24/05/2025
پتھروں کے بیچ چیختی خاموشی 😭
وہ چار دوست جو گجرات کی گلیوں سے ہنستے کھیلتے نکلے تھے۔ پندرہ مئی کو عطا آباد جھیل کی تصویریں اپنے گھر والوں کے ساتھ شیئر کرنے کے بعد خاموش ہو گئے۔
گلگت بلتستان کی سنگلاخ چٹانوں کے درمیان استک نالہ اور گنجی کے بیچ ایک اجڑی ہوئی گاڑی، بکھرے وجود اور ایک لاش جو پتھر سے ٹیک لگا کر شاید آخری سانسیں لے رہا تھا۔
ناجانے یہ بد نصیب چاروں دوستوں میں سے کون تھا؟ سلمان؟ واصف؟ عمر یا عثمان؟
شاید وہ بچ گیا تھا۔ شاید وہ کچھ لمحے زندہ رہا تھا لیکن زندگی نے رحم نہیں کھائی۔ نہ زمین نے پناہ دی اور نہ ہی آسمان نے آواز سنی۔
اکیلی لاش، ٹوٹا بازو اور ٹوٹے دل لیے وہ دیکھتا رہا ہو گا۔ شاید دوستوں کو، شاید موت کو یا شاید خدا کو۔
اس نے کتنی بے بسی محسوس کی ہو گی۔ ان لمحوں میں ماں کی آخری دعا، باپ کی آخری نصیحت، بہن کی آخری ہنسی اور بھائی کی دوستی سب ایک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چلی ہوں گی۔
وہ نیم مردہ شخص شاید آخری لمحوں میں آسمان کی طرف دیکھا ہو گا اس امید سے کہ شاید کوئی آ جائے لیکن کوئی نہیں آیا اور اس کی آخری سانسیں پہاڑوں کی خاموشی میں دب گئیں۔ وہ مرتے دم تک دوستوں کی بے جان جسموں کو دیکھتا رہا ہو گا یا شاید تینوں دوستوں کو مرتا دیکھ کر خود لمحہ لمحہ مرتا ہوا سب سے آخر تک زندہ رہا ہو گا۔
کہاں ہیں وہ حفاظتی دیواریں؟ کہاں ہیں وہ سڑک کی باڑ؟ کہاں ہیں وہ الفاظ جو سیاست دان ہر جلسے میں دہراتے ہیں؟ کہاں ہے وہ ریاست جس کے وزیر سیاحتی ترقی کے نام پر بیرون ملک تصویریں بنواتے پھرتے ہیں۔ کہاں ہیں وہ حکومتی اراکین جو حفاظتی اقدامات کے فنڈز سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔
یہ بچے تو زندہ واپس نہیں جا سکے لیکن حکومت ان معاملات کو سنجیدہ لے اور عملی اقدامات کرے تاکہ کسی اور ماں، کسی اور باپ، کسی اور بھائی اور کسی اور بہن کو یہ دکھ دیکھنا نہ پڑے۔