Urdu Hay Jis ka Naam - اردو ہے جس کا نام

Urdu Hay Jis ka Naam - اردو ہے جس کا نام پیج لائک کرنے کا شُکریہ

ہاتھ سے لکھی ہوئی قرآن کریم کی سورتیں❣️
10/16/2025

ہاتھ سے لکھی ہوئی قرآن کریم کی سورتیں❣️

ایک بچے کی کہانی جس کی حرکت ایک خبیث عورت کی نظر سے مفلوج ہوگئی!وہ بچہ زندگی سے بھرپور تھا…اس کی ہنسی سے گھر گونجتا تھا،...
10/16/2025

ایک بچے کی کہانی جس کی حرکت ایک خبیث عورت کی نظر سے مفلوج ہوگئی!

وہ بچہ زندگی سے بھرپور تھا…
اس کی ہنسی سے گھر گونجتا تھا،
اس کے ننھے قدموں کی چاپ خوشیوں کے نغمے سی لگتی تھی۔
ہر دن دوڑتا، گاتا، پڑھتا…
یہاں تک کہ ایک عام شام کو وہ “اجنبی مہمان” آئی۔
ایک عورت جسے وہ زیادہ نہیں جانتے تھے،
ایک قریبی خاتون کے ساتھ آئی تھی
بہانہ یہ تھا کہ “نئے گھر کی مبارکباد دینے آئی ہوں”۔
چند منٹ بیٹھی، گھر کے کونے کونے کو غور سے دیکھا،
پھر اس بچے پر لمبی اور عجیب نظروں سے نظریں جمائیں…
اور چلی گئی۔
اسی رات کے بعد سب کچھ بدل گیا۔
صبح بچہ بستر سے نہیں اٹھا۔
ماں نے پکارا… جواب نہ دیا۔
جب اس کو ہلایا تو جسم ٹھنڈا اور بالکل مفلوج تھا،
آنکھیں کھلی تھیں مگر خلا میں دیکھ رہی تھیں… کوئی حرکت نہیں۔
🩺 ماں دوڑ کر اسپتال لے گئی۔
ڈاکٹروں نے کہا
“جسمانی طور پر سب ٹھیک ہے، شاید ذہنی صدمہ ہو۔”
ماں نے کہا
“ایسا کچھ نہیں ہوا جو صدمے کا باعث بنے!”
پھر روتے ہوئے بولی
“یہ ضرور مسّ یا نظرِ بد ہے!”
اُسے اچانک اُس خبیث عورت کی وہ گہری نظروں والی ملاقات یاد آ گئی۔
جب ڈاکٹروں نے مایوسی ظاہر کی تو ماں نے اپنی جنگ شروع کی
حسد اور شیاطین کے خلاف۔
اس نے ایک نیک راقی سے رابطہ کیا،
جس نے بچے پر رقیہ پڑھا اور ماں کو سکھایا کہ کس طرح خود بچے کو رقیہ کرے۔
🌿 ہر رات وہ اس کے سرہانے بیٹھتی،
ہاتھ اس کے سینے پر رکھتی،
اور روتے ہوئے خاشع آواز میں پڑھتی
"ٱلْـفَاتِحَةُ"
"ٱللّٰهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْـحَىُّ ٱلْقَيُّومُ... (آیۃُ الکُرسِی)"
"آمَنَ ٱلرَّسُولُ... إِلَىٰ آخِرِ سُورَةِ البَقَرَةِ"
"قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْـكَـٰفِرُونَ"
"قُلْ هُوَ ٱللّٰهُ أَحَدٌ"
"قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلْفَلَقِ"
"قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلنَّاسِ"
"قَالَ مَن يُحْيِ ٱلْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ۝ قُلْ يُحْيِيهَا ٱلَّذِيٓ أَنشَأَهَآ أَوَّلَ مَرَّةٍ"
"رَبِّ ٱشْرَحْ لِي صَدْرِي ۝ وَيَسِّرْ لِيٓ أَمْرِي ۝ وَٱحْلُلْ عُقْدَةًۭ مِّن لِّسَانِي"
وہ اُسے پانیِ مرقی( دم شدہ )پلاتی،
اسی پانی سے روز اس کا جسم دھوتی،
اور زیتون کے تیل (دم شدہ) سے بچے کے نرم جسم کو مَلتی۔
پورے گھر اور کمرے میں سورۃ البقرہ کا پڑھا ہوا پانی چھڑکتی۔
اور ہر رات دعا کرتی
“اَللّٰهُمَّ رُدَّهُ كَمَا كَانَ وَأَحْسَنَ، وَلَا تَجْعَلْنِي أَرَاهُ هٰكَذَا أَبَدًا.”
دن آہستہ گزرتے رہے جیسے سال بیت رہے ہوں…
پھر ایک رات، جب وہ رقیہ پڑھ رہی تھی، معجزہ ہوا ❤️
بچے کی انگلیاں ہلیں۔
چند دن بعد اس نے آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کیا۔
پھر ایک کمزور سی آواز نکلی: “ماما…”
ماں زمین پر گر کر رونے لگی،
سجدے میں گئی اور کہا
“اللّٰهُمَّ رَدَدْتَ إِلَيَّ رُوحِي.”
دو یا تین مہینوں میں بچہ بالکل ٹھیک ہوگیا
پھر سے ہنستا، کھیلتا، اور زندگی لوٹ آئی۔
✅ کتنے ہی بچے نظرِ بد میں مبتلا ہوتے ہیں اور کسی کو احساس نہیں ہوتا!
لہٰذا اپنی جان، اپنے بچوں، اپنے گھروں اور اپنے مال کی حفاظت اذکار اور دعاؤں سے کیجیے،
کیونکہ بچوں کے دل بہت پاکیزہ اور نرم ہوتے ہیں وہ حسد کی شرارتیں برداشت نہیں کر پاتے۔
وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ۔

منتخب

10/16/2025

کل ایک ویڈیو لگائی تھی، جس میں ایک متشدد باپ اپنے نوجوان بیٹے کو عوامی جگہ پہ اس کے دوستوں کے سامنے جاہلوں کی طرح گالیاں دیتا ہوا مار رہا ہے۔ میں نے اس پہ اعتراض کیا تھا کہ یہ رویہ درست نہیں، یہ بچہ کے لیے بہت تکلیف دہ اور عمر بھر کا روگ ہے۔

اس کے بعد انباکس میں کئی لوگوں کے میسجز آئے جو اسی تکلیف سے گزرے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنے باپ سے تعلق نبھا رہے ہیں لیکن وہ چاہ کر بھی اپنے باپ کے لیے اپنے دل میں محبت پیدا نہیں کر سکے۔ ان کے باپ کے متشدد رویے نے ان کی شخصیت کو مسخ کرنے کے ساتھ ان کے دل میں اپنی محبت بھی مجروح کر دی تھی۔

ایک بیٹی کو دکھ ہے کہ اس کا باپ بیٹی نہیں چاہتا تھا، اس لیے اس نے کبھی اسے محبت نہیں دی، کبھی اسے بیٹی کہہ کر نہیں بلایا۔ وہ چاہ کر بھی اس دکھ سے نکل کر خوشیاں محسوس نہیں کر پا رہی، زندگی کو نارمل انداز میں نہیں دیکھ پا رہی۔

ایک آدمی کو دکھ ہے کہ اس کا باپ عوامی جگہوں پہ اسے گالیاں دیتا تھا ، اس کی تذلیل کرتا تھا۔ اب باپ بوڑھا ہے، وہ آدمی اس کی خدمت بھی کر رہا ہے لیکن اس سے محبت نہیں کر پا رہا۔ اسے مذہبی اور اخلاقی اعتبار سے بھی مسلسل یہ افسوس رہتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو محبت نہیں دے پا رہا۔

ایسے ہی اک اور شخص سے میں نے کہا کہ اپنے باپ کو معاف کر دو تو کہنے لگا
“میری کیا اوقات کہ میں انھیں معاف نہ کروں۔ معاف تو کب کا کر دیا، بس یہ بچپن کے گھاؤ نہیں بھر رہے”

۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نوید خالد تارڑ ۔۔۔۔۔

قصور وار کون ؟ کل خرادیے کے پاس کچھ کام کروانے گیا ، مجھے کام تھوڑا جلدی چاہییے تھا لیکن اس کے پاس ایک گاہک کھڑا تھا اور...
10/16/2025

قصور وار کون ؟

کل خرادیے کے پاس کچھ کام کروانے گیا ، مجھے کام تھوڑا جلدی چاہییے تھا لیکن اس کے پاس ایک گاہک کھڑا تھا اور وہ اس کے کام میں مصروف تھا

میرا خراد وغیرہ کا کام کم ہی نکلتا ہے اسی لیے ایک ہی بندے سے کام کرواتا ہوں ، اس کو اس کے کام کے اچھے پیسے دیتا ہوں بعض اوقات طے شدہ ریٹ سے سو پچاس زیادہ دے دیتا ہوں ، کبھی اس کو ادھار پیسوں کی ضرورت ہو تو اس کی خوشدلی سے مدد کر دیتا ہوں اور اس سے ہمیشہ اچھے اخلاق سے بات کرتا ہوں جس کی وجہ سے وہ میرے کام کو ترجیح دیتا ہے لیکن جب میں خود دیکھوں کہ مشین میں کسی کام کی ٹَھل ( جاب ) باندھی ہوئی ہے تو انتظار کر لیتا ہوں

بات سے بات نکل رہی ہے ، میری مارکیٹ میں ایک جوتے پالش کرنے والا شخص بھی آتا ہے ، عام طور پر بیس روپے پالش کے لیتے ہیں لیکن میں اس کو تیس روپے دیتا ہوں اور اس کو ہمیشہ حاجی کہہ کر بلاتا ہوں ( اس کی عمر پچاس کے قریب ہے تو عزت کے لیے حاجی بلاتا ہوں)

ہر تیسرے چوتھے روز اس سے پالش کرواتا ہوں چاہے اس کی ضرورت نہ بھی ہو ، اس عزت کی وجہ سے وہ جوتی کو اتنی محنت سے پالش کرتا ہے کہ دو سال پرانی جوتی بھی نئی لگتی ہے ، خود ہی دکان کے اندر آ کر مجھے ایکسٹرا جوتی دے جاتا ہے اور میرے بوٹ لے جا کر سکون سے پالش کر کے واپس لا دیتا ہے ، عید تہوار پر بھی اس کو اپنے گاؤں جانے کے لیے کچھ رقم دے دیتا ہوں

میرا یہ ماننا ہے کہ یہ محنتی لوگ اس سے زیادہ کے حقدار ہیں اور ہماری کچھ رقم اور عزت سے ان کی خوشی بڑھ جاتی ہے

قصے پر واپس آتے ہیں
جب اس خرادیے کے پاس گاہک اور مشین کو دیکھا تو اسے اپنے کام کے لیے زیادہ زور نہیں لگایا کہ جلدی کر دو ، اور میں نے اپنے گاہک کو فون کر دیا کہ آپ کے میگنٹس آپ کو کل ملیں گے

آج وہ خرادیہ میرے پاس خود میرا کام واپس کرنے آیا ، دکان پر جب بھی آتا ہے تو گھر کی باتیں بھی شروع کر دیتا ہے ، اس نے بتایا کہ جو گاہک اس کے پاس آیا تھا وہ کشمیر کا ہے اور وہ وہاں پر فری انرجی ( مفت بجلی ) بنانا چاہتا ہے

اس بندے نے یو ٹیوب یا ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو دیکھ لی تھی جس میں فلائی وھیل کے زریعے جنریٹر چلایا جاتا ہے ، آپ نے بھی ایسی ویڈیوز دیکھی ہوں گی ، فلائی وھیل ایک شافٹ کے ساتھ لگے اس پہیے کو کہا جاتا ہے جو اس شافٹ سے کئی گنا بڑا اور وزنی ہوتا ہے ، دراصل فلائی وھیل جنریٹر میں پہلے بیرونی بجلی کے زریعے موٹر کو آن کیا جاتا ہے ، وھیل جب گھومنا شروع ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی گھومنے کی طاقت بھی شامل ہو جاتی ہے یعنی جب ایک دفعہ بھاری پہیہ گھوم جاتا ہے تو اس کے گھومنے کی وجہ سے بھی ایک طاقت پیدا ہوتی ہے جو کہ بیرونی بجلی کو ختم کرنے کے بعد بھی اس میں موجود رہتی ہے

اسی فارمولے کو استعمال کرکے کئی ناہنجاروں نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز ڈال رکھی ہیں کہ پہیہ گھومنے کے بعد بیرونی بجلی کو منقطع کر دیا جاتا ہے اور پھر اس فلائی وھیل کے ساتھ لگی ڈینمو کو آن کر کے اس میں سے آنے والی بجلی کے زریعے وھیل کی موٹر کو چلایا جاتا ہے

سائنس کا ایک اصول ہے کہ کسی بھی طاقت ( انرجی ) کو پیدا کرنے کے لیے طاقت کی ہی ضرورت ہو گی لیکن کبھی بھی کسی بھی مشین کے ذریعے مہیا کردہ طاقت سے زیادہ طاقت حاصل نہیں کی جا سکتی ، اگر کوئی بہت ہی قابل مشین ہو ( جو کہ ابھی تک نہیں بن سکی ) تو جتنی طاقت دی جا رہی ہے اتنی ہی طاقت واپس مل سکے گی لیکن اس سے زیادہ ہرگز نہیں مل سکتی ، اسے رول آف تھرمو ڈائنامک کہا جاتا ہے
یعنی ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا ہے فلائی وھیل کو بیرونی طاقت کے بغیر چلائے اس سے مفت بجلی حاصل کی جا سکے !
لیکن ایسی ویڈیوز جس میں باقاعدہ دکھایا جاتا ہے کہ بیرونی طاقت ( بجلی ) کو منقطع کرکے وھیل کے جنریٹر سے کئی کلو واٹ کی چیزیں چلائی جا رہی ہوتی ہے ، ایسا صرف وقتی طور پر ہو سکتا ہے لیکن مستقل ایسا ممکن نہیں ، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے وقار نامی شخص نے پانی کے زریعے گاڑی چلا کر دکھا دی تھی

جیسے پانی کے زریعے گاڑی کو مستقل نہیں چلایا جا سکتا ایسے ہی فلائی وھیل کے زریعے بھی مستقل بجلی حاصل نہیں کی جا سکتی ہے ، یہ ناممکن ہے کیونکہ یہ سائنس کے اصول کے ہی خلاف ہے

اس خرادیے سے کہا کہ کیا صرف ہم پاکستانی ہی پوری دنیا میں سمجھدار ہیں کہ یہ طریقہ صرف ہمیں سمجھ آیا ہے جبکہ پوری دنیا کے سائینسدانوں کو آج تک اس فارمولے کا پتا نہیں چل سکا ؟

جبکہ ترقی یافتہ ممالک ٹیکنالوجی میں ہم سے کئی سال آگے ہیں ، ہم ان کی دس سال پرانی ٹیکنالوجی کو نیا سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور وہ لوگ آر اینڈ ڈی ( ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ) کے لیے بھی اربوں کھربوں روپیہ خرچ کرتے ہیں

خلا کو تسخیر کی کوشش کرنے والے آج تک فری انرجی جیسی کوئی ڈیوائس نہیں بنا سکے تو پاکستان میں بیٹھے ایک شخص میں ایسے کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ فری انرجی ڈیوائس بنا سکتا ہے
اس خرادیے کے پاس آئے ہوئے گاہک کا اب تک ساٹھ ہزار روپیہ لگ چکا تھا اور کشمیر پہنچ کر فٹنگ ہونے تک یہ ایک لاکھ سے اوپر کی رقم بن جانی ہے
اور یہ ایک لاکھ روپیہ بالکل برباد ہو جائے گا ، بعد میں مایوس ہو کر وہ دل برداشتہ ہو گا کیونکہ میں نے خود اس کی آنکھوں میں کھربوں روپے حاصل کرنے کے خواب دیکھے ہیں یا تو یہ سب کچھ دس بیس ہزار روپے میں کسی کباڑی کو بیچ دے گا یا پھر اپنی بھی ویسی ہی کوئی ویڈیو بنا کر مزید لوگوں کو گمراہ کرے گا جیسی ویڈیو دیکھ کر خود اس نے ایک لاکھ روپیہ ، اپنا قیمتی وقت اور خواب ضائع کیے تھے

مجھے یقین ہے کہ اس تحریر پڑھنے والوں میں بھی کئی ایسے لوگ شامل ہوں گے جو فری انرجی کو حقیقت سمجھتے ہیں اور اس فری انرجی والے شارٹ کٹ کے زریعے راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں

لیکن نہ تو یہ شارٹ کٹ ہے اور نہ ہی ہر شارٹ کٹ کامیابی کی طرف جاتا ہے

صبر اور ایمانداری کے ساتھ اپنے اپنے کاموں میں محنت کریں یہی سب سے بڑا شارٹ کٹ ہے

نشر مکرر

توصیف ملک

جب بھیڑیے کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ وہ دوسرے بھیڑیے کے خلاف لڑائی ہار رہا ہے اور اس کی جیت کا اب کوئی امکان باقی نہیں ہے،...
10/16/2025

جب بھیڑیے کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ وہ دوسرے بھیڑیے کے خلاف لڑائی ہار رہا ہے اور اس کی جیت کا اب کوئی امکان باقی نہیں ہے، تو یہ ایک غیر متوقع فیصلہ کرتا ہے؛ یہ بنا مزاحمت کیے انتہائی پرامن ہوکر اپنے گلا، اپنی گردن اپنے مخالف کو آفر کردیتا ہے جیسے یہ کہہ رہا ہو کہ؛
"میں ہار چکا ہوں، آؤ اب اس لڑائی کو اس کے انجام تک پہنچائیں."

لیکن خاص اسی لمحے ایک حیرت انگیز اور متاثر کن چیز رونما ہوتی ہے. لڑائی میں بھاری پڑنے والا بھیڑیا جو جیت چکا ہوتا ہے، بجائے کہ وہ گردن آفر کرنے والے بھیڑیے پر اپنا آخری وار کرکے اس کو ختم کرے، یہ منجمد ہوجاتا ہے.

ایک قدیم قوت اس کو ایسا کرنے سے روک لیتی ہے، ایک خاموش موروثی قانون، جو بھیڑیے کی جین(DNA) میں پیوست ہوتا ہے، یا اس سے بھی زیادہ آگے کی بات ہے، یہ قدیم موروثیت سرگوشی کرتی ہے کہ جانداروں کی بقا زیادہ اہم ہے بجائے کہ اپنے ساتھی کو مار کر، راستے سے ہٹا کر سکون حاصل کیا جائے.

یہ کتنا زبردست قدرتی نظام ہے؛
اس میں کوئی بزدلی نہیں ہوتی، جو سرنڈر کرتا ہے، اور اس میں رحم نہیں ہوتا جو مارنے سے رک جاتا ہے. یہ ایک پرفیکٹ توازن ہوتا ہے. وہاں کوئی شکست خوردہ اور کوئی فاتح نہیں ہوتا. دونوں بھیڑیے ایک دوسرے سے الگ ہوکر اپنے اپنے راستوں پر چلے جاتے ہیں. اور زندگی کا یہ سائیکل جاری رہتا ہے.

منتخب

لوگوں  کے درمیان صلح کروانا ثواب کا کام ہے جناب  ڈونلڈ ٹرمپ جن گوں  والی سرکار
10/16/2025

لوگوں کے درمیان صلح کروانا ثواب کا کام ہے
جناب ڈونلڈ ٹرمپ جن گوں والی سرکار

تیس سال بعد دنیا کے مرکزی بینکوں کے پاس سونا امریکی ٹریژری بانڈز سے زیادہ ہوگیا ہے یعنی اب دنیا کاغذی باتوں کو چھوڑ کر ھ...
10/16/2025

تیس سال بعد دنیا کے مرکزی بینکوں کے پاس سونا امریکی ٹریژری بانڈز سے زیادہ ہوگیا ہے یعنی اب دنیا کاغذی باتوں کو چھوڑ کر ھارڈ منی کی طرف پلٹ رہی ہے اسکے پیچھے کیا اسباب ہیں۔؟

سب سے پہلے ہماری دنیا میں بارٹر ٹریڈ کے زریعے تجارت کی جاتی تھی تب لوگ اناج کے بدلے میں جنگی ساز و سامان لیتے تھے۔

جانوروں کے بدلے میں جانور لیتے تھے
اسکے بعد دنیا کی تجارت سونے کے سکے میں ہونی شروع ہوئی پھر اسکے بعد پیپر کرنسی وجود میں آئی جسے آج کل ہم تجارت کے لئیے استعمال کرتے ہیں

پھر بٹ کوائن کی شکل میں پہلی ڈیجیٹل کرنسی وجود میں آئی جسکو مکمل طور پر دنیا نے قبول نہیں کیا مگر مکمل طور پر ریجکٹ بھی نہیں کیا بٹ کوائن کو ڈیجیٹل گولڈ بھی کہا جاتا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں امریکی ٹریژری بانڈ کی ھولڈنگ ڈاؤن ہو رہی اور گولڈ کی ھولڈنگ بڑھتی جا رہی ہے کیا ہماری دنیا ڈی ڈالرائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔؟
کیا امریکہ یہ سب آسانی سے ہونے دے گا۔۔ ؟
یہ دو بڑے اور بنیادی سوال ہیں جنکا جواب آنے والا وقت دے گا۔

تیس سال تک دنیا پہ حکومت کرنے والا ڈالر آج خود سوالوں کے گھیرے میں کھڑا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ 1996 کے بعد آج دنیا کے سینٹرل بینکوں کے پاس امریکی ٹریژری بانڈز سے زیادہ سونا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ دنیا کی تاریخ بدلنے کی طرف ایک اشارہ ہو سکتا ہے۔

آپکو 2008 کا اقتصادی بحران یاد ہوگا جب پہلی بار دنیا نے محسوس کیا کہ ڈالر پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرنا رسکی ہے۔

اسکے بعد دنیا نے دیکھا کہ سال 2022 میں امریکہ نے روس کے سینٹرل بینکس کے 330 بلین ڈالرز کے فارن ایکسچینج ریزرو فریز کر دئیے تب دنیا کی آنکھیں کھلیں کہ آج روس ہے کل ہمارا نمبر بھی ہو سکتا ہے۔

روس کے ایکسچنج ریزرو فریز ہونے کے بعد سونے کی خریداری میں تیزی آ گئی۔
ورلڈ گولڈ کونسل کا ڈیٹا دیکھیں تو دنیا کے سینٹرل بینکوں نے سال 2022 میں 1082 ٹن سونا خریدا۔
پھر سال 2023 میں 1037 ٹن سونا خریدا گیا

پھر سال 2024 میں 10180 ٹن سونا خریدا گیا۔

جبکہ دنیا میں سونے کے ذخائر محدود ہیں اسی لئیے
پوری دنیا میں سالانہ 3 ہزار ٹن سونا مائن کیا جاتا ہے۔

اب ٹرینڈ صاف نظر آ رہا ہے کہ پیپر کرنسی (امریکی ڈالر) پر سے دنیا کا بھروسہ ٹوٹ رہا ہے لیکن بات پھر وہی ا جاتی ہے کہ کیا امریکہ ایسا ہونے دے گا۔؟

پیپر کرنسی سسٹم کی بدولت آج پوری دنیا کا قرضہ 300 ٹریلین ڈالر پر پہنچ گیا ہے جبکہ اس وقت پوری دنیا کی جی ڈی پی 100 ٹریلین ڈالر ہے یعنی جتنا پیسہ ہے اسکا 200 فیصد قرضہ ہے۔

یہ قرضہ کس نے لیا کس کو دیا کب دیا کیوں دیا کب چکانا ہے کچھ معلوم نہیں ہے سسٹم کے اندر اسکیم ہوتا ہے لیکن یہاں پورا سسٹم ہی اسکیم پر مبنی ہے

ہوا کچھ یوں کہ 1970 میں ڈالر کے پیچھے سے گولڈ کی گارنٹی ختم کر دی گئی تب سے دنیا بھر کے مرکزی بینکوں نے دھڑا دھڑ پیپر کرنسی چھاپنی شروع کر دی جسکی وجہ سے انفلیشن بڑھتی گئ عام آدمی متاثر ہوا صورتحال یہ ہے کہ آج ڈویلیپ کنٹریز میں بھی لوگ بری طرح متاثر ہیں۔

اب سینٹرل بینکس زیادہ پیسہ پرنٹ کرتے ہیں تو انفلیشن بڑھتی ہے جس سے عام آدمی شدید متاثر ہوتا ہے۔

اسی لئیے آج گریٹ ری سیٹ 2030 کی باتیں کی جا رہی ہیں

محمد بلال خان

10/16/2025
10/15/2025

میٹرک پاس۔۔۔۔۔

انٹرویو کے دوران ایک میٹرک پاس شخص کئی گریجویٹ لوگوں سے بہتر نکلا۔
دو دن پہلے انٹرویوز لیتے وقت مختلف نوجوان سامنے آتے رہے لیکن ٹیبل پر پڑی سی ویز میں سے ایک سی وی مسلسل ہماری توجہ کا مرکز بنی رہی کیونکہ یہ سی وی ایک میٹرک پاس شخص کی تھی۔ جہاں تمام لوگ مختلف یونیورسٹیز سے گریجویٹ تھے ان لوگوں کے مابین ایک میٹرک پاس شخص کی موجودگی میری توجہ کا مرکز تھی کہ آخر وہ کون سی خود اعتمادی یا صلاحیت ہوگی جو اس شخص کو یہاں لے کر آئی ہے؟

ایک انٹرویو اس لڑکے کا لیا جو گرجویٹ تھا لیکن ایک سال سے بیروزگار تھا۔ سی وی پر موجود تصویر اور تعلیم دیکھ کر لگ رہا تھا کہ آنے والا اچھی پرسنیلٹی کا شخص ہوگا۔
لیکن جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا تو سب اندازے بدل گئے۔ گریبان کے بٹن کھلے ہوئے۔ کف اوپر چڑھا رکھے تھے۔ وائیٹ شلوار قمیض پہنا ہوا تھا جو اس وقت وائیٹ نہیں تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے آتے ہوئے کپڑے تک تبدیل نہیں کیے۔ منہ نہیں دھویا۔ کنگھی نہیں کی۔ جوتا بھی پالش نہیں کیا۔

حیران کن بات تھی تو میں نے درمیان میں ہی سوال پوچھا کہ کیا آپ نے انٹرویو کی تیاری کی تھی؟ یا بس ایسے ہی چکر لگانے کا سوچا؟
جی سر تیاری کی تھی۔۔
لیکن بظاہر نظر نہیں آ رہا کہ آپ خاص طور پر صرف انٹرویو دینے پہنچے ہیں؟
جی سر میں بس ایسے ہی چلا آیا جیسے بیٹھا ہوا تھا

ایک انٹرویو دینے والے نے ایم فل کیا ہوا تھا اور اپنی سی وی کو صندوق بنا رکھا تھا۔ سب سے اوپر ایک کارڈ آویزاں تھا جس کے مطابق یہ شخص کسی ادارے کے ڈائریکٹر تھے۔
ہم نے پوچھا وہاں سے آپ کو کتنی آمدنی ہو جاتی ہے؟
کہنے لگے ستر ہزار روپے۔۔
اس کے علاوہ کیا کرتے ہیں؟
ٹیوشنز دیتا ہوں۔
وہاں سے کتنی آمدنی ہو جاتی ہے؟
چالیس سے پچاس ہزار روپے۔

مجھے یہ بات کچھ ہضم نہیں ہو رہی کہ ایک لاکھ سے زائد کمانے والا شخص سب کچھ چھوڑ کر تیس ہزار بیسک سیلری پر کام کرنے کا خواہش مند ہے؟
بس سر یہ میرا شوق ہے۔
میں آپ کے شوق کی قدر کرتا ہوں لیکن آپ کا ایم فل ہے اور آپ کی موجودہ جاب روٹین بھی ڈگری کے مطابق ہے۔ پھر بھی آپ مارکیٹنگ کیلئے انٹرویو دینے آئے ہیں جبکہ مارکیٹنگ میں آپ کی ڈگری بھی نہیں ہے؟
بس سر کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے
پہلے کبھی مارکیٹنگ کی ہے؟
نہیں۔۔
پھر کیسے کریں گے جبکہ مارکیٹنگ بھی ایک سافٹویئر کی ہے؟
مجھے اپنی خود اعتمادی پر یقین ہے سر۔
خود اعتمادی پر یقین کیسے ہوتا ہے؟
بس ہوتا ہے سر۔۔
کیسے ہوتا ہے؟ خود اعتمادی بھی سکلز کے بعد آتی ہے تو کیا سکلز ہیں آپ کے پاس؟
لمبی خاموشی۔۔۔
اس دورانیے میں ہم سوال قومی زبان میں کر رہے تھے اور محترم ٹوٹے پھوٹے انگریزی کے جملوں کا استعمال کرنے کی کوشش کر رہے تھے میں نے کہا۔۔
ریلیکس رہیں۔۔
انگریزی ایک زبان ہے سکل نہیں۔ آپ تسلی سے اُردو میں جواب دے سکتے ہیں اور اس طرح آپ زیادہ خود اعتماد نظر آئیں گے۔

اب آتے ہیں میٹرک پاس شخص کی جانب۔۔
یہ شخص کمرے میں داخل ہوا۔
بلیک کلر کی ایک سادہ سی شرٹ پہنی ہوئی تھی جو بالکل صاف ستھری اور اچھے سے پریس کی گئی تھی ۔ سادہ سا بیلٹ لیکن ڈیسنٹ تھا۔ جوتے پرانے تھے مگر خوب پالش کر کے چمکائے گئے تھے۔ ہاتھ میں ایک سادہ سی گھڑی پہنی ہوئی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ کٹنگ کروا کر، داڑھی بنوا کر، نہا کر کنگھی کی اور تیار ہو کر ایک سادہ سا پرفیوم لگا کر انٹرویو دینے پہنچے ہیں۔
اپنا پہلا تاثر ہی اتنا کمال دیا کہ ڈگری پر لکھی میٹرک تعلیم کی اہمیت ایک یونیورسٹی کے گریجویٹ سے زیادہ دکھائی دی۔
بیٹھنے کا انداز پرکشش تھا۔ دھیما لہجہ اور بہترین آئی کنٹیکٹ تھا۔ اوور کانفیڈنٹ نہیں تھے لیکن کانفیڈینس کمال کا تھا۔

ہم نے بار بار ایک بات پوچھی کہ اگر ہم آپ کو رکھ لیتے ہیں تو آپ ایک ماہ میں کتنے سافٹویئر سیل کر سکتے ہیں؟
انہوں نے کوئی خود اعتمادی کی بات نہیں کی بلکہ کہا کہ یہ بات تو میں سافٹویئر کے بارے جاننے اور ٹرینینگ لینے کے بعد ہی بتا سکتا ہوں۔ ❤️
میں نے اپنے سامنے پڑا ہوا بال پوائنٹ ان کے آگے کیا اور کہا کہ اسی کمرے میں اسے فروخت کرنا ہو تو آپ کیسے کریں گے؟
یہی سوال میں نے ہر شخص سے کیا تھا۔ کوئی ہنسنے لگا تو کوئی خاموش بیٹھا رہا لیکن یہ میٹرک پاس شخص بار بار نئی وجہ تلاش کر کے بال پوائنٹ خریدنے پر ہمیں اکساتا رہا۔۔
بال پوائنٹ پر نیچے کی طرف ایک داغ لگا ہوا تھا میں نے کہا یہ کیا ہے؟
کہنے لگے" آپ کے ہاتھ میں سیمپل ہے اگر آپ خریداری کریں گے تو آپ کو فریش دیا جائے گا"🌹
آپ کا سیمپل ہی اچھا نہیں ہے تو میں یقیں کیسے کر لوں؟
سیمپل مختلف لوگوں کے ہاتھ سے گزر کر آپ کے پاس آیا ہے جبکہ فریش صرف آپ کے ہاتھ آئے گا۔

بہت دیر تک بہت دلچسپ باتیں ہوئیں۔۔
جہاں انہیں بات سمجھ نہ آتی وہاں کوئی بھی جواب دینے سے پہلے فوراً کہتے تھے" مجھے سمجھ نہیں آئی وضاحت کر دیں یا دوہرا دیں"

ان کے پاس ان کے مطابق دو شرٹس ہیں جسے وہ عام استعمال میں نہیں لاتے جب کسی جگہ جانا ہو تب اسے اچھے سے دھو کر پریس کر کے زیبِ تن کرتے ہیں۔
آخر میں ہاتھ ملا کر میں نے کہا کہ آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی اور سامنے پڑے فارم پر اپنے ریمارکس دیتے ہوئے لکھا۔۔۔
ہائیلی ریکمنڈڈ۔۔۔ ❤️

دیکھیے آپ کی ڈگری یا حاصل کردہ نمبر کبھی بھی آپ کے ذہین یا با صلاحیت ہونے کا ثبوت نہیں ہو سکتے بہت کچھ آپ مختلف جگہوں پر جاب کرتے ہوئے سیکھتے ہیں یا پھر ارد گرد کے ماحول سے آپ کی مکمل شخصیت بنتی ہے ۔۔

منتخب

طب کی تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور اور بدنام زمانہ واقعہ جس میں غلام عورتوں پر آپریشن کے تجربات کیے گئے، وہ امریکی ڈاکٹر ...
10/15/2025

طب کی تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور اور بدنام زمانہ واقعہ جس میں غلام عورتوں پر آپریشن کے تجربات کیے گئے، وہ امریکی ڈاکٹر جے میریون سمز (Dr. J. Marion Sims) کے کیے گئے تجربات ہیں۔

ڈاکٹر سمز، جنہیں "جدید گائنکالوجی کا باپ" بھی کہا جاتا ہے، نے 1845ء سے 1849ء کے دوران الاباما میں متعدد غلام سیاہ فام خواتین پر بغیر بے ہوشی (anesthesia) کے تکلیف دہ سرجری کے تجربات کیے تاکہ وہ پیدائش کے بعد کی پیچیدگیوں، خاص طور پر ویسیکو ویجائنل فسٹولا (Vesicovaginal Fistula) کا علاج دریافت کر سکیں۔
ان تجربات کا سب سے بڑا ظلم یہ تھا کہ ان خواتین سے ان کی مرضی نہیں لی گئی، اور چونکہ وہ غلام تھیں، ان کے مالکان کی رضامندی ہی کافی سمجھی جاتی تھی۔
ڈاکٹر سمز کے ریکارڈز سے ہمیں تین خواتین کے نام معلوم ہوتے ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ تکلیف برداشت کی اور ان کے تجربات میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں:

آنارچا (Anarcha): ایک نوجوان خاتون جن پر فسٹولا کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں 30 سے زیادہ بار آپریشن کیا گیا۔

بیٹسی (Betsey)

لوسی (Lucy)

آج کل بہت سے مؤرخین اور اخلاقیات کے ماہرین ان خواتین کو "مدرز آف گائنکالوجی" (Mothers of Gynecology) کے نام سے یاد کرتے ہیں تاکہ ان کی قربانیوں اور اذیت کو تسلیم کیا جا سکے، جس کی بنیاد پر جدید گائنکالوجی کی بنیاد رکھی گئی۔

جے۔ ماریون سمز اور غلام خواتین
سمز نے 1840ء کی دہائی میں امریکہ میں سیاہ فام غلام خواتین پر بار بار تجرباتی سرجریاں کیں۔
خریدنا یا کرائے پر لینا: سمز نے تجربات کے لیے غلام خواتین کو ان کے مالکان سے کرائے (Lease) پر لیا تاکہ ان کے جسموں پر مکمل کنٹرول حاصل ہو جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، سمز نے ایک مریضہ کو باقاعدہ خریدا بھی کیونکہ اس کا کیس منفرد تھا اور مالک تجرباتی سرجری پر اپنی "سرمایہ کاری" کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔

انارچا، لوسی اور بیٹسی: ان میں سب سے مشہور خواتین کے نام انارچا (Anarcha)، لوسی (Lucy)، اور بیٹسی (Betsey) ہیں۔ یہ نوعمر لڑکیاں تھیں جنہیں زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہونے والی دائمی تکلیف (وسیکو ویجنل فسٹولا) کا علاج کرنے کے بہانے استعمال کیا گیا۔
رضامندی کی کمی: چونکہ یہ خواتین غلام تھیں، اس لیے ان کی رضامندی (Consent) کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ سرجری کی اجازت صرف ان کے مالک سے لی جاتی تھی۔

بغیر اینستھیزیا کے تجربات: سمز نے ان تکلیف دہ آپریشنز کے لیے بے ہوشی کی دوا (Anesthesia) استعمال نہیں کی، کیونکہ وہ ایک نسل پرستانہ مفروضے پر یقین رکھتا تھا کہ سیاہ فام لوگ سفید فام لوگوں کی طرح درد محسوس نہیں کرتے۔

انارچا نے، اکیلے، کامیاب علاج سے پہلے 30 بار تک آپریشن کی اذیت برداشت کی۔ ان خواتین کا درد اور قربانی جدید گائناکالوجی کی بنیاد بنا، لیکن یہ سب ان کے انسانی حقوق کی سنگین پامالی کی قیمت پر ہوا۔
ان خواتین کو اب "مدرز آف گائناکالوجی" (Mothers of Gynecology) کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تاکہ ان کے استحصال کو پہچانا جا سکے اور انہیں عزت دی جا سکے۔

جب سوکنوں میں صلح ہوجاتی ہے تو شوہر اس طرح پسا کرتے ہیں
10/15/2025

جب سوکنوں میں صلح ہوجاتی ہے تو شوہر اس طرح پسا کرتے ہیں

Address

New York, NY
10010

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Hay Jis ka Naam - اردو ہے جس کا نام posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Urdu Hay Jis Ka Naam

اُردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی

میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی

دکھنّ کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا

­­سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا