05/21/2025
یہ دوہزار گیارہ یا بارہ کی بات ہے۔ سردیوں کی رات تھی۔ کوئی دوبجے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں اندھیرا ہوتے ہی لوگ گھروں میں دبک جاتے تھے کراچی میں خوف کا راج تھا ایک طرف پیپلز پارٹی کی حمایت یافتہ پیپلز امن کمیٹی تھی جس میں اکثریت بلوچون پٹھانوں کی تھی دوسری طرف ایم کیو ایم تھی دونوں طرف ایکدوسرے کے حامی اٹھائے جاتے قتل کیئے جاتے لیاری کا عبداللہ کالج بھی ٹارچر سیل تھا تو کئی یونٹ آفس بھی۔ پولیس بھی رات کو گشت پر نہیں نکلتی تھی۔۔رات دو بجے موٹرسائیکل پر میں اور مدثر کلفٹن کی طرف سے آرہے تھے کہ فوارہ چوک کے پاس زینب مارکیٹ کے سامنے ایک موٹرسائیکل والا اپنی موٹرسائیکل کو صحیح کرنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔چاروں طرف سناٹا تھا صرف سڑک پر دو ہی بائیکس اور تین لوگ تھے۔۔۔ایک وہ جو موٹرسائیکل درست کررہا تھا باقی دو میں اور مدثر جو زینب مارکیٹ کے سامنے سے گزرکر جمشید روڈ کی طرف جارہے تھے۔۔۔ جیسے جیسے بائیک کے قریب پہنچے میں نے مدثر کے کان میں کہا یار لگتتا ہے آج کام اتر گیا۔۔۔ یہ کچھ صحیح نہین لگ رہا ۔۔۔اس نے کہا مولا وارث ہے فرحان بھائی۔۔ہم پاس سے گزرے اور اچکتی نظر ڈالی کہ وہ کیا کررہا ہے۔۔توقع تھی کہ وہ ایک دم پستول نکال کر ہمیں روکے گا۔۔لیکن وہ بائیک کی چین دیکھ رہا تھا۔۔۔اس کو کراس کیا تو مدثر نے کہا فرحان بھائی اس کی بائیک کی چین ٹوٹی ہوئی ہے۔۔۔ اسوقت یہ یہاں پر پھنس گیا ہے ہمیں مدد کرنی چاہیے۔۔۔میں نے کہا یار کوئی ٹریپ نا ہو۔۔۔چھوڑو چلتے رہو۔۔۔لیکن مدثر کو چین کہاں آنا تھا۔۔۔اس سے پہلے میں کچھ کہتا اس نے بائیک وہیں سے گھما لی۔۔۔اور تیزی سے بائیک والے کی طرف بڑھا۔۔۔میں نے نادعلی پڑھنا شروع کردی۔۔کہ بھائی مرنے سے پہلے مذہب ہی یاد آتا ہے۔۔۔ادھر بائیک والا اچھل کر کھڑا ہوگیا۔۔اب میرا شک یقین میں بدل گیا کہ مدثر نے آج شہادت کروادی۔۔۔خیر ہم قریب پہنچے تو اس نے ہاتھ بلند کردیئے کہنے لگا میرے پاس کچھ نہین میری بائیک کی چین ٹوٹ گئی ہے۔۔۔اسپتال سے آرہا تھا۔۔۔اس نے اتنا کہا میری ہنسی چھوٹ گئی۔۔مدثر نے اتر کر کہا ہم نے دیکھا تھا اسی لیئے آئے کہ کچھ مدد کردیں۔۔اس کی بائیک میں ہمیشہ کچھ نا کچھ ایسا سامان پڑا رہتا تھا۔۔۔اس نے اپنی بائیک کی زنبیل میں ہاتھ ڈالا اور چین کو جوڑنے کا پیس نکالا اور فکس کرنے بیٹھ گیا۔۔۔کسی طرح چین فکس ہوئی اس دوران وہ شخص کسی سے فون پر اپنی لوکیشن بتا کرکہہ رہا تھا کہ یہاں ہوں جلد آجاو ۔۔۔ پتہ چلا وہ قریب ہی لائنز ایریا کا رہائشی تھا اس کے دوست جو بعد میں ساتھی نکلے آرہے تھے۔۔۔خیر مدثر نے چین درست کی۔۔اتنے میں اس شخص کی گاڑی آگئی جس میں چار پانچ لڑکے اترے جن کے پاس اسلحہ تھا۔۔۔اس نے بتایا کہ انہوں نے مدد کی ہے۔۔انہوں نے شکریہ کیا اور کہا کہاں جارہے ہیں ہم آپ کو ساتھ چھوڑنے چلتے ہیں حالات درست نہیں ۔۔۔بڑی مشکل سے ان سے جان چھڑائی اور آگے بڑھے۔۔۔سارے راستے میں بڑبڑاتا رہا کہ اگر یہ کوئی اور معاملہ ہوتا تو آج تم نے مروا دیا تھا۔۔۔اور وہ کہتا رہا فرحان بھائی وہ مشکل میں تھا ہمیں آگے جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔آپ ڈانٹ لیں لیکن سوچیں اسے کوئی ایسا ویسا ملتا تو۔۔۔...
یہ دوہزار گیارہ یا بارہ کی بات ہے۔ سردیوں کی رات تھی۔ کوئی دوبجے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں اندھیرا ہوتے ہی لوگ گھروں میں دبک جاتے تھے کراچی میں خوف کا راج تھا ای....