20/12/2025
اندھیر نگری نہیں، باقاعدہ اجازت یافتہ لوٹ مار
آج صفدرآباد (ڈھاباں منڈی) ضلع شیخوپورہ کے مین بازار (بلمقابل حفیظ میڈیکل سٹور )میں گوشت خریدنے گیا تو یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ یہاں قانون نہیں، ریٹ قصاب طے کرتا ہے۔بڑے گوشت کا سوال کیا تو ہر دکان سے ایک ہی رٹا رٹایا جواب:“1300 روپےکلو ہے، آپ کو 1200روپے لگا دیں گے، اچھا چاہیے تو 1500روپے دے دیں۔”نہ کسی دکان پر سرکاری ریٹ لسٹ،نہ قانون کا خوف،نہ انتظامیہ کی عملداری۔حیرت یہ نہیں کہ قصاب لوٹ۔رہےہیں،حیرت یہ ہے کہ سب کچھ سب کو نظر آ رہا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر موجود ہے،
مارکیٹ کمیٹی موجود ہے،
پرائس کنٹرول والے موجود ہیں،
صحافی بھی موجود ہیں…مگر قانون غائب ہے۔جب چند صحافیوں سے سوال کیا تو جواب ملا:۔۔بھائی یہاں یہی ریٹ چلتا ہے، ہم یونین کے صدر سے بات کر لیتے ہیں۔یعنی ظلم بھی یونین کے ساتھ،اور انصاف بھی یونین کے رحم و کرم پر۔یہ کیسی صحافت ہے؟یہ کیسا نظام ہے؟یہ کیسی ریاست ہے؟دو کلو گوشت ان کی مرضی کے ریٹ پر لینا پڑا،لیکن خاموش رہنا قبول نہیں تھا۔اسی لیے میں نے اسسٹنٹ کمشنر کو تحریری درخواست دی،سرکاری پورٹل پر باقاعدہ کمپلین درج کروائی،کیونکہ اگر آج میں خاموش رہوںتو کل یہی بدزبانی، یہی لوٹ مارکسی غریب مزدور کی پلیٹ سے آخری نوالہ بھی چھین لے گی۔یہ تحریر کسی قصاب کے خلاف نہیں،یہ پورے خاموش نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔جب ریاست ریٹ جاری کرتی ہےاور بازار اس پر ہنستا ہے۔تو سمجھ لیں کہ مسئلہ مہنگائی نہیں،ریاستی رِٹ کا جنازہ ہے۔