Nia Zamana

Nia Zamana Monthly Nia Zamana is a liberal and englitghened Urdu magazine. It has been regularly published from May 2000

اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا ہے ۔طویل وحشیانہ خانہ جنگی سے تنگ آئے اسرائیلی اور فلسطینی عوام جشن منار...
10/11/2025

اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا ہے ۔طویل وحشیانہ خانہ جنگی سے تنگ آئے اسرائیلی اور فلسطینی عوام جشن منارہے ہیں۔ اس معاہدے کے پہلےمرحلے میں اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوجیں نکالنی شروع کردی ہیں۔ امن معاہدے کی نگرانی کے لیے مشرق وسطی میں ہی موجود 200 امریکی دستے غزہ پہنچ رہے ہیں۔ معاہدے کے مطابق حماس 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور جوابا اسرائیل 2000 کے قریب حماس کے قیدی رہا کرے گا۔ امید کی جارہی ہے کہ اس دفعہ حماس یرغمالیوں کی رہائی کے موقع پر پہلے کی طرح کوئی تھیڑ نہیں لگائے گا۔ جبکہ بقایا 26 یا 28 اسرائیلی یرغمالی جو ہلاک ہوچکےہیں ان کی لاشیں بتدریج واپس کی جائیں گی۔
یرغمالیوں کی رہائی پیر اور منگل کو متوقع ہے۔ صدرٹرمپ اتوار کو مصر پہنچ رہے ہیں تاکہ اس تاریخی معاہدے پر دستخطوں کے موقع پر موجود رہیں۔
مجھے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے کبھی اتفاق نہیں رہا مگر اپنی پہلی ٹرم میں انھوں نےاسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جو ابراہام معاہدہ کروایا تھا وہ ایک تاریخی معاہدہ تھا۔ اسی معاہدے کے تحت عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنا شروع ہو چکے تھے۔ ابراہام معاہدے سے دہشت گرد تنظیم حماس اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ایران اور حزب اللہ کو بہت تکلیف تھی اور ان کی کوشش تھی کہ کسی طریقے سے اسےشبوتارژ کیا جائے ۔ اور 7 اکتوبر 2023 کو ایران کی آشیر باد سے حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا۔ حماس نے اسرائیلی فوجیوں کی بجائے ان معصوم افراد کو نشانہ بنایا جو ایک سرحدی علاقے میں میوزک کنسرٹ میں شریک تھے۔ خواتین کی آبروریزی کی ، قتل عام کیا اور 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنالیا۔
جوابا اسرائیل نےجو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔عرب ممالک پہلے ہی ایران کی مڈل ایسٹ میں دہشت گرد کاروائیوں سے تنگ تھے۔ حماس کے حملے اور اسرائیل کے جوابی حملے پر وہ نیوٹرل رہے ۔ہاں گاہے بگاہے انھوں نے فلسطینی عوام کے قتل پر احتجاج ضرور کیا۔ اسرائیل نے ایران اور اس کی طفیلی حزب اللہ کا خاتمہ کیا۔ اگر آج ایران اور حزب اللہ موجود ہوتے تو غزہ کی ڈیل ہونا ناممکن تھا۔
مڈل ایسٹ میں عراق، شام اور لبیا وہ ممالک تھے جو خطے میں ویسے ہی بدامنی پیدا کرتے تھے جیسے پاکستان جنوبی ایشیا میں کرتا رہا ہے۔ اب ان تینوں ممالک کے حکمران دہشت گردی سے باز آچکےہیں۔ اور امید کی جاتی ہے کہ حماس کے خاتمے کے بعد خطے کے عوام امن و سکون سے زندگی گذارنے کے قابل ہوجائیں گے۔
امید کی جارہی ہے کہ غزہ میں بورڈ آف پیس اپنا کام شروع کردے گا۔ توقع کی جارہی تھی کہ پاکستانی افواج امن فوج کا کردار ادا کرنے آئیں گی مگر شاید ایسا نہ ہو۔ میں نے پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان آرمی کے اندر بہرحال ایک جہادی گروپ ایسا ہے جو اسرائیل کے سخت مخالف ہےاور وہ نہیں چاہے گا کہ پاکستانی فوجی دستے غزہ آئیں ۔ اور ایسی کسی بھی کوشش کو ثبوتارژ کرے گا ۔ اور اس کا آغاز ہوچکا ہے اور اس گروپ نے پاکستان میں اپنی پراکسیز کے ذریعے کئی محاذ کھول دیے ہیں۔
https://nyazamana.com/2025/10/israel-hamas-peace-deal-20774/

پاکستان، ایران اور دھاڑتا ہوا شیراسلام کی آمد سے پہلے ہی ایران  ایک شاندار تہذیب و تمدن کا حامل ملک  تھا۔ عرب حملہ آوروں...
06/14/2025

پاکستان، ایران اور دھاڑتا ہوا شیر
اسلام کی آمد سے پہلے ہی ایران ایک شاندار تہذیب و تمدن کا حامل ملک تھا۔ عرب حملہ آوروں نے اس تہذیب کو کئی دفعہ ملیا میٹ کرنے کی کوشش کی۔ حالیہ کوشش آیت اللہ خمینی کے اقتدار پر قبضے سے شروع ہوئی۔

یہ درست ہے کہ ایرانی عوام رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت نما ڈکیٹیٹر شپ سے تنگ آچکے تھے۔ بائیں بازو کی جماعت تودے پارٹی نے ڈکیٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا جس میں ہر شعبہ زندگی کے افراد شامل ہوتے گئے۔ رضا شاہ پہلوی کے ایران سے بھاگنے کے بعد تودے پارٹی اور اسلامسٹوں نے مشترکہ حکومت بنائی جسے اسلامسٹوں نے ہائی جیک کرلیا اور شریعت نافذ کردی۔۔۔

اسلامسٹوں نے مخالفین کا قتل عام کیا۔۔۔ تودے پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو انقلاب کا مخالف قرار دے کر پھانسی دے دی یا گن سکواڈ کے ذریعے گولی ماری گئی ۔ انھیں عبرت کا نشان بنانے کے لیے ان کی لاشیں کئی کئی دن تک کرینوں سے لٹکی رہتی تھیں۔۔۔ مذہبی عدالتیں قائم کی گئیں۔ مذہب کے نام پر حکومت کا پہلا نشانہ خواتین بنتی ہیں اور پھر فنون لطیفہ۔ ان پر پابندیاں عائد کیں ۔ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد اس ملک سے فرار ہوگئی ۔ مجھے یاد ہے کہ 80 کی دہائی میں ایرانی مہاجروں کی ایک بڑی تعداد لاہور بھی آئی تھی جو بتدریج مغربی ممالک شفٹ کرگئے۔۔۔

کچھ اسی قسم کی صورتحال پاکستان میں بھی تھی جب1977 میں جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور مخالفین کے خلاف کاروائی شروع کی۔ شریعت نافذ کی اور شریعت کے نام پر مخالفین کو جیلوں میں ڈالا، کوڑے لگائے اور پھانسی چڑھایا ۔۔۔سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد مغربی ممالک میں جا بسی تھی ۔ جنرل ضیا کا دور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دور تھا۔

جس دن جنرل ضیا کا طیارہ گرا تھا، اس دن یورپ اور امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں نے بعینہ اسی طرح جشن منایا تھا جیسے اب یورپی ممالک میں بسنے والے ایرانی، اسرائیلی حملے پر منارہے ہیں۔۔۔ پاکستانی ریاست نے بھی دہشت گرد پالے اور دہشت گردی کی کاروائیاں کیں۔ ان ایرانیوں کے مطابق ایران ایک سیاہ دور سے گذر رہا ہے اور ملکی وسائل عوام کی بجائے دہشت گردوں کو پالنے اور انہیں ہتھیاروں سے مسلح کرنے پر لگتے آ رہے ہیں ۔ اور ان کی خواہش ہے کہ ایران کو مذہبی انتہا پسند قیادت سے نجات حاصل ہو۔۔۔ان ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنےعزیز و اقارب سے ملنے اپنے ملک واپس نہیں جا سکتی۔ لہذا ترکی ان کے لیے ایک مشترکہ ملک ہے جہاں یہ فیملیاں اکٹھی ہوتی ہیں۔

زیر نظر تصویر نام نہاد اسلامی انقلاب سے پہلے ایرانی پرچم کی ہے ۔۔۔ ایرانی ملاؤں نے شیر ہٹا کر اللہ لکھ دیا تھا۔۔۔ اب اسرائیل کے آپریشن کا نام بھی رائزنگ لائن، یا دھاڑتا ہوا شیر ہے

پاکستان کا بڑھتا دفاعی بجٹ: معاشی بحران میں غرق عوام کے لیے دہرا امتحانایسا لگتا ہے کہ بھارت یہ جان چکا ہے کہ پاکستان کی...
06/11/2025

پاکستان کا بڑھتا دفاعی بجٹ: معاشی بحران میں غرق عوام کے لیے دہرا امتحان
ایسا لگتا ہے کہ بھارت یہ جان چکا ہے کہ پاکستان کی عوام کو فوج کی طاقت کے نیچے رکھا جائے فوج کے اس بیانئے کو مزید طاقتور کیا جائے “کہ پاک فوج ہی پاکستان کی بقا کی ضامن ہے ورنہ بھارت کب کا پاکستان کو ہڑپ کرچکا ہوتا”۔۔۔۔ بھارت جانتا ہے اس کے جنگی جارحانہ ایکشن سے فوج کے بیانئے کو تقویت ملے گی۔جرنیلی سیاست میں اضافہ ہوگا۔ بھارت کے جنگی عزائم روکنے کے لئے پاکستان اپنے بھوکے ننگے عوام کا پیٹ کاٹ کر دفاعی بجٹ میں اضافہ کریں گے جس سے پاکستان میں جمہوری سیاسی سماجی معاشی ڈھانچہ جو پہلی ہے کمزور ہے اسے مزید چوٹ لگے گی اور یوں ملک معاشی بحران عدم استحکام اور تباہی کی طرف چلا جائے۔ بھارت کو علم ہے کہ یہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے اسے دو پٹاخے تین چار ڈرون آئے دن چلانے پڑیں گے پاکستان میں بھارت کی طرف سے جنگی ماحول مستقل قائم رکھنا پڑے گا یوں فوج کو اپنا بجٹ بڑھانے کا جواز ملتا رہے گا اور فوج کی ریاست حکومت اور جمہوریت پر گرفت بھی مضبوط رہےگی جس پاکستانیعوام بھوک ننگ اور معاشی تباہی کی نذر ہوجائیں گی۔
https://nyazamana.com/2025/06/pakistan-defense-budget-2025-26/

05/10/2025

آپریشن بنیان المرصوص بمقابلہ آپریشن سیندور

ہماری لڑائی مذہبی ہے اور بھارت کی لڑائی قومیت کی بنیاد پر ہے۔ ہم اتنی جذباتی قوم ہیں کہ بنیان المرصوص کے معنی بھی نہیں جانتے۔ پرائی جنگ پرائی ناموں سے ہی لڑی جاتی ہے۔

ہم اپنی قوم کو مذہب کے نام پر بھی اکٹھا نہیں کر سکے۔ بنگالی علیحدہ ہوگئے اب بلوچ ہونا چاہتے ہیں۔ موجودہ جنگ میں بلوچ، سندھی اور پختون لاتعلق ہے اور وہ اسے پنجاب کی جنگ کہتا ہے۔

عالمی سرمایہ اب چین سے نکل کر بھارت جارہا ہے جس کا مقابلہ دہشت گردی سے کیا جارہا ہے۔ بقول جنرل باجوہ کے ہمارے پاس تو تین دن سے زیادہ کا پٹرول بھی نہیں اور نہ ہی پیسہ ہے کہ لڑائی لڑی جائے۔

اگر تو یہ چین کی بھارت کے ساتھ پراکسی جنگ ہے تو ہم ایک بار پھر کرائے کے فوجی کا کردار ادا کررہے ہیں ویسے ہی جیسے افغان جہاد کیا تھا اور جرنیلوں نے اپنے اثاثے بنائے تھے۔روس کوشکست دینے کا چورن بیچتے بیچتے ہم بھکاری بن چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے چین کی مدد سے کچھ کامیابیاں مل بھی جائیں جس سے جرنیلوں کے اثاثوں میں اضافہ ہوگا. پاکستانی عوام کا صرف مورال بلند ہو گا مگر ہمیشہ خسارے میں رہے گی۔

پچھلے 77 سالوں سے ہماری ریاست کا کاروبار ہی جنگ ہے۔ ہم ایک بھکاری قوم ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کو دینے کے لیے دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ دنیا بھارت میں سائنس، ٹیکنالوجی کے حامل ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے جاتی ہے اور ہمارے ہاں دہشت گرد ڈھونڈنے آتی ہے۔

مجھے یاد ہے اس وقت افغان جہاد کی مخالفت کرنے والوں کو حامد میر اینڈ کمپنی نے کافر ، غدار اور لبرل فاشسٹ کے خطاب دیے تھے۔ یہ حامد میر ہی تھا جس نے سنہ 2000 میں افغان جہاد اور طالبان کی مخالفت کرنے پر میرے خلاف توہین مذہب کا الزام اپنے کالم میں نام لے کر لگایا تھا۔

نوٹ: میری رائے اگر پسند نہیں تو نظر انداز کردی جائے۔ اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر بدتمیزی کرنے والے فارغ ہوجائیں گے۔

شہاب کی روحانیت کیا تھیگلڈ کے بارے میں تب یہ شک تھا کہ ایوب خان کے لئے ادیبوں کوپھانسے کا جال ہے۔آج ہم سب جانتے ہیں کہ ا...
03/29/2025

شہاب کی روحانیت کیا تھی
گلڈ کے بارے میں تب یہ شک تھا کہ ایوب خان کے لئے ادیبوں کوپھانسے کا جال ہے۔آج ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ماسوائے اکا دکا ادیب کے کسی نے ایوب خان کے لئے اس طرح کام نہیں کیا۔
گلڈ پر امریکی مفادات کا اسیر ہونے کا الزام لگا، حالانکہ لیفٹ کے کئی ممتاز لوگ اس میں شامل تھے اور خود شہاب چینیوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا تھا، امریکی اسی وجہ سے شہاب سے نالاں تھے۔
جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے تین برس تک شہاب کی پنشن بند رکھی اور شہاب کو نہایت مشکل حالات میں گزارا کرنا پڑا۔ فوجی حکومت نے شہاب کو انگلینڈ سے اغوا کرانے کی کوششیں بھی کیں۔ شہاب کے حالات اس قدر خراب تھے کہ انہیں کئی بار دن میں ایک مرتبہ کھانا کھانا پڑتا۔ خراب مالی حالات اور ناکافی خوراک کی وجہ سے ان کی بیوی بیمار ہوگئیں، ان کے گردے خراب ہوگئے، شہاب کے پاس علاج کے پیسے بھی نہیں تھے۔ بروقت مناسب علاج نہ ہونے سے عفت شہاب بیالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
ملازمت چھوڑنے کے بعد شہاب کو کئی مواقع ملے مگر انہوں نے لوپروفائل انداز میں خاموشی سے زندگی گزار دی۔ وہ چاہتے تو بھٹو اور پھر ضیا دور میں منصب حاصل کر سکتے تھے۔ جنرل ضیا نے شہاب کو تعلیم کے حوالے سے ذمہ داری سونپنے کا اعلان بھی کیا، شہاب نے معذرت کر لی۔ اگر مذہبی ٹچ والی بات ہوتی تو اس سے اصل فائدہ جنرل ضیا دور میں اٹھایا جا سکتا تھا، مگر شہاب نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
قدرت اللہ شہاب چی گویرا تھا نہ اس نے ایسا دعویٰ کیا۔ شہاب نے کبھی انقلابی ہونے کا اعلان کیا اور نہ ہی سماج سدھار تحریک چلائی نہ ہی سیاست میں حصہ لیا۔ اس کا تو کوئی دعویٰ ہی نہیں ۔ وہ ایک سول سرونٹ تھا، ایک اچھا ، دیانت دار سول سرونٹ۔ بس یہی اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو کہا۔ کبھی روحانیت کا دعویٰ بھی نہیں کی
https://nyazamana.com/.../what-was-the-spirituality-of.../

برصغیر کے دو عظیم سائنسداناس میں رتی برابر شبہ نہیں کہ سلام نے اپنی ریسرچ میں وہ ٹولز استعمال کئے تھے جو سٹیون وین برگ ن...
02/19/2025

برصغیر کے دو عظیم سائنسدان
اس میں رتی برابر شبہ نہیں کہ سلام نے اپنی ریسرچ میں وہ ٹولز استعمال کئے تھے جو سٹیون وین برگ نے اپنی ریسرچ میں استعمال کئے تھے۔ فزکس کے بنیادی اصولوں کو بنیاد بنا کرسلام نے جو ریسرچ کی اور نتائج اخذ کئے ان کا ان کے مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سلام اور راما نجن خواہ جو مرضی کہتے رہیں ان کے فزکس اور ریاضی کے کام میں ان کے مذہبی عقائد کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سلام اور سٹیون وین برگ کا جو کام ہے وہ عظیم سائنس دانوں۔۔۔ آئن سٹائن، پالی، ڈیراک، وہیلر اور فنمن کے پہلے سے کئے گئے کام کی بدولت ممکن ہوا تھا۔ ان سائنس دانوں کے ذاتی فلسفیانہ خیالات ایک دوسرے سے مختلف تھے لیکن سائنس کی حد تک ان میں اتفاق تھا۔

سلام کا کہنا کہ ان کی انسپریشن ان کے دینی عقائد اور راما نجن کا یہ دعوی کے اس کی ریاضی کے میدان میں حیرت انگیز کارکردگی کا تعلق کسی دیوی دیوتا کی بدولت ہے کی معروضی تصدیق ممکن نہیں ہے لیکن سائنس کے میدان میں ان کے کارناموں کی تصدیق ہوسکتی ہے۔

سائنس اور مذہب کے مابین ترتیب ممکن نہیں ہے کسی سائنس دان کے لئے مذہب کا پیروکار ہونا یا نہ ہونا اضافی معاملہ ہے۔ سائنس دان کے لئے کسی مذہب کا پیروکار ہونا یا نہ ہونا سائنس کے میدان میں اس کی کارکردگی کو متاثر نہیں کرتا۔ سائنس ایسے ٹولز دریافت کرتی ہےجن کی بدولت اس کی ایجادات اور دریافتوں کو ماپا جاسکتا ہے جب کہ مذہبی عقائد کا تعین کسی فرد کا شخصی معاملہ تو ہوسکتا ہے لیکن اس کو عمومیت کی شکل دینا ممکن نہیں ہے
https://nyazamana.com/2025/02/two-great-indian-scientist/

آئی ایم ایف: امداد اور مداخلت کے درمیان ایک لکیر پاکستان میں ججوں کے ساتھ آئی ایم ایف کے نمائندوں کی ملاقات کی حالیہ رپو...
02/18/2025

آئی ایم ایف: امداد اور مداخلت کے درمیان ایک لکیر
پاکستان میں ججوں کے ساتھ آئی ایم ایف کے نمائندوں کی ملاقات کی حالیہ رپورٹس نے تنازعہ کو جنم دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ملاقاتیں مالی نگرانی اور براہ راست سیاسی مداخلت کے درمیان خطوط کو دھندلا دیتے ہیں۔
عدلیہ کا مقصد مالیاتی اداروں سے آزاد رہنا، غیر جانبداری اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بناناہوتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف حکام معاشی اصلاحات کے بہانے عدالتی معاملات پر بات کرتے ہیں، تو اسے آئی ایم ایف کی حمایت یافتہ پالیسیوں کے حق میں قانونی نتائج کو متاثر کرنے کی کوشش کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس طرح کی ملاقاتیں معمول کے مطابق ہونے کی کوئی واضح عالمی نظیر نہیں ملتی، لیکن مالیاتی اداروں اور ججوں کے درمیان کسی بھی قسم کی مصروفیت کو شفاف طریقے سے انجام دیا جانا چاہیے تاکہ عدالتی خود مختاری کو نقصان نہ پہنچے۔
آئی ایم ایف کی مداخلت کے سب سے زیادہ متنازعہ پہلوؤں میں سے ایک محصول وصول کرنے اور ٹیکس لگانے کے طریقوں کی تشکیل میں اس کا کردار ہے۔ آئی ایم ایف اکثر ٹیکس اصلاحات کی سفارش کرتا ہے، جیسے بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ ، ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا، اور ٹیکس چھوٹ کو کم کرنا۔ ، لیکن وہ غیر متناسب طور پر کم آمدنی والے غریب طبقات کو متاثر کر سکتے ہیں، جس سے عوام میں عدم اطمینان پیدا ہوتا ہے۔
https://nyazamana.com/.../imf-a-thin-line-betweem-aid.../

مقبول بٹ: جس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیاپاکستان میں طالب علم کی حیثیت سے ان کی سرگرمی نے نظریاتی شکل اختیار کرنا شرو...
02/16/2025

مقبول بٹ: جس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا
پاکستان میں طالب علم کی حیثیت سے ان کی سرگرمی نے نظریاتی شکل اختیار کرنا شروع کی۔ وہ بائیں بازو کے نظریات اور نوآبادیاتی مخالف تحریکوں سے متاثر تھے، جس کی وجہ سے انہوں نےجموں اور کشمیر میں مختلف تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ جن کا مقصد ایک آزاد اور خودمختار کشمیر کا قیام تھا، جو خطے پر ہندوستانی اور پاکستانی دونوں کے دعووں کو مسترد کرتی تھی۔
بٹ کی سرگرمیوں نے جلد ہی اسے حکام کے ساتھ تصادم کے راستے پر ڈال دیا۔ 1966 میں انہیں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح مزاحمت میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ تاہم، ایک جرأت مندانہ فرار میں، وہ اور اس کے ساتھیوں نے سری نگر کی سینٹرل جیل سے سرنگیں نکال کر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا راستہ بنایا۔
پاکستان میں بھی، بٹ نے خود کو حکام سے متصادم پایا۔ ان کے آزاد کشمیر کے خواب کو اسلام آباد نے اچھی طرح سے قبول نہیں کیا، جو اسے شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ آزادی کے حامی کشمیری دھڑوں اور خطے میں پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات کے درمیان نظریاتی رسہ کشی کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں پاکستان میں متعدد بار قید کیا گیا۔ اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا....
https://nyazamana.com/.../maqbool-butt-who-refuse-to.../

جھکی روح اور اونچا سرعارف جانتا تھا کہ زمین خوابوں کی آماجگاہ ہے۔ اگرچہ یہ رزق اور خوبصورتی فراہم کرتی تھی، لیکن اس پر ر...
10/29/2024

جھکی روح اور اونچا سر
عارف جانتا تھا کہ زمین خوابوں کی آماجگاہ ہے۔ اگرچہ یہ رزق اور خوبصورتی فراہم کرتی تھی، لیکن اس پر رہنے والے ان خواہشات کے تابع تھے جو ان کی روح کو کچلتے تھے۔ حمزہ ایک ہوشیار جاگیردار تھا، جو دلکشی اور ظلم دونوں کے ذریعے طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے جانا جاتا تھا۔ جب اس کی املاک ترقی کرتی تھی، تو وہ گاؤں والوں کو عیدوں اور تقریبات سے نوازتا تھا، لیکن جب ناراض ہوتا تھا، تو وہ سخت سزائیں نافذ کرتا تھا جس میں سرعام سزائیں، قید اور بعض اوقات جبری مشقت بھی شامل تھی۔

عارف کا مشن سادہ لیکن جرات مندانہ تھا: روحوں کا اتحاد بنانا، گاؤں والوں کے درمیان ایک ایسی رفاقت جو رب کے نگرانوں کی طرف سے مسلط کردہ تفرقہ انگیز پالیسیوں کی نفی کرسکے۔ عارف کا خیال تھا کہ اگر گاؤں والے متحد ہو جائیں تو وہ غیر منصفانہ سزاؤں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور بہتر سلوک کے لیے بات چیت کر سکتے ہیں۔ یہ امید متعدی تھی؛ بہت سے دیہاتی اپنے اپنے کام کے بعد شام کو اپنی شکایات، امیدوں اور خوف کی کہانیاں بتانے کے لیے اس کی طرف جاتے۔ وہ سماجی اجتماعات کی آڑ میں ملتے تھے،اور اپنی گفتگو پر قہقہوں اور گیتوں کا پردہ ڈالتے تھے

10/22/2024

جرنیلوں کو جب ضرورت ہوتی ہے وہ اپنی مرضی کی ترامیم کروا لیتے ہیں،
جنرل کیانی کو جس ترمیم کی ضرورت تھی، پیپلز پارٹی نے 19ویں ترمیم کر دی تھی۔۔۔
اب حافظ صاحب کو جس ترمیم کی ضرورت تھی وہ پھر پیپلز پارٹی نے کر دی ہے۔۔۔۔
رہے نام جرنیلوں کا۔۔۔۔

صوفی ازم یا سیکولرازمسیکولرازم ہی ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے جو تمام مذاہب کے پیرو کاروں کے مابین مساوی سلوک کا داعی ہے۔ سی...
10/17/2024

صوفی ازم یا سیکولرازم
سیکولرازم ہی ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے جو تمام مذاہب کے پیرو کاروں کے مابین مساوی سلوک کا داعی ہے۔ سیکولر ریاست تمام شہریوں کے مفادات کی غیر جانب داری سے تحفظ کرتی ہے اور ریاست کی نظر میں تمام شہری بلا لحاظ لسانی،مذہبی یا ثقافتی امتیاز اور تفریق کے یکساں حقوق اور مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ شہری کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو سیکولرریاست کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہر شہری مساوی انسانی اور سماجی حقوق کا حق دار ہوتا ہے۔ سیکولر ازم جس کا ہمارے ہاں مفہوم بد قسمتی سے لا مذہبیت خیال کیا جاتا ہے، ہر شہری کو حق دیتا ہے کہ وہ جو مذہب چاہے اختیار کرے اور اپنے پسندیدہ مذہب کی روشنی میں اپنی نجی زندگی کو استوار کرے ریاست کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ شہری کے مذہبی اختیار کے حق میں مداخلت کرئے۔ ایک سے زائد مذاہب کے پیرو کاروں کی حامل ریاست کی بقا اوراس کے شہریوں کے مابین مذہب آہنگی اور برداشت کا حصول صرف اسی صورت ہی میں ممکن ہے کہ ریاست کسی ایک مذہب کی کسٹوڈین بننے کی بجائے خود کوسیکولرازم کے اصولوں پر استوار کرے.

آج کا صوفی ازم سے مراد انسان دوستی اور مذہبی رواداری ہے تو ہمارے عہد کا صوفی ازم، سیکولر ازم ہے۔ سیکولر ازم ہی وہ نظام ریاست ہے جو ہمیں فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی سے نجات دلا سکتا ہے۔ بصورت دیگر ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔

مذہب کے نام پر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی،عدم برداشت اور قتل و غارت گری کا توڑ کرنے کے لئے کون سا لائحہ عمل اورحکمت عملی اختیار کی جائے جس کی بدولت ریاست کے تمام شہریوں کے ...

Address

Washington D.C., DC

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Nia Zamana posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Nia Zamana:

Share