Hadi Malik

Hadi Malik 𝐇𝐞𝐚𝐫𝐭 𝐓𝐨𝐮𝐜𝐡𝐢𝐧𝐠 𝐒𝐭𝐨𝐫𝐢𝐞𝐬 𝐤 𝐥𝐲𝐞 (𝐯𝐢𝐝𝐞𝐨) 𝐬𝐞𝐜𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐞 𝐣𝐚𝐞𝐧 .... 𝐬𝐡𝐨𝐫𝐭𝐬 ( 𝐒𝐭𝐨𝐫𝐢𝐞𝐬 ) 𝐨𝐫 ( 𝐐𝐮𝐨𝐭𝐞𝐬 ) 𝐤 𝐥𝐲𝐞 𝐑𝐞𝐞𝐥𝐬 𝐬𝐞𝐜𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐞 𝐣𝐚𝐞𝐧
(5)

27/10/2025

بیٹیوں پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ خود ہی کہہ دیتی ہیں
میرا اب میکے جانے کو دل نہیں کرتا 😭

27/10/2025

بیٹیوں کا بوجھ بھاری ہوتا ہے _ شاید باپ کے سوا کوئی دوسرا اٹھا نہیں سکتا

26/10/2025

دوستو اپنا پیسہ خود پر خرچ کریں _ جتنا ہو سکے غریبوں کی مدد کریں

26/10/2025

دل کو چھو لینے والی ایک لڑکی اور اس کی ماں کی کہانی

26/10/2025

میں بیوی ہوں _ میں نے اپنی ضد اور انا کھو دی ہے کیونکہ میں اپنا گھر بسانا چاہتی ہوں

25/10/2025
25/10/2025

بھائیوں کا ساتھ زندگی کا سے بڑا سرمایہ ہے

#

ہم نے جب اپنے معاشرے میں آنکھ کھولی تو ایک خوبصورت جہالت کا سامنا ہوا ۔ ہمارا گاوں سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں س...
24/10/2025

ہم نے جب اپنے معاشرے میں آنکھ کھولی تو ایک خوبصورت جہالت کا سامنا ہوا ۔ ہمارا گاوں سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں سے تو محروم تھا لیکن اطمینان اس قدر تھا جیسے زندگی کی ہر سہولت ہمیں میسر ہو ۔ کائنات کی سب سے خوبصورت چیز جو میسر تھی وہ تھی محبت ۔ کوئی غیر نہیں تھا سب اپنے تھے ۔ نانیال کی طرف والے سب مامے، ماسیاں، نانے نانیاں ہوا کرتی تھیں ۔ ددیال کی طرف والے سارے چاچے چاچیاں، پھوپھیاں دادے دادیاں ہوا کرتی تھیں ۔۔

یہ تو جب ہمیں نیا شعور ملا تو معلوم پڑا کہ وہ تو ہمارے چاچے مامے نہ تھے بلکہ دوسری برادریوں کے لوگ تھے ۔
ہمارے بزرگ بڑے جاہل تھے کام ایک کا ہوتا تو سارے ملکر کرتے تھے ۔ جن کے پاس بیل ہوتے وہ خود آکر دوسروں کی زمین کاشت کرنا شروع کر دیتے ۔ گھاس کٹائی کے لیے گھر والوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ گھاس کاٹنے والے خود پیغام بھیجتے کہ ہم فلاں دن آ رہے ہیں ۔ پاگل تھے گھاس کٹائی پر ڈھول بجاتے اور اپنی پوری طاقت لگا دیتے جیسے انہیں کوئی انعام ملنے والا ہو ۔ جب کوئی گھر بناتا تو جنگل سے کئی من وزنی لکڑ دشوار راستوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا کے لاتے پھر کئی ٹن مٹی چھت پر ڈالتے اور شام کو گھی شکر کے مزے لوٹ کر گھروں کو لوٹ جاتے ۔

جب کسی کی شادی ہو تو دولہے کو تو مہندی لگی ہی ہوتی تھی باقی گھر والے بھی جیسے مہندی لگائے ہوں کیونکہ باقی جاہل خود آکر کام کرنا شروع کر دیتے ۔ اتنے پاگل تھے کہ اگر کسی سے شادی کی دوستی کر لیں تو اسے ایسے نبھاتے جیسے سسی نے کچے گڑھے پر دریا میں چھلانگ لگا کر نبھائی ۔۔
مک کوٹائی( مکئی) ایسے ایک ایک دانہ صاف کرتے جیسے کوئی دوشیزہ اپنے بال سنوارے ۔

کتنے پاگل تھے کنک (گندم) گوائی پر تپتی دھوپ میں بیلوں کے ساتھ ایسے چکر کاٹتے جیسے کوئی سزا بھگت رہے ہوں ۔
اگر کوئی ایک فوت ہو جاتا یا جاتی تو دھاڑیں مار مار کر سب ایسے روتے کہ پہچان ہی نہ ہو پاتی کہ کس کا کون مرا ۔۔
دوسرے کے بچوں کی خوشی ایسے مناتے جیسے انکی اپنی اولاد ہو ۔۔
اتنے جاہل تھے کہ جرم اور مقدموں سے بھی واقف نہ تھے ۔
لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اب نئی جنریشن کا دور تھا کچھ پڑھی لکھی باشعور جنریشن کا دور جس نے یہ سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا کہ ہم بیشک سارے انسان ہوں بیشک سب مسلمان بھی ہوں لیکن ہم میں کچھ فرق ہے جو باقی رہنا ضروری ہے ۔

وہ فرق برادری کا فرق ہے قبیلے کا فرق ہے رنگ نسل کا فرق ہے ۔
اب انسان کی پہچان انسان نہ تھی برداری تھی قبیلہ تھا پھر قبیلوں میں بھی ٹبر تھا ۔
اب ہر ایک ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میرا مرتبہ بلند ہے اور میری حثیت امتیازی ہے ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ دوسرے کو کم تر کہے اور سمجھے ۔ اب ہر کوئی دست و گریباں تھا اور جو کوئی اس دوڑ میں شامل نہ ہوا تو وہ زمانے کا بزدل اور گھٹیا انسان ٹھہرا ۔
اب گھر تو کچھ پکے اور اور بڑے تھے لیکن پھر بھی تنگ ہونا شروع ہو گے ۔ وہ زمینیں جو ایک دوسرے کو قریب کرتی تھیں جن کا پیٹ چیر کر غلہ اگتا تھا جس کی خوشبو سے لطف لیا جاتا تھا اب نفرت کی بنیاد بن چکی تھیں ۔
شعور جو آیا تھا اب ہر ایک کو پٹواری تحصیلدار تک رسائی ہو چلی تھی اور پھر اوپر سے نظام وہ جس کا پیٹ بھرنے کو ایک دوسرے سے لڑنا ضروری تھا ۔

اب نفرتیں ہر دہلیز پر پہنچ چکی تھیں ہم اپنی وہ متاع جسے محبت کہتے ہیں وہ گنوا چکے تھے ۔ اب انسانیت اور مسلمانیت کا سبق تو زہر لگنے لگا تھا اب تو خدا بھی ناراض ہو چکا تھا ۔
پھر نفرتیں اپنے انجام کو بڑھیں انسان انسان کے قتل پر آمادہ ہو چلا تھا ۔ برتری کے نشے میں ہم گھروں کا سکون تباہ کر چکے تھے ہم بھول چکے تھے کہ کائنات کی سب سے بڑی برتری تو اخلاقی برتری ہوتی ہے ۔
اب اخلاق سے ہمارا تعلق صرف اتنا رہ چکا تھا کہ صرف ہمارے گاوں کے دو بندوں کا نام اخلاق تھا لیکن ہم نے ان کو بھی اخلاق کہنا گوارہ نہ کیا ایک کو خاقی اور دوسرے کو منا بنا دیا ۔۔۔
اب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے کی وجہیں ڈھونڈنے میں لگے تھے ۔ پھر قدرت نے بھی معاف نہ کیا اس نے بھی ہمیں موقع دے دیا ۔

مار دھاڑ سے جب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے میں ناکام ہوئے تو بات قتل پر آ گئی ۔ اب ایک تسلسل سے یہ عمل جاری ہے ۔ اب تو ہم اخباروں اور ٹی وی کی زینت بھی بن گے ۔ اب شاید ہی کوئی ایسا دن ہو گا جس دن عدالتوں میں ہمارے گاؤں کا کوئی فرد کھڑا نہ ہو ۔
ایف آئی آر اتنی ہو چکی کہ اب ڈھونڈنا پڑتا ہیکہ کیا ہمارے گاؤں کا کوئی ایسا فرد بھی ہے جس پر کوئی کیس نہ ہو ۔
اب ان جاہل بزرگوں میں سے کم ہی زندہ ہیں جو زندہ ہیں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ان میں سے اگر کوئی مرتا ہے تو دوسرا اس کا منہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہے لیکن ہم باشعور لوگ اسے یہ جاہلانہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ اس سے ہماری توہین کا خدشہ درپیش ہے ۔۔

ان نفرتوں نے صرف انسان ہی نہیں پانی ، سکول اور مسجدیں بھی تقسیم کر دیں۔ اب تو اللہ کے گھر بھی اللہ کے گھر نہیں رہے ۔
ہر کوئی اندر سے ٹوٹ چکا ہے لیکن پھر بھی بضد ہے ۔ وہ نفرت کا اعلاج نفرت سے ہی کرنا چاہتا ہے ۔ اب محبت کا پیغام برادری قبیلے سے غداری سمجھا جاتا ہے ۔ اب دعا بھی صرف دعا خیر ہوتی ہے دعا خیر کا ایک عجب مفہوم نکال رکھاہے ۔ ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کر کے اس کیساتھ مکمل بائیکاٹ کا نام دعا خیر رکھ دیا گیا ہے ۔
لیکن ۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ؟

کیا ہی اچھا ہو اگر ہم آج بھی سنبھل جائیں اپنے اندر کی ساری نفرتیں مٹا کر دوسرے کے حق میں دعا کرنے کی کڑوی گولی کھا لیں ۔ پھر ممکن ہے اللہ بھی معاف فرما دے اور ہم اس نفرت کی آگ سے نکل آئیں تاکہ کوئی بچہ یتیم نہ ہو کسی اور کا سہاگ نہ اجڑے کسی اور کی گود خالی نہ ہو ۔ تاکہ ہم زندگی جیسی قیمتی نعمت کو جی سکیں اس کائنات کے حسن سے لطف اندوز ہو سکیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کر سکیں کہ وہ شعور ، عمل و کردار کی ان بلندیوں پر جائیں کہ وہ خوبصورت جہالت پھر لوٹ آئے جس نے انسانوں کو اعلی اخلاق کے درجے پر کھڑا کر رکھا تھا.

پہلے تعلیم حاصل کی جاتی تھی جو عملاََ نظر آتی تھی پھر ہم نے ترقی کر لی اور ڈگریاں لینے لگے پر تعلیم کہیں گم گئی۔۔۔!!!
پہلے ماں کی نظریں بتا دیتی تھی کہ غلطی کر رہے ہیں اور سزا ملے گی پھر ہم نے ترقی کر لی اور ماں موم(Mom) بن گئیں اتنی موم ہو گئی کہ اچھے برے کا فرق بتانے کے لیے سختی کرنا بھول گئیں۔۔۔!!!
پہلے شام ہوتے ہی ابو کے آنے کا انتظار ہوتا تھا پھر ہم نے ترقی کر لی اور ابو ڈیڈ(Dad)بن گے اور جنریشن گیپ کے نام پہ یہ رشتہ ہی ڈیڈ(Dead) ہو گیا۔۔۔!!!
پہلے پھوپھو کے انے پہ بہترین بستر بہترین برتن نکالے جاتے تھے بتایا جاتا تھا یہ ابو کی بہن ہین تو یہ گھر ان کا بھی ہے پھر ہم نے ترقی کر لی اور پتہ چلا پھوپھو فساد اور فتنہ ہے۔۔۔!!!

پہلے محلہ کے لوگوں میں آنا جانا تھا روز حثیت کے مطابق کھانا پھل ایک دوسرے کو دیے جاتے تھے پھر ہم نے ترقی کر لی اور پڑوسی بھوک سے خودکشی کرنے لگے بچے بیچنے لگے۔۔۔!!!
پہلے عید اور دیگر تہوار ماں باپ اور خاندان میں گزرتے تھے پھر ہم نے ترقی کر لی اور عید تہوار دوستوں بازاروں میں گزرنے لگے۔۔۔!!!
پہلے شادی بیاہ کے معاملات خاندان کے بڑے طے کرتے تھے پھر ہم نے ترقی کر لی اور پسند کی شادی کے لیے گھر سے بھاگنے لگے۔۔۔!!!

پہلے شادی شدہ بیٹی کو صبر اور خدمت کی تلقین کی جاتی تھی پھر ہم نے ترقی کر لی اور برانڈڈ سوٹ اور سمارٹ فون افورڈ نہ کرنے والے شوہر سے علیحدگی ہو سکتی ہے۔۔۔!!!

پہلے شوہر سے جھگڑا کرنے والی بیوی رات کو شوہر کی واپسی تک جھگڑا بھول چکی ہوتی تھی پھر ہم نے ترقی کر لی اور چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی خبریں واٹسآیپ گروپز مہں شیئر ہونے لگی اور جھگڑے طول پکڑگئے۔۔۔!!!
پہلے شادی سے پہلے منگیتر سے ملنا غلط تھا پھر ہم نے ترقی کر لی اور انڈرسٹینڈنگ کے لیے بات ہونے لگی۔۔۔!!!
پہلے گھر میں بھی پردہ کرنا سیکھایا جاتا تھا پھر ہم نے ترقی کر لی اور سب کزنز ہو گے....!!!

پہلےپردے لیے چادریں اور برقعے ہوتے تھے پھر ہم نے ترقی کر لی اور پردہ نظروں میں اگیا۔۔۔!!!
پہلے مرد کی وجاہت داڑھی میں ہوتی تھی پھر ہم نے ترقی کر لی اور داڑھی کو مذاق بنا دیا۔۔۔!!!

پہلے بزرگ گھر کی رونق ہوتے تھے پھر ہم نے ترقی کر لی اور وہ بوجھ بن گئے۔۔۔!!!!
اور پھر ہوا یوں کہ ہم نے ترقی کر لی۔۔۔۔🍁🤍

23/10/2025

عورت کا اپنا نصیب اس کا اپنا مقدر

23/10/2025

مرد کی قربانیاں

22/10/2025

اکثر عورتیں اپنی زبان کی وجہ سے اپنا گھر برباد کر دیتی ہیں

Address

Riyadh
SAUDIARABIA

Telephone

+966597201412

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hadi Malik posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share