18/10/2025
پاکستانی شہید سپاہیوں کو ننگا کر کے گھسیٹنے والے افغانی بہادر کیا پاک افغان بارڈر گیٹوں پر مجبور پڑے افغانیوں کا حال پوچھیں گے؟
کہاں تھا ناں کہ افغان سائیڈ سے جو کچھ کیا گیا یا کرنے کا ارادہ ہے، اس کا منفی اثر سب سے زیادہ افغانستان پر ہو گا اور یہاں پاکستان میں موجود لاکھوں افغانوں پر ہو گا۔ یہ افغانستان سائیڈ کا طورخم بارڈر کلِپ ہے, صرف ایک طورخم پوائنٹ پر دس ہزار سیب کے کنٹینر کھڑے ہیں اور لاتعداد افغانی دونوں اطراف بیٹھے ہیں۔ بڑی تعداد میں مریض پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں علاج کے لیے بیٹھے ہیں؛ حالیہ افغان سائیڈ کے حملوں کے بعد تکلیف کی صورت میں نتائج بھگت رہے ہیں۔ ایسے حالات تمام پاک افغان بارڈر گیٹس پر ہیں۔ کسی بھی ملک کے چیک پوسٹ پر موجود سپاہی کو مار کر ان کے کپڑے اتار کر گھسیٹنا بہت آسان ہے۔ سرکاری طور پر ان شہداء کی شلواریں کابل کی سڑکوں پر ریلی کی صورت میں لہرانا بھی کوئی مشکل کام نہیں، لیکن اس کے نتائج کتنے سنگین ہوتے ہیں اس کا ادراک کرتے ہوئے ممالک ایک دوسرے پر حملے نہیں کرتے۔ خاص کر افغانستان جیسا ملک جس کا سارا بوجھ پاکستان اٹھا رہا ہے, ان کی جنگوں سے لے کر مہاجرین، صحت، تعلیم، سفارتی دفاع، مقامی و قومی تجارت تک سب کچھ پاکستان پر انحصار کرتا ہے؛ یہاں تک کہ بھارت کے ساتھ بھی افغانستان کی کئی بلین ڈالر تجارت پاکستان کے راستے بارڈر تھرو جاتی ہے۔ میں تو حیران ہوں بظاہر سنجیدہ دکھنے والے افغان طالبان حکمرانوں سے کہ یہ بلنڈر کیسے سرزد ہوا؟ کیسے اتنا اوپن جا کر بھارت میں پاکستان کے خلاف سخت لہجہ اپنا سکتے ہیں اور آپ وہاں موجود ہیں اور یہاں حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ کیسے؟ مطلب کیسے؟
یہ کوئی نادانی نہیں، بلکہ جرم ہے، اور میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ افغان حکومت ہم سے زیادہ ان افغانیوں کی مجرم ٹھہرتی ہے جو آج پاکستان کے مختلف گیٹس پر اپنے بھاری بھرکم مسائل لے کر یہ امید لیے کھڑے ہیں کہ کب راستہ کھلے تاکہ وہ پاکستان کے اندر جا کر اپنے مسائل حل کر کے واپس آ جائیں۔
نوٹ: ہم پاکستانیوں کے دل بہت نرم اور ذہن وسیع ہیں کہ اب بھی مسائل میں گِھرے ہوئے افغانیوں کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالیہ کاروائیوں کے بعد ایک دوسرے پر دل اور بارڈر کے دروازے بند کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ رب کریم دونوں ممالک کا حامی و ناصر ہو۔