سادہ سا ہوتا ہے۔

1922 میں جب یہ ریفائنری بنی تو یہ پورے ریجن میں واحد ریفائنری تھی۔ ریفائنری کا پہلا یونٹ ہم نے میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔ بعد میں کئی بار ریفائنری کی توسیع ہوئی۔ کچھ یونٹ 1938 میں لگے، 1980 میں بڑی توسیع ہوئی پھر 2000 میں ہوئی اب یہ اپنی نوعیت کی جدید ترین ریفائنری ہے جو پاکستان کے پورے شمالی علاقے کے تیل کی ضروریات پوری کرتی ہے۔

1979 میں اٹک آئل کمپنی کے اکثریتی شیئرز ایک عربی کاروباری خاندان نے خرید لیے۔ اٹک آئل کمپنی کے نیچے پھر کئی ذیلی کمپنیاں ہیں جن میں سے اٹک ریفائنری، پاکستان آئل فیلڈز، نیشنل ریفائنری، اٹک پیٹرولیم لمیٹڈ، اٹک سیمنٹ، اٹک جنریشن لمیٹڈ وغیرہ شامل ہیں۔
کمپنی کا ہیڈ آفس انگلینڈ میں ہے مگر اس کی تمام تر انتظامیہ پاکستانی ہے۔ 1970 میں انگریز انتظامیہ کے جانے کے بعد ٹی اے ٹی لودھی ا س کے پہلے سربراہ بنائے گئے جو ملیحہ لودھی کے والد تھے۔
اس کمپنی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ملازمین کی چوتھی نسل کام کر رہی ہے اس لیے اس کمپنی کے ساتھ ملازمین کی خاص لگن ہے جو اسے باقی کمپنیوں سے ممتاز بناتی ہے۔
اٹک آئل کمپنی میں کام کے تجربے کی وجہ سے یہاں کے ملازمین کو بڑے پیمانے پر مشرق وسطیٰ میں ملازمتیں ملیں جس سے نہ صرف ان لوگوں کا اپنا معیار زندگی بلند ہوا بلکہ ملک کو قیمتی زرمبادلہ بھی ملا۔

ورثہ میوزیم جو پاکستان میں تیل کی تلاش کا گواہ ہے
عادل خٹک نے بتایا کہ کھوڑ میں 1915 میں کمپنی نے تیل کا جو پہلا کنواں کھودا تھا اس سے اب تیل نہیں نکلتا لیکن اسے قومی ورثے کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
کھوڑ میں بھی کمپنی کا میوزیم قائم ہے جبکہ مورگاہ میں بھی ریفائنری سے منسلک بہت سے آلات کو ورثہ قرار دے کر انہیں محفوظ کر دیا گیا ہے جس میں کھوڑ میں 10 کلوواٹ کا لگایا گیا پاور جنریشن سسٹم بھی ہے جسے برطانیہ کے ایک گاؤں سے لا کر یہاں لگایا گیا تھا جسے جب کھوڑ شفٹ کیا جا رہا تھا تو راستہ کچا تھا اس لیے جس ٹرک میں اسے لایا جا رہا تھا وہ راستے میں الٹ گیا تھا۔
تیل سے موم بتیاں بنانے کی مشین بھی میوزیم میں موجود ہے۔ ریلوے لائن کے ذریعے چونکہ تیل کی ترسیل ہوتی تھی اس لیے راولپنڈی ریلوے سٹیشن کو ریفائنری سے لائن بچھا کر منسلک کیا گیا تھا۔
اُس مال گاڑی کا ایک حصہ بھی میوزیم میں موجود ہے۔ میوزیم میں 1922 میں لگائی جانے والی ریفائنری کو بھی مکمل طور پر محفوظ کر لیا گیا ہے جبکہ کمپنی کی سرگرمیوں کی تصاویر بھی میوزیم میں آویزاں کی گئی ہیں۔

تحریر و تحقیق__
سجاد اظہر صاحب(انڈیپنڈنٹ اردو)

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Live Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share