10/07/2025
میں مارکیٹ میں کسی کام سے نکلا ہوا تھا کہ ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی۔ میں نے اسکرین پر نام دیکھا تو حیران رہ گیا، کیونکہ یہ اُس دوست کا نام تھا جو کچھ ماہ پہلے وفات پا چکے تھے، اور کاروباری حوالے سے اکثر میرے پاس آیا کرتے تھے۔
حیرت اور الجھن کے عالم میں میں نے کال اٹھائی۔ دوسری طرف سے آواز آئی:
”السلام علیکم چاچو، میں ۔۔۔۔ کا بیٹا ہوں، آپ سے ملاقات کرنی ہے۔“
میں نے ان سے کہا کہ میں شاپ پر جا رہا ہوں، وہیں آ جائیں۔ کچھ دیر بعد وہ دو بھائی آئے۔ انہیں دیکھ کر مجھے مرحوم دوست کی یاد آ گئی۔ میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ میں نے چپکے سے آنکھیں پونچھ لیں تاکہ اُنہیں دُکھ نہ ہو۔
حال احوال کے بعد بڑے بیٹے نے ایک نوٹ بک نکالی اور کہا:
”چاچو، ہمیں پتا ہے ابو آپ کے پاس پرنٹر یا دیگر کاموں کے سلسلے میں آتے تھے۔ ہم پچھلے دو ہفتوں سے ان کے تمام کھاتے کلئیر کر رہے ہیں۔ آپ بتائیں اگر ابو کے ذمے آپ کا کچھ باقی ہو تو ہم ادا کریں۔“
یہ سن کر میری آنکھوں سے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ میں نے بے اختیار رونا شروع کر دیا۔ پھر اُس نوجوان کا ہاتھ تھام کر کہا:
”بیٹا، جس دن مجھے آپ کے والد کے انتقال کی خبر ملی، اُسی وقت میں نے اللہ کو گواہ بنا کر سب کچھ معاف کر دیا تھا۔“
چھوٹا بیٹا بولا:
”چاچو، پلیز بتائیں، پاپا کے ذمے کتنی رقم تھی؟ ہم دینا چاہتے ہیں۔“
میں نے انہیں تسلی دی اور یقین دلایا کہ سب کچھ اللہ کے لیے معاف کر چکا ہوں۔
پھر میں نے اُن کی نوٹ بک دیکھی۔ اس میں مختلف لوگوں کے نام اور ادائیگی کی تفصیل درج تھی۔ ہر اندراج کے ساتھ وصول کنندہ کے دستخط بھی موجود تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک تقریباً ساڑھے نو لاکھ روپے لوگوں کو واپس کر چکے ہیں۔ کچھ لوگ بغیر ثبوت کے رقم مانگنے آئے، تو انہوں نے اُنہیں بھی پیسے دے دیے۔ صرف دو لوگوں نے رقم لینے سے انکار کیا اور معاف کر دیا ایک آپ ہیں دوسرے ہمارے ماموں جی ہیں۔
میں نے پوچھا:
”آپ کے والد نے جو رقم لوگوں کو دی ہو گی، اُس کا کیا بنا؟“
وہ افسردگی سے بولے:
”چاچو، آٹھ لوگوں سے تقریباً بیالیس لاکھ لینے ہیں۔ دو افراد تو صاف مکر گئے، کہ ہمارے پاس ابو جی کی کوٸ رقم یا کھاتہ نہیں، باقی چھ لوگ ٹال مٹول کر رہے ہیں۔“
پھر وہ مجھ سے گلے ملے۔ میں نے دونوں بھائیوں کی پیشانی چومی اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ پھر وہ چلے گئے۔
احبابِ گرامی!
قرض کا معاملہ بہت نازک اور سنگین ہے۔ کوشش کریں زندگی ایسی گزاریں کہ جب آنکھ بند ہو، تو کسی کا حق آپ کے ذمے باقی نہ ہو۔ یا کم از کم اتنا مال ضرور چھوڑ جائیں اور ساتھ تاکید کرکے جاٸیں کہ آپ کے قرضے آسانی سے ادا کیے جا سکیں۔
اور اگر کوئی شخص فوت ہو جائے، اور اُس کے ذمے آپ کا قرض ہو، تو انسانیت، دیانت اور آخرت کے خوف کو سامنے رکھتے ہوئے فوراً اس کے ورثاء کو ادا کریں۔
مال ہضم کر جانا یا ٹال مٹول کرنا نہ صرف دنیا میں رسوائی کا باعث بنے گا بلکہ آخرت میں شدید عذاب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
بخدا! میں ایسے شخص کو جانتا ہوں جس نے اپنے ایک مرحوم پارٹنر کا مال ہڑپ کر لیا۔ وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنی ہی اولاد اور دنیا والوں کے ہاتھوں ذلت اور رسوائی کا شکار رہا۔ یہاں تک کہ وہ موت کی دعائیں مانگتا تھا، لیکن موت بھی اُس سے روٹھی رہی۔
لہٰذا احتیاط کیجیے! کسی کا حق نہ کھائیے۔ جو چیز کسی کی امانت ہو، یا کسی کا قرض ہو، اُسے فوراً اس کے حقدار کو لوٹا دیجیے، دنیا کی رسوائی سے پہلے اور آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے۔