Urdu Hay Jis ka Naam - اردو ہے جس کا نام

Urdu Hay Jis ka Naam - اردو ہے جس کا نام پیج لائک کرنے کا شُکریہ

“اگر حکومت نے موٹر سائیکل پر بچوں کے اسکول آنے پر پابندی لگائی ہے…تو پھر حکومت یہ بھی بتائے کہ ان بچوں کو اسکول تک لانے ...
12/04/2025

“اگر حکومت نے موٹر سائیکل پر بچوں کے اسکول آنے پر پابندی لگائی ہے…
تو پھر حکومت یہ بھی بتائے کہ ان بچوں کو اسکول تک لانے کی ذمہ داری کون نبھائے گا؟”

ہر گھر میں گاڑی نہیں ہوتی، ہر خاندان کے پاس ٹرانسپورٹ کا متبادل نہیں ہوتا۔
پابندی لگانا آسان ہے، مگر عوام کی مشکلات سمجھنا حکومت کے بس کی بات نہیں لگتی۔

بچے گھنٹوں پیدل چل کر اسکول نہیں جا سکتے۔
والدین روزگار چھوڑ کر انہیں لانے والے نہیں بن سکتے۔

اگر پابندی ضروری ہے، تو پھر بسیں بھی ضروری ہیں!
حکومت فوراً ایسے علاقوں میں اسکول بسیں، وینیں یا کم از کم شٹل سروس شروع کرے جہاں موٹر سائیکل ہی واحد ذریعہ ہے۔

یہ قوم کے بچے ہیں،
کوئی جرم نہیں کر رہے کہ انہیں راستوں میں خوار کیا جائے۔

جو پابندی لگاتے ہیں،
انہیں پہلے سہولت دینا سیکھنا ہوگا۔

تعلیم روکنے کی نہیں—
تعلیم ممکن بنانے کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔

12/04/2025
اگر آپ کے گھر کا صحن کھلا ہے، بالخصوص بیک یارڈ ہے تو گھر میں مرغیاں ضرور رکھیں ۔۔۔ آپ کی بیگمات آپ سے ضرور کہیں گی کہ گھ...
12/03/2025

اگر آپ کے گھر کا صحن کھلا ہے، بالخصوص بیک یارڈ ہے تو گھر میں مرغیاں ضرور رکھیں ۔۔۔ آپ کی بیگمات آپ سے ضرور کہیں گی کہ گھر میں ہم رہیں گی یا مرغیاں ۔۔۔۔۔۔
آپ نے ہمت جمع کر کے دوسرا آپشن منتخب کرنا ہے ۔۔۔۔۔

میں جب اس رہائش گاہ منتقل ہوا تو اول خیال مرغیاں رکھنے کا ہی آیا ۔ ایک درجن مرغیوں سے ہمیں اوسطاً پانچ انڈے روزانہ ملتے ہیں ۔ گندم باجرہ اور چند دوسرے بیجوں پر مشتمل خوراک زیادہ استعمال ہوتی ہے اور باقی جو بھی پھل سبزی کھانا روزانہ بچتا رہتا وہ بھی مرغیاں صبر شکر سے کھا لیتی ہیں ۔۔۔ ایک ماہ میں دس سے بارہ کلو خوراک (گیگلا) منگوانا پڑتا ہے جو قریباً بارہ سو روپے میں آ جاتا ہے۔ اگر انڈوں کی قیمت کا حساب کریں تو گرمیوں میں پینتیس سو کے انڈے اور سردیوں قریبا چھ سے سات ہزار کے انڈے ماہانہ بنتے ہیں ۔ اگرچہ قیمت یا منافع موضوع نہیں کیونکہ مرغیوں نے میرے دل میں اوائل جوانی سے جو جگہ بنائی ہے وہ کوئی اور نہیں بنا سکا ۔ اگر آپکے دل میں مرغیوں کے لیے جگہ نہیں بھی ہے تو دیسی انڈوں کیلیے تو جی مچلتا ہی ہو گا سو آپشن "بی" منتخب کریں، مرغیاں پالیں، نہ صرف دیسی انڈے کھائیں بلکہ اپنے گھر کی بلاشرکت غیرے حکمرانی کا لطف بھی لیں ۔۔۔۔۔

(گدائی ۔ ڈی جی خان)

جب توریاں سستی ہو جائیں اور پنڈ کے کاکے "انجنیئرنگ" میں بھی چنگے بھلے ایکسپرٹ ہوں۔😍😜🥰
12/03/2025

جب توریاں سستی ہو جائیں اور پنڈ کے کاکے "انجنیئرنگ" میں بھی چنگے بھلے ایکسپرٹ ہوں۔😍😜🥰

قربانی وہاں دینی چاہیـے جہاں اس کی ضرورت ہو! دوپہر کــے وقت چراغ جلانــے ســے اندھیرا ختم نہیں ہوتا،چراغ ختم ہو جاتا ہــ...
12/03/2025

قربانی وہاں دینی چاہیـے جہاں اس کی ضرورت ہو!
دوپہر کــے وقت چراغ جلانــے ســے اندھیرا ختم نہیں ہوتا،
چراغ ختم ہو جاتا ہـــے!!!

مزے کی بات یہ ہے جس ہیلمٹ کو زبردستی پہنایا جا رہا ہے اس ہیلمٹ سے آپ کا سر محفوظ ہی نہی وہ صرف چالان سے بچنے کے لئیے ہے ...
12/03/2025

مزے کی بات یہ ہے جس ہیلمٹ کو زبردستی پہنایا جا رہا ہے اس ہیلمٹ سے آپ کا سر محفوظ ہی نہی وہ صرف چالان سے بچنے کے لئیے ہے ۔ دنیا بھر میں ڈاٹ سرٹیفائیڈ ہیلمٹ استمعال ہوتا ہے ۔ اور پاکستان میں نناوے فیصد ہیلمٹ ڈاٹ سرٹیفائیڈ نہی صرف پلاسٹک کا ڈبہ سر پر لیکر گھوم رہے ہوتے ہیں ۔ 🙏
ہمارے مارکیٹ میں بکھنے والے بیشتر ہیلمٹ آپ کے سر کے لئیے محفوظ ہی نہی وہ صرف پیسے کمانے کے لئیے کسی تھرڈ کلاس ورکشاپ میں بغیر کسی تحقیق کے بنائے گئے ہیں 🙏 ہندوستان جو ہمارا پڑوسی ملک ہے وہاں اعلی کوالٹی کے ڈاٹ سرٹیفائڈ ہیلمٹ استمعال ہوتے ہیں اور پوری دنیا کو ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں قانون تو بن گیا ہیلمٹ پہننے کا لیکن کوئی فائدہ نہی ہو گا اس کا جب تک ایک بہترین ڈاٹ سرٹئیفائیڈ ہیلمٹ استمعال نہی ہو گا جس سے آپ کا بھیجا محفوظ رہے 👍

MH Toori

وہ چیزیں جن کی آپ کو دوسروں کے سامنے جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہےوہ ہے آپ کی تعلیم کی سطح ،آپ کی ظاہری شکل،آپ کی تنخوا...
12/03/2025

وہ چیزیں جن کی آپ کو دوسروں کے سامنے جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے
وہ ہے آپ کی تعلیم کی سطح ،آپ کی ظاہری شکل،آپ کی تنخواہ،آپ کا خدا کے ساتھ تعلق،آپ کا نجی وقت اور زندگی میں آپ کا انتخاب

انتون چیخوف

قلمی ردالیاںحاشیے پہ بیٹھے ہوئے فرد کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مرکز میں کیا ہورہا ہے۔ مگر اسے حاشیے میں ہونے والی ہر حرکت ...
12/03/2025

قلمی ردالیاں
حاشیے پہ بیٹھے ہوئے فرد کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مرکز میں کیا ہورہا ہے۔ مگر اسے حاشیے میں ہونے والی ہر حرکت کا اندازہ ہوتا ہے۔
میں کوئی واشنگٹن ،نیویارک، لندن، مانچسٹر ،میلان،پراگ، بارسلونا، سڈنی، ٹورنٹو یا اسلام آباد ،لاہور میں نہیں رہتی۔
میں سرگودھا کے بھی کسی پوش ایریا میں نہیں رہتی۔
میں ایک قصباتی شہر میں رہتی ہوں جہاں میرے آس پاس ریڑھیاں لگانے والے اور دکان دار مقیم دار ہیں۔میرے گھر سے میرے کالج تک اندر کا راستہ مشکل سے نصف کلومیٹر ہے جو میں اکثر پیدل طے کرتی ہوں۔ اس دوران میں ایک سبزی منڈی اور ایک تنگ بازار سے گزرتی ہوں جس کے اندر میرے کالج کا مین گیٹ ہے۔میں اس دوران مزدوروں ،ریڑھی والوں، چھوٹے دکان داروں کو صبح اپنی زندگی کا آغاز کرتے دیکھتی ہوں۔
اس طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ میں کوئی بورژوا طبقے سے تعلق رکھنے والی لکھاری نہیں ہوں بلکہ میں حاشیے پہ رہنے والی ایک عام فرد ہوں جس کا واسطہ ہر وقت عام لوگوں، مزدوروں ،ریڑھی رکشے والوں سے رہتا ہے۔ میں جو بھی لکھتی ہوں وہ میرے ذاتی مشاہدات ہوتے ہیں جو میں نے اپنے اردگرد دیکھے ہوتے ہیں۔ میں ہر اس پروپیگنڈا کو کاونٹر کرنے کی کوشش کرتی ہوں جس کو پھیلانے والے خود تو اس کے بدلے میں فنڈز لیتے ہیں مگر سماج کے ناپختہ ذہنوں کے اندر اپنے ہی ملک اور مٹی سے نفرت پیدا کردیتے ہیں۔ان کے پاس بڑے ٹھوس اعدادوشمار ہوتے ہیں کہ کتنے کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔کتنے ہیں جن کو دوائیاں نہیں مل رہیں۔کتنے ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ ملکی حالات کی ایسی تباہ کن اور بھیانک تصویر کھینچنے والے ان ماتم کنندگان کے اپنے بچے ہمیشہ باہر کے ملکوں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ خود بھی ہر بڑی کانفرنس کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہر امن میلے میں بیٹھے گیان بانٹ رہے ہوتے ہیں۔یہ جتنا روتے ہیں جتنے بڑے پیمانے پہ ماتم ڈالتے ہیں ان کو اتنے ہی بڑے بین الاقوامی سیمینارز اور کانفرنسوں کے ٹکٹ ملتے ہیں۔ ان کی ساری چیخ وپکار وطن اور ہم وطنوں کی محبت میں نہیں ہوتی بلکہ باہر کے ملکوں میں بیٹھی اپنی اولادوں کی شہریت کی ضمانت کنفرم کرانے کے لیے ہوتی ہے۔ہر جگہ پہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔سوشل میڈیا پہ ان کی فین فالونگ دیکھنے والی ہوتی ہے۔ یہ حکومت کی کسی مثبت پالیسی کو سراہنے پہ فوراً کسی کو بھی بوٹ پالشیے کا خطاب دے دیتے ہیں مگر خود کہاں کہاں پالش اور ناک گھسائی کرتے ہیں وہ پردہ اخفاء میں ہی رہے تو اچھا ہے۔ان سب کی باتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔یہ ہر جگہ پہ ایک جیسے تبصرے کرتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ ان کی کوئی ایک ہی تعلیم گاہ ہے اور ان کا نصاب بھی یکساں ہے۔
جس کے چند ایک نکات درج ذیل ہیں۔
پاکستان بہت جلد ٹوٹ پھوٹ کے ختم ہوجائے گا۔
پاکستان کی معیشت لائف سپورٹنگ مشین پہ چل رہی ہے۔
پاکستان کی بیس کروڑ عوام خط غربت سے نیچے ہے۔
پاکستان کا ہر بچہ جو سکول جانے کے قابل ہے وہ سکول سے باہر ہے۔
یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہا۔( یہ الگ بات ہے کہ جب ملک کے حالات ٹھیک ہونے لگتے ہیں ان کے خراب ہوجاتے ہیں۔ ان کی پیٹ کی مروڑ نہیں ٹھیک ہوتی)
اس ملک میں زومبیز رہ رہے ہیں۔
یہ قلمی ردالیاں روتی پیٹتی ہیں، اپنے معاوضے وصول کرتی ہیں اور اپنی پوش علاقوں کی کوٹھیوں کے پرسکون کمروں میں بیٹھ کے اپنے جیسی باقی ردالیوں کے ساتھ ملک کے شدید غم میں شراب کے جام لڑھکاتی ہیں۔ پاکستان میں عورتوں کی حالت زار پہ اشک بہاتی ہیں کہ کیسے یہاں کی عورت کو برقعے میں قید رکھ کے اس پہ ظلم کیا جارہا ہے یوں ان کی رات بیت جاتی ہے اکاؤنٹ ہمیشہ غیرملکی کرنسی سے اور دماغ ملکی نفرت اور عصبیت سے بھرے رہتے ہیں۔
اور جو حاشیے پہ بیٹھی ایک کم مایا لکھاری ہے اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مرکز میں کیا ہورہا ہے کیونکہ وہ کسی پروپیگنڈا ،ایجنڈا کا حصہ نہیں۔ وہ آزاد ہے وہ وہی لکھے گی جو اسے صحیح لگے گا۔

ڈاکٹر منزہ احتشام گوندل پرنسپل گورنمنٹ گرلز کالج کوٹ مومن

تین لوگ (قیدی) بچپن سے ایک غار کے اندر بندھے ہوئے ہیں۔وہ صرف غار کے سامنے دیوار دیکھ سکتے ہیں، جہاں باہر سے روشنی کی وجہ...
12/03/2025

تین لوگ (قیدی) بچپن سے ایک غار کے اندر بندھے ہوئے ہیں۔
وہ صرف غار کے سامنے دیوار دیکھ سکتے ہیں، جہاں باہر سے روشنی کی وجہ سے کچھ (shadows) – سائے دکھائی دیتے ہیں۔
انہیں لگتا ہے کہ یہی سایے اصل حقیقت ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی کچھ اور نہیں دیکھا۔

📌 پھر ان میں سے ایک شخص آزاد ہوتا ہے…

وہ باہر جاتا ہے
☀️ سورج دیکھتا ہے
🌳 درخت، پانی، لوگ، دنیا دیکھتا ہے
اور سمجھتا ہے کہ جو ہم دیکھتے تھے وہ حقیقت نہیں، صرف (shadows) تھے۔

وہ واپس آکر بتاتا ہے:

> “ہم جسے سچ سمجھ رہے ہیں، وہ دراصل جھوٹ ہے۔ اصل دنیا تو باہر ہے!”

لیکن باقی قیدی کہتے ہیں:

"یہ پاگل ہو گیا ہے!" 😒

"اس کی آنکھیں خراب ہو گئیں!" 🤨

"اگر ہمارے ہاتھ کھلے ہوتے تو ہم اس کو مار دیتے!" 😠

افلاطون اس مثال سے کیا سمجھانا چاہتا ہے؟

غار میں قیدی ہم عام انسان

صرف سایے دیکھتے ہیں صرف دنیا کو ظاہر میں دیکھتے ہیں
اصل حقیقت سے ناواقف گہرے علم اور حقیقت سے دور
آزاد ہونے والا شخص فلسفی یا وہ شخص جو حقیقت تک پہنچ جاتا ہے
اسے جھوٹا کہا جاتا ہے سچ بولنے والے کو اکثر لوگ مسترد کر دیتے ہیں

اکثر لوگ وہی سچ مانتے ہیں جو وہ دیکھتے یا سنتے ہیں، چاہے وہ حقیقت نہ ہو۔
اصل سچائی وہ ہے جو سوچ، علم اور تجربے کے ذریعے محسوس کی جائے۔

🔹 جب کوئی شخص حقیقت تک پہنچتا ہے اور سچ بولتا ہے,
زیادہ تر لوگ اس کو گمراہ، پاگل یا باغی سمجھتے ہیں۔

🔹 یہ مثال بتاتی ہے کہ
حقیقت تک پہنچنا مشکل ہے، اور اسے قبول کروانا اس سے بھی زیادہ مشکل۔

🙌 آج کی دنیا میں اس مثال کا مطلب

لوگ اپنی سوچ کی حد میں پھنسے ہوئے ہیں

سوشل میڈیا، معاشرہ، منگھڑت مذہبی اور سیاسی روایات یہ سب کبھی کبھی ہمیں سایوں کی طرح حقیقت کا دھوکا دیتے ہیں

جو شخص سوچ کا دائرہ توڑتا ہے,
وہی قید سے آزاد قیدی ہے

یاد رکھنا ہمیشہ ان لوگوں اور کتابوں کو فالو کریں جن پر
پابندی عائد ہوتی ہے وہاں اپکو کچھ نیا ضرور ملے گا 🙏

منتخب

جو کوئی نہ کر سکا وہ موٹر سائیکل والے مجاہدین کریں گے انشاءاللہ ۔۔۔
12/02/2025

جو کوئی نہ کر سکا وہ موٹر سائیکل والے مجاہدین کریں گے
انشاءاللہ ۔۔۔

"اگر آپ کی آنکھیں ہیں.. تو پھر آپ لوگوں کو کانوں سے کیوں دیکھتے ہیں؟!لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو آپ ان سے دیکھتے ہیں،...
12/02/2025

"اگر آپ کی آنکھیں ہیں.. تو پھر آپ لوگوں کو کانوں سے کیوں دیکھتے ہیں؟!
لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو آپ ان سے دیکھتے ہیں، نہ کہ ان کے بارے میں جو آپ سنتے ہیں۔
"

گیبریل گارسیا مارکیز

Address

New York, NY
10010

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Hay Jis ka Naam - اردو ہے جس کا نام posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Urdu Hay Jis Ka Naam

اُردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی

میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی

دکھنّ کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا

­­سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا