Pei Cell

Pei Cell ‏(﷽) وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ۝ (ﷺ

02/10/2025

{اَلَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ: جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔} نماز سے غفلت کی چند صورتیں ہیں ، جیسے پابندی سے نہ پڑھنا، صحیح وقت پر نہ پڑھنا، فرائض و واجبات کو صحیح طریقے سے ادا نہ کرنا، شرعی عذر کے بغیر با جماعت نہ پڑھنا، نماز کی پرواہ نہ کرنا، تنہائی میں قضا کر دینا اور لوگوں کے سامنے پڑھ لینا وغیرہ، یہ سب صورتیں وعید میں داخل ہیں جبکہ شوق سے نہ پڑھنا، سمجھ بوجھ کر ادا نہ کرنا، توجہ سے نہ پڑھنا بھی نماز سے غفلت میں داخل ہے البتہ یہ صورتیں اس وعید میں داخل نہیں جو ماقبل آیت میں بیان ہوئی ہے ۔

اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظ...
20/09/2025

اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ‘‘(حجرات:۱۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور( پوشیدہ باتوں کی)جستجونہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں ناپسند ہوگا اور اللّٰہ سے ڈرو بیشک اللّٰہ بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔

اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں  بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں  سوال کیا جائے گا۔
16/09/2025

اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

14/09/2025

{حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ: یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔ }

یعنی کثرتِ مال کی حرص تمہارے دل میں رہی یہاں تک کہ تمہیں موت آ گئی اور تم قبروں میں دفن ہو گئے۔ (خازن، التّکاثر، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۰۴)

13/09/2025

{اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا۔}

ارشاد فرمایا کہ زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے اور اپنے مال اور اولادپر فخر کرنے نے تمہیں اللّٰہ تعالیٰ کی عبادات سے غافل کردیا ۔(جلالین، التّکاثر، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۰۵)

{بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا: بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات ...
11/09/2025

{بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا: بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی رہنے والی ہے اور جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ فانی سے بہتر ہے اور اے لوگو!تمہارا حال یہ ہے کہ تم دنیاکی فانی زندگی کو آخرت کی باقی رہنے والی زندگی پرترجیح دیتے ہو اسی لئے تم وہ عمل نہیں کرتے جو وہاں کام آئیں گے ۔بیشک پاکی حاصل کرنے والوں کے کامیاب ہونے اور آخرت کے بہتر ہونے کی بات قرآنِ پاک سے پہلے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہونے والے صحیفوں میں بھی موجود ہے۔
بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ بات تمام صحیفوں میں موجود ہے اور انہی میں سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحیفے بھی ہیں ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’دنیا چونکہ ہمارے سامنے موجود ہے اور ا س کا کھانا، پینا،عورتیں ،دنیا کی لذتیں اور اس کی رنگینیاں ہمیں جلد دیدی گئیں جبکہ آخرت ہماری نظروں سے غائب ہے، اس لئے جو چیز ہمیں جلد مل رہی ہے ہم اسے پسند کرنے لگ گئے اور جو بعدمیں ملے گی اسے ہم نے چھوڑ دیا۔( خازن، الاعلی، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۹، ۴ / ۳۷۱، مدارک، الاعلی، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۹، ص۱۳۴۱، ملتقطاً)
دُنْیَوی زندگی کی لذتوں میں کھو کر آخرت کو نہ بھلا دیا جائے:
اس سے معلوم ہو اکہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دُنْیَوی زندگی کی فانی لذتوں ، رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھو کر اپنی آخرت کو نہ بھول جائے بلکہ وہ اپنی سانسوں کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی زندگی اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزارے اور آخرت میں جنت کی دائمی نعمتیں حاصل کرنے کی کوشش کرے جبکہ فی زمانہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنی دنیا بہتر بنانے میں ایسی مصروف ہے کہ اسے اپنی آخرت کی کوئی فکر نہیں ۔دنیا اور آخرت کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌؕ-وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(انعام:۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے اور بیشک آخرت والا گھر ڈرنے والوں کے لئے بہتر ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
اور ارشاد فرمایا: ’’اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْاؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(یوسف:۱۰۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا یہ لوگ زمین پرنہیں چلے تاکہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوااور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے۔تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
اور ارشاد فرمایا: ’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۸،۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کیلئے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم،مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
لہٰذا اے بندے! ’’وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ‘‘(قصص:۷۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو مال تجھے اللّٰہ نے دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللّٰہنے تجھ پر احسان کیا اور زمینمیں فساد نہ کر، بے شک اللّٰہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی فانی نعمتوں اور بہت جلد ختم ہو جانے والی لذتوں میں کھونے سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنے اور اسے بہتر بنانے کے لئے خوب کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
{وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى: اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔} آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے بہتر ہے کہ وہاں کی نعمتیں ہر اعتبار سے دنیا کی نعمتوں سے افضل ہیں اور ان کے حصول میں کوئی تکلیف و مشقت نہ ہوگی اور استعمال میں کوئی بیماری وغیرہ نہ ہوگی اور باقی رہنے والی اس طرح ہیں کہ کبھی فنا نہ ہوں گی۔

{وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى: اور اس نے اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔} یعنی اور اس نے نماز شروع کرنے کی تکبیر کہہ...
10/09/2025

{وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى: اور اس نے اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔} یعنی اور اس نے نماز شروع کرنے کی تکبیر کہہ کر پانچوں نمازیں پڑھیں ۔ اس آیت سے نماز شروع کرنے کی تکبیر ثابت ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ نماز کا حصہ نہیں ہے کیونکہ نماز کا اس پر عطف کیا گیا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہر نام سے نماز شروع کرنا جائز ہے۔ بعض مفسرین نے یہ کہاہے کہ ’’تَزَكّٰى‘‘ سے صدقۂ فطر دینا اور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنا اور نماز سے نماز عید مراد ہے۔( مدارک، الاعلی، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۳۴۱، تفسیرات احمدیہ، الاعلی، ص۷۴۰، ملتقطاً)

{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى: بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔} اس آیت میں  لفظ ’’تَزَكّٰى‘‘ کے بارے میں  ای...
10/09/2025

{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى: بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔} اس آیت میں لفظ ’’تَزَكّٰى‘‘ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد خود کو کفر و شرک اور گناہوں سے پاک کرنا ہے ۔دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نماز کے لئے طہارت حاصل کرنا ہے۔ اس صورت میں اس آیت سے نماز کے لئے وضو اورغسل کرناثابت ہوتا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے زکوٰۃ ادا کر کے مال کو پاک کرنا مراد ہے،اس صورت میں یہ آیت زکوٰۃ فرض ہونے پر دلالت کرتی ہے۔( تفسیرات احمدیہ، الاعلی، ص۷۴۰) لیکن اس آیت کے زکوٰۃ سے متعلق ہونے پر اِشکال ہے کیونکہ یہ سورت مکی ہے جبکہ زکوٰۃ کا حکم مدینہ منورہ میں نازل ہوا۔
صوفیا ء کے نزدیک تَزکِیَہ کا مطلب:
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تحریر فرمایا ہے کہ صوفیاء کے نزدیک تَزْکِیَہ کا (مطلب) دل (کو) بُرے عقیدے، بُرے خیالات (اور) تصور ِغیر سے پاک کرنا ہے۔ دل کی صفائی یا وہبی ہے یا کسبی یا عطائی۔ وہبی تزکیہ پیدائشی ہوتا ہے، کسبی اپنے اعمال سے (جبکہ) عطائی کسی کی نظر سے ، جیسے بادل اور سورج دور رہتے ہوئے بھی گندی زمین کو پاک کر دیتے ہیں ، ایسے ہی اللّٰہ والوں کی نظر دور سے بھی گندے دلوں کو پاک کردیتی ہے۔( نور العرفان، الاعلی، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۹۷۷)

{سَیَذَّكَّرُ مَنْ یَّخْشٰى: عنقریب وہ نصیحت مانے گاجو ڈرتا ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ...
09/09/2025

{سَیَذَّكَّرُ مَنْ یَّخْشٰى: عنقریب وہ نصیحت مانے گاجو ڈرتا ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، عنقریب آپ کی نصیحت وہ مانے گا جو اللّٰہ تعالیٰ سے اور اپنے برے انجام سے ڈرتا ہے اور آپ کی نصیحت سے وہ دور ہو گااور اس نصیحت کو قبول نہیں کرے گا جو آپ کا دشمن بن کر بڑا بدبخت کافر ہے ،جیسے ولید بن مغیرہ اور ابو جہل وغیرہ اور وہ بد بخت کافر جہنم کی سب سے بڑی آگ میں جائے گا ،پھروہ نہ اس میں مرے گا کہ مر کر ہی عذاب سے چھوٹ سکے اور نہ ایسا جینا جئے گا جس سے کچھ بھی آرام پاسکے۔( مدارک،الاعلی،تحت الآیۃ:۱۰-۱۳،ص۱۳۴۱، روح البیان،الاعلی،تحت الآیۃ:۱۰-۱۳،۱۰ / ۴۰۸-۴۰۹،ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص نصیحت کو تسلیم کرتا ہے وہ خَشیَت ِ الٰہی کے زیور سے آراستہ ہے ۔

{فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى: تو تم نصیحت فرماؤ ،ا گر نصیحت فائدہ دے۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَال...
08/09/2025

{فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى: تو تم نصیحت فرماؤ ،ا گر نصیحت فائدہ دے۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر نصیحت فائدہ دے اور کچھ لوگ اس سے فائدہ حاصل کریں تو آپ اس قرآنِ مجید سے نصیحت فرمائیں ۔
نصیحت فائدہ دے یا نہ دے، بہر حال نصیحت کرنے کا حکم ہے:
یاد رہے کہ یہاں نصیحت کرنے میں جو نصیحت فائدہ دینے کی شرط لگائی گئی ،اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر نصیحت فائدہ نہ دے تو نصیحت نہ کی جائے بلکہ نصیحت فائدہ دے یا نہ دے دونوں صورتوں میں نصیحت کرنے کا حکم ہے کیونکہ قرآنِ پاک کی آیات میں مفہومِ مخالف کاا عتبار نہیں ہے اور یہ آیت بھی انہیں آیات میں سے ہے اور قرآنِ پاک میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ،جیسے ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ﳓ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا‘‘(النساء:۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کافروں کی طرف سے اَذِیَّت پہنچنے کا خوف نہ ہو تو نمازوں میں قَصر نہیں کر سکتے بلکہ ا س کا مطلب یہ ہے کہ سفر کے دوران چاہے امن ہو یا خوف دونوں صورتوں میں (4 رکعت والی) نمازوں میں قصر کی جائے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا‘‘(نور:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو (خصوصاً) اگر وہ خود (بھی) بچنا چاہتی ہوں ۔
اس ممانعت کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ بدکاری سے بچنا نہ چاہتی ہوں تو تم انہیں بدکاری پر مجبور کرو بلکہ ا س کا مطلب یہ ہے کہ بہر صورت انہیں بدکاری پر مجبور نہ کرو۔

{وَ نُیَسِّرُكَ لِلْیُسْرٰى: اور ہم تمہارے لیے آسانی کا سامان کردیں  گے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَ...
07/09/2025

{وَ نُیَسِّرُكَ لِلْیُسْرٰى: اور ہم تمہارے لیے آسانی کا سامان کردیں گے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، ہم آپ کواس طریقے کی توفیق دیں گے جس سے آپ کے لئے وحی کو یاد کرنا آسان اور سہل ہو جائے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم آپ کو ایسے اعمال کرنے کی توفیق عطا کریں گے جس سے جنت کا راستہ آسان ہو جائے گا۔تیسرا معنی یہ ہے کہ ہم آپ پر وحی کا نازل ہونا آسان کر دیں گے تاکہ آپ سہولت کے ساتھ وحی یاد کر سکیں ، اسے جان سکیں اور اس پر عمل کر سکیں ۔چوتھا معنی یہ ہے کہ ہم آ پ پر آسان شرعی احکام اور قوانین نازل کریں گے (اور ان پر عمل کرنا لوگوں کے لئے دشوار نہ ہوگا)۔( تفسیرکبیر، الاعلی، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۱۳۲، مدارک، الاعلی، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۳۴۱، ملتقطاً)

{اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ: مگر جو اللّٰہ چاہے۔} اس اِستثناء کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ،ان میں  سے 4 قول در...
05/09/2025

{اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ: مگر جو اللّٰہ چاہے۔} اس اِستثناء کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ،ان میں سے 4 قول درج ذیل ہیں ،
(1)…یہ اِستثناء تَبَرُّ ک کے لئے ہے ، حقیقت میں حاصل نہیں ہوا اور جب اللّٰہ تعالیٰ نے پڑھا دیا تو اس کے بعد نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کوئی چیز نہیں بھولے ۔
(2)…اس استثناء سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو کوئی چیز بھلانا چاہے تو وہ ا س پر قدرت رکھتا ہے جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَىٕنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ‘‘(بنی اسرائیل:۸۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر ہم چاہتے توہم جو آپ کی طرف وحی بھیجتے ہیں اسے لے جاتے۔
اور ہمیں یقین ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا۔
(3)…اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ (قرآنِ مجید میں سے) جو کچھ پڑھیں گے اس میں سے کچھ نہ بھولیں گے البتہ جس آیت کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ خود چاہے گا وہ آپ کو بھلا دے گا اور ا س کی صورت یہ ہو گی کہ اللّٰہ تعالیٰ اس آیت کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ فرما دے گا۔یاد رہے کہ جن آیتوں کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوئے ہیں وہ تمام آیتیں حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نہیں بھولے بلکہ ان میں سے جن آیتوں کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے چاہا انہیں آپ کے دل سے اٹھا لیا ۔
(4)…یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں بھولنے سے معروف معنی مراد ہوں یعنی عارضی طور پر بھول جانا،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہو گا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ قرآن مجیدمیں سے کچھ نہ بھولیں گے البتہ جو اللّٰہ تعالیٰ خود چاہے وہ بھول جائیں گے ،پھر وہ چیز ہمیشہ کے لئے بھولی نہ رہے گی بلکہ بعد میں یاد آ جائے گی۔ اس معنی کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں حضورِاَ قدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا کسی آیت کو بھول جانے کاذکر ہے اور ان سے یہ واضح ہوتا ہے بعض مواقع پر حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ (عارضی طور پر) کچھ آیات بھولے تھے اور آپ کا یہ بھولنا امت کے بھولنے کی طرح نہیں ہے ۔(تفسیرکبیر،الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۱ / ۱۳۱، روح البیان، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۴۰۶، روح المعانی، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۵ / ۴۴۴-۴۴۵، ملتقطاً)
{اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا یَخْفٰى: بیشک وہ ہر کھلی اور چھپی بات کوجانتا ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، جب آپ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ بلند آواز سے پڑھتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اورآپ کے دل میں جو قرآن بھول جانے کا خوف ہے اسے بھی جانتاہے، لہٰذا آپ اسے بھول جانے کا خوف نہ کریں ،یہ ہمارے ذمہ ِکرم پر ہے کہ آپ قرآن نہ بھولیں ۔( تفسیرکبیر، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۱ / ۱۳۱)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ بندوں کے ظاہری افعال اور ان کے اقوال جانتا ہے اور ان کے پوشیدہ اقوال اور افعال سے بھی خبردارہے۔( تفسیر سمرقندی، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۴۷۰)
ظاہر و باطن دونوں کو درست رکھنا چاہئے:
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنا ظاہر بھی ٹھیک کرنا چاہئے اور اپنا باطن بھی درست رکھنا چاہئے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ اس کے ہر ظاہری ،باطنی قول اور فعل سے باخبر ہے،جیسا کہ ہمارے ظاہری اور پوشیدہ اعمال کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ‘‘(انعام:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ تمہاری ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے اور وہ تمہارے سب کام جانتا ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْتُمُوْنَ‘‘(انبیاء:۱۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللّٰہ بلند آواز سے کہی گئی بات کو جانتا ہے اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو۔
اور ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَاؕ-اَفَمَنْ یُّلْقٰى فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْۤ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘‘(حم السجدہ:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ جو ہماری آیتوں میں سیدھی راہ سے ہٹتے ہیں وہ ہم پر پوشیدہ نہیں ہیں تو کیا جسے آ گ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت میں امان سے آئے گا۔ تم جو چاہو کرتے رہو ،بیشک اللّٰہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
اورحضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جس نے اپنے اور اللّٰہ تعالیٰ کے مابین معاملے کو اچھا کر لیا تو اللّٰہ تعالیٰ اسے ا س کے اور لوگوں کے درمیان معاملے کو کافی ہو گا اور جس نے اپنے باطن کی اصلاح کر لی تو اللّٰہ تعالیٰ ا س کے ظاہر کو درست کر دے گا۔ (جامع صغیر، حرف المیم، ص۵۰۸، الحدیث: ۸۳۳۹)
لہٰذاہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے باطن کو سنوارنے کی بھر پور کوشش کرے اور اس کے لئے یہ دعا بھی مانگا کرے، چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں مجھے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ دعا سکھائی ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ سَرِیْرَتِیْ خَیْرًا مِّنْ عَلَانِیَتِیْ وَاجْعَلْ عَلَانِیَتِیْ صَالِحَۃً، اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِی النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالْاَہْلِ وَالْوَلَدِ غَیْرِ الضَّآلِّ وَلَا الْمُضِلِّ‘‘ اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، میر ا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو نیک و صالح بنادے ۔ اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے وہ اچھا گھر بار ، مال اولاد، جو نہ گمراہ ہو اور نہ گمراہ گر ہو مانگتا ہوں جو تو لوگوں کو دیتا ہے۔( ترمذی، احادیث شتی، ۱۲۳-باب، ۵ / ۳۳۹، الحدیث: ۳۵۹۷)

Address

Bureydha
Buraydah
52211

Telephone

+966582271361

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pei Cell posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pei Cell:

Share