Aftab Bhatti

Aftab Bhatti ڪٿي ته ڀڃبو ٿڪ مسافر Life is short so live and let live

عید الاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی سے جُڑے سماجی اور معاشی فوائد:عید الاضحیٰ، جسے عيد قربان یا بڑی عید بھی کہا جاتا ہے، مح...
06/07/2025

عید الاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی سے جُڑے سماجی اور معاشی فوائد:

عید الاضحیٰ، جسے عيد قربان یا بڑی عید بھی کہا جاتا ہے، محض ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ اس کے ذریعے کئی سماجی اور معاشی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ نیچے قربانی کے فوائد بیان کیے جا رہے ہیں:

1. جانوروں کی خرید و فروخت اور دیہی لوگوں کا روزگار:

دیہی علاقوں کے لوگ سال بھر قربانی کے جانور پالتے ہیں تاکہ عید پر بیچ کر آمدنی حاصل کر سکیں۔ یہ تجارت خاص طور پر غریب یا کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے سالانہ آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس کمائی سے وہ قرض چکاتے ہیں، بیج اور کھاد خریدتے ہیں، بچوں کی تعلیم، علاج، گھر کی مرمت، ضروری سامان کی خریداری، بیٹیوں کے جہیز کی تیاری يا شادی اور دیگر گھریلو ضروریات پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، شہری علاقوں سے دیہی علاقوں تک پیسے کا بہاؤ مقامی معیشت کو مضبوط کرتا ہے۔

2. پیسے کی گردش اور مقامی معیشت میں بہتری:
عید الاضحیٰ کے موقع پر اربوں روپے کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور یہ پیسہ نچلے طبقے تک بھی پہنچتا ہے۔ اس میں شامل ہیں: جانور پالنے والے، ٹرانسپورٹر، مویشی منڈی کے مزدور، قصائی، چارے کے تاجر، جانوروں کے بیوپاری، پانی فراہم کرنے والے، کھانے پینے کے اسٹالز والے وغیرہ۔ اس مالی گردش سے ملکی معیشت کو تحریک ملتی ہے۔

3. قصائیوں اور دیہاڑی دار مزدوروں کا روزگار:
عید پر قصائی عام دنوں سے تین سے چار گنا زیادہ کماتے ہیں۔ ساتھ ہی عارضی طور پر روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں، جیسے جانور سنبھالنے، ان کے لیے عارضی رہائش بنانے، گوشت کاٹنے، پیک کرنے اور تقسیم کرنے کے کام۔ اس سے بہت سے دیہاڑی دار مزدور اچھی کمائی کرتے ہیں۔

4. گوشت کی تقسیم اور غریبوں تک رسائی:
اسلامی تعلیمات کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ایک اپنے لیے، ایک رشتہ داروں کے لیے، اور ایک غریبوں کے لیے۔ اس طرح وہ غریب خاندان جو سال بھر گوشت خاص طور پر بکرے یا دنبے کا گوشت نہیں کھا سکتے، وہ تازہ اور اعلیٰ معیار کا گوشت حاصل کرتے ہیں۔ یہ عمل غذائیت کے معیار کو بہتر بناتا ہے اور سماجی مساوات اور ہمدردی کو فروغ دیتا ہے۔

5. لائیو اسٹاک انڈسٹری کی ترقی:
عید کے دنوں میں جانوروں کی مانگ بڑھ جاتی ہے، جس سے بکرا، دنبہ، گائے، بیل، اونٹ وغیرہ کی پرورش کو فروغ ملتا ہے۔ چارے، ادویات، ویکسینیشن، جانوروں کی دیکھ بھال سے متعلقہ اشیاء کی طلب بھی بڑھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں لائیو اسٹاک سے منسلک صنعتوں میں سرمایہ کاری بڑھتی ہے اور زرعی معیشت کو سہارا ملتا ہے۔

6. خوشیاں اور سماجی تعلقات:
عید کا موقع خاندان، دوستوں اور ہمسایوں کے ساتھ ملنے جلنے، کھانے پینے اور گوشت بانٹنے کا وقت ہوتا ہے، جس سے بھائی چارہ اور سماجی ہم آہنگی میں اضافہ ہوتا ہے اور کم آمدنی والے طبقات کے لیے ہاتھ میں رقم آنے سے خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

7. قومی معیشت پر اثر:
مختلف تجزیوں کے مطابق، عید الاضحیٰ کے دوران پاکستان میں 100 ارب روپے سے زائد کا مالیاتی لین دین ہوتا ہے۔ قربانی کی کھالوں کی فروخت سے بھی بڑی آمدنی حاصل ہوتی ہے، جو قومی معیشت کو تقویت دیتی ہے۔

نتیجہ:
یہ ثابت ہوتا ہے کہ عید الاضحیٰ محض ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک معاشی انجن ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں بڑی آبادی زرعی اور دیہی معیشت پر انحصار کرتی ہے، یہ تہوار دیہی عوام کو مالی طاقت دیتا ہے، خریداری کی قوت پیدا کرتا ہے، چھوٹے کاروبار کو فروغ دیتا ہے، غریبوں کو خوراک فراہم کرتا ہے، پیسے کو مختلف طبقات میں گردش کرواتا ہے، اور شہری و دیہی معیشت میں توازن پیدا کرتا ہے۔ یوں یہ روحانیت، روایت اور معیشت کی مشترکہ ترقی کا ذریعہ بنتا ہے۔

امریکی اداروں میں V.I.P کلچر کا نہ ہونا:جب میں امریکہ میں اپنے بچوں کے اسکولوں اور بینکوں وغیرہ میں گیا، تو سب سے حیرت ا...
05/26/2025

امریکی اداروں میں V.I.P کلچر کا نہ ہونا:

جب میں امریکہ میں اپنے بچوں کے اسکولوں اور بینکوں وغیرہ میں گیا، تو سب سے حیرت انگیز بات جو میں نے محسوس کی وہ یہاں کے اداروں میں وی آئی پی کلچر کا مکمل طور پر نہ ہونا تھا۔ ایسی سوسائٹی سے آتے ہوئے، جہاں عہدہ اور رتبہ لوگوں کے رویوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں، میرے لیے یہ دیکھنا بہت حیران کن تھا کہ امریکہ میں برابری اور ذاتی ذمہ داری کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ فرق خاص طور پر اسکولوں کے پرنسپالز اور بینک مینیجرز کے رویے سے واضح طور پر ظاہر ہوتا تھا۔

امریکہ میں جب میں اپنے بچوں کے اسکول گیا، تو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ اسکولوں کے پرنسپل کتنے عاجزی والے لوگ ہیں۔ وہ خود بچوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے، اسکول کی پارکنگ میں ٹریفک کو کنٹرول کر رہے تھے، تقریبات کے لیے کرسیاں لگا رہے تھے، اور کھانے کے بعد میزیں بھی صاف کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ پیدل آنے والے طلبہ اور والدین کو سڑک پار کرا رہے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ یہاں کے کلچر میں کسی بھی کام کو کمتر نہیں سمجھا جاتا، اور کوئی بھی اپنا عہدہ دکھا کر دوسروں پر رعب جمانے کی کوشش نہیں کرتا۔

اسی طرح کا رویہ میں نے بینکوں میں بھی دیکھا۔ بینک کا عملہ اور مینیجرز نہایت خوش اخلاق نظر آئے۔ مقامی بینکز میں، بینک مینیجر عام گاہکوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے، بزرگوں کو فارم بھرنے میں مدد کر رہے تھے، اور اے ٹی ایم استعمال کرنا سکھا رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ لوگوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں بھی خود لا کر دے رہے تھے۔ وہاں نہ چائے پیش کرنے والے تھے، نہ باہر بیٹھنے کے لیے کوئی خاص جگہ۔ تمام ملازمین ایک ٹیم کی طرح کام کر رہے تھے، جہاں ہر فرد کی عزت کی جاتی تھی اور ہر آنے والے گاہک کے ساتھ بھی یکساں سلوک کیا جا رہا تھا۔
جو سب سے بڑی بات میں نے ہر جگہ دیکھی، وہ یہ تھی کہ یہاں کہیں بھی کوئی چپراسی، نائب قاصد یا اردلی نظر نہیں آیا۔

امریکی اداروں کے کلچر میں، ہر کام کو عزت دی جاتی ہے، اور ہر شخص چاہے جتنے بھی بڑے عہدے پر ہو، اس سسٹم کو اپنا کر چلتا ہے۔ یہ ذمہ داری کا ماحول نہ صرف کارکردگی کو بہتر بناتا ہے، بلکہ عزت، تعاون اور ایمانداری کو بھی فروغ دیتا ہے۔

وی آئی پی کلچر نہ ہونے کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہر شخص کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ نہ کوئی علیحدہ قطار ہے، نہ کوئی خاص سہولت۔ چاہے امیر ہو یا غریب، سب کے ساتھ احترام سے پیش آیا جاتا ہے۔ یہ سوچ ایک منصفانہ اور عوام دوست معاشرے کو فروغ دیتی ہے۔

آخر میں، امریکی اسکولوں، بینکوں اور دیگر اداروں میں جو ماحول میں نے دیکھا، اُس نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا۔ ایسی قیادت، خدمت اور برابری کی مثال ہمارے معاشرے کے لیے قابلِ تقلید ہے۔

Address

Sacramento, CA

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aftab Bhatti posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share