09/08/2025
سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی
ایک نڈر اور بیباک دھرتی کے بیٹے کی شہادت اور مکمل پس منظر
ماخذ اور کریڈٹ
ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) قیصر طفیل، کی کتاب Great Air Battles of Pakistan Air Force کے سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کی شہادت اور اس کا پس منظر بیان کرتے مضمون Theirs But to Do and Die کا اردو ترجمہ
چھ ستمبر 1965 کی صبح لاہور–قصور محاذ پر بھارتی یلغار کے آغاز کے ساتھ ہی، بھارتی فضائیہ کا پہلا ہدف پاک فضائیہ کو غیر مؤثر کرنا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ناقابلِ فہم طور پر پاک فضائیہ کو کھلی چھوٹ دی گئی، جس کے نتیجے میں بھارتی فوج کے 15 ڈویژن کی لاہور کی سمت پیش قدمی آہستہ آہستہ روک دی گئی۔ بادی النظر میں بھارتی فضائیہ اپنی فوج کے محتاط ردِعمل سے ششدر تھی اور صورتِ حال کو سمجھنے میں اس نے قیمتی چوبیس گھنٹے لگا دیے۔ اگر بھارتی فضائیہ نے سرگودھا پر وار کر دیا ہوتا، جہاں پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کے نصف سے زیادہ اثاثے موجود تھے، تو میجر جنرل نرنجن پرساد شاید اسی شام لاہور جمخانہ میں اپنی اعلان کردہ “فتح کی تقریب” منا رہے ہوتے۔
لاہور میں زمینی افواج کو فضائی مدد دینے کے فوراً بعد پاک فضائیہ نے بھارتی ہوائی اڈوں اور ریڈارز پر پیش قدمانہ حملوں کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ جون 1965 کے جنگی منصوبہ نمبر 6 کا مرکزی ستون یہ تھا کہ لڑائی کے آغاز ہی پر بھارتی فضائیہ کے کلیدی عناصر کو غیر مؤثر کر دیا جائے۔ ایک پُرجوش منصوبہ بنایا گیا جس میں شام گئے پانچ بجے چار ہوائی اڈوں اور تین ریڈارز پر حملے شامل تھے؛ اس میں پشاور، ماڑی پور اور سرگودھا سے 46 طیارے شریک ہونے تھے۔ عملدرآمد کے وقت کئی مشکلات اس منصوبے میں درپیش آگئیں۔ ان میں فوج کو فضائی مدد کی طلب، بڑے پیمانے کی فضائی دفاعی ذمہ داریاں، اور جنگی نقصان و دیگر خرابیوں کے باعث طیاروں کی دستیابی میں کمی شامل تھی۔ سرگودھا، جس نے طیاروں کا بڑا حصہ مہیا کرنا تھا، کو اپنا بیڑا ماڑی پور سے بارہ عدد سیبر طیاروں اور چھ عدد ٹی-33 لا کر بڑھانا پڑا۔
جب یہ پہنچے تو بعض سیبر طیاروں میں تکنیکی خامیوں کی درستی کے لیے وقت نہ رہا تھا۔ اس سے بھی بُرا یہ کہ سیبر طیارے غیرمسلح بھیجے گئے تھے اور سرگودھا کو ہی ان میں راکٹ، بم اور تقریباً 21,000 سے زیادہ گولیاں لوڈ کرنا پڑیں۔ ساری محنت کے باوجود سرگودھا بمشکل تین اہداف کے لیے بارہ طیارے ہی مہیا کر سکا اوراس نے پوری کارروائی چوبیس گھنٹے کے لیے مؤخر کرنے کی تجویز دی۔ اس سے نہ صرف پورے دستے کی تیاری ہو جاتی بلکہ اُس تجربہ کارعملے کو بھی آرام کی مہلت مل جاتی جو صبح سے ان مشکل لمحات سے لڑ رہے تھے اوردوبارہ قیادت بھی انہیں ہی کرنی تھی۔
پہلے حملہ کرنے کی خواہش پاک فضائیہ کی سینئر لیڈرشپ کی ضرورت بن چکی تھی۔ اور یہ اندیشہ کہ بھارتی فضائیہ پہلا وار کر ڈالے گی، بے بنیاد بالکل نہ تھا۔ اسی دوپہر پشاور ہیڈکوارٹر میں ہونے والی بحث و تمحیص کے بعد سرگودھا کے بیس کمانڈر گروپ کیپٹن مسعود کو بغیر کسی مزید بحث کے کارروائی جاری رکھنے کا حکم دے دیا گیا۔
دل برداشتہ سہی مگر بالکل مایوس نہ ہوتے ہوئے، مسعود نے اسسٹنٹ چیف آف سٹاف آپریشنز رحیم خان کو فون کیا اور زور دیا کہ آٹھ طیارے ایک ہی ہوائی اڈے پر بھیجے جائیں، بجائے اس کے کہ انہیں آدم پور اور ہلواڑہ کے درمیان بانٹ دیا جائے۔ چونکہ پہلے اڑائے گئے پٹھان کوٹ حملے نے دوسرے بھارتی ہوائی اڈوں کو چوکنا کر دیا تھا، اس لیے بھارتی فضائیہ مکمل تیار تھی اور اس حالت میں چھ طیاروں کے لیے راستہ بنانا مشکل ہو جاتا۔ لیکن ایک بار پھر یہ تجویز رد کر دی گئی۔ دن بھر کی ہنگامہ خیزی کا دباؤ اس تقدیری فیصلے میں صاف جھلک رہا تھا۔
پاک فضائیہ کے بدنصیب اسٹرائیک پلان کی آزمائشیں ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھیں۔ جب سرگودھا میں آٹھ طیاروں نے بالآخر اسٹارٹ لیا تو ایک جہاز سٹارٹ نہ ہوسکا۔ اسی طرح ٹیک آف سے ذرا پہلے ایک اور سیبرطیارے کی خرابی اور غیردستیابی اب اس بات کے لیے کافی وجہ تھی کہ حملہ ایک ہی ہوائی اڈے پر مرکوز کر دیا جاتا، مگر اب تو پانسہ پھینکا جا چکا تھا۔
سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کی قیادت میں، ان کےنمبر دو فلائٹ لیفٹیننٹ سِسل چوہدری اور نمبر تین فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسین کی صرف تین جہازوں کی فارمیشن بالآخر تیزی کے ساتھ مدھم ہوتی روشنی میں دشمن کی فضا میں گھس گئی۔ سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کی بھی تین طیاروں والی فارمیشن، جو دس منٹ پہلے ہی ٹیک آف کر چکی تھی، آدم پور پرایک ناکام حملے کے بعد واپس آرہی تھی۔ کیونکہ بھارتی فضائیہ کے چار ہنٹر طیارے، جو پاک فوجی فارمیشنز کے خلاف مشن پر جا رہے تھے، اُن پر جھپٹ پڑے تھے۔ عالم کے سیکشن نے رفیقی کو علاقہ میں ہنٹرزکی موجودگی سے خبردار کیا۔ دراصل ہلواڑہ پر بھارتی فضائیہ نمبر 7 سکواڈرن کے ہنٹرز سے لیس تھی اور دن بھر میں چار مشن اڑا چکی تھی۔ یہ جاسوسی اور حملہ کے ارادے والے مشنز تھے جنہیں قابلِ قدر اہداف کم ہی ملے۔ بھارتی فضائیہ کا دن کا یہ چوتھا اور آخری فارمیشن حملہ جب لاہور کے نواح کی سمت جا رہا تھا تو اسے تان ترن کے نزدیک عالم کی فارمیشن ملی۔
اس جھڑپ میں بھارتی فضائیہ کے سکواڈرن لیڈر اے کے راؤلے کے ہنٹر کو ایم ایم عالم نے پچھلی سمت سے فائر کر کے زمین بوس کر دیا۔ باقی تین ہنٹرز نے مشن منسوخ کر دیا اور لینڈنگ کے بعد ٹیکسی کر رہے تھے کہ اسی دوران رفیقی کی فارمیشن پانچ بج کر سینتیس منٹ پر حملے کے لیے ان کے سر پر پہنچ گئی۔
اس شام ہلواڑہ سے بھارتی فضائیہ کے ہنٹر جہاز کی دو جوڑیاں فضا میں ہوائی نگرانی پر بھی تھیں۔ نمبر 7 سکواڈرن کی جوڑی کے ایک جہاز میں فلائنگ آفیسر پی ایس پنگالے اور دوسرے میں فلائنگ آفیسر اے آر گاندھی موجود تھے جبکی نمبر 27 سکواڈرن کی جوڑی مین فلائٹ لیفٹیننٹ ڈی این راٹھور اور فلائنگ آفیسر وی کے نیب شامل تھے۔
گاندھی والی جوڑی ایئر فیلڈ کے اوپر بائیں ہاتھ گردش میں تھی کہ سیبر طیاروں نے ان کا حملہ توڑ کر قریب ترین طیارے کی طرف نشانہ باندھ لیا۔ رفیقی کی گنز نے ہمیشہ کی طرح اپنا ہدف ڈھونڈ لیا۔ فلائنگ آفیسر پی ایس پنگالے، جسے سمجھ نہ آئی کہ کیا لگا ہے، اپنے ہنٹر پر قابو نہ رکھ سکا اور ایجیکٹ ہو گیا۔ پھر رفیقی نے چابک دستی سے گاندھی کے عقب میں آ کر اُس پر فائر کیا اور کچھ ہِٹس ریکارڈ ہوئیں۔ اتنے میں فلائٹ لیفٹیننٹ سِسل چوہدری نے ریڈیو پر سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کی صدا سنی :"سیسل میری گنز جام ہوگئی ہیں۔"
سِیسل فوراً لیڈ میں آ گئے اور رفیقی وِنگ مین کے طور پر پیچھے چلے گئے۔ گاندھی نے اس عارضی فرصت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور رفیقی کے سیبر کے پیچھے آ گیا، مگر برے نشانے کے باعث ہدف نہ بنا سکا۔ جب گاندھی، سیبر کے پیچھے تھا تو سِیسل نے تاک کر چڑھائی کی اور اُس پر فائر جھونکا؛ گولیاں گاندھی کے جہاز کے بائیں بازو پراپنی جگہ پاتی گئیں۔ اپنا ہنٹر بکھرتا دیکھ کر گاندھی نے ایئرفیلڈ کے قریب ہی ایجیکٹ کر لیا۔
ایندھن اور دن، دونوں کے خاتمے کے قریب ہونے پر رفیقی نے واپسی کو مناسب سمجھا۔ اپنی فارمیشن سمیٹ کر وہ شمال مغرب کی طرف پلٹے، مگر دو مزید ہنٹرز کی گھات کے باعث نکل کر جانا آسان نہ تھا۔ اپنے گھر کی فضا میں پُرسکون فلاائٹ لیفٹیننٹ ڈی این راٹھور اور فلائنگ آفیسر وی کے نیب نے جھپٹ کر پیچھا کیا۔ راٹھور دائیں طرف والے رفیقی کے پیچھے آ بیٹھا جبکہ نیب نے بائیں طرف یونس کو الگ نکال لیا۔ تیزی سے آن لپکتے ہوئے راٹھور نے تقریباً چھ سو گز سے فائر کیا اور کچھ ہِٹس ملیں؛ اُس نے پھر فائر کیا، اس بار رفیقی کے سیبر کو مہلک ضرب لگی۔ طیارہ تیزی سے بائیں کو جھکا اور پھر ہلواڑہ سے تقریباًچھ میل دور ہیرن کے گاؤں کے نزدیک زمین میں جا دھنسا۔
ادھر سِیسل نے گردوپیش دیکھا تو یونس کو مشکل میں پایا اور دفاعی طور پر الگ ہونے کی کال دی۔ یونس نے جواب تو دیا، مگر نامعلوم وجہ سے اوپر کی طرف کھینچ گئے جس سے فلائنگ آفیسر وی کے نیب کو ان کو جا لینے میں مدد مل گئی۔ نیب نے موقع نہ چھوڑا اور ٹھیک نشانے پر ایک بھرپور گولیوں کی بوچھاڑ کی، جس سے یونس جانبر نہ ہو سکے۔ دھوئیں کا ہلکا سا غبار پل بھر میں شعلہ بنا اور سیبر ہوا ہی میں چرمراتا ہوا زمین پر گرا۔ تنہا بچ رہنے والے سِیسل کٹھن مقابلے کے بعد آخرکار لڑتے بھڑتے واپس نکل جانے میں کامیاب ہوئے ۔
ہلواڑہ میں پریشانی زیادہ دیر نہ رہی کیونکہ فلائنگ آفیسر پی ایس پنگالے اور فلائنگ آفیسر اے آر گاندھی کو جلد ہی ایئر فیلڈ کے نواح سے اٹھا لیا گیا۔ مگر سرگودھا میں کچھ دیر تک معاملات مبہم رہے۔ آدم پور حملے کے دو پائلٹس ایندھن کی قلت کے باعث رسالے والا میں اتر آئے تھے، لیکن کئی گھنٹوں تک انہیں لاپتا شمار کیا جاتا رہا۔ پھر رفیقی کے بارے میں متضاد خبریں آئیں؛ ایک کے مطابق وہ کسی طرح پار آ گئے تھے اور لاہور کے ایک ملٹری اسپتال میں تھے۔ شاید عوامی دلگیری کم کرنے کے لیے یہ خبر اڑی تھی، کیونکہ رفیقی نہایت مقبول تھے۔ یونس کی شہادت کی تصدیق نے سرگودھا میں اس خطرناک مشن کو روانہ کرنے پر ایک احساسِ ندامت بھی طاری ہوا۔
بعد میں بیان ہوا کہ رفیقی نے تمام ناموافق حالات کے باوجود وہ تمام احکامات بلا تامل قبول کیے۔ رفیقی نے آخری لمحوں پر ٹارمک پرجہاز کی جانچ کرتے ہوئے گہرے لہجے میں کہا تھا: "مجھے غالب یقین ہے کہ یہ ایک خودکشی اور یک طرفہ مشن ہے جہاں سے ہماری واپسی مکن نہیں" ۔ سیسل نے یہ سن کر ان سے کہا، "آپ اتھارٹیز سے یہ بات کیوں نہیں کرتے؟"۔ لیکن رفیقی اس مشن کی اہمیت کو جانتے تھے اس لیے انہوں نے کہا "یہ ایک حکم ہے اور میں سوال نہیں کر سکتا"
یہ جواب مشہور انگریز شاعر الفریڈ ٹینیسن کے مشہور مصرعوں کی یاد دلاتا ہے:
Theirs not to make reply,
Theirs not to reason why,
Theirs but to do and die.
اپنی جری قیادت پر سکواڈرن سرفراز رفیقی کو بعد از شہادت ہلالِ جراًت اور فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسین کو بعد از شہادت ستارہء جراًت سے نوازا گیا۔ جبکہ فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری کو بھی ستارہءجراًت ملا۔
بھارتی فضائیہ کی طرف سے ہلواڑہ کو پاک فضائیہ کے نڈر اور سرفروش تین رکنی دستے کے ہاتھوں سخت مار سے بچانے کی کامیاب کاوش پر فلائنگ آفیسر پی ایس پنگالے اور فلائنگ آفیسر اے آر گاندھی کو ویک چکرا دیا۔
゚viral