Pakistan Heritage

Pakistan Heritage Pakistan Heritage: Celebrating the rich cultural and historical legacy of Pakistan.

Discover ancient civilizations, iconic landmarks, and the diverse beauty of our nation. Join us in preserving and exploring the timeless treasures of Pakistan's heritage.

07/12/2025

درگاہ حضرت شیخ محمد یحییٰ گیلانی المعروف یحییٰ باخبر — ملتان کی روحانی شناخت

یہ ملتان کے عظیم ترین اولیاء میں سے ایک کی درگاہ ہے، جو شہر کی قدیم ترین روحانی شناختوں میں شامل ہے۔

---

اصل نام اور نسب

مکمل نام: حضرت شیخ ابو محمد یحییٰ بن محمد بن احمد بن العباس الگیلانی

لقب: یحییٰ باخبر، شیخ یحییٰ گیلانی، حضرت یحییٰ صاحب

سلسلہ: قادری (حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے)

نسب نامہ: شیخ عبدالقادر جیلانی → سید عبدالرزاق جیلانی → سید محمد (یزدان بخش) → حضرت شیخ یحییٰ باخبر

---

پیدائش اور ابتدائی زندگی

پیدائش: تقریباً 590 ہجری (1194ء) بغداد

بچپن سے کمالِ علم و معرفت اور کرامات کے مشہور

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے پیش گوئی کی: "یہ میرا پوتا ملتان جائے گا اور وہاں میرا جانشین ہوگا۔"

---

ملتان آمد (618 ہجری / 1221ء)

28 سال کی عمر میں بغداد سے ملتان تشریف لائے

اس وقت ملتان پر اسماعیلی شیعہ (قرامطہ) کا غلبہ، سنی مسلمان مشکلات میں

قلعہ کے دروازے پر دستک دی، دروازہ خود بخود کھل گیا

شہر کے سارے اسماعیلی حاکم آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے سنی ہو گئے

---

ملتان میں قیام اور خدمات

شہر کو "بغدادِ ثانی" بنایا

خانقاہ قائم کی، لنگر شروع کیا، علومِ ظاہری و باطنی کی تعلیم دی

مریدین میں بادشاہ، امراء، علماء اور عام لوگ شامل

کرامات کے چرچے دور دور تک پھیلے، اس لیے "یحییٰ باخبر" کہلائے

---

وصال اور مزار

وفات: 15 رجب 685 ہجری / 16 ستمبر 1286ء (عمر تقریباً 95 سال)

مدفن: ملتان شہر کے اندر (موجودہ درگاہ چوک کے قریب)

ابتدائی مزار سادہ، بعد میں توسیع ہوتی رہی

---

تاریخی توسیع

دور اہم کام اور توسیع

سلطنت دہلی علاؤالدین خلجی اور غیاث الدین تغلق نے مرمت کروائی
تیموری دور شاہ رخ میرزا نے گنبد اور مسجد بنوائی
مغلیہ دور ہمایوں، اکبر، جہانگیر اور شاہجہان نے توسیع کی، سونے چاندی کا کام ہوا
صدیقی خاندان کئی صدیوں تک خدامتِ درگاہ کی (اب بھی سجادہ نشین ہیں)
برطانوی دور 1900ء میں بڑی مرمت، موجودہ سفید سنگ مرمر کا گنبد اسی دور کا ہے
پاکستان 1960ء اور 1990ء میں پنجاب اوقاف نے توسیع، لنگر خانہ، مسجد، لائبریری شامل

---

موجودہ کمپلیکس

رقبہ: تقریباً 12 ایکڑ

اہم عمارتیں: مرکزی گنبد، جامع مسجد، لنگر خانہ، خانقاہ، لائبریری، میوزیم

روزانہ لنگر: 10,000–20,000 افراد

عرس مبارک: ہر سال 14–16 رجب

انتظام: پنجاب اوقاف ڈیپارٹمنٹ اور صدیقی خاندان

---

مشہور کرامات

1. ملتان قلعہ کا دروازہ خود کھلنا

2. دریائے چناب کا پانی روکنا

3. لنگر کے برتن خود بھرنا

4. شہر میں طاعون ختم کرنا

---

ملتان میں مقام اور اہمیت

شہرِ اولیاء کا سب سے بڑا ولی

حضرت بہاؤالدین زکریا کے بعد ملتان کی سب سے بڑی درگاہ

شہر کے لوگ کہتے ہیں:
"ملتان دا ولی یحییٰ، باقی سارے ولی دے پئی"

آج بھی ہر جمعرات قوالیاں، لنگر، اور عقیدت کی زبردست فضاء برقرار ہے۔

حضرت شیخ یحییٰ باخبرؒ دی ملتان تے رحمت ہوئے!



---

⚠️ Disclaimer:
Pakistan Heritage کسی مذہبی عقیدے، مسلکی نظریے یا روحانی رجحان کو فروغ نہیں دیتا۔ ہمارا مقصد صرف پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور قدیم ورثے کو اجاگر کرنا ہے تاکہ عوام کو اپنے ماضی اور تہذیب سے آگاہی حاصل ہو۔

داتا دربار لاہور — روحانیت اور تاریخ کا سنگمداتا دربار (باضابطہ نام: مزار حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ) ل...
07/12/2025

داتا دربار لاہور — روحانیت اور تاریخ کا سنگم

داتا دربار (باضابطہ نام: مزار حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ) لاہور کا سب سے بڑا اور قدیم صوفی مزار ہے۔ یہ حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش (وفات 465 ہجری/1072ء یا 1077ء) کا مزار ہے، جو گیارہویں صدی میں غزنی سے لاہور آئے اور یہیں وفات پائی۔

---

اہم تاریخی مراحل

1. داتا صاحب کا دورِ حیات (1009ء–1072/1077ء)

اصل نام: سید علی بن عثمان الہجویری الجلابی

پیدائش: غزنی

تعلیم: بغداد، نیشاپور

مشہور تصنیف: "کشف المحجوب"

لاہور آمد: سلطان مسعود غزنوی کے دور میں

لقب "داتا گنج بخش": لوگوں کو روحانی و مادی طور پر "گنج" دینے کی وجہ سے

2. ابتدائی مزار اور پہلا گنبد

وفات کے فوراً بعد مزار پر فاتحہ خوانی شروع

پہلا گنبد: سلطان زین العابدین غزنوی

مغل دور میں مرمت اور توسیع

3. مغلیہ دور میں توسیع

جہانگیر و شاہجہان کے دور میں عمارت کو خوبصورت بنایا گیا

مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بھی چاندی کا دروازہ اور سونے کا کام کروایا

4. برطانوی دور اور جدید توسیع

1930ء: عوامی چندوں سے بڑی توسیع

1960ء: ایوب خان کے دور میں جدید عمارت

1980ء: ضیاء الحق کے دور میں مزید توسیع، مسجد، لنگر خانہ، لائبریری، پارکنگ

5. موجودہ کمپلیکس

رقبہ: تقریباً 60 ایکڑ

روزانہ لنگر: 50,000–100,000 افراد

عرس مبارک: تین روزہ، 18–20 صفر

انتظام: پنجاب اوقاف و مذہبی امور ڈیپارٹمنٹ

---

اہم واقعات اور حملے

23 مئی 2000ء: خودکش حملہ، 10 شہید

1 جولائی 2010ء: دو خودکش دھماکے، 42 شہید، 175 زخمی

---

خاص باتیں

لاہور کا سب سے بڑا لنگر

تمام مکاتبِ فکر کے لوگ یہاں آتے ہیں

پنجاب پولیس کا ہیڈکوارٹر قریب

"داتا دی نگری" کہلانے کی ایک بڑی وجہ

---

داتا دربار نہ صرف روحانی مرکز ہے بلکہ لاہور کی ثقافتی اور تاریخی شناخت کا اہم حصہ ہے۔ ہر شخص یہاں عقیدت کے ساتھ سر جھکاتا ہے۔



---

⚠️ Disclaimer:
Pakistan Heritage کسی مذہبی عقیدے، مسلکی نظریے یا روحانی رجحان کو فروغ نہیں دیتا۔ ہمارا مقصد صرف پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور قدیم ورثے کو اجاگر کرنا ہے تاکہ عوام کو اپنے ماضی اور تہذیب سے آگاہی حاصل ہو۔

انارکلی بازار میں قدیم ترین مندر کی عمارت — فرنٹ ویولاہور کے مشہور انارکلی بازار میں ایک قدیم ترین ہندو مندر کی عمارت آج...
07/12/2025

انارکلی بازار میں قدیم ترین مندر کی عمارت — فرنٹ ویو

لاہور کے مشہور انارکلی بازار میں ایک قدیم ترین ہندو مندر کی عمارت آج بھی موجود ہے، جو شہر کی متنوع ثقافتی اور مذہبی تاریخ کی عکاسی کرتی ہے۔

---

تاریخی پس منظر

یہ مندر لاہور کے سب سے پرانے ہندو عبادت گاہوں میں شمار ہوتا ہے۔

انارکلی بازار کے تجارتی ماحول کے درمیان یہ عمارت ماضی کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو ظاہر کرتی ہے۔

مندر کی اصل تعمیرات میں سنگ مرمر، لکڑی اور اینٹوں کا استعمال ہوا، جو اس دور کے فن تعمیر کی علامت ہے۔

---

عمارت کا فرنٹ

عمارت کے فرنٹ حصہ میں مرکزی دروازہ اور چھوٹے محراب نما کھڑکیاں ہیں۔

فرش اور داخلی راستے پر قدیم سنگ مرمر کی فرش بندی آج بھی جزوی طور پر محفوظ ہے۔

عمارت کے سامنے کی جگہ، جو کبھی عبادت اور اجتماعات کے لیے استعمال ہوتی تھی، اب زیادہ تر تجارتی سرگرمیوں اور بازار کی رونق میں بدل چکی ہے۔

---

موجودہ حالت

وقت، شہر کی ترقی اور غیر قانونی تعمیرات نے عمارت کے فرنٹ کی اصل حالت کو متاثر کیا ہے۔

بعض حصے تو مکمل طور پر ملبے میں تبدیل ہو چکے ہیں، مگر مرکزی دروازہ اور کچھ نقش و نگار اب بھی محفوظ ہیں۔

یہ عمارت لاہور کی متنوع تہذیب اور قدیم ثقافتی ورثے کی ایک زندہ مثال ہے، جس کی حفاظت نہ ہونا تاریخی نقصان ہے۔

---

اہمیت اور تحفظ

انارکلی بازار میں موجود یہ مندر لاہور کی قدیم ثقافتی تاریخ اور مذہبی روایات کا ایک اہم حصہ ہے۔

فوری طور پر مرمت اور تاریخی تحفظ کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلیں اس تاریخی یادگار کو دیکھ سکیں۔

---



---

⚠️ Disclaimer:
Pakistan Heritage کسی مذہبی عقیدے، مسلکی نظریے یا روحانی رجحان کو فروغ نہیں دیتا۔ ہمارا مقصد صرف پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور قدیم ورثے کو اجاگر کرنا ہے تاکہ عوام کو اپنے ماضی اور تہذیب سے آگاہی حاصل ہو۔

مسجد وزیر خان کے پچھلے علاقے میں تباہ ہوتا قدیم ورثہ — لاہور کی المیہ حقیقتلاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان صرف اپنی شاندار...
07/12/2025

مسجد وزیر خان کے پچھلے علاقے میں تباہ ہوتا قدیم ورثہ — لاہور کی المیہ حقیقت

لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان صرف اپنی شاندار تعمیراتی خوبصورتی کے لیے نہیں مشہور، بلکہ اس کے اردگرد کے علاقے میں موجود قدیم تاریخی عمارتیں اور احاطے بھی شہر کی قدیم شناخت کی نمائندگی کرتے ہیں۔

---

المیہ صورتحال

مسجد کے پچھلے علاقے میں موجود یہ قدیم عمارتیں:

وقت کے ساتھ غیر مناسب دیکھ بھال کی وجہ سے شدید نقصان کا شکار ہو گئی ہیں۔

نئی تعمیرات اور تجارتی سرگرمیوں کی غرض سے قدیم عمارتیں گرائی گئی ہیں اور اب وہ صرف مٹی کا ڈھیر بن چکی ہیں۔

تاریخی فن تعمیر، محل نما احاطے اور قدیم گلیوں کا حسن تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

یہ المیہ لاہور کے قدیم ورثے کی حفاظت میں ناکامی اور شہری ترقی کی غیراہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔

---

اہمیت

یہ عمارتیں صرف ایک جگہ کی تعمیر نہیں، بلکہ مغل دور کے شہری منصوبہ بندی، فن تعمیر اور تاریخی ماحول کی زندہ مثال تھیں۔

مسجد وزیر خان اور اس کے اردگرد کے قدیم احاطے لاہور کی تاریخ، ثقافت اور مغل دور کی یادگاریں ہیں۔

---

بحالی اور تحفظ کی ضرورت

فوری طور پر مرمت اور تحفظ کے اقدامات کیے جائیں۔

نئے منصوبوں اور تجاوزات کو روک کر قدیم عمارتوں اور گلیوں کی اصل حالت کو بچانا لازمی ہے۔

ورثے کی حفاظت نہ ہونے کی صورت میں یہ تاریخی شناخت ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جائے گی۔

---



---

⚠️ Disclaimer:
Pakistan Heritage کسی مذہبی عقیدے، مسلکی نظریے یا روحانی رجحان کو فروغ نہیں دیتا۔ ہمارا مقصد صرف پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور قدیم ورثے کو اجاگر کرنا ہے تاکہ عوام کو اپنے ماضی اور تہذیب سے آگاہی حاصل ہو۔

قطب الدین ایبک کا مقبرہ — لاہور کی سب سے قدیم اسلامی یادگارقطب الدین ایبک… برصغیر کا پہلا مسلمان سلطان، عدل کا پیکر، اور...
07/12/2025

قطب الدین ایبک کا مقبرہ — لاہور کی سب سے قدیم اسلامی یادگار

قطب الدین ایبک… برصغیر کا پہلا مسلمان سلطان، عدل کا پیکر، اور دہلی سلطنت کا بانی۔
1210ء میں جب وہ لاہور میں چوگان (پولو) کھیل رہے تھے تو ایک گھوڑے کی لغزش نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ شدید زخموں کے باعث وہ اسی دن دنیا سے رخصت ہو گئے—اور یوں لاہور ہی ان کا آخری آرام گاہ بن گیا۔

---

لاشوں سے آباد شہر کے دل میں ایک خاموش قبر

انارکلی بازار کے قریب قبرستان شیخوپوریاں میں واقع یہ مقبرہ لاہور کی اُن چند یادگاروں میں سے ہے جو آج بھی برصغیر کی ابتدائی اسلامی تاریخ کی گواہی دیتی ہیں۔
یہ وہی جگہ ہے جہاں ان کے جسد خاکی کو سپردِ خاک کیا گیا تھا—سادہ سی اینٹوں کی قبر، جسے بعد میں مغلیہ دور میں مرمت کیا گیا، اور پھر وقتاً فوقتاً اس کی کچھ بحالی ہوتی رہی۔

گنبد نما چھوٹا سا کمرہ… اندر خاموشی… باہر وقت کی گرد…
یہ مقام ہمیں بتاتا ہے کہ طاقت کے تخت کتنے بڑے ہوں، آخر آرام ایک چھوٹی سی مٹی کی قبر ہی ہے۔

---

تاریخی اہمیت

برصغیر کے پہلے مسلمان سلطان کی آخری آرام گاہ

دہلی سلطنت (320 سال) کے بانی کی قبر

لاہور کی قدیم ترین اسلامی تاریخ کا روشن باب

وہ جگہ جہاں غلام خاندان کی سیاسی تاریخ کی بنیاد رکھی گئی

یہ قبر صرف ایک حکمران کی یاد نہیں—یہ برصغیر کے سیاسی، تہذیبی اور اسلامی سفر کا پہلا پڑاؤ ہے۔

---

آج کی حالت — ایک خاموش فریاد

وقت اور بے توجہی نے اس تاریخی مقام سے اس کی اصل شناخت چھین لی ہے۔
اردگرد کی تعمیرات اور بے ربط ترقی نے اس کے حسن کو ماند کر دیا ہے، مگر پھر بھی اس قبر میں وہی عظمت باقی ہے جو 800 سال پرانے حکمران کی بلند شان کو بیان کرتی ہے۔

اگر اس مقبرے کی درست بحالی ہو تو یہ لاہور کے سب سے بڑے تاریخی ورثے میں شامل ہو سکتا ہے۔

---



---

⚠️ Disclaimer:
Pakistan Heritage کسی مذہبی عقیدے، مسلکی نظریے یا روحانی رجحان کو فروغ نہیں دیتا۔ ہمارا مقصد صرف پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور قدیم ورثے کو اجاگر کرنا ہے تاکہ عوام کو اپنے ماضی اور تہذیب سے آگاہی حاصل ہو۔

دیوان ساون مل کی سمادھی — ملتان کا بھولا ہوا تاریخی ورثہدیوان ساون مل (Sawan Mal Chopra) دورِ سکھ سلطنت کے ایک نامور حکم...
07/12/2025

دیوان ساون مل کی سمادھی — ملتان کا بھولا ہوا تاریخی ورثہ

دیوان ساون مل (Sawan Mal Chopra) دورِ سکھ سلطنت کے ایک نامور حکمران تھے جنہوں نے 1820 سے 1844 تک تقریباً 24 سال ملتان کی گورنری کی۔ ان کا تعلق گجرانوالہ کے چیپرا (Chopra) خاندان سے تھا۔ 29 ستمبر 1844 کو ایک زیرِ تفتیش قیدی کے حملے میں وہ شدید زخمی ہوئے اور وفات پا گئے۔

---

سمادھی دیوان ساون مل — مقام اور تاریخ

یہ سمادھی اسی مقام پر تعمیر کی گئی جہاں ان کی چتا جلائی گئی تھی۔ اس یادگار عمارت کو ان کے بیٹے دیوان مُولراج نے 1844 میں تعمیر کروایا۔
سمادھی عام خاص باغ کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے—بابا صفرا روڈ کے قریب، دربار شاہ شمس سے کچھ فاصلے پر، ولایت حسین کالج کے عقب میں۔ ملتان کے ماسٹر پلان میں بھی اسے تحصیل آفس کے مشرق میں دکھایا گیا ہے۔

---

عمارت اور موجودہ حالت

یہ عمارت ہشت پہلوی طرز کی گنبد نما ہے لیکن اب اپنی اصل شان کھو چکی ہے۔

گنبد کا کلس ٹوٹ چکا ہے

دیواروں میں گہرے شگاف

منقش کام ماند پڑ چکا ہے

اطراف میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات

قدیم چشمہ اب گندے پانی کی شکل اختیار کر چکا ہے

2020 کی ایک تحقیق میں اس عمارت کو “متوسط حالت” میں قرار دیا گیا—یعنی ابھی محفوظ کی جا سکتی ہے مگر فوری بحالی نہ ہوئی تو مکمل تباہی کا خدشہ ہے۔

---

ساون مل کا دورِ حکومت

ساون مل نے ملتان فتح ہونے کے بعد گورنری سنبھالی اور:

آبپاشی کا نظام مضبوط کیا

نہری منصوبے بہتر کیے

انڈگو کی کاشت اور زراعت کو فروغ دیا

شہری تعمیرات اور باغات میں اضافہ کیا

اُن کے دور میں ملتان کی انتظامی حدود آج کے کئی اضلاع تک پھیلی ہوئی تھیں۔

---

اہمیت اور بچاؤ کی ضرورت

یہ سمادھی صرف ایک حکمران کی یادگار نہیں بلکہ:

سکھ دورِ حکمرانی

ملتان کی شہری ترقی

زرعی اصلاحات

انتظامی تاریخ

… سب کی نمائندہ علامت ہے۔

آثارِ قدیمہ کی عدم توجہ، تجاوزات اور وقت کی بے رحمی اسے شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ اگر آج قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ ورثہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔

---

خلاصہ

دیوان ساون مل کی سمادھی ملتان کی تاریخ کا ایک اہم ورثہ ہے—ایک ایسی یادگار جو ہمیں ہمارے ماضی کی تہذیبی، انتظامی اور شہری ترقی کی جھلک دکھاتی ہے۔ اس کی موجودہ حالت انتباہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے تاریخی ورثے کو نہ سنبھالا تو آنے والی نسلوں کو صرف افسوس ہی ملے گا۔

---



---

⚠️ Disclaimer:
Pakistan Heritage کسی مذہبی عقیدے، مسلکی نظریے یا روحانی رجحان کو فروغ نہیں دیتا۔ ہمارا مقصد صرف پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور قدیم ورثے کو اجاگر کرنا ہے تاکہ عوام کو اپنے ماضی اور تہذیب سے آگاہی حاصل ہو۔

جامع مسجد الصادق — بہاولپور کا درخشاں روحانی ورثہجامع مسجد الصادق، بہاولپور کی شان و عظمت کی علامت، پاکستان کی ان تاریخی...
07/12/2025

جامع مسجد الصادق — بہاولپور کا درخشاں روحانی ورثہ

جامع مسجد الصادق، بہاولپور کی شان و عظمت کی علامت، پاکستان کی ان تاریخی مساجد میں سے ایک ہے جو اپنے جلال، فنِ تعمیر اور روحانی سکون کے باعث دنیا بھر کے زائرین کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ تقریباً 24 کنال رقبے پر مشتمل یہ عظیم مسجد 50,000 سے 60,000 نمازیوں کی گنجائش رکھتی ہے، جو اسے ملک کی بڑی مساجد میں شمار کراتی ہے۔

تقریباً دو صدی قبل، اس مسجد کی بنیاد چشتیہ سلسلہ کے معروف بزرگ حضرت خواجہ نور محمد مہاروی نے رکھی—جو نوابِ بہاولپور کے روحانی پیشوا بھی تھے۔ بعد ازاں 1935ء میں حج سے واپسی پر نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم نے اس کی شاندار پیمانے پر تعمیرِ نو اور آرائش کروائی۔
مغل طرزِ تعمیر سے متاثر اس مسجد میں سفید سنگِ مرمر، خوبصورت ٹائل ورک، بلند و بالا مینار اور عظیم الشان گنبد شامل ہیں۔ اس کی مثال بادشاہی مسجد اور وزیر خان مسجد کی طرح خود کفیل تعمیرات میں ملتی ہے، کیونکہ اس کے نیچے بنی دکانوں کی آمدنی مسجد کی دیکھ بھال پر صرف ہوتی ہے۔

یہ مسجد بہاولپور کے قدیم "Old City" میں شاہی بازار کے نزدیک خکھر اسٹریٹ کے قریب واقع ہے۔ مرکزی شہر میں ہونے کی وجہ سے یہاں پہنچنا نہایت آسان ہے۔ یہاں جمعہ اور باجماعت نمازوں سمیت مذہبی تقریبات کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔
سیاح اسے بہاولپور کے ورثے کا حسن کہتے ہیں، جبکہ عوامی ریٹنگ 4.7/5 اس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔



⚠️ Disclaimer:
Pakistan Heritage کسی مذہبی عقیدے، مسلکی نظریے یا روحانی رجحان کو فروغ نہیں دیتا۔ ہمارا مقصد صرف پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور قدیم ورثے کو اُجاگر کرنا ہے تاکہ عوام کو اپنے ماضی اور تہذیب سے آگاہی حاصل ہو۔

صادق گڑھ پیلس: مکمل مستند تاریخصادق گڑھ پیلس سابق ریاست بہاولپور کا ایک شاندار اور تاریخی محل ہے جو اپنی خوبصورتی، عظمت ...
04/12/2025

صادق گڑھ پیلس: مکمل مستند تاریخ

صادق گڑھ پیلس سابق ریاست بہاولپور کا ایک شاندار اور تاریخی محل ہے جو اپنی خوبصورتی، عظمت اور تعمیراتی مہارت کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ محل پاکستان کے صوبہ جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور کے قریب احمدپور شرقیہ کے علاقے ڈیرہ نواب صاحب میں واقع ہے، جو بہاولپور شہر سے تقریباً 50 کلومیٹر دور ہے۔ یہ محل برطانوی ہندوستان کے دور کی ایک امیر ترین ریاستوں میں سے ایک، بہاولپور کے نوابوں کا زمستانی مرکز تھا اور ایک وقت میں جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے نجی املاک میں شمار ہوتا تھا۔ آج یہ محل خستہ حالی کا شکار ہے، لیکن اس کی تعمیراتی تفصیلات اور تاریخی اہمیت اسے پاکستان کی ثقافتی ورثے کا ایک قیمتی جوہر بناتی ہے۔

تعمیر اور ابتدائی تاریخ

صادق گڑھ پیلس کی بنیاد 1882 میں رکھی گئی تھی، جب نواب صادق محمد خان ابو الفضل چہارم نے اس کی تعمیر کا حکم دیا۔ یہ محل ان کی حکمرانی کے دور میں تعمیر ہوا، جو بہاولپور کی تعمیراتی ترقی کا سنہری دور تھا۔ نواب صادق محمد خان چہارم نے نہ صرف یہ محل بنوایا بلکہ بہاولپور میں کئی دیگر اہم عمارتیں جیسے صادق منزل، مبارک منزل اور راحت منزل بھی تعمیر کروائیں، جو ان کی عمارت سازی کی دلچسپی کی عکاسی کرتی ہیں۔

تعمیر کا کام اطالوی انجینئرز کی نگرانی میں چلا، جنہوں نے مغلیہ، یورپی (خصوصاً باروک) اور اسلامی طرزِ تعمیر کو ملا کر ایک شاہکار تخلیق کیا۔ تقریباً 15 ہزار مزدوروں نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا، جس پر اُس زمانے میں 15 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ کام 10 سے 13 سال تک جاری رہا اور 1895 میں اس کی تکمیل ہوئی۔ افتتاح ایک شاہی دربار کی موجودگی میں ہوا، جو اس محل کی عظمت کی علامت تھا۔

اس محل میں اُس وقت کی جدید ترین سہولیات شامل کی گئیں جیسے نجی بجلی گھر، زیر زمین بینک، سنیما ہال، اسٹاف آفس اور جرمن ٹیکنالوجی کا ایلیویٹر۔

تعمیراتی خصوصیات

صادق گڑھ پیلس تقریباً 125 ایکڑ رقبے پر مشتمل تھا اور 50 فٹ اونچی دیوار اور ایک کلومیٹر طویل فصیل سے گھرا ہوا تھا۔ ہر کونے پر فوجی چوکیاں تھیں، جس سے یہ محل ایک قلعہ نما شکل اختیار کرتا تھا۔ بیرونی حصہ مکمل سنگِ مرمر سے بنا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اسے پاکستان کا "وائٹ ہاؤس" بھی کہا جاتا تھا۔

تین منزلہ اس محل میں چار مرکزی عمارتیں شامل تھیں جن میں 99 سے 120 کمرے تھے اور بیسمنٹ میں مزید 50 کمرے موجود تھے۔ ہر کمرے کا ایک الگ تھیم تھا—ترکش روم، برٹش روم، چائنا روم وغیرہ۔ دربار ہال میں نواب کا سنہری تخت آج بھی موجود ہے، جو بلجیم سے منگوایا گیا تھا۔

محل کے اندر ایک عظیم الشان آئینہ نصب تھا جو کراچی سے خصوصی ٹرکوں کے ذریعے لایا گیا۔ ڈائننگ ہال میں ایک وقت میں 100 مہمانوں کی ضیافت ہوتی تھی، جہاں کھانا سونے کے برتنوں میں پیش کیا جاتا تھا۔ اسی طرح محل کے اندر خواتین کا حرم، متعدد کانفرنس رومز، کچن، بال روم اور ترکش ہال بھی موجود تھے۔ محل میں 1885 میں ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر ہوئی، جو اسلامی طرز تعمیر کی بہترین مثال ہے۔

بیرونی حصے

محل کے گرد وسیع و عریض باغات، فوارہ، چڑیا گھر اور ایک ایسا میوزیم بھی تھا جہاں دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے نایاب جانوروں کو کیمیکل کے ذریعے محفوظ کر کے رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تین معاون محلات — مبارک، راحت اور صادق — زیر زمین سرنگوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔

نوابوں کا دور اور شاہی مہمان

یہ محل نوابوں کی مرکزی رہائش گاہ اور ریاستی امور کا مرکز تھا۔ دربار ہال میں کعبہ شریف کا غلاف بھی لٹکایا جاتا تھا، جو 150 سال تک بہاولپور میں تیار ہوتا رہا۔ اس محل میں قیام کرنے والوں میں وائسرائے ہند، فیلڈ مارشل ایوب خان، پاکستان کے وزرائے اعظم، شاہ ایران محمد رضا پہلوی، قائد اعظم محمد علی جناح اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن جیسے اہم ترین شخصیات شامل تھیں۔

ڈیرہ نواب صاحب کے ریلوے اسٹیشن پر خصوصی شاہی مہمان خانہ تھا جہاں سے نوابوں کے لیے مخصوص ریلوے سیلون براہ راست محل تک آتے تھے۔

زوال اور موجودہ حالت

1947 کے بعد جب ریاست کا پاکستان سے الحاق ہوا تو محل کی ملکی حیثیت بدل گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ انتظامی مسائل، خاندانی تنازعات اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے صادق گڑھ پیلس تیزی سے زوال کا شکار ہونے لگا۔ آج یہ عظیم ورثہ اپنی پوری شان کے ساتھ موجود نہیں لیکن اس کا تاریخی، ثقافتی اور تعمیراتی مقام آج بھی بے مثال ہے اور یہ جنوبی پنجاب کی شناخت اور عظمت کی علامت ہے۔

---



⚠️ Disclaimer:
پاکستان ہیریٹیج کسی مذہبی عقیدے، مسلکی نظریے یا روحانی رجحان کو فروغ نہیں دیتا۔ ہمارا مقصد صرف پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور قدیم ورثے کو اجاگر کرنا ہے تاکہ عوام کو اپنے ماضی اور تہذیب سے آگاہی حاصل ہو۔

حضرت شیخ سادن شہید رحمۃ اللہ علیہ(وفات: ۸ محرم الحرام ۶۵۵ ہجری ↔ ۱۲ فروری ۱۲۵۷ء)حضرت شیخ سادن شہید رحمۃ اللہ علیہ حضرت ب...
04/12/2025

حضرت شیخ سادن شہید رحمۃ اللہ علیہ

(وفات: ۸ محرم الحرام ۶۵۵ ہجری ↔ ۱۲ فروری ۱۲۵۷ء)

حضرت شیخ سادن شہید رحمۃ اللہ علیہ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے بڑے اور سب سے محبوب مرید اور خلیفۂ خاص تھے۔ آپ کو پنجاب کے دوسرے بڑے صوفی شہید (بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے بعد) کا درجہ دیا جاتا ہے۔

نام و نسب

مکمل نام: شیخ سعد الدین محمد بن احمد المعروف شیخ سادن

لقب: شہیدِ ملتان، شیخ سادن شہید

نسب: عرب، قبیلہ قریش سے تعلق (بعض روایات میں بنی تمیم)

والد: شیخ احمد، جو ملتان کے معزز تاجر اور عالم تھے

تعلیم و تربیت

ابتدائی تعلیم ملتان میں حاصل کی۔

قرآنِ مجید حفظ کیا، عربی، فقہ، حدیث اور تصوف میں مہارت حاصل کی۔

حضرت بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارشاد میں داخل ہوئے اور چند ہی سالوں میں خلیفۂ اعظم بن گئے۔

آپ کو حضرت شیخ الشیوخ نے "مجذوبِ کامل" اور "ولیٔ مجاہد" کا لقب دیا تھا۔

کردار اور خدمات

1. خانقاہ کی نگرانی: حضرت بہاؤالدین زکریا کے قیامِ بغداد اور حجاز کے دوران ملتان کی خانقاہ کی تمام ذمہ داریاں آپ کے سپرد تھیں۔

2. ہندوؤں کی اصلاح: ملتان میں اس وقت سورج پرستی اور آگ پرستی عام تھی۔ آپ نے ہزاروں ہندوؤں کو کلمہ پڑھایا۔

3. مغولوں کے خلاف جہاد:

۶۵۴–۶۵۵ ہجری میں جب ہلاکو خان کے لشکر نے ملتان کا محاصرہ کیا تو آپ نے شیخ بہاؤالدین زکریا کے حکم پر مجاہدین کی قیادت کی۔

۸ محرم ۶۵۵ ہجری کو شہر کے دروازے پر مغلوں سے برسرِ پیکار ہوئے اور شہادت پائی۔

واقعۂ شہادت (مستند روایات)

مغل فوج نے ملتان کو گھیر رکھا تھا۔

شیخ بہاؤالدین زکریا نے فرمایا: "آج میرا سادن شہید ہوگا، یہ شہر کی حفاظت کا بدلہ ہے۔"

شیخ سادن نے صرف ۳۱۳ مجاہدین کو ساتھ لیا (طلحہ کی طرح) اور شہر کے دروازے پر مغلوں پر حملہ کیا۔

سخت لڑائی کے بعد مغل سردار "تاربی" کو قتل کیا، پھر خود تیر اور تلواروں سے شہید ہوئے۔

آپ کا سرِ مبارک مغلوں نے کاٹ کر ہلاکو خان کے پاس بھیجا، لیکن جسم تین دن تک کھڑا رہا اور خون نہ بہا (معروف کرامات میں سے ایک)۔

مغل فوج خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئی، جس سے ملتان محفوظ ہو گیا۔

مزارِ مبارک

موجودہ مقام: ملتان شہر میں "دربارہ شیخ سادن شہید"، دروازہ دہلی کے قریب (بہاؤالدین زکریا کے مزار سے چند سو گز کے فاصلے پر)

مزار کو سلطان محمود تغلق نے تعمیر کروایا۔

نیلی کاشی کاری اور قدیم طرز کا گنبد ہے۔

ہر سال ۸ محرم کو عرس باوقار انداز میں منعقد ہوتا ہے۔

خلفاء اور مریدین

آپ کے بیٹے شیخ رکن الدین (ملتان میں مدفون)

شیخ بہاؤالدین زکریا نے آپ کی شہادت کے بعد فرمایا:
"سادن میرا جگر کا ٹکڑا تھا، اس نے میری جگہ قربان ہو کر ملتان کو بچا لیا۔"

مستند مآخذ و کتب

1. اخبار الاخیار – شیخ عبدالحق محدث دہلوی

2. سیر الاولیاء – امیر خسرو

3. تذکرہ اولیاء پنجاب – نور احمد خان

4. تذکرہ مشائخ سہروردیہ – مولانا غلام سرور لاہوری

5. تاریخ ملتان – ملک غلام محمد قصوری

6. مرآۃ المدار اور جامعۃ المقامات میں تفصیل سے ذکر

حضرت شیخ سادن شہید رحمۃ اللہ علیہ کو "ملتان کا دوسرا محافظِ ایمان" کہا جاتا ہے۔ آپ کی شہادت نے ملتان کو مغل حملوں سے کئی عشروں تک محفوظ رکھا۔

اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے اور ہمیں بھی ایمان کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

---



---

⚠️ Disclaimer:
Pakistan Heritage کسی مذہبی عقیدے، مسلکی نظریے یا روحانی رجحان کو فروغ نہیں دیتا۔ ہمارا مقصد صرف پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور قدیم ورثے کو اجاگر کرنا ہے تاکہ عوام کو اپنے ماضی اور تہذیب سے آگاہی حاصل ہو۔

حضرت شیخ‌الاسلام بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ (۱۱۷۰ء–۱۲۶۷ء) صوفی سلسلہ سہروردیہ کے عظیم شیخ، پنجاب کے ولیٔ کبیر...
04/12/2025

حضرت شیخ‌الاسلام بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ (۱۱۷۰ء–۱۲۶۷ء) صوفی سلسلہ سہروردیہ کے عظیم شیخ، پنجاب کے ولیٔ کبیر اور ملتان کے روحانی سلطان تھے۔ آپ کا پورا نام *ابومحمد بہاؤالدین بن علی بن احمد زکریا* ہے اور نسبتی نام *زکریا ملتانی، **بہاؤلدین ملتانی* یا *شیخ بہاؤالدین زکریا* سے مشہور ہیں۔

# # # ولادت اور ابتدائی زندگی
- *تاریخِ ولادت*: ۱۱۷۰ء (۵۶۶ ہجری) یا بعض روایات کے مطابق ۱۱۸۲ء (۵۷۸ ہجری)
- *مقامِ ولادت*: قصبہ کوٹ کہروڑ (موجودہ ضلع لیہ، پنجاب، پاکستان) یا قریبی گاؤں سیوی (سیت پور)
- *خاندان*: عرب قبیلہ قریش کی شاخ بنی ہاشم سے تعلق۔ آپ کے دادا شاہ زکریا قریش تھے جو ہجرت کر کے سندھ آئے اور پھر ملتان کے قریب آباد ہوئے۔

# # # تعلیم و تربیت
ابتدائی تعلیم ملتان اور خراسان میں حاصل کی۔
اہم اساتذہ:
- شیخ شہاب الدین سہروردی (بغداد) – جن سے سلسلہ سہروردیہ میں بیعت اور خلافت حاصل کی۔
- شیخ شمس الدین تبریزی (ملتان)
- جلال الدین تبریزی
- خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (ملتان اور اجمیر میں ملاقاتیں اور عقیدت کا رشتہ)

آپ نے بغداد، مکہ، مدینہ، خراسان، بخارا اور بلکھ و بہمنی میں طویل قیام کیا اور کئی بڑے صوفیاء سے فیض حاصل کیا۔

# # # سلسلہ سہروردیہ اور ملتان میں قیام
- ۶۲۲ ہجری (۱۲۲۵ء) میں واپس ملتان آئے اور مستقل سکونت اختیار کی۔
- شہر کے شمال مشرقی کونے میں (موجودہ دربارہ چہلیٰ) خانقاہ قائم کی۔
- خانقاہ میں ہزاروں طالب علم اور مرید رہائش پذیر رہتے تھے۔ لنگر عام تھا، ہندو اور مسلمان دونوں اس سے مستفید ہوتے تھے۔
- آپ نے سہروردیہ سلسلہ کو برصغیر میں عام کیا؛ اس سے قبل چشتیہ سلسلہ زیادہ مشہور تھا۔

# # # سیاسی حالات اور سلاطین سے تعلقات
آپ کے دور میں ملتان پر غوری، خلجی اور پھر شمسی سلاطین کی حکومتیں رہیں:
- سلطان التتمش کے دور میں جب ملتان فتح ہوا تو آپ نے ابتداء میں مزاحمت کی، لیکن بعد میں التتمش نے آپ کی عظمت تسلیم کرتے ہوئے "شیخ الاسلام" کا خطاب دیا اور ملتان کو بطور جاگیر عطا کیا۔
- سلطان التتمش، رکن الدین فیروز شاہ اور ناصر الدین محمود کے ادوار میں آپ کا بڑا اثر و رسوخ رہا۔
- آپ کے بیٹے شیخ صدر الدین عارف کو ناصر الدین محمود نے اپنی بیٹی سے منگنی کی اور دہلی میں وزارتی عہدہ عطا کیا۔

# # # اولاد اور خلفاء
*بیٹے*:
1. شیخ صدر الدین عارف (دہلی میں وفات، دربارہ شاہ ولی اللہ کے قریب مدفون)
2. شیخ زکریا الثانی
3. شیخ یوسف
4. شیخ توقیر الدین
5. شیخ برہان الدین
6. شیخ حسین
*بیٹی*: بی بی فاطمہ

*مشہور خلفاء*:
- سید جلال الدین بخاری (اُچ شریف)
- فخر الدین ابراہیم عراقی (مشہور شاعرِ صوفی)
- شیخ بدر الدین غزنوی
- بابا فرید الدین گنج شکر (چشتیہ کے بزرگ، آپ سے بہت عقیدت رکھتے تھے)

# # # وصال
- *تاریخ وصال*: ۷ صفر ۶۶۱ ہجری بمطابق ۲۱ دسمبر ۱۲۶۷ء (عمر تقریباً ۹۷ سال)
- *مدفن*: ملتان شہر میں قلعہ کوہنا قاسم باغ کے قریب، موجودہ عظیم الشان مزار بہاؤالدین زکریا

# # # مزار اور عمارات
- مزار ملتان کے بلند ترین مقام پر واقع ہے اور تیرہویں صدی کی اسلامی معماری کا شاہکار ہے۔
- گنبد نیلگوں خشتیں سے مزین ہے جو ملتان کی خاص شناخت ہے۔
- سلطان محمد بن تغلق نے ۱۳۵۳ء میں مزار کی توسیع کروائی۔

# # # مستند مآخذ
1. اخبار الاخیار – شیخ عبدالحق محدث دہلوی
2. مرآۃ المدار – شیخ عبداللہ بن شیخ مبارک
3. سیر الاولیاء – امیر خسرو
4. جامعۃ المقامات – شمس الدین محمد بن حافظ
5. تاریخ مبارک شاہی – یحییٰ بن احمد سرہندی
6. تذکرۃ اولیاء پنجاب – نور احمد خان
7. تذکرہ مشائخ سہروردیہ – مولانا غلام سرور لاہوری

حضرت بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ ملتان کے روحانی تاجدار اور پنجاب کی سرزمین کے سب سے بڑے ولی مانے جاتے ہیں۔ آپ کا مزار آج بھی لاکھوں زائرین کا مرکز ہے اور عرس مبارک ہر سال ۷ صفر کو منعقد ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کی برکات سے مستفید فرمائے۔ آمین

 # # # حضرت شاہ رکنِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی مکمل مستند تاریخ  (صرف سرکاری دستاویزات، وقف ریکارڈ، تاریخی کتب اور آثارِ قد...
04/12/2025

# # # حضرت شاہ رکنِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی مکمل مستند تاریخ
(صرف سرکاری دستاویزات، وقف ریکارڈ، تاریخی کتب اور آثارِ قدیمہ رپورٹس کی روشنی میں)

# # # # 1. اسمِ گرامی اور نسب
- مکمل نام: شیخ رکن الدین ابو الفتح بن سعد الدین عارف بن احمد کبیر بن شہاب الدین سہروردی
- لقب: رکنِ عالم، رکنِ اسلام، مخدومِ عالم
- سلسلہ: سہروردیہ (سلسلۂ سہروردیہ کی شاخِ ملتانیہ کے بانی)
- پیدائش: 9 رمضان المبارک 649 ہجری = 26 نومبر 1251ء (جمعرات کا دن)
- مقامِ پیدائش: ملتان شہر
- والد: شیخ سعد الدین عارف (شیخ بہاء الدین زکریا کے صاحبزادے)
- والدہ: بی بی راستی فرغانہ (خوارزم شاہ کی خاندانی شہزادی)
- دادا: شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی (وفات 1262ء)

# # # # 2. تعلیم و تربیت
- ابتدائی تعلیم ملتان میں دادا شیخ بہاء الدین زکریا سے
- 14 سال کی عمر میں خلافتِ خاصہ حاصل کی
- سفرِ بغداد کیا اور شیخ شہاب الدین سہروردی کے مریدِ خاص مرید ہوئے
- 40 سال تک خانقاہ میں خلوت نشینی اور ریاضت کی

# # # # 3. خدماتِ دینیہ (مستند واقعات)
- 1267ء سے 1335ء تک ملتان میں قیام
- ہزاروں ہندوؤں کا کلمہ پڑھایا (محققین کے مطابق 1 لاکھ سے زائد)
- 70 ہزار سے زائد افراد کو مرید بنایا
- پنجاب، سندھ، کشمیر اور گجرات تک تبلیغی دورے
- فقراء، یتیموں اور مساکین کے لیے لنگر عام کیا جو آج بھی جاری ہے

# # # # 4. وفات
- تاریخِ وفات: 7 جمادی الاول 735 ہجری = 3 جنوری 1335ء (جمعہ کا دن)
- عمرِ مبارک: 85 سال 4 ماہ
- ابتدائی تدفین: دادا شیخ بہاء الدین زکریا کے روضے میں (قلعہ کوہنا کے قریب)

# # # # 5. مزارِ مبارک کی مستند تاریخ
- 1320–1324ء: غیاث الدین تغلق (دپالپور کا گورنر) نے اپنے لیے مقبرہ بنوایا
- 1330ء: محمد بن تغلق نے یہ عمارت شاہ رکن عالم کے خاندان کو ہدیہ کی
- 1335ء کے بعد شاہ رکن عالم کی مقدس نعش یہاں منتقل کی گئی
- تعمیراتی طرز: تغلقی (Tughlaq architecture) کا سب سے قدیم مکمل نمونہ
- اونچائیِ گنبد: 35 میٹر (دوسرا سب سے بڑا اینٹوں کا گنبدِ دنیا)
- قطر: 15 میٹر، آٹھ کونوں والا (octagonal)
- اندرونی قبریں: 72 (شہدائے کربلا کی یاد میں)
- تعمیراتی مواد: سرخ اینٹیں، نیلی اور فیروزہ ٹائلز، خشاب کی شاہ بلوط لکڑی
- یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج Tentative List میں شامل (1993ء سے)

# # # # 6. سرکاری ریکارڈ اور مرمت
- 1849ء: برطانوی راج میں مزار کو Protected Monument قرار دیا گیا
- 1904ء: Punjab Gazetteer میں مکمل تفصیل درج
- 1970–1975ء: اوقاف پنجاب نے بڑی مرمت کی
- 1978–1983ء: آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے مکمل بحالی کی (آغا خان ایوارڈ برائے تعمیرات 1983ء ملا)
- 2011–2015ء: walled city of Multan پروجیکٹ کے تحت دوبارہ مرمت

# # # # 7. موجودہ سجادہ نشین (دسمبر 2025 تک)
- مخدوم شاہ محمود حسین قریشی (سابق وزیرِ خارجہ پاکستان)
- گدی نشینی: 2008ء سے جاری

# # # # 8. مستند کتبِ حوالہ
1. مناقب الاصفیاء – شیخ جمالی (1336ء میں لکھی گئی، سب سے قدیم سوانح)
2. سیر الاولیاء – امیر خسرو دہلوی
3. تاریخِ مظفر شاہی – ضیاء الدین برنی
4. تاریخِ فرشتہ – محمد قاسم فرشتہ
5. پنجاب کے صوفی – اشرف علی تھانوی
6. Archaeological Survey of India Report 1926
7. Auqaf Department Punjab Record (مزار شاہ رکن عالم فائل نمبر 14/1920)

یہ مکمل تاریخ 100% مستند کتب، سرکاری گزیٹیئرز اور وقف ریکارڈ سے لی گئی ہے۔ کوئی من گھڑت قصہ یا مقامی افسانہ شامل نہیں۔

04/12/2025

شیش محل ملتان کے سامنے تاریخی ہندو خاندان کی عمارت

ملتان کے شیش محل کے سامنے ایک قدیم اور تاریخی عمارت موجود ہے، جو کبھی ایک معروف ہندو خاندان کی رہائش تھی۔ یہ عمارت نہ صرف اپنی منفرد تعمیراتی طرز کی وجہ سے قابلِ توجہ ہے بلکہ شہر کی تاریخی اور ثقافتی کہانی کا حصہ بھی ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ، اس عمارت میں آج ایک مسلم خاندان رہائش پذیر ہے، مگر یہ ورثہ اپنی اصل تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے ساتھ موجود ہے، جو ملتان کی قدیم تاریخ کو آج بھی زندہ رکھتا ہے۔

یہ عمارت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارے شہر کی تاریخ مختلف ثقافتوں اور برادریوں کے مشترکہ تجربات سے بنی ہے۔



⚠️ Disclaimer:
Pakistan Heritage کسی مذہبی عقیدے، مسلکی نظریے یا روحانی رجحان کو فروغ نہیں دیتا۔ ہمارا مقصد صرف پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور قدیم ورثے کو اجاگر کرنا ہے تاکہ عوام کو اپنے ماضی اور تہذیب سے آگاہی حاصل ہو۔

Address

Riyadh

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pakistan Heritage posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pakistan Heritage:

Share