
21/07/2024
بنگلہ دیش فسادات 2024 ، جولائی
( ستونت کور )
توئی کی؟ امی کی؟ رضاکار، رضاکار!!
( تم کون؟ میں کون؟ رضاکار، رضاکار )
بنگلہ دیش میں 10 جولائی سے شروع ہونے والے طلباء کے ملک گیر احتجاجی مظاہروں میں یہ نعرہ بہت تیزی سے مقبول ہوتا جا رہا ہے۔
لیکن ان احتجاجی مظاہروں کی وجہ کیا بنی ۔۔؟
بنگلہ دیش دنیا کے گنجان آباد ترین ممالک میں سے ایک ہے۔
اور جتنی زیادہ آبادی ، روزگار کے حصول میں عوام کی اتنی ہی مشقت اور مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔
دیگر ایشیائی ممالک کی طرح بنگلہ دیش میں بھی سرکاری نوکریوں کو بے انتہا اہمیت حاصل ہے۔ اور ہر شخص سرکاری نوکری کا خواہاں نظر آتا ہے۔
تاہم بنگلہ دیش میں 1971 میں آزادی کے فوراً بعد سے ہی سرکاری نوکریوں کے لیے ایک کوٹہ سسٹم رائج ہے جس کے مطابق 30% سرکاری نوکریاں ان افراد کے لیے مختص ہیں کہ جن کا تعلق1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی لڑنے والے افراد کے خاندانوں، ان کی اولاد یا ان کی اولاد کی اولاد سے ہو۔۔۔
یعنی۔۔۔۔ سرکاری نوکریوں میں 30% کوٹا آرمی کو نوازنے کے لیے مختص کیا گیا ہے!
اتنا ہی نہیں۔۔۔۔ مزید 20% کوٹا بھی میرٹ کے بجائے دیگر افراد جیسے اقلیتوں، قبائلی افراد و دیگر کے لیے مختص ہے۔
یعنی۔۔۔ بنگلہ دیش میں 50% سرکاری نوکریوں کی " بندر بانٹ "میرٹ کے بجائے بس آرمی کے خاندانوں اور دیگر متعلقہ افراد کو کر دی جاتی ہے۔
اب۔۔۔
وہ طلباء جو زندگی کے 20 تا 25 برس، لاکھوں در لاکھوں ٹکا خرچ کر کے تعلیم اور ڈگریز کے حصول پر صَرف کر رہے ہیں ان کے لیے یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ انہیں 50% سرکاری نوکریوں سے یوں ہی بےدخل کردیا گیا ہے اور دیگر 50% میں نوکری کا حصول کہیں گنا مشکل ہو چکا ہے۔
چنانچہ۔۔۔ 2018 میں بنگالی اسٹوڈنٹس نے کوٹا سسٹم کی معطلی کے لیے ایک ملک گیر تحریک چلائی جو کہ کامیاب رہی اور پردھان منتری حسینہ واجد نے کوٹا سسٹم کو معطل کر چھوڑا۔
لیکن۔۔۔ پھر چند ہفتہ قبل عدالت کے ایک حکمنامہ پر حکومت نے پھر سے اس آرامی نواز کوٹا سسٹم کو بحال کردیا۔
جس سے بنگلہ دیش بھر میں طلباء پھر سے سڑکوں پر آگئے۔
حسینہ واجد نے طلباء تحریک کو بغاوت سے تشبیہ دیتے ہوئے مظاہرین کو "رضاکار" کا لقب دے دیا۔۔۔۔ رضاکار سے مراد مشرقی پاکستان میں وہ عوامی ملیشیات تھیں کہ جنہوں نے 1971 کی جنگ میں مکتی باہنی کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔
بنگالی طلباء کو پاکستانی ایجنٹ قرار دینے پر طلباء نے جواب میں تم کون؟ میں کون؟ رضاکار رضاکار۔ کا نعرہ اڈاپٹ کر لیا۔
مظاہرین سے نبٹنے کے لیے حکومت نے " چھاتر لیگ " یعنی عوامی لیگ کے سٹوڈنٹ ونگ کے غنڈوں کو مسلح کر کے میدان میں اتار دیا جس سے طلباء اور چھاتر لیگ کے گینگسٹرز کے درمیان شدید نوعیت کی جھڑپوں کا آغاز ہوگیا۔
جواب میں حسینہ واجد نے ملک بھر میں پولیس کی مدد سے ان یونیورسٹیز کا محاصرہ کر لیا کہ جہاں جہاں یہ احتجاجی تحریک منظم ہورہی تھی۔
جواب میں مظاہرین نے پولیس اور سرکاری تنصیبات پر حملے، توڑپھوڑ اور انہیں نذر آتش کرنا شروع کردیا۔
چنانچہ حکومت نے پورے ملک میں تمام تعلیمی اداروں کو تا اطلاع ثانی بند کرنے کا اعلان کر دیا۔
کچھ علاقوں میں فوج طلب، کرفیو کا نفاذ۔
اکثر علاقوں میں انٹرنیٹ اور سیل فون سروس معطل کر دی گئی۔
اور جھڑپوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
۔۔۔
نقصانات :
احتجاجی تحریک --- 54 طلباء جاں بحق۔
11 ہزار زخمی۔
ہزاروں گرفتار۔
حکومت و اتحادی --- چھاتر لیگ کا 1 گینگسٹر ہلاک متعدد زخمی۔
100 سے زائد پولیس اہلکار زخمی۔
بنگلہ دیش کے سرکاری چینل BTV کی عمارت نذر آتش۔
سویلینز--- 3 جاں بحق
1 صحافی جاں بحق
25 صحافی زخمی۔
,..........
( دونوں ملکوں کے حالات تقریبا ایک جیسے ہیں )