
10/18/2025
پشتون علماء کی خاموشی اور دینِ مبین!
شمالی وزیرستان میں ۱۵ اکتوبر کو فوج کا گولہ عمرکی کلہ حسوخیل میں ایک گھر پر لگا، جس سے ایک بچی کا چہرہ اڑ گیا اور کئی بچے و خواتین شدید زخمی ہوئے۔ پھر ۱۷ اکتوبر کو خدی میں فوج پر خودکش حملہ کیا گیا، جس میں راہ چلتی خواتین اور بچے جل کر راکھ اور ٹکڑے ہوگئے۔ یہ کوئی نیا سانحہ نہیں، بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پشتون علاقوں کا معمول بن چکا ہے۔ دونوں طرف سے “اللہ اکبر” کے نعرے لگ رہے ہیں، عوام کٹ مر رہی ہے، اور “اللہ اکبر” کے نعرے کا فیصلہ کرنے والے علماء مکمل خاموش ہیں۔
دینِ اسلام میں علم کا مقام ہمیشہ مفاد و خوف سے بالاتر رہا ہے۔ اسلامی تاریخ دیکھیں تو امام احمد بن حنبلؒ نے مامون کے دور میں “خلقِ قرآن” کے فتنے کے خلاف آواز اٹھائی، حاکم کا ظلم برداشت کیا، مگر حق سے پیچھے نہیں ہٹے۔ امام مالکؒ نے جب زبردستی طلاق کو ناجائز قرار دیا تو انہیں کوڑوں کی سزا دی گئی، لیکن انہوں نے حق بات کہنا نہ چھوڑا۔ امام ابو حنیفہؒ نے ظالم خلفاء کے سامنے جج بننے سے انکار کیا اور قید و اذیت برداشت کی۔ ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جن سے آج کے علماء، بالخصوص پشتون علماء کو سبق لینا چاہیے، کیونکہ شرع و اخلاق کی روشنی میں موقف کا واضح ہونا عالم کے ضمیر کی ہدایت اور اجتماعی انصاف کے لیے ناگزیر پیمانہ ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پشتون وطن میں جاری خونریزی صرف اور صرف مذہب کے نام پر ہو رہی ہے، مزھب کے نام پر پشتون کی نسل کشی پنجاب کر رہا ہے۔ ۔ لہٰذا یہ محض ایک جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ دینی، اخلاقی اور انسانی المیہ ہے۔ اس المیے کے سامنے علم و دین کے محافظ، علماء کرام کی خاموشی یا مبہم رویہ نہ صرف اخلاقی کمزوری کا ثبوت ہے بلکہ شرعی تقاضوں کے بھی منافی ہے۔
حدیثِ مبارکہ ہے “العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما، إنما ورثوا العلم، فمن أخذه أخذ بحظ وافر” یعنی “علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء نے دینار و درہم کی وراثت نہیں چھوڑی بلکہ علم کی وراثت چھوڑی، جو اس علم کو حاصل کرے اس نے بڑا حصہ پایا۔”
امام غزالیؒ اپنی کتاب “إحياء علوم الدين” (جلد ۱، باب العلم) میں لکھتے ہیں کہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق کو بیان کریں اور ظالم کے سامنے ڈٹ جائیں، کیونکہ ان کا مقام انبیاء کے وارث ہونے کی وجہ سے بلند ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر علماء ظالموں کے ساتھ تعاون کریں یا ان کے جرائم پر خاموش رہیں، تو وہ اللہ کے غضب کا شکار ہو سکتے ہیں۔ امام ابن عبد البرؒ نے “التمهيد” (جلد ۳، صفحہ ۱۱۲) میں لکھا کہ علماء جو ظلم کے خلاف خاموش رہتے ہیں، وہ اپنی وراثتِ انبیاء کے مقام سے محروم ہو جاتے ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ناحق قتل اور فتنہ کے خلاف “قولاً و فعلاً” آواز بلند کرنا فرضِ کفایہ ہے، اگر علماء خاموش رہیں تو سب گناہ میں شریک ہوتے ہیں (حاشیہ ابنِ عابدین، جلد ۴، ص ۳۰۴)۔ امام ابو یوسفؒ نے “كتاب الخراج” (صفحہ ۴۵) میں لکھا ہے کہ علماء کو حاکم کے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ ان کا علم انہیں اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ امت کو گمراہی سے بچائیں۔ امام طحاویؒ نے “شرح معاني الآثار” (جلد ۱، صفحہ ۲۳) میں حدیث “العلماء ورثة الأنبياء” کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ علماء کی خاموشی معاشرے میں فساد کا باعث بنتی ہے۔انہوں نے سورۃ آلِ عمران (آیت ۱۸۷) کی تفسیر میں واضح کیا ہے کہ علماء کا حق کو چھپانا یا ظالم کی حمایت کرنا سنگین گناہ ہے۔ امام شافعیؒ نے “الرسالة” (صفحہ ۷۸) میں لکھا کہ علماء کا فرض ہے کہ وہ اپنے علم کو ظالم حکمرانوں کے خلاف استعمال کریں، خاص طور پر جب وہ شرعی حدود کی خلاف ورزی کریں۔ امام نوویؒ نے “رياض الصالحين” میں حدیث “إذا رأى أحدكم منكرا فليغيره” کی شرح میں کہا کہ علماء کی خاموشی ظلم کے فروغ کا سبب بنتی ہے، اور انہیں اپنی زبان و عمل سے ظلم کی مخالفت کرنی چاہیے۔ ابن تیمیہؒ نے “السياسة الشرعية” (صفحہ ۱۱۲ تا ۱۱۵) میں لکھا کہ علماء کی خاموشی یا ظالم کی حمایت دین اور معاشرے دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ علماء کو ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنے سے نہیں ڈرنا چاہیے، کیونکہ ان کی خاموشی معاشرے میں فساد کو بڑھاتی ہے۔
قرآن کا فرمان ہے” وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ (الأنعام: 152) یعنی “اور جب بات کرو تو انصاف کی بات کرو، چاہے وہ تمہارے رشتہ دار کے خلاف کیوں نہ ہو۔”
ارشاد باری تعالی ہے، “وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ (البقرہ: 283“گواہی کو مت چھپاؤ، جو چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہے۔”
اسی طرح حدیثِ مبارکہ ہے “جو تم میں سے برائی دیکھے، اسے ہاتھ سے بدلے؛ اگر نہ سکے تو زبان سے؛ اگر وہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔” (صحیح مسلم)
علماء سے بصد احترام سوال ہے کہ فوج جب آپ کو مذاکرات کے لیے بھیجتی ہے تو آپ مہینوں افغانستان کے پہاڑوں میں پڑے رہتے ہیں، بطور فوجی آلہ کار مگر مقامی ٹارگٹ کلنگ، بھتوں اور دھماکوں کو روکنے کے لیے آپ ممبر و محراب سے وہ آیات و احادیث کیوں نہیں بیان کرتے جو اسلام کا حکم اور آپ پر فرض ہیں؟اسلام نے بے گناہوں کے خون کو مقدّس جانا ہے اور ظلم و ستم سے سختی سے روکا ہے،
“وَلَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ”
“اللہ نے جس جان کو حرام قرار دیا ہے اسے حق کے سوا قتل نہ کرو۔” (القرآن)
رسولِ اکرم ﷺ نے جنگ میں عورتوں اور بچوں کے قتل سے صریحاً منع فرمایا“نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ”
(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
پریغال ۔!!ےاش