Pothwar Ki Awaz

Pothwar Ki Awaz Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Pothwar Ki Awaz, Media/News Company, Riyadh.

میکی فخر کہ میں پوٹھوہاری آں






علاقائی خبروں, اشتہارات,ایونٹ کوریج اور اپنے کاروبار کی بہترین تشہیر کے لیے رابطہ کریں

*پوٹھوہار کی آواز*

https://wa.me/923259320786

+966509320786

05/08/2025

کوٹ دہمیک تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم فائرنگ ڈراپ سین افضال یونس نے اپنا موقف بیان کردیا

گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کاہلیاں سیاہلیاں نئی بلڈنگ  جدید تعلیم سے آراستہ اساتذہ  کرام مذہبی، روحانی ،اخلاقی  اور معاشرتی...
30/07/2025

گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کاہلیاں سیاہلیاں
نئی بلڈنگ
جدید تعلیم سے آراستہ اساتذہ
کرام
مذہبی، روحانی ،اخلاقی اور معاشرتی نشوونما
کمپیوٹر لیب ،کمپیوٹر ٹیچر خوشگوار ماحول
گورنمنٹ پنجاب نے مزید تین اعلیٰ قابلیت والے اساتذہ مہیا کیے ہیں
علاقے کی عوام سے اپیل کے اپنے بچوں کو سکول ہذا میں داخل کروائیں

One Brilliant student of Govt boys high school kahliaan Siahlian ...Sayed Sibtey Abbas Kazmi is receiving his MBA degree...
30/07/2025

One Brilliant student of Govt boys high school kahliaan Siahlian ...Sayed Sibtey Abbas Kazmi is receiving his MBA degree from UK university... School administration is proud of him ....Heartiest Congratulatin to student and his parents...

اللّٰہ پاک جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے
29/07/2025

اللّٰہ پاک جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے

29/07/2025
سسٹم ہے بھائی سسٹم کوئی مذاق نہیں ویڈیو سکینڈل کا ملزم عقیل عباس آج رہا ہو جائے گا🔴 گوجر خان THQ ہسپتال نازیبا ویڈیو اسک...
29/07/2025

سسٹم ہے بھائی سسٹم کوئی مذاق نہیں ویڈیو سکینڈل کا ملزم عقیل عباس آج رہا ہو جائے گا
🔴 گوجر خان THQ ہسپتال نازیبا ویڈیو اسکینڈل
ملزم کی زمانت منظور — انصاف یا رعایت؟ 🤔
ایک حساس ادارے میں ہونے والے اخلاقی جرم کے بعد ملزم کی ضمانت نے عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی ہے۔
کیا ایسے جرائم پر نرمی، معاشرے کو مزید تباہی کی طرف نہیں لے جا رہی؟
📢 گوجر خان کی عوام پوچھتی ہے:
"کیا عزتیں اتنی سستی ہو چکی ہیں؟"
#زمانت

ڈونگی سے سرائے راجگان پختہ شاہراہِ عام تعمیر کی جائے راجہ محمد شیراز کیانی اور سید عنصر شاہ کا وفاقی وزیر مملکت برائے ری...
29/07/2025

ڈونگی سے سرائے راجگان پختہ شاہراہِ عام تعمیر کی جائے راجہ محمد شیراز کیانی اور سید عنصر شاہ کا وفاقی وزیر مملکت برائے ریلوے بلال اظہر کیانی سے مطالبہ۔
سوہاوہ (نمائندہ جنگ) راجہ محمد شیراز کیانی چیئرمین اخترویلفیر سرپرست اعلیٰ گکھڑ فیملی ویلفئیر ٹرسٹ ضلع جہلم اور سید عنصر شاہ گیلانی حال مقیم لندن نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سرائے راجگان سرائے سیداں گردونواح کی کثیر دیہی عوام کو طویل عرصے سے آمدورفت میں ان گنت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ خصوصاً ضعیف العمر افراد خواتین اور طالبات زیادہ متاثر ہو رہےہیں موسم برسات میں آمدورفت معطل ہو جا تی ہے جس سے شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے حکام بالا کے علم میں ہونے کے باوجود چشم پوشی سے کام لیا جا رہا ہے عوام الناس کے ساتھ سراسر زیادتی اور ناانصافی ہے راجہ محمد شیراز کیانی اور سید عنصر شاہ گیلانی حال مقیم لندن نے وفاقی وزیر مملکت برائے ریلوے بلال اظہر کیانی سے مطالبہ کیا ہے کہ ڈونگی سے سرائے راجگان شاہراہِ عام پختہ کی جائے تاکہ عوام کو آمدورفت میں سہولت فراہم ہو سکے یہ سکھ کا سانس لے سکیں۔
ندیم یوسف (بوبی) نمائندہ جنگ تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم 03365841660


29/07/2025

*🇵🇰 آج کی تاریخ 🌤*

03 صفر 1447ھ
29 جولائی 2025ء
منگل Tuesday

*اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ*
سورۃ الاحقاف آیت 13
https://whatsapp.com/channel/0029VaD5VpYKLaHnn4OaWm3l

ᴾᵒᵗʰʷᵃʳ ᴷⁱ ᴬʷᵃᶻ
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ

یقینا جن لوگوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ: ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، تو ان پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا، اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

ثابت قدم رہنے میں یہ بات بھی داخل ہے کہ مرتے دم تک اس ایمان پر قائم رہے، اور یہ بھی کہ اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کی۔


28/07/2025

جانباز ( سید سلیم عباس شاہ)
تحریر ابو شجاع ابو وقار
قسط نمبر 44
عارف چیمہ
جی تو چاہتا ہے کہ امریکی صدر کلنٹن کی چند گھنٹوں کی پاکستان آمد اور پاکستانی عوام سے خطاب اور قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاک امریکن تعلقات اور امریکہ کی پاکستان سے بے لوث دوستی نبھانے کے ان گنت واقعات کے علاوہ صدر کلنٹن کے پاکستانی عوام سے خطاب کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے امریکہ کی جد و جہد اور اسکے خوشگوار نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے نورالدین زنگی صلاح الدین ایوبی سے لے کر نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان تک کی صلیبی جنگوں کے سلسلے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر میں شہنشاہ جہانگیر کے دور حکومت میں کسمپرسی کی حالت میں آنے اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر سے حسن سلوک کے واقعات اور پاکستانی حکمرانوں کے امریکہ پر اندھے اعتماد اور بڈ بیڑ (پشاور) امریکی فضائیہ کو اڈہ بنانے کی اجازت دینے اور امریکی جاسوس طیارے یو ٹو کی روس پر پرواز کے دوران گراے جانے پر روس کے رد عمل سے لے کر کشمیر عراق لیبیا چیچنیا اور بوسینیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کرنے کے پیچھے خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کروں اور ان شاء اللہ ضرور کروں گا. اب صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کشمیر میں مجاہدین اسامہ بن لادن داؤد ابراہیم اور ایمل کانسی کو مغربی دنیا میں جسے اب دہشت گرد اور ایسے ہی دوسرے خطابات سے نوازا جا رہا ہے. ایسے ہی خطابات نورالدین زنگی صلاح الدین ایوبی ٹیپو شہید اور نواب سراج الدولہ کو مغربی دنیا نے اس وقت عطا کیے تھے. بربر قبائل نے دیگر مسلمانوں کے ساتھ سپین فتح کیا تھا. اس وقت انگریزی لغت میں ایک نئے لفظ کا بربر فاتحین کی نسبت سے اضافہ ہوا(Bararain) (ظالم _وحشی) Barbrain) (ظلم _دہشت گردی) اور ہم پاکستانیوں نے اسی انگلش لفظ سے ناسمجھی میں اپنی لغت میں بربریت کا اپنے معنوں میں اضافہ کر لیا. رات کو کوالالمپور پہنچ کر میں نے پاکستان روانگی کے پروگرام کو آخری ٹچ دیا. اور عمر کے نمائندے کو کہا کہ ہم ان شاء اللہ پرسوں کی فلائٹ سے پاکستان جانے کو بلکل تیار ہوں گے. اور وہ صرف چار ریوالور ایک پسٹل اور کافی مقدار میں گولیاں ہمارے ساتھ بھیجنے کا انتظام کرے. پرسوں بھی آ گئی. اور لفٹ ہنسا کی فلائٹ پر پاکستان کراچی ائیر پورٹ جانے کے لیے ہم کوالالمپور ائیر پورٹ پر پہنچ گئے. راجے کے بیٹے کو بھی لایا گیا.دوران پرواز وہ کوئی غلط حرکت نہ کرے اس لیے اسکو احتیاطی طور پر نیم بے ہوشی کی دوا پلا دی تھی. ساڑھے سات گھنٹے کی پرواز کے بعد جہاز کراچی ائیر پورٹ پر اترا. پلان کے مطابق پہلے خواتین اور پھر میں اورقیصر راجہ کے لڑکے کو تھامے امیگریشن کسٹم سے فارغ ہو کر ائیر پورٹ سے باہر آئے. جہاز کا سارا عملہ اس وقت بغیر کسی چیکنگ کے ائیر پورٹ سے باہر آتے تھے. ہم ابھی ائیر پورٹ روڈ ( اس سڑک کو شاہراہ فیصل کا نام بعد میں دیا گیا) پر ٹیکسیوں میں پہنچے تو لفٹ ہنسا والوں کی گاڑی میں کپتان ہمارا منتظر تھا. اس نے ہمارے اسلحہ کا بیگ ہمارے حوالے کیا اور میرے سب ساتھی میٹروپول ہوٹل میں چیک ان ہو گئے. جبکہ رانی اس کا بیٹا اور میں نے پیلس ہوٹل ( جہاں آج کل شیرٹن ہوٹل ہے) میں کمرے لے لیے. ہم تقریباً رات دس بجے کراچی ائیر پورٹ پر اترے اور تقریباً 12 بجے تک اپنے قیام گاہوں میں پہنچے. میں نے پیلس ہوٹل سے اس وقت راجہ تری کو گھر فون کیا. وہ نشے میں دھت تھا. اور فون پر دوسری آوازوں سے محسوس ہو رہا تھا کہ تتلیوں کے جھرمٹ میں بیٹھا ہوا ہے.
میں نے اسے بتایا کہ میں اس کے بیٹے اور بیوی کے ساتھ کراچی پہنچ چکا ہوں. راجہ نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا کہ یہ بتاؤ کہ میری عزیز متاع بھی ساتھ لائے ہو یا نہیں. میں نے اسے کہا کہ اس وقت تمہاری ایسی نہیں اور نہ ہی تم اکیلے ہو کہ تمہیں ایسی باتیں بتائی جائیں. میں کل دن دس بجے پھر تمہیں فون کروں گا. اب صرف اتنا جان لو کہ تمہیں کراچی آنا پڑے گا. اور رانی سے تمہارے معاملات طے ہوتے ہی تمہیں جواہرات مل جائیں گے. راجہ نے کہا کہ میں کل بعد دوپہر کراچی پہنچ کر قصر ناز میں ٹھہروں گا. تم مجھے وہاں شام پانچ بجے ملنا. اگلے روز میں نے رانی کو گذشتہ رات راجہ سے ہونے والی گفتگو کے متعلق بتایا اور کہا کہ آج سونیا کو مسز ڈیوڈ اور رضی کی بیوی کے پاس چھوڑ آؤں گا. راجہ سے میں تم اور تمہارا بیٹا ملیں گے. اسے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دینا کہ تم کراچی میں رہنا چاہتی ہو. مجھے یقین ہے کہ راجہ تمہاری شرط فوراً مان جائے گا. اور میں تمہاری تائید کرتے ہوئے جواہرات دو روز میں پاکستان منگوانے کی ذمہ داری اٹھا لوں گا. ملکی سیاسی حالات کی خرابی کیوجہ سے راجہ زیادہ دن کراچی میں نہیں ٹھہر سکتا. وہ تمہاری شرط مان کر اسلام آباد واپس چلا جائے گا. اور میں دو دنوں میں تمہارے رہائش کے لیے مناسب گھر لے کر تمہیں سونیا مسز ڈیوڈ رضی کی بیوی اور سپنا کو وہاں شفٹ کر دوں گا. راجہ کو دو روز بعد فون کر کے اسے کراچی جواہرات کے لیے بلاؤں گا. اور تمہاری موجودگی میں جواہرات اسکے حوالے کر دوں گا. تم اپنے اخراجات لے لینا جو بعد میں تمہارے کام آئیں گے. میری بات سن کر رانی بولی کہ میں نے ان جواہرات سے اپنا اور اپنے بیٹے کا خاصا حصہ پہلے سے ہی الگ کرکے رکھ لیا ہے.کیونکہ میں اپنے شوہر کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں. اگر اس نے میری بات ماننے سے انکار کیا تو میں اسے اخبار کے ذریعے عریاں کرنے کی دھمکی دوں گی. مجھے یقین ہے کہ پریس کا نام سنتے ہی وہ گھبرا جائے گا. علاوہ ازیں اس کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ جواہرات اس کے ہیں.اگر اس نے کوئی حیل و حجت کی تو میں اسے عدالت میں گھسیٹنے کی دھمکی بھی دوں گی. اور جواہرات کے وجودسے قطعی منکر ہو جاؤں گی. رانی کی بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا. کہ راجہ نہ صرف میرا دوست تھا. بلکہ میرا محسن بھی تھا. اس کے احسان کا بدلہ اتارنے کے لیے میں نے اس مشن پر جانے کی حامی بھری تھی. اصولی طور پر ان جواہرات کا مالک راجہ ہی تھا. اور اس نے مجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ جواہرات مجھے لانے کی زمہ داری سونپی تھی. اب میں نے فیصلہ کر لیا کہ رانی نے جو جواہرات چھپا رکھے ہیں سب اس سے لے کر میں راجہ کے حوالے کروں گا. اور پھر اسے کیوں گا کہ اپنے لڑکے اور کم از کم رانی کے باعزت رہنے کے لیے کچھ جواہرات اسے بھی دے دے
وہ میری بات مانے یا نہ مانے اسکی مرضی. لیکن میں امانت میں خیانت نہیں ہونے دوں گا. سونیا کی صورت میں رانی پہلے ہی راجہ کی عزت مٹی میں ملا چکی تھی. میرے ہوتے ہوئے اور میرے علم میں لا کر میں یہ خیانت ہرگز نہیں ہونے دوں گا. سونیا کے حصول کے لیے میں نے رانی سے جس قدر تعاون کیا تھا. اور اس کے راز کو راز میں رہنے دینے کا وعدہ اور کراچی میں سونیا کے لیے رہائش اور تعلیم کے بندوبست کی ذمہ داری اٹھانے اور اب رانی کے لیے جو کراچی میں رہنے کا پلان بتایا تھا. ان سب کی وجہ مامتا کو تسکین ملنے اور معصوم بچی کو ماں کی گود کی گرمی سے الگ نہ کرنا تھا. میں نے رانی کو صاف کہہ دیا کہ راجہ کے موروثی جواہرات ہر حال میں راجہ کے پاس ضرور پہنچاؤں گا چاہے اس کے لیے مجھے بھاری سے بھاری قیمت ادا کرنی پڑے. تمہارے سارے جائز مطالبے میں نے مان لیے تھے. سونیا کو ہم خانقاہ سے لینے کے لئے کھلنا گئے اس کے بعد جتنی بھی مشکلات سے گزرنا پڑا ان سب کی ذمہ دار سونیا تھی کراچی میں سونیا کی رہائش اور تعلیم کی ذمہ داری بھی میں نے تمہارے لیے اٹھائی ہے. گذشتہ دنوں تم نے سونیا کے ساتھ ہی کراچی میں رہنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں نے اس پر بھی تمہاری تائید میں پلان بنا لیا. لیکن راجہ کے موروثی جواہرات میں ایک حصہ بھی اس کے علم میں لائے بغیر میں تمہیں آگے پیچھے کرنے کی اجازت نہیں دوں گا. اس لیے تمہاری بہتری اسی میں ہے وہ تمام جواہرات میرے حوالے کر دو رانی نے جواہرات مجھے دینے میں پس وپیش سے کام لیتے ہوئے مجھے دلائل دینے شروع کیے. تو میں نے اسے وہی روک کر کہا. رانی صاحبہ ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں.جواہرات یا تو تمہارے کمرے میں ہیں یا تمہارے سامان میں یا تم مسز ڈیوڈ یا رضی کی بیوی کو دئیے ہیں تو تم نے بہت بڑی حماقت کی ہے. اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ تمام جواہرات میرے حوالے کر دو ورنہ میں اس کمرے کی تلاشی لو‌ں گا اور ہر چیز کو چیک کروں گا جہاں چھپائے جا سکتے ہیں چاہے وہ آپ کا جسم ہی کیوں نہ ہو رانی اب بخوبی جان چکی تھی کہ میں جو کہتا ہوں اس پر عمل بھی کر گزرتا ہوں. وہ صوفے پر سے اٹھی اور باتھ روم کی طرف گئی میں بھی اس کے پیچھے ہی چلا گیا اس نے فلش کے ٹینک کا ڈھکن اٹھایا. اور پانی سے تر بتر ایک چمڑے کی تھیلی نکل کر میرے حوالے کر دی میں رانی کی چالاکی پر حیران رہ گیا کہ ایسی جگہ چھپایا جہاں کسی کا دھیان بھی نہیں جا سکتا تھا رانی نے تھیلی مجھے دی اور باتھ سے باہر آ گئی میں بھی اس کے پیچھے دروازے تک آیا تو اچانک میرے ذہن میں بجلی سی کو دی میں دوبارہ واپس گیا اور ڈھکن اٹھا کر اندر ٹٹولنے لگا تو ایک اور تھیلی مجھے وہاں سے ملی. اب تو میں نے باتھ روم کے علاوہ کمرے کے بیڈ بستر تکیے قالین سب الٹ دئیے. میں نے رانی کے سوٹ کیسوں کی بھی تلاشی لی. ایک سوٹ کیس میں عورتوں کے خصوصی استعمال کے لیے زیر جامہ میں چھپائی ہوئی ایک تھیلی ملی جس میں بھی جواہرات تھے.
کمرے کی سب چیزوں کی اچھی طرح چھان پھٹک کے بعد میں ہاؤس کیپنگ کام کرنے والی عورتوں کو بلایا اور انہیں کہا کہ رانی کے جسم کی تلاشی لیں رانی نے اعتراض کیا تو میں نے دھمکی دی خیر ان عورتوں نے رانی کے جسم سے بندھی تین تھیلیاں نکال کر مجھے دیں رانی کا رنگ فق ہو چکا تھا میں ان عورتوں کو کمرے کا سامان درست کرنے کا کہہ کر میٹروپول ہوٹل چلا آیا اور مسز ڈیوڈ کے کمرے میں گیا جہاں سونیا بھی اس کے ساتھ ہی ٹھہری ہوئی تھی. میں نے سونیا اور مسز ڈیوڈ کے سوٹ کیسوں کی تلاشی لی.تو سونیا کے سوٹ کیس میں ایک ابھری ہوئی جگہ محسوس ہوئی. میں نے تہہ کا کپڑا کاٹا تو وہاں سے ایک جواہرات سے بھری ہوئی تھیلی برآمد ہوئی. تلاشی کا یہ کام مسز ڈیوڈ اور سونیا کی موجودگی میں ہوا. سونیا بڑے غور سے مجھے سوٹ کیسوں کی تلاشی لیتے دیکھ رہی تھی. وہ اتنی معصوم تھی کہ اس کے سوٹ کیس سے تھیلی برآمد ہوتے دیکھ کر انگلش میں بولی انکل ممی نے ایک ایسی ہی تھیلی میری کمر کے گرد بھی باندھ دی ہے. اور ایک تھیلی آنٹی مسز ڈیوڈ کو بھی دی ہے. سونیا کے اس راز افشاں کرنے پر میں مسکرا دیا. مسز ڈیوڈ کا چہرہ خوف کیوجہ سے پسینے سے بھیگ چکا تھا. سونیا نے اپنی کمر سے تھیلی کھول کر خود مجھے دی اور پھر مسز ڈیوڈ نے بھی ایک تھیلی اپنے سوٹ کیس سے نکال کر مجھے دے دی. میں نے رضی اور اسکی بیوی کو کرید کرید کر پوچھا مگر انہوں نے قسمیں اٹھائیں کہ رانی صاحبہ نے انہیں ایسی کوئی چیز نہیں دی. رانی کی چھپائی ہوئی آٹھ تھیلیاں اب میرے پاس تھیں. میں نے رضی اور قیصر کو کیا کہ میں انہیں لینے کے لیے ساڑھے چار بجے آؤں گا لہذا وہ مسلحہ حالت میں تیار رہیں. میں نے ایک پسٹل میگزین اور اس کی فالتو گولیاں بھی لے لیں. قیصر کے پاس راجہ کے باقی والے جواہرات تھے میں نے وہ 8 تھیلیاں بھی ان میں شامل کر دیں. مسز ڈیوڈ جو تھیلی برآمد ہونے کی وجہ سے اب مجھ سے نظریں ملا. ے سے کترا رہی تھی میں نے اسے کہا کہ وہ خود اور سونیا کو بھی ساڑھے چار بجے تک تیار ہو کر قیصر کے ساتھ میرا انتظار کرے. یہ کہہ کر میں واپس اپنے ہوٹل چلا آیا.
میں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے فیصلے چند لمحوں میں کیے اور ان سب میں اللہ پاک نے مجھے کامیابی سے ہمکنار کیا. آج بھی اک ایسا ہی مرحلہ درپیش تھا. اور میں نے فیصلہ کیا تھا کہ جس مشن پر راجہ تری نے مجھے بھیجا تھا. آج اس کا ڈراپ سین ہو ہی جائے. خوش اسلوبی سے یا گولیوں سے آج اس کو مکمل کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا. شام ٹھیک ساڑھے چار بجے میں قیصر رضی سونیا اور مسز ڈیوڈ کو قصر ناز کے سامنے جم خانہ کلب کے لاؤج میں بٹھا کر خود پیلس ہوٹل سے رانی اور اس کے بیٹے کو لینے چلا گیا. اور انہیں لے کر جم خانہ کلب چلا آیا. قارئین کو علم ہو گا جن کو نہیں اب ہو جائے گا کہ میٹروپول ہوٹل اور پیلس ہوٹل ( موجودہ شیرٹن ہوٹل)بمشکل ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں. اور دونوں کے درمیان جم خانہ کلب ہے. ٹھیک پانچ بجے میں نے جم خانہ کلب کے ریسیپشن سے راجہ کو فون کیا. سیکرٹری نے فوراً ہی ہمیں وہاں بلا لیا. میں رانی اور اس کے لڑکے کے ساتھ راجہ کے کمرے میں داخل ہوا. رانی نے آگے بڑھ کر اس کے قدم چھوے اور اس کا بیٹا تو اس کے قدموں میں لپٹ گیا. چند منٹ بیوی اور بیٹے سے باتیں کرنے کےبعد راجہ نے اپنےبیٹے کو سکرٹری کے کمرے میں بھیج دیا. اس کے جانے کے بعد راجہ نے مجھ سے پوچھا سونیا کہاں ہے. میں حیران ہوا کہ راجہ کو سونیا کے متعلق کیسے علم ہوا. مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ راجہ کو کیا جواب دوں. کمرے میں خاموشی طاری تھی راجہ نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا کہ رفیق السلام دو ماہ پہلے تک مجھ سے سونیا کی پرورش کے لیے خرچ لیتا رہا ہے.. میں بنگلہ دیش میں اپنے دوستوں کے ذریعے اس کے تمام مطالبات پورے کرتا رہا ہوں. یہ اچنبھے کا پہاڑ تھا جو رانی اور مجھ پر ٹوٹا میں نے راجہ کو کہا کہ رفیق کو تو میں جہنم واصل کر چکا ہوں. لیکن سونیا میرے ساتھ ہے. اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نہ تو اسے کسی بات کا علم ہے اور نہ ہی وہ آپ کی زندگی میں کبھی خلل ڈالے گی یا رکاوٹ بنے گی. راجہ مسلسل شراب پئے جا رہا تھا اس نے کن آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا کہ سونیا کو بلاؤ. میں کمرے سے باہر آیا اور جم خانہ کلب سے قیصر رضی مسز ڈیوڈ اور سونیا کو ساتھ لے کر قصر ناز کے ریسیپشن پر بٹھا دیا. اور قیصر اور رضی کو اسلحہ پر گرفت کا کہہ کر سونیا کو لے کر راجہ کے کمرے میں چلا آیا. راجہ مسلسل شراب پہ شراب کے جام چڑھا کر اپنی بیوی کی حماقت کیوجہ سے اپنی عزت کی دھجیاں اڑنے اور مجھے اس کا علم ہونے پر وہ اپنا غم چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا. سونیا نے اسے گڈ ایوننگ سر کہا. راجہ نے اسے اپنے قریب بلایا اور اسے پکڑ کر اس کے ماتھے کو چوما اور دو بار کاش کاش کہہ کر خاموش ہو گیا. انتہائی ضبط کے باوجود اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے. مجھے مخاطب کرتے ہوئے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا اگر میرے جواہرات یہاں ہوتے تو. لوہا گرم دیکھتے ہوئے میں نے بھی چوٹ مارنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ راجہ صاحب جواہرات یہی پر موجود ہیں اور ابھی آپکی خدمت میں پیش کرتا ہوں. میں فوری ریسیپشن پر آیا اور قیصر سے جواہرات والا سوٹ کیس لیا اور راجہ کے کمرے میں آ گیا. اور سوٹ کیس راجہ کے سامنے کھول دیا. یہ ایک ایسا جذباتی منظر تھا کہ جس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے قلم کی نوک اسے لکھنےسے قاصر ہے. راجہ نے سوٹ کیس میں پڑے جواہرات پر اچنبی سے نظر ڈالی پھر اپنی بیوی کو دیکھا پھر سونیا کو دیکھا پھر میری طرف دیکھ اس کی نگاہ مجھ پررک گئی. شاید بھری دنیا میں وہ مجھ اکیلے کو ہی اپنا ہمدرد سمجھ رہا تھا. اس نے مجھے کہا کہ ان جواہرات کے برابر چار حصے کرو. میں نے اپنی دانس میں جواہرات کا سائز اور مول کے مطابق میز پر چار ڈھیریاں کر دیں. راجہ نے ڈھیریاں دیکھتے ہوئے ان میں چند جواہر کو ردوبدل کیا. کیونکہ اسے جواہرات کی پہچان تھی. اس کے بعد راجہ صوفے پر نیم دراز ہو گیا. اور رانی کو مخاطب کرتے ہوئے بولا ایک ڈھیری تمہارے لیے ہے اور ایک سونیا کے لیے ہے. ان میں سے اپنی پسند کی دو ڈھیریاں اٹھا لو. باقی کی دو ڈھیریاں میرے اور میرے بیٹے کے لیے ہیں. پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولا تم نے دوستی کا حق ادا کر دیا. باقی کی دونوں ڈھیریوں سے جتنے چاہے جواہرات اٹھا لو. پھر بھی میں تمہارے احسان کا بدلہ نہ چکا سکوں گا. اور ایک آخری احسان مجھ پر اور کر دو سونیا ایک مسلمان کی بیٹی ہے اسے مسلمان کر کے کسی اچھے سے مسلمان گھرانے میں اسکی تعلیم اور پرورش کا انتظام کروا دو. میں نے کہا کہ رانی صاحبہ یہی چاہتی ہیں کہ وہ خود کراچی میں رہ کر سونیا کی پرورش کریں. یہی سب سے مناسب رہے گا میں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا. بھٹو نے مجھے جنوبی افریقہ میں سفیر مقرر کرنے کا وعدہ کیا ہے. اور میں صرف تمہاری واپسی کے انتظار میں تھا. جو حالات بیت چکے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے رانی کا اب میرے ساتھ رہنا ناممکن ہے. اس لیے تم ان کے لیے کراچی میں رہائش کا بندوبست کر دو. سونیا بھی اس کے ساتھ ہی رہے لیکن سونیا کو مسلمان ضرور کرنا. رانی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اس نے خاموشی سے دو ڈھیریاں اٹھائیں. رانی کے چھپاے ہوے جواہرات سے یہ تقریباً دوگنے تھے. رانی کے جواہرات میں نے باتھ روم سے ایک بڑا تولییہ لے کر اس میں باندھ کر رانی کے حوالے کیے. اور باقی جواہرات سوٹ کیس میں ڈال کر بند کرنے لگا تو راجہ بولا دوست تم نے اپنے لیے کچھ نہیں لیا. مجھے ضرورت نہیں ہے میرے لیے یہی کافی ہے کہ آپکی امانت آپ تک پہنچانے میں کامیاب ہوا ہوں. اور اللہ پاک نے مجھے سرخرو کیا ہے. راجہ نے روتی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا کہ تمہیں تو یہ بھی علم ہے کہ ہمارے ہاں سے کوئی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا. یہ کہتے ہوئے راجہ نے مٹھی میں جس قدر جواہرات آ سکے مجھے دینے چاہے. لیکن میں نے انکار کر دیا پھر اس کے بہت زور دینے پر ایک ٹکرا اٹھا لیا. راجہ نے پھر سونیا کو قریب بلا کر اسے پیار کیا. اور آنکھیں بند کر لیں. یہ ہمارے لیے جانے کا پیغام تھا. رانی سونیا اور میں راجہ کے کمرے سے باہر نکلے. تو میں سوچ رہا تھا کہ میں نے کسی غلط آدمی کے لیے جان جوکھم میں نہیں ڈالی تھی
جانباز کے حصہ اول کی آخری قسط میں تشنہ جواب واقعات پیش کرتا ہوں. راجہ تری سے یہ میری آخری ملاقات تھی. مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ بھٹو کے آخری دور حکومت کے ایام میں راجہ کو جنوبی امریکہ کے کسی ملک میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا تھا اس نے اپنے بیٹے کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ بھیج دیا تھا اور خود اس فرانسیسی عورت سے شادی کر لی تھی. اور کچھ ہی عرصہ بعد وہ راجہ کے بچھے کھچے جواہرات لے کر بھاگ گئی تھی. میں نے نرسری میں ایک بنگلہ کرایہ پرلے کر رانی سونیا مسز ڈیوڈ اور رضی کی بیوی کو وہاں شفٹ کر دیا سونیا کو ایک سادہ سی تقریب میں مشرف بااسلام کیا گیا. رانی کا چند ماہ کے بعد ہی انتقال ہو گیا. اس وقت میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بنکاک میں تھا. مسز ڈیوڈ نے فون پر مجھے رانی کی وفات کی خبر دی تھی. سونیا کو میں نے کراچی کے ایک سکول میں داخل کروا دیا تھا. سونیا جو اپنی ماں کے مرنے کے بعد اکیلی رہ گئی تھی مسز ڈیوڈ اور رضی کی بیوی نے اس کا پورا خیال رکھا.اور اسے ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی. سونیا نے شروع دن سے ہی اکیلے رہنے کی عادت کیوجہ سے ماں کے مرنے کو آسانی سے برداشت کر لیا. کراچی میں میرے ایک دوست نے سونیا کی دیکھ بھال اور خبر گیری کا ذمہ اٹھایا تھا. سونیا نے بی اے تک تعلیم حاصل کی تو میرے دوست نے اپنے بیٹے سے سونیا کی شادی کروا دی. ہم نے حتی الوسع کوشش کی کہ سونیا کے ماضی کا کسی کو علم نہ ہو سکے. آج کل سونیا ڈیفنس میں اپنے بہت ہی محبت کرنے والے شوہر اور اپنے تین بچوں کے ساتھ اپنے ذاتی بنگلے میں پرسکون زندگی گزار رہی ہے. میں کبھی کبھار اس سے ملنے چلا جاتا ہوں. مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں یاسیت چھا جاتی. کیونکہ اسے اپنا ماضی یاد آ جاتا تھا. سونیا نے شروع میں مجھے بتایا تھا کہ اس کے سسرال والوں نے بھی کبھی اس کے ماضی کو کریدنے کی کوشش نہیں کی. سونیا کے سسر اور اپنے دوست کو میں سونیا کے متعلق بہت پہلے ہی مختصر بتا چکا تھا اس نے اس راز کو راز رکھنے کا وعدہ کیا تھا. سونیا کے متعلق میرے دوست نے اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کو یہی بتایا تھا کہ یہ میرے ایک مشرقی پاکستانی دوست کی بیٹی ہے. جو سقوط ڈھاکہ کے وقت کھلنا میں تھے. اور وہاں سے زخمی حالت میں بڑی مشکل سے اپنی اور سونیا کی جان بچا کر کراچی پہنچا تھا. اور چند ہفتوں بعد ہی اس کا انتقال ہو گیا تھا. سونیا بلکل اکیلی رہ گئی تو اس نے سونیا کو اپنا لیا. اور اس کے جوان ہونے پر اپنے بیٹے سے اسکی شادی کر دی. میں جان بوجھ کر سونیا کا اسلامی نام تحریر نہیں کر رہا ہوں کیونکہ میں نے اسے گذشتہ ماہ بتایا تھا کہ کائنات اخبار میں اپنی داستان میں اس کا پورا واقعہ تحریر کروں گا. لیکن کوئی ایسا کلیو نہیں دوں گا کہ کوئی تم تک پہنچ سکے. پاکستان میں ہمارے قیام کے دوران سپنا بھی نرسری والے بنگلے میں رانی کے ساتھ رہی اور میں قیصر رضی میٹروپول ہوٹل میں رہے.
میرے پاس ڈھیروں روپیہ بھی تھا اور اپنے گھر جانے کی خواہش بھی تھی. لیکن گھریلو حالات کے پیش نظر گھر جانے سے ڈرتا بھی تھا. اسی سوچ وبچار میں چند روز گزر گئے. لیکن اپنی ماں اور اپنے بیٹے کی محبت میں مجبور ہو کر بالآخر چند روز کے لیے میں اپنے گھر چلا گیا. اپنے گاؤں کے قریبی سٹاپ پر ویگن سے اتر کر میں تانگے پر سوار ہوا. تو میرا دل خوشی سے اچھل رہا تھا جبکہ ٹانگیں کانپ رہی تھی. گاؤں پہنچا تو شام ڈھل رہی تھی. گھر کے قریب تانگہ روکا تو رشتہ دار اور گاؤں والے جمع ہو گئے. ان میں میرا بیٹا شجاع بھی تھا. اسوقت اسکی عمر چھے برس تھی. میں نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا. وہ سہمی سہمی نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا لاہور کراچی سے میں نے اتنی شاپنگ کی تھی کہ تین تانگوں میں سامان آ سکا تھا. میرے تایا زاد سب سے بڑے بھائی نے گھر داخل ہونے سے پہلے مجھے الگ کر کے کہا کہ صبر و تحمل سے کام لینا. اور میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں. اپنے بیٹے اور تایا زاد بھائی کے ساتھ میں گھر میں داخل ہوا. میرا گھر جو میری شادی سے پہلے جنت دکھائی دیتا تھا. اب اجاڑ اور ویرانی کا شکار تھا. گھر کے صحن میں جہاں پہلے مہکتے پھولوں کی کیاریاں ہوتی تھیں. پھل دار درخت اور درمیان میں فوارہ ہوتا تھا. وہاں اب ہر سو خود رو گھاس اور سوکھے پتے دکھائی دیتے تھے. میری والدہ ایک چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی. اور اچھے وقتوں کی ایک خادمہ پاؤں دبا رہی تھی. میں تو انہیں اچھا بھلا اور تندرست چھوڑ کر گیا تھا. لیکن اب وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی. میں اپنی والدہ کے قدموں میں بیٹھنے لگا تو اس نےاٹھ کر مجھے گلے سے لگا لیا. اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی. میرا تایا زاد قریبی چارپائی پر بیٹھ گیا. والدہ بار بار میرے ماتھے اور چہرے کو چوم رہی تھی. جب ان کا رونا کچھ تھما تو میں نے ان سے پوچھا کہ ان کی یہ کیا حالت ہو چکی ہے. تو والدہ نے کہا کہ کچھ بیمار رہی ہوں. اب ٹھیک ہو جاؤں گی. اسی دوران سارا سامان تانگوں سے اٹھا کر برآمدے میں رکھ دیا گیا تھا. میں نے اپنی بیوی کے متعلق پوچھا تو والدہ خاموش ہو گئیں. لیکن خادمہ پھٹ پڑی. اسی نے انکی یہ حالت بنا دی ہے. سارا دن گھر سے باہر رہتی ہے. اور جتنا وقت گھر میں رہتی ہے اماں جی کو کوستی اور لڑتی جھگڑتی رہتی ہے. خادمہ نے ہی مجھے بتایا کہ اس نے الگ چولہا بنا لیا ہے. میرے گھر میں جس کے 11 کمرے ہیں اور
میری ماں بیٹا اور بیوی تین افراد رہتے ہیں وہاں دو الگ الگ چولہے جلتے ہیں. خادمہ نے یہ بھی بتایا کہ اماں جی اپنی ضعیفی کیوجہ سے خود تو کچھ پکا نہیں سکتیں اور اس لیے مجھے جب ٹائم ملتا ہے میں ان کے لیے پرہیزی کھانے بنادیتی ہوں. ورنہ یا تو یہ بھوکی رہتی ہے یا پھر تایا زاد والوں سے کھانا آ جاتا ہے شجاع بھی گھریلو حالات کیوجہ سے ہر وقت سہما سہما سا رہتا ہے.
گاؤں میں میرے پہنچنے کی خبر فوراً پھیل گئی تھی جس کو سن کر میری بیوی معمول سے پہلے گھر واپس آ گئی. میں نے محسوس کیا کی میری بیوی کو میرا گھر آنا ناگوار گزرا ہے. کیونکہ وہ تو اس انتظار میں گھڑیاں گن رہی تھی کہ کب میری والدہ مرے اور وہ اپنے میکے والوں کے ساتھ گھر اور ہر چیز پر قابض ہو. میں جو گھر سے باہر دھاڑتا تھا اور دشمن کو مارتے وقت چوہے سے زیادہ اہمیت نہ دیتا تھا. اپنے گھر میں آ کر خود چوہا بن جاتا تھا. جسکی صرف اور صرف وجہ یہ تھی کہ میری والدہ اپنے پوتے یعنی میرے بیٹے شجاع سے بے پناہ محبت کرتی تھی. اس بار بھی میں نے گھر بیٹے اور والدہ کی حالت زار دیکھتے ہوئے کہا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں تاکہ آپکی اس عذاب مسلسل سے جان چھوٹ جائے. اور اس عورت کی مسلسل اور روز کی گویا زوئی سے گاؤں والے جو ہماری بہت زیادہ عزت کرتے تھے اب اپنی چھتوں پر چڑھ کر تماشا دیکھتے ہیں. لیکن میری والدہ نے میرے آگے ہاتھ جوڑ دئیے کہ ایسا نہ کرنا. میں شجاع کی جد

جب ہم تنہا ہوتے ہیں ناں ‏ تب ہمارے پاس دو راستے ہوتے ہیں  ایک نفس کی بات مان لیں یا پھر اللہ سوہنے کی ---!! 💗تنہائی میں ...
28/07/2025

جب ہم تنہا ہوتے ہیں ناں ‏ تب ہمارے پاس دو راستے ہوتے ہیں ایک نفس کی بات مان لیں یا پھر اللہ سوہنے کی ---!! 💗
تنہائی میں ہم گناہ بھی کر سکتے عبادت بھی---!!🥀
ہم تھوڑی دیر کی لذت بھی پاسکتے ہیں ذکر الٰہی سے سکون بھی ---!!
ہم اپنے گناہوں پہ توبہ کے آنسو بھی بہا سکتے ہیں اور محبتِ الٰہی میں بھی رو سکتے ہیں---!!

ہمیں لگتا ہے کہ ہم اکیلے ہیں مگر وہ جو ذات ہے ناں وہ تو سب دیکھ رہا ہے اس خالقِ کائنات کو پتہ ہے کون تنہائیوں کو گناہ سے بھر رہا اور کون نیکیوں سے کون اسکی ناراضگی مول لے رہا اور کون رضا مانگ رہا کون بارگاہِ الٰہی میں کھڑے ہونے سے ڈر رہا اور کون نہیں---!!
ایک بزرگ نے کیا خوب کہا---!!
اگر اپنا ایمان کا لیول چیک کرنا ہے تو اپنی تنہائیوں کو دیکھو کہ تم تنہائی میں کیا کر رہے ہو تنہائی پاک کر لو تو سوہنے ربّ تعالیٰ کی محبت و رضا پالو گے۔۔

`✦اسلام روحانیت کا نام✦`

28/07/2025

*السَّــــلَامُ علَيــْــكُمُ وَ رَحْمَــةُ اللّٰهِ وَبَرَكُاتــُـهُ.*
*🌹صلى الله عليه وسلم🌹*

تفسیر ابنِ کثیر
مفسر: مترجم: مولانا محمد جوناگڑہی

سورۃ نمبر 3 آل عمران
آیت نمبر 92

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

*لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ ۞*

> ترجمہ:
(مومنو!) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمھیں عزیز ہیں (راہِ خدا میں) صرف نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم صرف کرو گے خدا اس کو جانتا ہے

> تفسیر:
*سب سے زیادہ پیاری چیز اور صدقہ*
حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں بر سے مراد جنت ہے، یعنی اگر تم اپنی پسند کی چیزیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتے رہو گے تو تمہیں جنت ملے گی، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ مالدار صحابی تھے مسجد کے سامنے ہی بیئرحا نامی آپ کا ایک باغ تھا جس میں کبھی کبھی آنحضرت ﷺ بھی تشریف لے جایا کرتے تھے اور یہاں کا خوش ذائقہ پانی پیا کرتے تھے جب یہ آیت اتری تو حضرت ابو طلحہ ؓ بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ میرا تو سب سے زیادہ پیارا مال یہی باغ ہے میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کیا اللہ تعالیٰ مجھے بھلائی عطا فرمائے اور اپنے پاس اسے میرے لئے ذخیرہ کرے آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں اسے تقسیم کردیں آپ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے مسلمانوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا تم اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کردو چناچہ حضرت ابو طلحہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا، بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ بھی خدمت رسول ﷺ میں حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور ﷺ مجھے اپنے تمام مال میں سب سے زیاد مرغوب مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے میں اسے راہ اللہ دینا چاہتا ہوں فرمائیے کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا اسے وقف کردو اصل روک لو اور پھل وغیرہ راہ اللہ کردو۔ مسند ب**ز میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں میں نے اس آیت کی تلاوت کر کے سوچا تو مجھے کوئی چیز ایک کنیز سے زیادہ پیاری نہ تھی۔ میں نے اس لونڈی کو راہ للہ آزاد کردیا، اب تک بھی میرے دل میں اس کی ایسی محبت ہے کہ اگر کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے نام پردے کر پھر لوٹا لینا جائز ہو تو میں کم از کم اس سے نکاح کرلیتا۔

┄┅┅✪❂✵✵❂✪┅┅┄۔
*📖 ایک آیت دو منٹ⏱️*
┄┅┅✪❂✵✵❂✪┅┅┄۔
پڑھنے کے بعد تحریر پسند آئے تو اظہار خیال (react 👍) ضرور کریں تاکہ خدمت کرنے میں آسانی ہو۔ جزاکم اللہ خیرا۔۔۔۔

@احمرقانی
*واٹـســپ چـیــنـــل*
https://whatsapp.com/channel/0029VaD5VpYKLaHnn4OaWm3l
ᴾᵒᵗʰʷᵃʳ ᴷⁱ ᴬʷᵃᶻ
ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ
♡ ❍ ⌲

Address

Riyadh
12211

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pothwar Ki Awaz posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pothwar Ki Awaz:

Share