07/12/2025
نمک خراب ہو جائے، تو اسے کون سنوارے؟
ایک دیہاتی نوجوان نے اپنی برادری کی ایک پردہ دار، بااخلاق اور دین دار لڑکی سے شادی کی۔ شادی کو ابھی ایک ہی سال گزرا تھا کہ نوجوان کا اپنے قریبی رشتہ دار سے شدید جھگڑا ہو گیا۔ غصے کی شدت میں آ کر اُس نے اسے ق ت ل کر دیا۔
رواج کے مطابق، وہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر اپنا علاقہ چھوڑ کر ایک دور دراز ضلع کے گاؤں میں جا بسا، جہاں ایک نئی برادری کے ساتھ زندگی گزارنے لگا۔
نوجوان اکثر گاؤں کے چودھری کے ڈیرے پر بیٹھا کرتا۔ بات چیت، مشورے، گپ شپ — سب معمول کے مطابق چلتا رہا۔ ایک دن چودھری کا گزر اُس کے گھر کے سامنے سے ہوا اور اس نے پہلی بار اُس کی بیوی کو دیکھا — باحیا، خوبصورت، باوقار۔
بس وہی لمحہ تھا، چودھری کے دل میں فتور آ گیا۔ اُس پر ایسا شیطانی غلبہ ہوا کہ اس نے دل میں ایک مکروہ منصوبہ بنا لیا — کسی طرح شوہر کو گھر سے دور بھیج کر بیوی کو اکیلا پا کر اپنی ناپاک خواہش پوری کرنا۔
چند دن بعد چودھری نے ڈیرے پر سب کے سامنے بات چھیڑی:
"مجھے پتا چلا ہے فلاں علاقے میں بہترین چراگاہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کچھ لوگ جا کر جائزہ لیں۔"
اس نے چار آدمی چُنے، جن میں وہ نوجوان بھی شامل تھا۔
چند دن کا سفر تھا، چاروں نکل گئے۔
رات کو چودھری چپکے سے نوجوان کے گھر جا پہنچا۔ اندھیرے میں دیوار سے ٹکرا گیا، آواز ہوئی اور بیوی جاگ گئی۔
سہم کر بولی، "کون ہے؟"
چودھری نے اپنا نام بتایا۔
وہ بولی، "اس وقت؟ خیریت ہے؟"
چودھری نے دل کی بات زبان پر رکھ دی:
"جب سے تمہیں دیکھا ہے، دل بے قرار ہے۔ تمہیں چاہتا ہوں، تم میری ہو جاؤ۔"
عورت نے نہایت وقار سے جواب دیا:
"ٹھیک ہے، اگر واقعی تم ایسا چاہتے ہو، تو پہلے میرے ایک سوال کا جواب دو۔ اگر ٹھیک دیا، تو جیسا کہو گے، ویسا ہوگا۔"
چودھری خوش ہو کر بولا، "پوچھو!"
عورت نے کہا:
"جیسے گوشت کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے نمک ڈالا جاتا ہے،
تو بتاؤ، اگر نمک ہی خراب ہو جائے…
تو اُسے کون ٹھیک کرے گا؟"
چودھری سوچ میں پڑ گیا۔
پورا دن اور رات گزر گئی، سمجھ نہ آیا۔
اگلے دن ڈیرے پر اس نے سب سے وہی سوال پوچھا، مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔
ایک گوشے میں ایک بزرگ بیٹھے تھے، خاموش۔
چودھری نے ان سے پوچھا،
"آپ نے جواب کیوں نہیں دیا؟"
بزرگ بولے:
"کیونکہ یہ صرف سوال نہیں، ایک پرانی حکمت کا پیغام ہے…
یہ عورت تمہیں برا کہہ سکتی تھی، بدنام کر سکتی تھی، مگر اس نے تمہیں ایک سوال دے کر تمہارے ضمیر سے جگایا۔"
پھر بزرگ نے کہا:
"جب گوشت خراب ہوتا ہے، تو نمک اسے بچا لیتا ہے۔
لیکن اگر خود نمک ہی خراب ہو جائے،
تو اُسے کون بچائے گا؟
یعنی…
جب عام لوگ بگڑیں، تو چودھری جیسے لوگ انہیں سنبھالتے ہیں،
لیکن اگر خود چودھری بگڑ جائے،
تو اسے کون سنوارے؟"
یہ سن کر چودھری کا سر شرم سے جھک گیا، آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
وہ بولا:
"اللہ تمہیں سلامت رکھے۔ تم نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میری خطا کو چھپا لو، جیسے رب چھپاتا ہے۔"
اور آخر میں شاعر کے الفاظ:
گوشت تو نمک سے بچ جاتا ہے،
لیکن اگر نمک ہی خراب ہو جائے…
تو کیا بچایا جائے گا؟
اور میں کہتا ہوں:
اگر باپ بگڑ جائے — تو اولاد کون سنوارے؟
اگر استاد بگڑ جائے — تو علم کون بانٹے؟
اگر رہنما بگڑ جائے — تو قوم کو کون بچائے؟
یاد رکھیں، داناؤں کی صحبت میں بیٹھنا سیکھو۔
نادانوں کی سنگت صرف دل نہیں، نسلیں بھی برباد کر دیتی ہے