20/04/2025
کاش ہم اب بھی سنبھل جائیں!
کبھی اسرائیلی ہمارے ممبران کو مسجدوں کے امام بناتے ہیں،
کبھی پیر خریدے جاتے ہیں،
کبھی علماء کے لبادے نیلام ہوتے ہیں،
کبھی دینی گھرانوں سے ملحدیت پروان چڑھتی ہے۔
راولپنڈی کا وہ گھرانہ دیکھیں، جہاں بچہ حافظِ قرآن ہو، تراویح تک پڑھائے، اور پھر ملحد بن جائے—
یہ لمحۂ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے؟
ہم آخر کب سنبھلیں گے؟
ہم کب پہچانیں گے ان کی شیطانیت کو؟
کبھی مدثر جیسے "پیر" بکتے ہیں،
کبھی چند "علماء" قادیانیت کی بولی میں بِک جاتے ہیں،
کبھی "صوفی کونسل" بنا کر پیغامِ فریب دیا جاتا ہے۔
کیا مفتی چمن زمان صاحب کو نہیں معلوم تھا کہ ہمارا صدر صہیونی ایجنڈے کا حمایتی ہے؟
مفتی نوید عباسی، مخدوم ندیم ہاشمی، پیر آصف شاہ، پیر عثمان شاہ، چوراہی، کوٹ مٹھن کے نمائندے، سیال شریف کے مشائخ، یا حضور سلطان الفقرؒ کے سجادگان—
کیا یہ سب بے خبر تھے کہ وہ جس کے ساتھ کھڑے ہیں وہ صہیونیت کا کارندہ ہے؟
کیا یہ سب دودھ پیتے بچے ہیں؟
جو عوام سے لینا تو جانتے ہیں، مگر جوابدہی سے ناواقف ہیں؟
جنابِ محترم!
غلطی ہماری ہے—
ہم نے ہر شخص کو صوفی مانا،
ہر لبادے والے کو ولی سمجھا،
ہر پیر کو صاحبِ حال جانا،
ہر عامل کو کامل مانا،
ہر لقب لگوانے والے کو اعلیٰ درجے کا ولی سمجھ لیا!
ہم نے پرکھا نہیں!
مارکیٹ سے گھی لینے جائیں تو سوچ سمجھ کر چنتے ہیں کہ صحت خراب نہ ہو—
لیکن دین کے معاملے میں بغیر تحقیق کے بیعت کر لیتے ہیں،
بغیر پرکھے کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیتے ہیں،
اور ہمیں یہ ڈر بھی نہیں رہتا کہ کہیں ایمان خراب نہ ہو جائے!
سنبھلیے!
یہ تو محض چند چہرے ہیں جو بے نقاب ہوئے،
ورنہ ابھی کئی چہرے پردوں میں چھپے بیٹھے ہیں—
شیطانی لنگر کھا رہے ہیں، اور ہماری ہی کوتاہیوں کے باعث رحمانی لنگر بھی انہی کو پیش ہو رہا ہے۔
کیا ہم بھول چکے ہیں حضرت سلطان الفقرؒ حضرت سخی سلطان باہوؒ کا وہ قول کہ:
"ولی وہ ہے جو دل پر نگاہ رکھے"
یہاں جیب پر نگاہ رکھنے والا ولی نہیں ہوتا!
کیا ہم بھول گئے حضرت میاں میرؒ کا قول:
"ولی وہ ہے جو وضو یہاں کرے اور تہجد مدینے والے کے سامنے پڑھے!"
کیا ہم فراموش کر بیٹھے ہیں حضرت داتا گنج بخشؒ کی وہ زندگی،
جو چالیس ملکوں کی سیاحت میں ایک نماز قضا کیے بغیر گزری؟
کیا ہم مجدد الف ثانیؒ کے مجاہدانہ طریقے کو بھول چکے ہیں؟
کیا ہم اس سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غافل ہو چکے ہیں جس کی بنیاد تھی:
لا طمع: کسی سے کچھ طلب نہ کرنا، صرف اللہ سے مانگنا،
لا منع: کسی کا دیا ہوا ہدیہ رد نہ کرنا،
لا جمع: مال و دولت جمع نہ کرنا!
تو ہم نے ان اصولوں کو کیوں چھوڑ دیا؟
اب بھی وقت ہے—
کسی کو پیر، ولی یا عالم ماننے سے پہلے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی کسوٹی پر پرکھئے،
اس میزان پر ماپ لیجیے۔
اگر ہر فرد یہ ذاتی ذمہ داری نبھانے لگے،
تو کوئی صہیونیت نواز، قادیانیت نواز، یا دین فروش شخص ہمارے اندر پنپ نہیں پائے گا۔
میری علمائے اہل سنت سے مؤدبانہ گزارش ہے:
اب بھی وقت ہے—
اہلسنت کی صفوں میں جو خرافات سرایت کر چکی ہیں،
ان کا خاتمہ کیجیے!
ہر ضلع کے علماء اپنا کردار ادا کریں—
ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارا نام بھی تاریخ کے صفحات سے مٹ جائے گا!
ہم جیسے لاکھوں آتے رہے، جاتے رہے—
کچھ کیجیے،
کچھ اقدام اٹھائیے،
تاکہ وہ گند صاف ہو جو ہماری صفوں میں
کبھی ناصبیت،
کبھی رافضیت،
اور کبھی صہیونیت کے پردے میں گھس بیٹھا ہے۔
آئیے!
نوجوان نسل کو وہی دین پیش کریں جو طریقِ صحابہ و اہلبیت تھا—
جو سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عین عکس تھا۔
انفرادی کوششیں اپنی جگہ،
لیکن اجتماعی کوششوں کی اب اشد ضرورت ہے۔
اللہ ہمیں بصیرت دے، اخلاص دے، اور ہدایت کی راہ پر ثابت قدم رکھے۔ آمین!
از قلم: محمد نعمان مظہر سیفی