08/05/2025
شیرانی کا ضلعی ہیڈکوارٹر ویران — 15 ارب کی لاگت سے بننے والا منصوبہ بھوت بنگلہ بن گیا
شیرانی (خصوصی رپورٹ)
بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع شیرانی آج بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ صاف پانی، علاج معالجہ، تعلیم، بجلی اور سڑکیں یہاں نایاب اشیاء بن چکی ہیں۔ ان تمام محرومیوں پر مستزاد، 15 ارب روپے کی خطیر رقم سے تعمیر کیا گیا ضلعی ہیڈکوارٹر، حکومتی عدم توجہی کا نوحہ بن کر رہ گیا ہے، جو اب ایک ویران بھوت بنگلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
انتہائی خوبصورت اور جدید طرز پر تعمیر شدہ دفاتر اور سرکاری رہائش گاہیں ویرانی کا شکار ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے افسران اور محکموں کے اہلکار ضلعی ہیڈکوارٹر جانا اپنی توہین تصور کرتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر شیرانی نے ضلع ژوب کے ایک چھوٹے سے سرکاری مکان میں اپنی رہائش اور دفتر قائم کیا ہے، جہاں ایک باتھ روم جتنے کمرے کو دفتر کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے — جس میں بمشکل چار پانچ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
محکمہ جاتی عملے کی اکثریت اپنے اپنے گھروں سے کام کر رہی ہے، اور عوام سرکاری دفاتر کی تلاش میں دربدر ہیں۔ معمولی سے معمولی کام کے لیے شہریوں کو ژوب کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ تعلیم کا حال بھی کچھ مختلف نہیں — بیشتر اسکول بند ہیں، اور جو کھلے ہیں ان میں عارضی، غیر تربیت یافتہ افراد خدمات انجام دے رہے ہیں، جنہیں محکمے کے نااہل افسران اور خود ڈپٹی کمشنر "غنیمت" سمجھتے ہیں۔
ضلعی ہیڈکوارٹر میں کروڑوں روپے مالیت کا سرکاری سامان بغیر کسی حفاظتی بندوبست کے پڑا ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں محکمہ بلدیات کی قیمتی مشینری بشمول سوزوکی گاڑی، صفائی کے رکشے وغیرہ غائب ہو چکے ہیں۔ اسی طرح، ڈپٹی کمشنر کمپلیکس میں موجود ڈی سی آفس سے اے سی، جنریٹر، فوٹو اسٹیٹ مشین، بیٹریاں اور دیگر قیمتی سامان چوری ہو چکا ہے، جن کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
اس افسوسناک صورتحال نے شیرانی کے عوام کو شدید اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ عوامی حلقوں نے صوبائی حکومت، چیف سیکریٹری بلوچستان اور وزیر اعلیٰ سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ ضلعی ہیڈکوارٹر کو فوری طور پر فعال بنایا جائے، غفلت کے مرتکب افسران کا احتساب کیا جائے، اور بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ بصورت دیگر عوام سخت ترین احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔