Muhammad Salahuddin

Muhammad Salahuddin Author, traveler, and dreamer captivated by the world's beauty. Writing stories, chasing sunsets, and exploring life's wonders one step at a time.

Join me on this journey of words, art, and adventure! 🌍✍️ I’m Muhammad Salahuddin – an author, traveler, and a soul endlessly captivated by the beauty of this world. Whether I’m penning down thought-provoking articles, exploring hidden corners of the globe, or soaking in the magic of art and design, I’m on a journey to uncover stories that inspire, spark joy, and connect us all. 🌟

Join me as I we

ave words, chase sunsets, and embrace the adventure of life one page, one step, and one laugh at a time. ❤️

📚 ✈️ 🎨

13/02/2025

Author: Muhammad Salahuddin, Date Published: 2/13/2025, Source: Blogs

وقت کے دریا میں بہتے لمحے ہمیشہ کے لیے گزر جاتے ہیں، مگر کچھ مقامات، کچھ چہرے، کچھ راتیں، اور کچھ ہنسی کی گونج دل کے کسی...
09/02/2025

وقت کے دریا میں بہتے لمحے ہمیشہ کے لیے گزر جاتے ہیں، مگر کچھ مقامات، کچھ چہرے، کچھ راتیں، اور کچھ ہنسی کی گونج دل کے کسی کونے میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ کیا یہ صرف میرا احساس ہے، یا ہر کوئی اپنی کھوئی ہوئی دنیا کے نقشے کو یاد کرتا ہے؟
میرے والد بھی شاید اسی جگہ کے بارے میں سوچتے ہوں، جسے وقت نے مٹا دیا۔ وہ گلیاں، وہ درخت، وہ صحن جہاں بچپن میں دوڑتے تھے، کیا وہ ان کے دل میں بھی اسی شدت سے بستے ہیں جیسے میرے اندر؟ وقت تو گزر گیا، مگر کچھ جگہیں ذہن میں کیوں باقی رہتی ہیں؟
میرا بچپن، وہ دن جب ہم دادا کے گھر جاتے تھے، وہ کھلی فضا، وہ کھاٹ جس پر سوتے وقت آسمان ہماری چھت ہوتا تھا، وہ پرانے قصے، وہ چاندنی راتیں، سب کچھ جیسے ہوا میں کہیں محفوظ ہو گیا ہو۔ زندگی آج بہت آگے بڑھ چکی ہے، شہر بدل گئے، لوگ بدل گئے، پر وہ راتیں، وہ لمحے آج بھی ذہن میں ویسے ہی تازہ ہیں۔
یہ کتنا عجیب ہے کہ ہم اس زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ماضی کا ایک سایہ ہمیشہ ہمارے ساتھ چلتا ہے۔ ہم کہیں بھی چلے جائیں، جتنی بھی بڑی عمارتوں میں رہنے لگیں، جتنا بھی جدید طرز زندگی اپنا لیں، مگر بچپن کی وہ مٹی، وہ دیواریں، وہ گلیاں ہمیں کیوں یاد رہتی ہیں؟ شاید اس لیے کہ وہ لمحے خالص تھے، ان میں بناوٹ نہیں تھی، ان میں کوئی دنیاوی خواہش نہیں تھی۔
کیا میرے والد کو بھی وہی یادیں ستاتی ہوں گی؟ کیا وہ بھی کبھی سوچتے ہوں گے کہ اس جگہ کو چھوڑنا ایک غلطی تھی؟ یا شاید ان کے لیے وہ سب صرف ایک پرانی کہانی ہو؟ عمر کے ساتھ شاید یادوں کی شدت کم ہو جاتی ہے، مگر ان کی گہرائی بڑھ جاتی ہے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ ہم وہ وقت نہیں جانتے جب ہم اصل میں خوش تھے۔ جب وہ لمحے ہمارے پاس تھے، تب ہمیں ان کی قیمت کا اندازہ نہیں تھا۔ اب جب وہ ہاتھ سے نکل گئے ہیں، تب ہمیں ان کی شدت کا احساس ہوتا ہے۔ یہی زندگی کی سب سے بڑی ستم ظریفی ہے کہ جو چیز ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے، وہی چیز سب سے پہلے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
شہر میں روشنی بہت ہے، مگر وہ تاریکی جس میں ہم بچپن میں کہانیاں سنتے تھے، وہ کہاں ہے؟ اب زمین پر بستر بچھانے کا کوئی وقت نہیں، کیونکہ زمین سے ہمارا رشتہ ہی ختم ہو چکا ہے۔ ہم آسمان کو چھونے کے خواب دیکھتے ہیں، مگر کھلی چھت پر تکیہ رکھ کر ستاروں کو دیکھنے کا وقت نہیں نکال سکتے۔
دادا کا صحن جہاں کبھی ہم سب جمع ہوتے تھے، وہ اب بس ایک یاد بن چکا ہے۔ اس گھر کی دیواریں شاید ابھی بھی کسی اور کے نام پر کھڑی ہوں، مگر میرے ذہن میں وہ ویسی ہی ہیں جیسے بچپن میں تھیں۔ ہر اینٹ میں ایک کہانی چھپی ہے، ہر دروازے پر کسی کی ہنسی گونجتی تھی۔ مگر وقت کی گرد نے ان سب کو کسی پرانے خواب میں بدل دیا ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ جو چیز چلی جاتی ہے، وہ ہمیں سب سے زیادہ یاد آتی ہے۔ شاید اسی لیے ہم ماضی میں جینے کی کوشش کرتے ہیں، شاید اسی لیے وہ جگہیں، وہ لوگ، وہ لمحات ہمیں ستاتے ہیں جو حقیقت میں اب کہیں نہیں ہیں۔
لیکن کیا وہ واقعی کہیں نہیں ہیں؟ یا وہ ہمارے اندر ہی کہیں ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں؟ ہم جہاں بھی جاتے ہیں، وہ وقت، وہ لمحے، وہ جگہیں ہمارے اندر ہی چلتی رہتی ہیں۔ ایک پرانا صحن، ایک کھاٹ، ایک چمکتا ہوا آسمان، اور کہانی سنانے والی آوازیں – شاید یہ سب صرف یادیں نہیں، بلکہ ہماری اصل پہچان ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ، امریکہ کے 47ویں صدر، اپنے غیر روایتی اور متنازعہ بیانات کے لیے مشہور ہیں۔ حال ہی میں، انہوں نے فلسطینیوں کو ...
31/01/2025

ڈونلڈ ٹرمپ، امریکہ کے 47ویں صدر، اپنے غیر روایتی اور متنازعہ بیانات کے لیے مشہور ہیں۔ حال ہی میں، انہوں نے فلسطینیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ غزہ چھوڑ کر مصر اور اردن منتقل ہو جائیں۔ یہ تجویز نہ صرف فلسطینیوں کے لیے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی حیرت کا باعث بنی ہے۔

Author: Muhammad Salahuddin, Date Published: 1/31/2025, Source: Blogs

غربت، یہ ایک ایسی لعنت ہے جو نہ صرف معاشرتی ڈھانچے کو کھوکھلا کرتی ہے بلکہ انسانیت کی جڑوں کو بھی کھود دیتی ہے۔ یہ ان بے...
13/01/2025

غربت، یہ ایک ایسی لعنت ہے جو نہ صرف معاشرتی ڈھانچے کو کھوکھلا کرتی ہے بلکہ انسانیت کی جڑوں کو بھی کھود دیتی ہے۔ یہ ان بے رحم سوالات میں سے ایک ہے جس کے جواب میں حکومتیں ہمیشہ ناکام نظر آتی ہیں۔ اگر حکومت کے پاس تمام وسائل ہونے کے باوجود غربت ختم کرنے کی اہلیت نہیں، تو کیوں نہ ایک نیا فلسفہ اپنایا جائے؟ کیوں نہ غریبوں کو ہی ختم کر دیا جائے؟ ہاں، یہ سننے میں ایک خوفناک اور غیر انسانی تجویز لگتی ہے، لیکن ایک طنزیہ سوال کے طور پر، یہ ہماری اجتماعی ناکامی کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔

حکومتیں غربت کے خاتمے کے لیے ہمیشہ سے دعوے کرتی آئی ہیں۔ ہر نئی حکومت اپنے منشور میں غربت مٹانے کے وعدے کے ساتھ آتی ہے، لیکن کیا ہوا؟ نہ غربت مٹ سکی، نہ غریبوں کا درد کم ہو سکا۔ غریب آج بھی فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں، آج بھی بھوکے مرتے ہیں، آج بھی اپنے بچوں کو پڑھانے کے خواب دیکھتے دیکھتے اپنی آخری سانس لیتے ہیں۔ اگر حکومت کی بے حسی اور ناکامی کا یہ سلسلہ جاری رہنا ہے، تو کیوں نہ وہ ان غریبوں کو، جو ہمیشہ حکومت کے دعوؤں کے لیے ایک شرمندگی کا باعث ہیں، ختم ہی کر دے؟ کم از کم مسئلہ تو ختم ہو جائے گا۔

یہ ایک انتہائی تاریک طنز ہے، لیکن کیا یہ ہماری موجودہ صورتحال کا عکاس نہیں؟ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں غریب صرف اعداد و شمار ہیں، ایک معاشی چارٹ کا حصہ۔ حکومتیں ان پر وعدے کرتی ہیں، این جی اوز ان پر منصوبے بناتی ہیں، لیکن ان کے حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آتی۔ کیوں؟ کیونکہ غریبوں کی زندگی میں دلچسپی صرف اس وقت ہوتی ہے جب انتخابات کا موسم آتا ہے یا عالمی ادارے معاشی امداد فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔

اگر ایک طرف یہ فلسفہ ہمیں چونکاتا ہے، تو دوسری طرف یہ ہمیں ہماری انسانیت کی حقیقت دکھاتا ہے۔ ہم ایک ایسے نظام میں جی رہے ہیں جہاں انسان کی قدر اس کی معیشتی حیثیت سے ماپی جاتی ہے۔ ایک امیر آدمی کے لئے اربوں روپے کے قرضے معاف کرنا آسان ہے، لیکن ایک غریب آدمی کے لئے اپنی چھت بنانا ناممکن ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ایک شہری کے طور پر ہمیں اپنی حکومت سے سوال کرنا چاہیے۔ اگر آپ غربت کے خاتمے کا وعدہ نہیں نبھا سکتے تو کیوں یہ وعدے کرتے ہیں؟ اگر آپ کے پاس تمام وسائل ہونے کے باوجود کوئی موثر حکمت عملی نہیں، تو آپ کس بات کے حکمران ہیں؟

اس طنزیہ تجویز کا مقصد انسانی قدروں کو کم کرنا نہیں، بلکہ اس حقیقت کو اجاگر کرنا ہے کہ ہم سب اس نظام کا حصہ ہیں جو غریبوں کو جینے کا حق تو دیتا ہے، لیکن عزت کے ساتھ جینے کا نہیں۔ غریبوں کو مٹانے کا یہ خیال ایک تلخ حقیقت کی نمائندگی کرتا ہے کہ ہماری ترجیحات کہاں ہیں۔ ہم بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتے ہیں، لیکن غریب کے لئے ایک چھوٹا سا مکان تعمیر نہیں کر سکتے۔ ہم اربوں ڈالر کے منصوبے شروع کرتے ہیں، لیکن ایک غریب کا علاج کرانے کے لیے پیسہ نہیں ہوتا۔

حکومتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ غربت کا خاتمہ ان کے ایجنڈے میں سب سے اوپر ہے، لیکن زمینی حقیقت مختلف ہے۔ غربت کا خاتمہ صرف بیانات اور وعدوں سے ممکن نہیں۔ یہ ایک مضبوط اور مستقل عزم کا تقاضا کرتا ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم، تعلیم تک رسائی، اور صحت کے نظام کی بہتری وہ بنیادی چیزیں ہیں جو غربت کو جڑ سے ختم کر سکتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، ان تمام چیزوں کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا ہے۔

اگر اس طنزیہ فلسفے کو سنجیدگی سے لیا جائے تو شاید یہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ ہم اپنی انسانیت کو کہاں کھو بیٹھے ہیں۔ حکومت کے پاس وسائل ہیں، اختیارات ہیں، اور منصوبہ بندی کی طاقت ہے۔ اگر وہ یہ سب کچھ استعمال کر کے غریبوں کی زندگی میں بہتری نہیں لا سکتی، تو پھر یہ وسائل کس کام کے؟ اگر وہ واقعی غربت ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے الفاظ کو عمل میں تبدیل کرنا ہو گا۔ اگر نہیں، تو کم از کم اپنے جھوٹے وعدوں سے لوگوں کو دھوکہ دینا بند کریں۔

یہ تحریر صرف ایک طنز نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہماری اجتماعی ناکامی کو دکھاتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم سب اس نظام کے مجرم ہیں۔ یہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے معاشرتی ڈھانچے پر غور کریں اور ان غریب لوگوں کے لئے آواز اٹھائیں جن کی زندگیاں ہمیشہ نظرانداز کی جاتی ہیں۔

تو کیا واقعی غریبوں کو مٹانے کا یہ خیال عملی ہے؟ یقیناً نہیں! یہ ایک ایسی بات ہے جو نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہے بلکہ انسانیت کے خلاف بھی ہے۔ لیکن اس سوچ کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کو سمجھیں، اپنی ترجیحات کو درست کریں، اور اپنی حکومتوں کو ان کے وعدوں کا جوابدہ بنائیں۔

یہ وقت ہے کہ ہم اس تلخ حقیقت کا سامنا کریں اور غریبوں کو ان کے حقوق دینے کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں۔ یہ صرف انفرادی یا حکومتی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اس سمت میں کام کریں گے تو غربت کا خاتمہ ممکن ہے، ورنہ یہ طنزیہ خیال کبھی نہ کبھی ایک سچائی کی شکل اختیار کر سکتا ہے، اور اس دن ہماری انسانیت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔

لاس اینجلس، خوابوں کا شہر، جو اپنے چمکتے دمکتے ویلاز، مہنگی عمارات، اور ہالی وڈ کی روشنیوں کے لیے جانا جاتا ہے، آج دھوئی...
11/01/2025

لاس اینجلس، خوابوں کا شہر، جو اپنے چمکتے دمکتے ویلاز، مہنگی عمارات، اور ہالی وڈ کی روشنیوں کے لیے جانا جاتا ہے، آج دھوئیں اور راکھ میں لپٹا ہوا ہے۔ ایک قیامت خیز آگ نے وہ سب کچھ نگل لیا جسے دنیا محفوظ ترین سمجھتی تھی۔ بڑے بڑے گھر، جن کی قیمتیں کروڑوں ڈالروں سے شروع ہوتی ہیں، لمحوں میں خاک میں بدل گئے۔ شاید یہ لمحہ انسانوں کے لیے یہ یاد دلانے کا ہے کہ زمین پر کوئی چیز ہمیشہ کے لیے محفوظ نہیں، چاہے وہ کتنی ہی شاندار اور مضبوط کیوں نہ ہو۔

تصور کریں، وہی امیر ترین لوگ جو خود کو دنیا کے تخت پر بیٹھا بادشاہ سمجھتے ہیں، آج اپنی دولت، جدید ٹیکنالوجی، اور وسائل کے باوجود بے بس ہیں۔ وہ گھر، جو ہالی وڈ کی فلموں میں خوابوں کی دنیا کے طور پر دکھائے جاتے تھے، اب انہی فلموں کے ڈراؤنے مناظر کا حصہ بن چکے ہیں۔ آگ، جسے انسان قابو کرنے کے لیے ہزاروں سالوں سے جدوجہد کر رہا ہے، آج بھی اپنے قدیم جلال کے ساتھ انسان کو یہ سبق دے رہی ہے کہ قدرت کے سامنے کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔

لاس اینجلس کی یہ آگ صرف ایک آفت نہیں، بلکہ ایک عکاسی ہے اس حقیقت کی کہ ہم انسان اپنی طاقت اور علم پر کتنا غرور کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری عمارات، ہمارے وسائل، اور ہماری ٹیکنالوجی ہمیں ہر چیز سے بچا سکتے ہیں، لیکن قدرت کے ایک جھٹکے سے یہ سب کچھ مٹی میں مل سکتا ہے۔ شاید یہ لمحہ غور و فکر کا ہے۔ کیا ہم نے اپنی زندگی کے بنیادی اصول بھلا دیے ہیں؟

یہ وہی علاقے ہیں جہاں دنیا کے سب سے مہنگے رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس موجود ہیں۔ جہاں ہر اینٹ کی قیمت لاکھوں ڈالرز میں ہے۔ لیکن آج ان ہی اینٹوں کے ڈھیر پر وہ لوگ کھڑے ہیں جنہیں اپنے بینک اکاؤنٹس پر ناز تھا۔ آگ نے سب کچھ نگل لیا۔ آج کوئی یہ پوچھے کہ ”ڈالرز سے بھرا بینک اکاؤنٹ اس وقت کیا کام آیا؟“ تو شاید کوئی جواب نہ ہو۔

ہالی وڈ، جہاں دنیا کی مہنگی ترین فلمیں بنتی ہیں، جہاں خواب تخلیق کیے جاتے ہیں، اور جہاں جدید ترین ٹیکنالوجی موجود ہے، وہ بھی اس آگ کے سامنے بے بس ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن فلموں میں ہم سپر ہیروز کو دنیا بچاتے دیکھتے ہیں، آج ان کے تخلیق کار خود اپنی دنیا کو بچانے میں ناکام ہیں۔ کیا یہ طنز نہیں کہ وہی ہالی وڈ، جو ہر چیز پر قابو پانے کے خواب دکھاتا ہے، آج آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہے؟

یہ آفت صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ سوال ہے : ہم اپنی ترقی پر اتنا غرور کیوں کرتے ہیں؟ ہماری جدیدیت، ہمارے وسائل، اور ہماری ٹیکنالوجی، کیا یہ سب کچھ قدرت کے مقابلے میں کچھ بھی ہے؟ ہم اپنی عمارتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں لگے ہیں، لیکن کیا ہم نے اپنی روح کو بھی اتنا مضبوط بنایا ہے کہ ان آزمائشوں کا سامنا کر سکیں؟

لاس اینجلس کی آگ نے یہ بھی دکھایا کہ جدید دنیا کا خواب کتنا نازک ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں دنیا کے امیر ترین لوگ رہتے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ ان کا محل سب سے محفوظ ہے۔ لیکن آج ان کے گھر راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ وہی گھر، جو کبھی شان و شوکت کی علامت تھے، اب بربادی کی علامت بن گئے ہیں۔

قدرتی آفات ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے آتی ہیں کہ ہم کتنے چھوٹے ہیں، کتنے کمزور۔ ہم اپنی ترقی پر نازاں ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ابھی تک ان بنیادی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں جو صدیوں سے ہمارے ساتھ ہیں۔ آگ، پانی، ہوا، زمین۔ یہ وہ عناصر ہیں جو ہم سے ہزاروں سال پہلے بھی طاقتور تھے اور آج بھی ہیں۔

لاس اینجلس کے اس سانحے سے دنیا کو سبق لینا چاہیے۔ یہ صرف امریکہ کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک پیغام ہے۔ انسان اپنی ترقی پر جتنا مرضی غرور کرے، قدرت ہمیشہ ایک قدم آگے رہے گی۔ یہ آگ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کے سب سے اہم اصول وہی ہیں جو ہمارے بزرگ ہمیں سکھاتے آئے ہیں : عاجزی، سادگی، اور قدرت کے ساتھ ہم آہنگی۔

دنیا کے دوسرے ممالک کو یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہم قدرتی آفات کے لیے تیار ہیں؟ ہم اپنی عمارتوں کو اونچا تو بنا رہے ہیں، لیکن کیا ہم نے اپنی زمین کو محفوظ بنانے کی بھی کوئی کوشش کی ہے؟ کیا ہم نے ماحولیات کی تباہی کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہے؟ شاید نہیں۔

لاس اینجلس کی آگ نے دنیا کو ایک لمحہ دیا ہے رکنے کا، سوچنے کا۔ یہ لمحہ یاد دلانے کا ہے کہ دولت، جدیدیت، اور ٹیکنالوجی کے پیچھے بھاگنے سے زیادہ اہم وہ اصول ہیں جن پر زندگی کی بنیاد ہے۔ ہم جتنا چاہیں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں، قدرت کے سامنے ہمیشہ چھوٹے رہیں گے۔

شاید یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔ ہمیں اپنی ترقی کو قدرت کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ اگر ہم نے یہ سبق نہ سیکھا، تو شاید اگلی بار کوئی اور شہر اس طرح راکھ میں بدل جائے۔ اور تب بھی ہم یہی سوال کریں گے : ”ہم اپنی جدیدیت پر اتنا ناز کیوں کرتے تھے؟

شاید 2025 ہمیں کچھ اچھا دے، شاید کچھ نیا۔ لیکن اگر ہم نے اپنی پرانی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا، تو یہ نیا سال بھی بس پرانی د...
06/01/2025

شاید 2025 ہمیں کچھ اچھا دے، شاید کچھ نیا۔ لیکن اگر ہم نے اپنی پرانی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا، تو یہ نیا سال بھی بس پرانی داستان کا ایک اور باب بن کر رہ جائے گا۔ خواب دیکھنا آسان ہے، لیکن ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جرات چاہیے۔ کیا ہم یہ جرات دکھائیں گے؟ شاید یہی 2025 کا سب سے بڑا سوال ہے۔

Author: Muhammad Salahuddin, Date Published: 1/6/2025, Source: Blogs

30/12/2024
27/12/2024

نیا سال، نئی امیدوں کا شور، لیکن کیا یہ شور ہمیں سننے دے گا؟ ہم تو وہ ہیں جو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو معمولی سمجھ کر گزار دیتے ہیں۔ پھر جب وہ ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، تو انہیں خوابوں کا تاج پہناتے ہیں۔ مل جائے تو مٹی، کھو جائے تو سونا۔
یہ دنیا عجیب ہے۔ یہاں ہر چیز کی قیمت تب سمجھ میں آتی ہے، جب وہ چھن جاتی ہے۔ خوشبو کی قدر تب ہوتی ہے، جب باغ ویران ہو جائے۔ آواز کی اہمیت تب ہوتی ہے، جب خاموشی کا راج ہو۔ ہم زندہ ہیں، لیکن زندگی ہمیں معمولی لگتی ہے۔ جیسے یہ کوئی حقیر سی چیز ہو، جسے کسی دن ٹھکرا دیں گے۔ مگر موت کے ایک لمحے میں یہی زندگی سونا بن جاتی ہے۔
کیا یہ تضاد ہماری فطرت کا حصہ ہے؟ شاید۔ ہم اس دنیا میں ناشکری کی زبان بولتے ہیں۔ جو چیز ہمارے پاس ہو، وہ ہمیشہ معمولی ہوتی ہے۔ جو ہم سے دور ہو، وہی سب کچھ۔ جیسے کسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ہوئے ہمیں دھوپ کی قدر نہیں ہوتی۔ مگر جب دھوپ سر پر آتی ہے، تب وہی چھاؤں خواب بن جاتی ہے۔
ہم اپنے خوابوں کے ساتھ بھی یہی کرتے ہیں۔ جب وہ ہمارے دل کے قریب ہوتے ہیں، تو ہم انہیں روزمرہ کے کاموں کے نیچے دبا دیتے ہیں۔ پھر جب وقت گزر جاتا ہے، تو ہم پچھتاتے ہیں۔ "کاش وہ خواب پورا کر لیا ہوتا۔" مگر وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ نہ وہ خواب کے لیے، نہ حقیقت کے لیے۔
نیا سال ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ لیکن ہم پھر بھی بدلتے نہیں۔ ہم نئے وعدے کرتے ہیں، نئی امیدیں باندھتے ہیں، مگر عمل؟ وہی پرانی سستی۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے پاس بہت وقت ہے۔ مگر وقت کا کھیل ہی یہی ہے۔ وہ آپ کو احساس دلاتا ہے جب وہ ختم ہو چکا ہو۔
ہم اپنے رشتوں کے ساتھ بھی یہی کرتے ہیں۔ وہ ماں، جو ہمیشہ ہمارے ساتھ تھی، ہمیں روز کی یاد دہانی کرتی رہی کہ وہ ہمارے لیے سب کچھ ہے۔ مگر ہم نے اسے بھی مٹی سمجھا۔ پھر جب وہ چلی جاتی ہے، تو اس کی دعائیں سونے کی مانند لگتی ہیں۔ وہ دوست، جس کی باتیں کبھی معمولی لگتی تھیں، آج اس کی خاموشی ہمیں چبھتی ہے۔
یہ نیا سال کیا ہمیں کچھ سکھائے گا؟ شاید نہیں۔ کیونکہ ہم سیکھنے والے کہاں ہیں؟ ہم تو بس پچھتاوے کے مجسمے ہیں۔ وہ لمحے، جو ہمیں جینا چاہیے تھے، ہم نے انہیں "کل" پر ٹال دیا۔ وہ محبتیں، جو ہمیں بانٹنی تھیں، ہم نے انہیں مصروفیت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اور وہ خواب، جو ہمارے دل میں بستے تھے، ہم نے انہیں "کسی دن" کہہ کر دفن کر دیا۔
ہماری زندگی کا المیہ یہی ہے کہ ہم حال میں جینا نہیں چاہتے۔ ہمیں ہمیشہ ماضی کا غم اور مستقبل کی فکر ستاتی ہے۔ حال، جو ہمارے پاس ہے، وہ ہماری نظر میں مٹی ہے۔ مگر یہ مٹی ہی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس مٹی کو سونا سمجھیں؟ شاید ممکن ہو، مگر اس کے لیے ہمیں اپنے زاویۂ نظر کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے وقت کی قدر کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنی محبتوں کو ان کے ہونے کی خوشی میں جینا ہوگا۔ ہمیں اپنے خوابوں کو آج پورا کرنے کی ہمت کرنی ہوگی۔
نیا سال صرف کیلنڈر بدلنے کا نام نہیں۔ یہ ایک موقع ہے۔ موقع اپنے رویے بدلنے کا۔ مگر کیا ہم اس موقع کو استعمال کریں گے؟ کیا ہم واقعی وہ کریں گے جو ہم وعدہ کرتے ہیں؟ یا پھر یہ وعدے بھی پچھلے سالوں کے وعدوں کی طرح مٹی میں مل جائیں گے؟
زندگی ایک آئینہ ہے۔ یہ ہمیں وہی دکھاتی ہے جو ہم اسے دیتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زندگی کو معمولی سمجھیں گے، تو یہ ہمیں معمولی ہی لگے گی۔ مگر اگر ہم اسے سونا سمجھیں، تو یہ ہمیں قیمتی لگے گی۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی ایک بار ملتی ہے۔ یہ موقع بار بار نہیں آتا۔ یہ لمحے، یہ وقت، یہ رشتے، یہ خواب — سب کچھ عارضی ہے۔ جو آج ہمارے پاس ہے، کل نہیں ہوگا۔ اور تب یہ سب کچھ ہمیں سونا لگے گا، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
تو اس نئے سال میں، کیا ہم اپنی زندگی کو بدل سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی مٹی کو سونا بنا سکتے ہیں؟ شاید۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانکنا ہوگا۔ ہمیں اپنی حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔
زندگی کے ہر لمحے کو جینا ہوگا۔ ہر نعمت کی قدر کرنی ہوگی۔ ہر رشتے کو محبت دینی ہوگی۔ ہر خواب کو آج پورا کرنے کی ہمت کرنی ہوگی۔ کیونکہ وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ یہ مٹی کو سونا بناتا ہے، مگر تب جب وہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکی ہو۔
نیا سال ایک سوال ہے۔ کیا ہم اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ یا پھر ہم اسے بھی نظرانداز کر دیں گے؟ زندگی ہمیں موقع دے رہی ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم اس موقع کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ زندگی، آخرکار، مل جائے تو مٹی، کھو جائے تو سونا ہی ہے۔

2024 کا سورج غروب ہو چکا ہے، اور ہم ایک ایسے سال کو رخصت کر رہے ہیں جو معیشت میں استحکام تو لے آیا، لیکن ایک ایسی قیمت پ...
26/12/2024

2024 کا سورج غروب ہو چکا ہے، اور ہم ایک ایسے سال کو رخصت کر رہے ہیں جو معیشت میں استحکام تو لے آیا، لیکن ایک ایسی قیمت پر جو شاید ہمیشہ کے لیے یاد رکھی جائے۔ حقوق قربان کیے گئے، سیاست معطل ہوئی، اور فیصلہ سازی چند ہاتھوں تک محدود رہی۔ مہنگائی، جو دہکتی آگ کی طرح سب کچھ جلا رہی تھی، اسے بے مثال بلند شرح سود کے ذریعے قابو کیا گیا۔ لیکن یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے ہم نے خود کو کہاں کھڑا کر دیا ہے؟
2024 نے ہمیں یہ سکھایا کہ "دوستانہ بیل آؤٹ" کا دور ختم ہو چکا ہے۔ یہ حقیقت سمجھنے میں ہمیں ایک دہائی لگ گئی۔ 2014 میں ہمیں پہلی بار ایک دوست ملک سے بیل آؤٹ ملا تھا، اور ہم نے تب سے یہ فرض کر لیا کہ یہ سہولت ہمیشہ دستیاب رہے گی۔ لیکن 2024 کے واقعات نے ہمیں جھنجھوڑ دیا۔ اب ہمارے پاس یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے شہریوں کی خوشحالی کا ضامن خود بننا ہوگا۔ کوئی اور ہماری معیشت کو نہیں سنبھالے گا۔
2024 کے بعد 2025 کا سوال یہ ہے: "اب کیا کریں گے؟" استحکام کے اس مختصر وقفے میں معیشت کے کئی بڑے سوالات ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں محصولات کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا، برآمدات کو بڑھانا ہوگا، اور سرمایہ کاروں کو اعتماد دلانا ہوگا کہ پاکستان میں ان کی سرمایہ کاری محفوظ ہے۔ لیکن یہ سب کہنے میں جتنا آسان لگتا ہے، کرنے میں اتنا ہی مشکل ہے۔
سرمایہ کاروں کے ذہن میں ابھی حالیہ مشکلات تازہ ہیں: درآمدی پابندیاں، منافع کی ادائیگیاں روکنا، زبردستی معاہدوں کی دوبارہ گفت و شنید، اور آئی ایم ایف پروگرامز کی معطلی۔ یہ سب اعتماد کو مجروح کرتا ہے، اور اعتماد کے بغیر معیشت کی تعمیر ممکن نہیں۔
2024 کے دوران حکمرانوں سے پوچھا گیا: "کیا آپ یہ سنبھال سکتے ہیں؟" 2025 ان سے سوال کرے گا: "اب کیا کریں گے؟" اور اگر موجودہ حکمت عملیوں کو دیکھا جائے، تو جواب مایوس کن لگتا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کو بار بار مالی مسائل کی جڑ ٹھہرایا جا رہا ہے۔ نان فائلرز پر شکنجہ کسنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن یہ سب چھوٹے اقدامات ہیں، جو بڑے مسائل کو حل کرنے کے بجائے وقتی تسکین دیتے ہیں۔
این ایف سی ایوارڈ کا ذکر اب ایک رسمی سی بات بن چکا ہے۔ ہر حکومت اسے اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے، اور صوبے اسے اپنی کامیابیوں کا جواز پیش کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو منتقل کیے گئے وسائل سے کیا حاصل ہوا؟ کیا ان سے گورننس بہتر ہوئی؟ کیا ان وسائل نے سماجی خدمات، تعلیم، صحت، یا انفراسٹرکچر میں کوئی نمایاں فرق پیدا کیا؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک مکمل مطالعہ ہونا چاہیے۔ 2009 کے بعد سے صوبوں کو دیے گئے اضافی وسائل کا حساب لگایا جائے۔ کھربوں روپے کہاں خرچ ہوئے؟ کیا ان سے عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری آئی؟ کتنی رقم سماجی شعبوں پر خرچ ہوئی، اور کتنی محض سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے یا دیگر غیر ترقیاتی اخراجات پر ضائع ہو گئی؟
یہ سب سوالات اہم ہیں، لیکن شاید ان کے جواب دینے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم ان سوالات کے حل تلاش کرنے کی سنجیدگی دکھائیں۔ کیا ہم واقعی ان وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یا ہم صرف پرانی باتیں دہرا کر آگے بڑھنے کا تاثر دینا چاہتے ہیں؟
2025 کے آغاز میں ہمیں کچھ بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ کیا ہم بلند شرح سود کے ذریعے مہنگائی کو مزید دبانے کی کوشش کریں گے؟ یا ہم ایسی پالیسیاں اپنائیں گے جو معیشت کو نمو کی طرف لے جائیں؟ کیا ہم بجلی کے شعبے میں اصلاحات کر سکیں گے، یا یہ شعبہ ہمیشہ کی طرح بوجھ ہی بنا رہے گا؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا ہم اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کا عزم کر سکیں گے؟
یہ سوالات معمولی نہیں ہیں۔ یہ معیشت کی سمت طے کریں گے۔ لیکن ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ ہم ان سوالات کو حل کرنے کے بجائے ان سے نظریں چرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ شاید یہ وقت ہے کہ ہم ان مشکل سوالات کا سامنا کریں۔
2025 ہمیں ایک موقع دے رہا ہے، لیکن یہ موقع ہمیشہ کے لیے نہیں ہوگا۔ استحکام کا یہ لمحہ محض ایک وقفہ ہے۔ یہ وقت سانس لینے کا ہے، لیکن اگر ہم نے اس وقت کو ضائع کر دیا، تو بحران دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔
یہ نیا سال ہماری ترجیحات کو پرکھے گا۔ کیا ہم ماضی کی فرسودہ حکمت عملیوں پر انحصار کریں گے؟ یا ہم کچھ نیا سوچنے اور کرنے کی جرات کریں گے؟ یہ سوال نہ صرف حکمرانوں کے لیے ہے، بلکہ ہم سب کے لیے ہے۔
نیا سال مبارک ہو۔ شاید یہ وہ سال ہو جب ہم اپنے سوالات کے جواب تلاش کریں۔ یا شاید یہ بھی ایک اور موقع ہوگا، جسے ہم اپنی غفلت اور نااہلی کی بھینٹ چڑھا دیں گے۔ لیکن سوال یہی رہے گا: کیا ہم ترقی کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم محض استحکام کے دھوکے میں رہنا چاہتے ہیں؟

24/12/2024

ہم نے ہمیشہ یہ مانا کہ ٹیکنالوجی انسان کو بہتر اور مہذب بنائے گی۔ جب پہیہ ایجاد ہوا تو ہم نے سوچا کہ زندگی آسان ہو جائے گی۔ جب ٹیلیفون آیا تو ہم نے سمجھا کہ انسانیت قریب ہو جائے گی۔ اور جب ایٹم کی طاقت کو قابو میں کیا گیا تو کہا گیا کہ اب انسان روشنی اور توانائی کے اس سمندر میں امن کی زندگی گزارے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ہر ایجاد کو زیادہ موثر طریقے سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔

آج ہم جنگیں میدانوں میں نہیں، کمپیوٹر اسکرینوں پر لڑتے ہیں۔ ایک ملک دوسرے ملک کی معیشت ہیکنگ سے تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں پانی کے ذخائر پر قبضہ کیا جاتا تھا۔ ہماری سیاسی تقریریں الفاظ کے ہتھیار ہیں، اور ہماری ٹیکنالوجی نفرت اور خوف کو پھیلانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔

پاکستان میں یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہے۔ ہم نے ایٹم بنایا، اور اسے اپنے دفاع کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیا، لیکن ہم نے تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل کو نظر انداز کیا۔ ہم نے ترقیاتی منصوبے بنائے، مگر وہ بھی سیاست اور کرپشن کی نذر ہو گئے۔ ہم نے موٹر ویز بنائیں، لیکن اسکول اور اسپتال بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ہم نے ہمیشہ ”دفاع“ کو اپنی ترجیح بنایا، مگر اپنی عوام کو بھوکا اور بیمار چھوڑ دیا۔

ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں تو کیں، مگر ہماری سوچ کو نہیں بدلا۔ آج ہمارے پاس ڈرون ہیں، جو آسمان سے دشمن پر حملہ کر سکتے ہیں، مگر ان ہی ڈرونز سے ہم اپنے ہی علاقوں میں تباہی مچا دیتے ہیں۔ ہماری سیاست میں بھی وہی پرانی سوچ غالب ہے : مخالفین کو دشمن سمجھنا، اور ہر ممکن طریقے سے انھیں نیچا دکھانا۔

ہماری سیاست بھی ایک جنگ ہے، جہاں وسائل کی لوٹ مار ہوتی ہے۔ ایک سیاسی جماعت دوسری جماعت پر الزام لگاتی ہے کہ وہ ملک کو تباہ کر رہی ہے، جبکہ خود اقتدار میں آ کر وہی کھیل کھیلتی ہے۔ عوام کے وسائل کو لوٹنا اور اسے ”قومی مفاد“ کا نام دینا ہمارے سیاستدانوں کا معمول بن چکا ہے۔

ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل ترقی انسانوں کو بہتر بنانا ہے، نہ کہ صرف ٹیکنالوجی کو۔ آج ہم سائبر جنگیں لڑتے ہیں، مگر ہمارے بچے اسکولوں میں بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ ہم نے ایٹمی میزائل بنا لیے، مگر پینے کا صاف پانی فراہم نہ کر سکے۔ ہم نے بڑے بڑے میٹرو منصوبے بنائے، مگر اسپتالوں میں دوائیں فراہم کرنے کی زحمت نہ کی۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے رویے کو جدید بنانے کے بجائے اپنی پرانی عادتوں کو زیادہ چمکدار بنا دیا ہے۔ ہم آج بھی وہی شکار اور شکاری کا کھیل کھیل رہے ہیں، بس فرق یہ ہے کہ اب ہمارے پاس جدید ہتھیار ہیں۔

لیکن کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟ کیا ہم واقعی بہتر انسان بن سکتے ہیں؟

سب سے پہلے، ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلنا ہو گا۔ جنگ اور ہتھیاروں پر خرچ ہونے والے اربوں روپے تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات پر خرچ کیے جائیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں لاکھوں بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، یہ تبدیلی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

دوسری بات، ہمیں اپنی سیاست کو انسانی بنانا ہو گا۔ اختلافات کو دشمنی میں بدلنے کے بجائے، ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیاستدانوں کو عوام کی خدمت کے لیے کام کرنا ہو گا، نہ کہ اپنی جیبیں بھرنے کے لیے۔

تیسری اور سب سے اہم بات، ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا۔ ہم نے ہمیشہ مخالفین کو دشمن سمجھا ہے، چاہے وہ دوسرے ممالک ہوں یا ہمارے اپنے سیاسی مخالفین۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ دنیا میں کوئی بھی کامل نہیں ہے، اور ہر شخص اور قوم کے اپنے خوف اور مسائل ہوتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کو ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہم سائبر جنگ کے بجائے سائبر تعلیم کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہم ڈرونز کو جنگ میں استعمال کرنے کے بجائے زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

یہ آسان نہیں ہو گا۔ لیکن اگر ہم اپنی ترجیحات کو بدلنے کا فیصلہ کر لیں، تو ہم وہ تبدیلی لا سکتے ہیں جو ہم نے ہمیشہ چاہی ہے۔ ٹیکنالوجی ہمیں بہتر انسان بنا سکتی ہے، مگر تبھی جب ہم اسے صحیح طریقے سے استعمال کریں۔

آخر میں، ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہم انسان ہیں، اور انسانیت کا مطلب صرف جدید ہونا نہیں، بلکہ مہذب اور ہمدرد ہونا ہے۔ اگر ہم اپنی لالچ اور خوف پر قابو پا لیں، تو ہم واقعی بہتر انسان بن سکتے ہیں۔ اور شاید تب ہی ہم وہ دنیا بنا سکیں گے، جس کا خواب ہمارے آبا و اجداد نے دیکھا تھا۔

Send a message to learn more

Address

Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Muhammad Salahuddin posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Muhammad Salahuddin:

Share