26/07/2025
آج سے چالیس پینتالیس سال قبل بنگلادیش میں دو بہنوں رضیہ اور شیر بانو کو انکا بڑا بھائی اپنے ساتھ روگاز کے سلسلے میں اپنے گاؤں سے ڈھاکہ شہر لایا تھا۔۔کسی گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتے تھے۔
بڑا بھائی گھر کے احوال جاننے کے لیے اور راشن پہنچانے کے لیے بہنوں کو یہاں چھوڑ کر گھر آتا ہے۔ چند روز بعد جب بھائی ڈھاکہ اپنی ڈیوٹی پر لوٹ آتا ہے تو اپنی رہائش گاہ میں دونوں بہنوں کو نہیں پاتا۔ در در کی ٹھوکریں کھاکر بھائی اپنی بہنوں کو ڈھونڈتا ہے لیکن کوئی سراغ نہیں ملتا۔
بڑے بھائی کے علم میں نہیں تھا کہ انکی بہنوں کو عرب ممالک نوکری کا جھانسہ دیکر انسانی اسمگلر اپنا شکار بنا چکے ہیں۔ چار دہائیاں گزر گئیں۔
گزشتہ دنوں مجھے اندرون سندھ سے ایک بہن نے ایک بنگلادیشی خاتون کے متعلق بتایا کہ انکو بہت پہلے اغواء کرکے یہاں لایا گیا تھا انکی فیملی ڈھونڈنے میں مدد کریں۔
اس بہن سے تفصیلات کی ویڈیو کلپ اس خاتون کی زبانی بھیجنے کا کہا۔ وہ ویڈیو آئی اس میں خاتون اپنا نام رضیہ بتاتی ہے اور ساری دیگر تفصیلات اور ساتھ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ میری بہن شیربانو کو بھی ڈھونڈنے میں مدد کریں وہ بھی پاکستان میں کہیں ہوگی ہم دونوں کو کراچی کے بنگالی پاڑا لاکر الگ الگ فروخت کردیا گیا تھا۔۔
الحمدللہ گزشتہ کل رضیہ کا خاندان مل گیا تھا اور آج پاکستان وقت کے مطابق دوپہر دو بجے ویڈیو کال پر رضیہ کو بہن بھائیوں سے ملوایا۔والدین فوت ہوچکے تھے۔
اس کیس میں اچھی خبر یہ ملی کہ رضیہ کے ساتھ لائی جانے والی بہن شیر بانو کا بنگلادیش میں اپنے خاندان سے پانچ ماہ قبل رابطہ ہوگیا تھا۔ شہر بانو ڈیرہ غازی خان میں رہتی ہے۔ انکا بیٹا دبئی میں کام کرتا ہے وہاں اپنے کسی بنگلادیش کولیگ کو اپنی والدہ کی تفصیلات دی تھیں اس بنگلادیشی نے شہر بانو کو اپنی فیملی سے ملوایا تھا۔
اور آج الحمدللہ پانچ ماہ بعد ہماری ٹیم نے رضیہ کو وہاں رابطہ کروایا۔
ان دونوں بہنوں کا بنگلادیش میں تو رابطہ ہوگیا یہاں بھی یہ ایک دوسرے سے مل گئی ہیں رضیہ سندھ میں اور شیر بانو ڈیرہ غازی خان میں ہے ۔
شیربانو خالص سرائیکی بولتی ہے اور رضیہ خالص سندھی۔
اب دونوں بہنیں اپنی مادری زبان بھول چکی ہیں۔ یہاں ایک دوسرے کو سمجھانے کے لیے درمیان میں انکے بچے ترجمانی کریں گے۔
زیر نظر تصویر رضیہ کی ہے