08/09/2025
شادی کے اکیس برس بعد، ایک دن میری بیوی نے مجھے ایک طرف بلایا۔ وہ نرمی سے میری طرف دیکھنے لگی اور کہا کہ وہ مجھ سے کچھ چاہتی ہے: وہ چاہتی تھی کہ میں ایک شام کسی اور عورت کے ساتھ گزاروں۔ اسے کھانے پر لے جاؤں اور شاید بعد میں کوئی فلم بھی دیکھ لیں۔
’’میں تم سے محبت کرتی ہوں،‘‘ اس نے کہا، ’’لیکن مجھے پتا ہے کہ وہ بھی تم سے محبت کرتی ہے۔ اور میں چاہتی ہوں کہ تم اسے اپنے وقت میں سے تھوڑا سا دو۔‘‘
وہ دوسری عورت میری ماں تھی۔ وہ انیس سال سے اکیلی رہ رہی تھیں، جب سے میرے والد کا انتقال ہوا تھا۔
نوکری، روزمرہ کی زندگی اور تین بچوں کی ذمہ داریوں کے درمیان، میں صرف کبھی کبھار ہی ان سے ملنے جاتا تھا۔
اسی شام میں نے انہیں فون کیا۔ میں نے پوچھا کیا وہ میرے ساتھ کھانے پر چلنا چاہیں گی۔
’’کیا کوئی خاص بات ہے؟‘‘ انہوں نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں، کچھ خاص نہیں،‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’بس میں چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ کچھ وقت گزاروں۔ صرف ہم دونوں۔‘‘
دوسری طرف طویل خاموشی چھا گئی۔ پھر ان کی بھرائی ہوئی آواز آئی: ’’مجھے یہ بہت اچھا لگے گا۔‘‘
اگلے جمعہ کو میں انہیں لینے گیا۔ مجھے ہلکی سی گھبراہٹ ہو رہی تھی؛ کافی عرصے بعد ہم دونوں اکیلے کہیں جا رہے تھے۔
انہوں نے بڑے اہتمام سے تیار ہوکر بال سنوارے تھے، وہی لباس پہنا تھا جو انہوں نے پاپا کے ساتھ اپنی شادی کی آخری سالگرہ پر پہنا تھا۔ جب وہ گاڑی میں بیٹھیں، ان کی مسکراہٹ ایک ننھی بچی کی سی تھی۔
’’میں نے اپنی سہیلیوں کو بتایا کہ آج رات میں اپنے بیٹے کے ساتھ باہر جا رہی ہوں… سب بہت حیران تھیں۔ وہ سب کچھ جاننا چاہتی ہیں!‘‘
ہم نے ایک سادہ سا چھوٹا ریستوران چُنا، جس کا ماحول بہت مانوس اور پر سکون تھا۔ وہ میرے بازو کو ایسے تھامے ہوئے تھیں جیسے کسی بڑی محفل میں آئی ہوں۔
میز پر بیٹھے میں نے مینو اونچی آواز میں پڑھا: ان کی نظر اب کمزور ہو گئی تھی اور مینو کارڈ پر چھپے الفاظ واضح نظر نہیں آتے تھے۔
جب میں نے سر اُٹھایا تو وہ مجھے بڑی محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔
’’جب تم چھوٹے تھے تو میں تمہیں مینو پڑھ کر سنایا کرتی تھی…‘‘
’’تو اب یہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں آپ کے لیے پڑھوں،‘‘ میں نے مسکرا کے جواب دیا۔
ہم نے کھانا کھایا، باتیں کیں—کوئی غیر معمولی بات نہیں، بس ہم تھے، ہماری زندگیاں، ہماری یادیں۔ ہم اتنی دیر باتوں میں لگے رہے کہ فلم کا خیال ہی نہیں رہا۔ مگر اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ وہ شام ویسے ہی مکمل تھی۔
جب میں انہیں گھر چھوڑنے گیا تو انہوں نے کہا: ’’میں یہ پھر کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن اگلی بار… دعوت میری طرف سے ہوگی۔‘‘
میں نے مسکرا کر کہا: ’’وعدہ۔‘‘
گھر واپس آیا تو بیوی نے پوچھا: ’’کیسا رہا؟‘‘
میں نے کہا: ’’جتنا سوچا تھا، اس سے کہیں بہتر۔‘‘
مگر دوسری ملاقات کبھی نہ ہو سکی۔ چند دن بعد میری ماں اچانک دل کے دورے سے چل بسیں۔
کچھ ہفتوں بعد مجھے ایک لفافہ ملا۔ اندر ریستوران کی رسید تھی۔ انہوں نے پہلے ہی دو افراد کا بل ادا کر رکھا تھا۔ ساتھ ایک چھوٹی سی پرچی تھی، ان کی اپنی لکھائی میں:
’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ اگلی بار موقع ملے گا یا نہیں، اس لیے پہلے ہی ادا کر دیا۔ یہ تم اور تمہاری بیوی کے لیے ہے۔ وہ شام میرے لیے بہت قیمتی تھی۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں، میرے بیٹے۔‘‘
اسی دن میں نے سچ مچ سمجھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔
کتنا ضروری ہے کہ ہم وقت پر ’’میں تم سے محبت کرتا ہوں‘‘ کہہ سکیں، اور ان کے لیے وقت نکالیں جو ہم سے محبت کرتے ہیں۔
کیونکہ دنیا کی سب سے قیمتی چیز یہی ھے ۔
ایک انگریزی کہانی سے ماخوذ
انعام اللہ کے وال سے