11/04/2025
کبھی گاؤں کی ندی کے کنارے بیٹھا "ان پڑھ" نائی صرف ایک تیز دھار بلیڈ اور نیم کی لکڑی سے بچوں کی ختنے کیا کرتا تھا۔ نا انفیکشن، نا درد کی دوائیں، نا کمپلن، نا کیمرے۔
آج، لاکھوں کا اسپتال، جراثیم سے پاک کمرہ، اور جدید آلات کے باوجود بچہ عضو سے محروم ہو جاتا ہے۔
کبھی مٹی کے فرش پر ماں کے ہاتھ تھام کر ایک دائی بچوں کو جنم دلواتی تھی۔
آج، اسپتال کی ٹھنڈی چھتوں تلے لاکھوں کے بل اور ہر تیسری ماں کے پیٹ پر آپریشن کا نشان۔
کبھی ٹوٹی ہڈی پر نیم گرم تیل، دیسی پٹی اور ان پڑھ "جراح" کی مہارت سے لوگ چلنے پھرنے لگتے تھے۔
آج آرتھوپیڈک سرجن لاکھوں لیتے ہیں، اور کئی مریض ویل چیئر پہ ختم ہو جاتے ہیں۔
کبھی آنکھوں میں سرمہ ڈال کر لوگ بڑھاپے تک شفاف دنیا دیکھتے تھے۔
آج، ہر دوسرا بچہ چھوٹی سی عمر میں نظر کی موٹی عینک کا غلام ہے۔
کبھی مٹی کے چولہے پر پکا گُڑ کھا کر لوگ توانائی سے بھرے رہتے تھے۔
آج، مہنگے ٹوتھ پیسٹ، برانڈڈ کلینک اور پھر بھی منہ کے کینسر کی لائن۔
کبھی نیم کے پتوں سے کلی کرتے تھے، کبھی دیسی علاج سے پیٹ صاف ہوتا تھا۔
آج، ہر دوسری گلی میں ایک لیبارٹری، ہر گھر میں ایک مریض۔
یہ کون سی ترقی ہے؟
جس میں انسان مشینوں کا محتاج، اور ڈاکٹر کمپیوٹر کی اسکرین سے فیصلے کرتا ہے؟
یہ علم کی روشنی ہے یا تجارت کا دھواں؟
جس میں صحت ایک پراڈکٹ ہے، اور مریض ایک گاہک؟
کہاں گیا وہ زمانہ جب جسمانی کمزوری شرمندگی ہوتی تھی؟
آج صحت مند ہونا حیرت کی بات بن چکی ہے۔
ہمیں ترقی چاہیے، مگر انسانیت کے ساتھ۔
ہمیں سائنس چاہیے، مگر سچائی کے ساتھ۔
ورنہ یہ علم... صرف زخم بیچنے کا ہنر رہ جائے گا۔